(Last Updated On: )
عشق عربی زبان میں گہری چاہت کو کہتے ہیں ، جبکہ اس کی عقلی توجیہہ کچھ اس طرح ہے کہ عشق نام ہے بے لگام جذباتی تڑپ کا ، شدت محبت کا۔ خود قرآن کریم نے مومن کی یہ صفت "اشد حبا للھم" بیان کی ہے۔
عشق کا کمال یہ ہے کہ عاشق کے افعال وا قوال ، رفتار وگفتار ، عادات ، اطوار ، اخلاق وخصائل غرض اس کے تمام افکار و اعمال میں محبوب کی پسند ناپسند اور اسی کا تصور ہی پیش نظر ہوتا ہے۔
ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں :
’’عشق وعرفان کا کمال یہ ہے کہ عاشق کی مرضی معشوق کی مرضی میں ضم ہوجائے۔ اسلام کے بھی یہی معنی ہیں۔ خدا کی مشیت کے سامنے انسان کی کامل تسلیم مشیت۔ اس تسلیم ورضا کی بدولت رسول اللہ ﷺ کو یہ مرتبہ حاصل ہوا کہ تہ او گفتہ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود ‘‘ 1؎
جب اسی عشق کا مظاہرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگیوں میں دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں عشق نبی کریم ﷺ کی پاکیزہ صحبت اور محبت سے پیدا ہوا ، اور اس میں اتنی شدت تھی کہ والدین ، اہل وعیال سب آپ ﷺ کے عشق کے سامنے ہیچ تھے۔ اس لئے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اسلام کی ترویج وترقی عشق کی بدولت ممکن ہوئی بلکہ عشق ہی کا دوسرا نام اسلام ہے۔
اس حوالے سے جب علامہ اقبال کی جب رسول اللہ ﷺ کا جائزہ لیتے ہیں تو اقبال فنا فی الرسول ﷺ کا مظہر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں اللہ کے محبوب ﷺ سے راز ونیاز ہے ، سرگوشیاں ہیں ، عشق کی سرگرمیاں ہیں کہ جہاں آپ ﷺ کانام آیا ، آنکھیں بھیگ گئیں۔
اقبال کا عشق ایک ابدی جذبہ ہے۔ ایک سرا پائے عمل ہے۔ ایک سعی پیہم ہے۔ ایک لا فانی اور بلند شے ہے۔ اسی عشق رسول میں کونین کی ہر نعمت ہے۔ اقبال مقام رسالت کی بے مثال بلندیوں ، فیضان رسالت کی ہمہ گیری ، تعلق نبوت کی گہرائی اور احسان وکرم کی وسعتوں کا شناسا ہے۔ وہ مقام لولاک لما خلقت الافلاک کی تجلیاں دیکھے ہوئے ہے ، جبھی تو سرور انبیاءﷺ کے باب کہتے ہیں:
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو ، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استاد ہ اسی نام سے ہے
نبض ِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے 2؎
اسلام کی محبت اور پیغمبرﷺاسلام کا عشق ان کی زندگی تھا کیونکہ اسلام اور رسول اسلام سے محبت اور اولیائے کرام سے عقیدت اقبال کے آباؤ اجداد کا خاصہ رہا ہے اور اقبال تک آتے آتے یہ شراب عشق دو آتشہ ہوگئی۔
