علامہ اقبال کو سر کا خطاب اور 8 جنوری 1923 کا مولانا سالک کا افکار و حوادث کے نام سے کالم
سوچ تو دل میں لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے؟۱؎
انجمن پیاسی ہے اور پیمانہ بے صہبا ترا۱؎
کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بُت خانہ ہے۱؎
کس قدر شوریدہ سر ہے شوقِ بے پروا ترا!۱؎
اور ہے تیرا شعار، آئینِ ملّت اور ہے۱؎
زشت روئی سے تری آئینہ ہے رسوا تیرا
جناب میاں محمد شفیع بالقابہ کو سر کا خطاب ملا تو کسی قومی اخبار نے ایک لفظ تک نہ لکھا لیکن حضرت علامہ اقبال کے سر ہوجانے پر تمام دُنیائے ادب و سیاست میں تہلکہ مچ رہا ہے آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ بالکل ظاہر ہے کہ میاں محمد شفیع صاحب کو قوم اپنا نہیں سمجھتی۔ وہ نہ کبھی پہلے قوم کی راے کی پروا کرتے تھے نہ اب کرتے ہیں، ان کا دائرہ عمل ہی دوسرا ہے لیکن اقبال ’’ہمارا اقبال، قوم کی آنکھوں کا تارا اقبال‘‘ اگر ہم سے چھن جائے اور حکومت ایک دو حرفی لفظ دکھا کر اسے موہ لے تو یقینا ماتم کا مقام ہے۔
ہم علامہ اقبال کی عزت سے خوش ہوئے ہیں۔ زمیندار سے زیادہ شاید کوئی دنیا بھر میں موصوف کا مداح نہیں۔ اگر آج سے پندرہ سال قبل ہی سر کا خطاب آپ کو دیا جاتا تو ہم ہدیۂ تہنیت پیش کرنے میں سب سے پیش پیش ہوتے لیکن جب حکومتِ برطانیہ کے ہاتھوں جزیرۃ العرب کی مقدس سرزمین کی بے حرمتی ہوچکی، خلافت کے مقدمۂ اسلامیہ کو انگلستان کے ہاتھوں فتنۂ تاتار سے بھی زیادہ ہولناک حوادث پیش آئے اور اب تک کرزن چاہتا ہے کہ ایک دفعہ انگلستان اور اسلام کو پھر لاکر میدان جدال و قتال میں کھڑا کردے تو ہم اقبال کی برطانی ’’عزت افزائی‘‘ پر کیا خوش ہوں؟ اب اگر اقبال سر ہوئے تو کیا ہوئے ؎
آہ! جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہوچکی۲؎
پھول کو بادِبہاری کا پیام آیا تو کیا
ڈاکٹر ٹیگور اور ڈاکٹر پوس کو بھی سر کا خطاب ان کی علمی و ادبی شہرت کی وجہ سے ملا اور اقبال کو بھی حکومت نے اسی وجہ سے نوازا لیکن مسلمان کے لیے ارباب حکومت کی دی ہوئی عزت توپرکاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، مسلمان تو اپنے خدا اور رسولؐ کے ساتھ عزت میں حصّہ دار ہے۔ اِنَّ الْعزّۃِ للّٰہِ وَلِرَسُولِہٖ وَلِلْمُوْمِنِیْنْ۔ کیا علامہ اقبال خدا کی دی ہوئی عزت سے بے نیاز ہوگئے ہیں کہ خدا کی مخالف طاقتوں کی عطائی ہوئی عزت پر خوش ہیں۔ اِیَبِتْغُونَ عِنْدَھُمُ الْعِزَۃ؟ حالانکہ اِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہ جَمِعْیاً ۔
وائے نادانی! کہ تو محتاجِ ساقی ہوگیا ؎
مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو
اقبال سر کے دو حرفی اعزاز پر قناعت کرگئے حالانکہ ہم انھیں کسی عظیم الشان اسلامی سلطنت کی وزارت عظمیٰ پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ امر کچھ دشوار نہیں ؎
توہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا۴؎
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیِٔ داماں بھی ہے!
