مجھے اس بات سے کبھی اتفاق نہیں رہا کہ ایک زبان کا شاعر دوسری زبان کے شاعر سے شعر چُراتا ہے۔اسکی وجہ یہ ہے ایک زبان میں شعر موزوں کرنا انتہاٸ دقت آمیز کام ہے۔البتہ ایک جیسی فکر رکھنےوالےا شعار مختلف زبانوں میں متعدد شعراء کی تخلیق ہو سکتے ہیں۔
آج سے دوسال قبل ایک صاحب نے مجھے کہاکہ پشتو کے مشہور جمال پسند و خیال پسند صوفی وفلسفی شاعر غنی خان کی شاعری فلاں اور فلاں انگریز شعراء کی کاپی ہے۔میں نے اسے بھی یہی جواب دیا تھا کہ ایک زبان کا شعر دوسری زبان میں کاپی نہیں ہوسکتا۔ہاں ,ایک ہی مفہوم کا شعر مختلف زبانوں میں موجود ہوسکتا ہے۔اور یہ دورانِ تخلیق کسی غیبی ہاتھ کی کارستانی بھی ہوسکتی ہے۔اکثر ایک ہی زبان میں ایک شعر دو مختلف شعراء موزوں کرلیتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ ہوتا ہے کہ یہ شعر میرا ہے۔ادب کی زبان میں اس کو توارد کہتے ہیں۔تاہم جس بندے سے میری بات ہورہی تھی وہ نہیں مانا۔تو آخر کار میں نے یہ کہہ کر اس کا استدلال اسی پر الٹاد یا کہ انگریز شعراء کی وہ کونسی بات ہے جو ان سے قبل فارسی,عربی,یونانی,اور سنسکرت کے شعراء نے کبھی نہ کہی ہو؟۔وہ میری بات کا کوٸ جواب نہ دے سکا۔اور سمجھ گیا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔
پختون نیشلسٹ دانشور ایک عرصے سے یہ بات کررہے ہیں کہ علامہ اقبال کی شاعری سترہویں صدی کے پختون شاعرخوشحال خان خٹک(جنہوں نے فارسی میں بھی شاعری کی ہے) کی شاعری کی نقل ہے۔بطور ثبوت وہ اکثر درجہ ذیل اشعار پیش کرتے ہیں:
د خوشحال سلام په هغه شا زلمو دے
کمندونه چې د ستورو په اسمان ږدي
خــــــوشحال خٹک
۱. محبت مجهے ان جوانوں سے هے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اقـــــبال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲. ځه هغه شهباز شه چې یې ځای په سردرو وي
نۀ لکه د کلي کارغۀ ګرځه غم د نس کا
خوشحــــــال خٹک
٢. نہیں ہے تیرا نشیمن قیصری سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
اقـــــــبال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳. د کارغۀ لايق خو باز دی يا شاهين دی
پۀ دا څۀ چې د کلاغ په سر کلاه شي
خوشحال خٹک
۴. برہنہ سر نو عزم بلند پیدا کریہاں
فقط سر شاہین کے واسطے ہے کلاہ
اقبـــــــال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵. و اغېارته لکه کانړی موم و يار ته
پۀ سختۍ او پۀ نرمۀ کې هغه زۀ يم
خوشحــــال
۵. ہو حلقہ یاران تو بریشم کی طرح نرم
روزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اقـــــبال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۶. د شهباز او د عنقا برابر نه دی
مچ او ماشی که الوځي پۀ وزرو
خوشحـــال خٹک
۶. پرواز ہے دونوں کا اسی فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
اقـــــبال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۷. د مردۍ او نا مردۍ تر مېنځ ميل نۀ دی
تفاوت يې يا پۀ زړۀ دی يا پۀ کام
خوشحــــال خٹک
۸. الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذان اور مجاہد کی اذان اور
اقبـــــال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۹. کۀ کوشش کا پۀ اخلاص زۀ یې ضامن يم
کۀ کامران پۀ خپل مراد نۀ شي سړی
خوشحال خٹک
۹. ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہو چیتے کی آنکھ جس کی
اقــــــبال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۰. يا عاشق شه يا شهيد شه چې یادیژی پۀ بدلو پۀ سندرو