اقبال کی محبت محض عقیدہ نہیں بلکہ اقبال نے اپنی ہمہ گیر صلاحیتوں کی نظر سے جب اس محسن کائنات کے حسن وجمال کا مشاہدہ کیا تو ہزاروں جان سے اس کے عاشق ہوگئے۔سرور کائنات ﷺسے والہانہ محبت اور عقیدت کو وہ ایمان کی اساس سمجھتے تھے۔ کیونکہ مذہب اسلام کا رشتہ عشق رسول ﷺ کے ساتھ ویسا ہی ہے جیسا جسم کا روح کیساتھ ہے۔ اسلام کی بنیاد ہی عشق رسول ﷺ ہے اور خوشنودء خدا بھی اسی پر موقوف ہے۔ امر سے ثابت ہوتا ہے کہ وجہ آفرینش اور مقصد حیات ِ انسانی عشق رسول ﷺ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ قرآن بھی عشق رسول ﷺ کا ترجمان نظر آتا ہے۔ یہ اول سے آخر تک ذکر رسولﷺ کے ترانوں سے معمور ہے۔
حیات انسانی کا اولین اور بنیادی مقصد یعنی دنیا میں کلمہ حق بلند کرنا اور منصب خلافت کا اہل بننا، یہ عشق رسولﷺ کے بغیر ناممکن ہے۔ کیونکہ یہ حضورﷺ کی تعلیمات کا اثر ہے کہ مسلمان اسرار تقدیر الہٰی سے واقف ہوئے۔ اسی لئے اقبال کے نزدیک عشق رسولﷺ کے بغیر انسان صفات ایزدی کا مظہر نہیں بن سکتا اور نہ ہی صفات نبوی اس کے اندر پیدا ہوسکتی ہیں۔ پیغمبر ﷺ اسلام سے عشق ومحبت ہر صاحب عقل وبصیرت کو ہونی چاہئے کیونکہ جب خالق خود عاشق رسول ہے تو مخلوق کو بھی سرتاپا اسی کے عشق میں ڈوبا ہونا چاہئے اور جس کے اندر یہ جذبہ عشق نہیں تو بقول اقبال ایسا انسان مسلمان ہی نہیں بلکہ کافر ہے۔
قلب را از صبغۃ اللہ رنگ دہ
عشق را ناموس ونام وننگ دہ
طبع مسلم از محبت قاہراست
مسلم از عاشق بنا شد کافر است 3؎
علامہ اقبال ایک سچے عاشق رسولﷺ تھے۔ ان کی والہانہ عقیدت اور وارفتگی کا اظہار ان کی زندگی کے کئی واقعات سے عیاں ہے۔
مولانا سالک فرماتے ہیں :
’’ ان کے گداز قلب اور رقت احساس کا یہ عالم تھا کہ جہاں ذرا حضور سرور کون ومکاں ﷺ کی رافت ورحمت ، یا حضورﷺ کی سروری کائنات کا ذکر آتا تو حضرت علامہ کی آنکھیں بے اختیار اشک بار ہوجاتیں اور دیر تک طبعیت نہ سنبھلتی ‘‘ 4؎
اقبال کو درِ رسول ﷺ پر حاضری دینے اور حج کی سعادت حاصل کرنے کی بڑی خواہش تھی۔ زندگی کے آخری ایام میں یہ خواہش شدت اختیار کر گئی لیکن داعی اجل نے انہیں اس تمنا کو پورا کرنے کا موقع نہ دیا۔ مولانا اسلم جیراج پوری اس حوالے سے واقعہ بیان کرتے ہیں جب وہ علامہ کی وفات سے قبل ان سے ملنے گئے تھے فرماتے ہیں:
’’ اس سال وہ حج کا ارادہ رکھتے تھے۔ مگر بیماری اور کمزوری کی حالت یہ تھی کہ کوٹھی سے باہر نکلنا بھی مشکل تھا۔ کہتے تھے کہ میں دو سال سے ارادہ سفر حج میں ہوں بلکہ وہ اشعار بھی لکھ لئے ہیں ، جو سفر سے متعلق ہیں۔ ان میں سے کہیں کہیں سے کچھ سنایا بھی۔ مکہ سے مدینہ کی طرف روانگی کے وقت ایک غزل لکھی ہے۔ جس میں اللہ کو مخاطب کرکے کہتے ہیں:
؎ تو باش اینجا و باخاصان پیا میز
کہ من دارم ہوای منزل دوست
یہ شعر سناتے ہی گریہ ایسا گلو گیر ہوا کہ آواز بند ہوگئی اور آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ مجھے یہ دیکھ کر موضوع سخن بدلنا پڑا ۔5؎