اگر اقبال [سر] بنادیے گئے تو ان کے سرکاری دوستوں کو مبارک ہو جناب سر ذوالفقار علی خاں اس پر جتنی خوشی منائیں کم ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ مسلمان اقبال کے اس سرکاری سرؔ کو پسند نہیں کرتے وہ تو اقبال کے اسی سر کے شیدا ہیں جس میں اسلام کے عشق کا سودا ہے۔ اگرچہ ہماری اس گزارش پر کہ ؎
درمیانِ انجمن معشوق ہرجائی مباش
گاہ باسلطاں باشی گاہ باشی فقر
علامہ ممدوح فوراً یہ کَہ اُٹھیں گے کَہ تم ’’امتیاز ظاہری‘‘ کے طلسم کے اسیر ہو کیونکہ ؎
من کہ شمعِ عشق را دربزم دل افروختم
سوختم خود را و سامانِ دوئی ہم سوختم
لیکن اس قسم کے شاعرانہ جواب اور ’’ہیر کی نگری‘‘ میں ’’رانجھے‘‘ کے مختلف ’’اسما و القاب‘‘ کے عذرلنگ سے ان لوگوں کی تسکین کیونکر ہوسکتی ہے جو ڈھائی برس ہی سے نہیں بلکہ بہت مدت سے خان بہادروں، نوابوں اور سروں سے سخت بدظن ہوچکے ہیں۔ وہ تو یہی سمجھ رہے ہیں کہ اقبال کی عزت و حرمت اب حدودِ عالم گیر سے سمٹ کر صرف سرکاری حلقوں تک محدود ہوگئی ؎
رہزنِ ہمت ہوا ذوقِ تن آسانی ترا۵؎
بحرتھا صحرا میں تو، گلشن میں آیا جُو ہوا۱؎
آبرو باقی تری ملّت کی جمعیّت سے تھی۵؎
جب یہ جمعیّت گئی، دنیا میں رسوا تو ہوا۵؎
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں۵؎
موج ہے دریا میں، اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
ہم اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے عمر بھر اسلام کی جو خدمت کی ہے اس کے سپاسِ مفت سے مسلمانانِ ہند کس طرح عہدہ برا نہیں ہوسکتے اور جس رنگ میں وہ آج تک خدمت کرتے رہے اسی رنگ میں اب بھی کرتے رہیں گے لیکن پہلے کی طرح اب یہ ادعانہ کرسکیں گے کہ ؎
مرغانِ زیرِ دام کے ہنگامے سُن چکے ہو تم۲؎
یہ بھی سنو کہ نالہٰ طائرِ بام اور ہے
کیونکہ جو ’’طائرِبام‘‘ تھا وہ بھی اب ’’مرغِ زیرِدام‘‘ ہوچکا، خدا س دام سے اس کو مخلصی عطا فرمائے۔
ہم علامہ اقبال کی خدمت میں کچھ عرض نہیں کرنا چاہتے صرف اس وقت بے اختیار ان کے مندرجہ ذیل ارشادات زبانِ قلم پر جاری ہوگئے ہیں ؎
اگر منظور ہے تجھ۳؎ کو خزاں نا آشنا رہنا۹؎
جہانِ رنگ و بو سے پہلے قطعِ آرزو کرلے!۹؎
تمنّا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں۹؎
تو کانٹوں میں اُلجھ کر زندگی کرنے کی خو کرلے!۹؎
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پابگل بھی ہے۹؎
انھی پابندیوں میں حاصل آزادی تو کرلے!۴؎
تنک بخشی کو استغنا سے پیغامِ خجالت دے۹؎
نہ ہو۵؎ منّت کشِ شبنم، نگوں جام و سبو کرلے!
نہیں یہ شانِ خود داری چمن سے توڑ کر تجھ کو۶؎
کوئی دستار میں رکھ لے، کوئی زیبِ گلو کرلے۷؎
تو اگر خود دار ہے منّت کشِ ساقی نہ ہو۱۲؎
عین دریا میں حباب آسانگوں پیمانہ کر۱۲؎
کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں۱۲؎
ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر۱۲؎
ہاں! اسی شاخِ کہن پر پھر بنالے آشیاں۱۲؎
اہل گلشن کو شہیدِ نغمۂ مستانہ کر۱۲؎
کیوں چمن میں بے صدا مثلِ رمِ شبنم ہے تُو؟۱۲؎
لب کشا ہو جا سرودِ بربطِ عالم ہے تُو!۷؎
اندھیرے میں شمس العلما
اتفاق ملاحظہ فرمائیے کہ جناب علامہ اقبال کے استاد مکرم حضرت مولانا سیّد میر حسن صاحب قبلہ سیالکوٹی کو بھی شمس العلما کا خطاب دیا گیا ہے اس پر ہمیں علامہ اقبال کا ایک قطعہ یاد آگیا۔
قطعہ
بخت مسلم کی شب تار سے ڈرتی ہے سحر
تیرگی میں ہے یہ شب دیدۂ آہو کی طرح
ہے اندھیرے میں فقط مولوی صاحب کی نمود
بن کے شمس العلما چمکے ہیں جگنو کی طرح
دو شنبہ ۲۰؍ جمادی الاوّل ۱۳۴۱ھ، ۸؍جنوری ۱۹۲۳ئ، ۱۰/۶ ص۳۔
“