پۀ ښاغلو جهان ارت دی په نامردو باندی تنګ
خوشحال خٹک
جرات ہے نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے
اے مرد خدا ملک خدا تنگ نہیں ہے
اقــــــبال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۱. دا سړی چی فريشته ده هم شيطان دی
کۀ سړی د خپل عمل وته نګران شي
کۀ جنت لره څوک بيايي کۀ دوزخ له
بله نۀ وينم پۀ مينځ کې خپل اعمال دي
خوشحال خٹک
۱۱. عمل سے بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اقــــــبال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۲. لۀ بتانو اميدوار يې پۀ خپل خدای يې نا اميده
لږ وښايه تۀ ما ته، نوره څۀ دہ کافري؟
خوشحال خٹک
۱۲. بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نا امیدی
مجھے بتاؤ تو سہی، اور کافری کیا ہے
اقــــــبال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۳. ځان ژوندی پۀ زمکه ښخ کړه لکه تخم
کۀ لویي غواړې د خاورو پۀ مقام شه
خوشحال خان خٹک
١٣۔مٹادواپنی ہستی کو اگر کچھ بننا چاہتے ہو
کہ دانا خاک میں مل کر گُل وگلزار بنتا ہے
اقبال
اوپر کے یہ اشعار پیش کرنے کے بعد ہمارے پختون قوم پرست دوست کا دعویٰ ہے (اور دیگر پختون قوم پرست حضرات اس کو قبول کرتے ہیں )کہ علامہ اقبال نے خوشحال خان خٹک سے اشعار چراۓ ہیں۔میں اس بات کو مانتا ہوں کہ خوشحال خان خٹک اور اقبال کے چند اشعار میں زبردست مماثلت پاٸ جاتی ہے۔لیکن ان اشعار کی بنیاد پر سرقہ کاجو دعویٰ کیا گیا ہے وہ محل نظر ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ اقبال کو پشتو نہیں آتی تھی۔تو اس نے یہ اشعار کیسے چرالیۓ؟۔دوسری بات یہ ہے کہ اشعار چراۓ جا ہی نہیں سکتے ,ہاں مختلف زبانوں میں ایک ہی فکر پر مبنی اشعار تخلیق کیۓ جا سکتے ہیں۔شعر کی چوری یہ ہوتی ہے کہ آپ کسی زبان میں کسی شاعر کا بنا بنایا شعر چوری کرلیں,دوسری زبان میں موجودکسی شعر کا ہم مطلب شعر تخلیق کرنا چوری نہیں ہے۔ایک ہی زبان میں البتہ اگر ایک شعر دو مختلف شعراء کے ہاں موجود ہو تو سرقہ کا گمان کیا جا سکتا ہے۔اس صورت میں بھی نقاد حضرات توارد کے امکان کو مانتے ہیں۔تیسری بات یہ کہ بطور ثبوت جو تیرہ اشعار دیۓ ہیں ان میں سے بھی آدھے حوالے غیر متعلقہ ہیں۔چوتھی بات یہ ہے کہ ”ساری شاعری “نہیں بلکہ گنتی کے چند اشعار میں یہ توارد ہوا ہے۔پانچویں بات یہ ہے کہ خود خوشحال خان خٹک کی شاعری کے متعدد اشعار فارسی شعراء کے اشعارسے ملتے جلتے ہیں,تو ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟۔ اگر پیمانہ یہی ہے تو پھر صوفی عبدالرحمان مہمند(المعروف رحمان بابا) کی پوری شاعری حافظ شیرازی و دیگر فارسی صوفی شعراء سے سرقہ قرار پاۓگی ۔لٹریچر کو دیکھنے کایہ انداز درست نہیں ہے۔اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیۓ ورنہ کسی بھی زبان کے کسی بھی تخلیق کار کی عزت نہیں بچے گی۔
جہاں تک شعر کا تعلق ہے تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔دو مختلف زبانوں میں ہم مطلب اشعار موجود ہوسکتے ہیں۔غالب اورجرمن شاعر گوٸتے کی شاعری میں بھی زبردست مماثلت پاٸ جاتی ہے۔خود اقبال نے غالب کی قبر پر کھڑے ہوکر کہا کہ آپ اجڑی ہوٸ دہلی میں ہیں اور آپکا ہم فکر و ہمنشیں شاعر گوٸتے جرمنی کے علاقہ ویمر میں خوابیدہ ہے۔
آہ تو اجڑی ہوٸ دلّی میں آرمیدہ ہے
گُلشنِ ویمر میں ترا ہمنشیں خوابیدہ ہے
(اقبال)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...