ملت اسلامیہ کی زندگی حضور ﷺ کے عشق سے وابستہ ہے بلکہ پوری کائنات کا حسن وجمال آپ ﷺ کے عشق کی خیرات ہے۔ اس جہان کی رنگیناں آپ ﷺ کے انوار کی تجلیات سے ہیں۔ آپ ﷺکی بدولت ہی اس کائنات کے راز انسان پر منکشف ہوئے۔ آپﷺ نے ہی آکر قدرت کے ان سر بستہ رازوں سے واقف کروایا ، جن پر ہنوز پردہ پڑا ہوا تھا۔
شاعر مشرق بھی اپنی شاعری میں جگہ جگہ حضور اکرم ﷺ سے تعلق عشقی قائم کرنے کے لئے ایسی معرفت کے حصول پر زور دیتے ہیں جس کی بدولت نہ صرف انسان اطمینانِ قلبی حاصل کرسکتا ہے بلکہ عظمت ورفعت کی بلندیوں کو بھی چھو سکتا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں:
’’ انسان کی روح کو حضور ﷺ کے عشق کے بغیر قرار نہیں مل سکتا۔ یہ ہر وقت مضطرب رہتی ہے اور حضور? کا عشق ایسے دن کی مانند ہے جس کی تابانی اور تابناکی کو کبھی زوال نہیں آسکتا‘‘6؎
اقبال نے عشق کو عین وجود قرار دیا ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق ایسا جذبہ ہے جو ساری کائنات میں کار فرما نظر آتا ہے۔ کیونکہ عشق کی گرمی سے ہی یہ معرکہ کائنات سرزد ہوا۔ عشق کے مضراب سے ہی نغمہ تارِ حیات بلند ہے۔ اسی عشق کی بدولت خاک بھی بلند ہو کر ہم دوش ثریا ہوجاتی ہے اور معراجِ مصطفیٰ ﷺ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مسلمان جب عشق رسول ﷺکا پیکر ہو تو زمین ، عناصر کائنات پر بھی حکمرانی کرسکتا ہے۔
؎ سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ ﷺ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں 7؎
اور نکتہ معراج ایسا نکتہ ہے کہ جس نے اسے سمجھ لیا ، اس کی حقیقت کو جان لیا تو رفعت نظر کی ثریا اس کا مقدر بنی۔
؎ ناوک ہے مسلمان ، ہدف اس کا ہے ثریا
ہے سر ّسرا پردہ جاں نکتہ معراج 8؎
حضرت علامہ کے نزدیک عشق رسولﷺ سر دین بھی ہے اور وسیلہ دنیا بھی۔ اس کے بغیر انسان نہ تو دین کے قابل ہوتا ہے ا ور نہ ہی دنیا کے۔
ہر کہ از سر نبی ﷺ گیرد نصیب ہم بہ جبریل امیں گردو قریب
در دلِ مسلم مقام مصطفیٰ است آبروئے ماز نام مصطفی است
زندہ تاسوز اور درجان تست ایں نگہ دارندہ ایمان تست 9؎
اقبال مقام محمدی ﷺ کی کیفیات سے آگاہ تھے اور روحانی تجلیات سے مکمل طور پر بہر ہ ور تھے۔ ان کے کلام میں بھی عشق رسول ﷺکی بعض کیفیات نہایت اثر انگیز ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تعلیمات محمدی ﷺ ان کے قلب ودماغ کے آئینوں سے منعکس ہو کر ہم تک پہنچ رہی ہے۔ جناب فقیر سید وحید الدین "روزگار فقیر" میں اس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’ اقبال کی شاعری کا خلاصہ ، جوہر اور لب لباب عشق رسول ﷺ اور اطاعت رسولﷺ ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کی محبتوں میں عشق رسول ﷺکے جو مناظر دیکھے ہیں ان کا لفظوں میں پوری طرح اظہار بہت مشکل ہے‘‘10؎
عشق اس وقت بے معنی اور بے اثر رہتا ہے جب تک محبوب کا اتباع نہ کیا جائے۔ محبوب کی تقلیداور اسی کی طرز پر اپنے آپ کو ڈھالنا والے کے لئے اتباع رسول ﷺ نہایت ضروری ہے۔ عاشق رسول ﷺ آپ ﷺ کی اتباع کی بدولت اپنے آپ کو ذات رسالت مآب میں فنا کردیتا ہے تو وہ فنا فی الرسول ﷺ کے درجے پر فائز ہوجاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ رسول کے وسیلے سے اس مرد مومن کو اپنے الہامات سے سرفراز فرمادیتا ہے۔
اس کو اقبال مثنوی اسرار خودی میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
ہست معشوقے نہاں اندر دلت
چشم اگر داری بیا ، بنما ئیت
عاشقانِ اوز خوباں خوب تر
دل ز عشق او تو انامی شود
خاک ہم دوش ثریا می شود
خاک بخدا از فیض او چالاک شد
آمد اندر وجد وبر افلاک شد
در دلِ مسلم مقام مصطفی است
آبروئے ماز نامِ مصطفے است
یعنی مسلمان کے دل میں ہی ایک معشوق پوشیدہ ہے۔ اگر چشم بینا ہوتو اس کے جمال کا مشاہدہ ہوسکتا ہے اور وہ معشوق کیسا ہے ؟ دنیا کے تمام حسینوں سے حسین تر اور محبوب تر۔ اس کے عشق سے دل (بجائے کمزور ہونے کے ) توانا ہوتے ہیں اور خاک بھی بلند ہوکر ہم دوش ثریا ہوجاتی ہے۔ اس کے فیض سے خاک عرب پستی ذلت سے اٹھ کر رفعت عزت واقبال کی انتہا کو پہنچ گئی۔ وہ معشوق "مقام مصطفیﷺ" ہے جو ہر مسلمان کے دل میں موجود ہے۔ ہر مسلمان حضورﷺکا اتباع کرکے صفات نبویﷺ کو اپنے دل میں جذب کرلے تو پھر اس کے حسن وجمال اور قوت ورفعت کا کیا ٹھکانہ ہے۔ 11؎
اقبال کی نعتیہ شاعری میں بھی رسول اللہ ﷺ سے الفت ومحبت ، عقیدت ومودت اور وارفتگی نظر آتی ہے۔ وہ حضورﷺکے جملہ صفات کا ذکر نہایت رقت قلب اور سوز دروں کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ بندان کی محبت اور دیوانگی کا عکس ہے۔
؎ لوح بھی تو ، قلم بھی تو ، تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالم آب وخاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب 12؎
ایک اورجگہ یوں بیان کرتے ہیں:
؎ وہ دانائے سبل ، ختم الرسل ، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا
نگاہِ عشق ومستی میں وہی اول ، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں ، وہی طٰہٰ 13؎
اقبال کے نعتیہ کلام میں جو جوش وخروش ، عقیدت ومحبت ، صدق واخلاص اور سوز وگداز پایا جاتا ہے ، اسکی نظیر فارسی اور اردو شاعری میں ملنا مشکل ہے۔
مثل بو قید ہے غنچے میں پریشاں ہوجا
رخت ِ بردوش ہوائے چمنستاں ہوجا
ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہوجا
نغمہء موج سے ہنگامہ ، طوفاں ہوجا
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ محمد ﷺ سے اجالاکردے 14؎
عشق رسول ﷺ کا جذبہ اقبال کے رگ و پے میں جاری دکھائی دیتا ہے۔ یہ سرشاری وسرمستی آفتاب مصطفویﷺ کے انوار و تجلیات کی ایک کرن ہے اور جس کو یہ نصیب ہوجائے ، اس کو حیات ابدی نصیب ہوجاتی ہے۔ اس لئے اقبال امت مسلمہ کو نصیحت فرماتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺکی رحمتوں کے بحر ذخار سے سیرابی حاصل کرو ، تاکہ تمہیں حیات ِ نو نصیب ہو اور جو مقام ومرتبہ تم سے لے لیا گیا ہے وہ تمہیں از سر نو میسر آجائے۔
می ندانی عشق ومستی از کجا است ؟
ایں شعاع آفتاب مصطفی است
زندہ تا سوز ِ اودرجان تست
ایں نگہ دار ندہ ایمان تست
اقبال نے امت مسلمہ کے زوال وانحطاط کا اصل سبب بھی یہی بیان کیا ہے کہ ہم حضورﷺ کی تعلیمات کو بھلا کر باطل اور ناپائیدار محبتوں کے فریب میں گرفتار ہوگئے ہیں۔ امت مسلمہ کی دنیوی اور اخروی نجات سرکار دوعالمﷺکی محبت وعشق کی قبا اوڑھ لینے میں ہے۔ اقبال نے بھی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو مستحکم بنانے کا مؤثر ذریعہ عشق رسول ﷺ کو ہی بتایا ہے۔ جہاں جہاں اقبال نے مسلمانوں کو اپنا اصل مقام پانے کا نسخہ فراہم کیا وہی ان کو جمال مصطفویﷺسے آشنائی کی تاکید کی اور حیات انسانی تبھی جاوداں ہوسکتی ہے جب انسان سیرت نبویﷺ کا آئینہ دار بن جائے۔
الغرض عصر حاضر کے تمام مسائل اور ان کا حل حضورﷺ کی محبت اور اتباع میں مضمر ہے کیونکہ عشق رسولﷺ ہی حیات انسانی کی تکمیل اور بقا کا ضامن ہے۔
حوالہ جات
1۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ، فکر اقبال ، لاہور ، سیونتھ سکائی پبلی کیشنز ، 2015، ص 196
2۔ علامہ اقبال ، جوابِ شکوہ (بانگ درا) مشمولہ کلیات اقبال (اردو ) ، علم وعرفان پبلشرز ، 2005، ص 207
3۔ مثنوی اسرار خودی بحوالہ اقبال ایک عاشق رسولﷺ کی حیثیت سے ، ڈاکٹر محمد ہارون الرشید قادری ، دہلی ، فاروقیہ بکڈپو، 2005 ء، ص 141
4۔ اقبال نامہ ، مرتبہ چراغ حسن حسرت ، لاہور ، ہونہار بک ڈپو ، 1940ء ، ص 51
5۔ آثار اقبال مرتبہ غلام دستگیر رشید ، حید ر آباد دکن ، ادارہ اشاعت اردو ، طبع دوم، 1946ء ، ص 60
6۔ اقبال اور پیغام عشق رسول ﷺ، ڈاکٹر محمد طاہر القادری ، منہاج القرآن پبلیکیشنز
7۔ بال جبریل مشمولہ کلیات اقبال (اردو ) ، لاہور ، علم وعرفان پبلیکیشنز ، 2005ء ، ص 319
8۔ ضرب کلیم مشمولہ کلیات اقبال (اردو) ، بحولہ بالا ، ص 479
9۔ اقبال اور محبت رسولﷺ ، ڈاکٹر محمد طاہر فاروقی ، اقبال اکادمی پاکستان ، طبع شتم ، 2006ء ، ص6
10۔ فقیر سید وحید الدین، "روزگار فقیر" جلد اول ، ص 95-96
11۔ اسرار خودی بحوالہ اقبال اور عشق رسول ﷺ، سید محمد عبدالرشید ، دہلی ، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس ، بار دوم، 1983ء ، ص 53
12۔ بال جبریل مشمولہ کلیات اقبال (اردو) ، ص 405
13۔ ایضا ً، ص 317
14۔ بانگ درا مشمولہ کلیات اقبال (اردو) محولہ بالا ، ص 207