شاعر مشرق، حکیم الامت
علامہ اقبال: ایک محبوبہ، تین بیویاں اور چار شادیاں
اقبال کا شعر ہے
لازم ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
علامہ اقبال کی زندگی کے، جو ایک بلند پایہ شاعر اور فلسفی تھے، نفسیاتی مطالعہ سے احساس ہوتا ہے کہ وہ حساس دل، ذہین دماغ اور پر کشش شخصیت رکھنے کے باوجود بہت سے رومانوی تضادات کا شکار رہے۔ ایسے تضادات جو ان کی خوشیوں کی راہ میں کانٹے بوتے رہے اور وہ عمر بھر ایک داخلی کرب اور اذیت کو برداشت کرتے رہے۔
علامہ اقبال کی شخصیت کے ڈھکے چھپے نفسیاتی تضادات اس وقت ابھر کر سامنے آئے جب وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایشیا سے یورپ تشریف لے گئے۔ علامہ اقبال جب مشرق کی رومانوی گھٹن کی شکار فضا چھوڑ کر مغرب کی آزاد فضا میں داخل ہوئے تو انہیں یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ان کی شخصیت اس قدر مقناطیسیت کی حامل تھی کہ مختلف ثقافتوں کی حسین و جمیل عورتیں ان پر فریفتہ ہونے کے لیے تیار تھیں۔ موہن داس گاندھی تو لندن آ کر بھی گوشت، شراب اور عورت سے مجتنب رہے لیکن اقبال نے مغرب کی نعمتوں سے پوری طرح استفادہ کیا اور نئی دوستیاں بنانے اور نبھانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ ان دوستیوں میں مغرب کی حسیں دوشیزائیں بھی شامل تھیں اور مشرق کی دخترانِ خوش گل بھی اور ان میں سے ایک عطیہ فیضی تھیں۔
اقبال اور عطیہ فیضی کے رشتے نے قلیل عرصے میں قربتوں کا طویل فاصلہ طے کر لیا اور ان کے راہ و رسم اتنے بڑھے کہ شام کو مل کر کھانا کھانے کے بعد چہل قدمی کرنا اور زندگی کے اسرار و رموز کے بارے میں تبادلہِ خیال کرنا ان کا معمول بن گیا۔ اقبال عطیہ فیضی کے حسن و جمال کے ہی نہیں ان کی ذہانت اور قابلیت سے بھی متاثر تھے۔ وہ عطیہ کی رائے کا اتنا احترام کرتے تھے کہ انہوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے تھیسسPh D Thesis کے بارے میں ان کی قیمتی رائے مانگی تھی۔
جب ہم عطیہ فیضی کی ڈائری پڑھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا رشتہ اس موڑ پر پہنچ چکا تھا جہاں دوستی اور محبت آپس میں بغلگیر ہو جاتے ہیں۔ عطیہ لکھتی ہیں کہ ایک دن جب وہ اقبال کے دوستوں اور اساتذہ کے ہمراہ ان کے گھر گئیں تا کہ انہیں پکنک کے لیے لے جا سکیں تو سب نے اقبال کو مراقبے میں مستغرق پایا۔ وہ نجانے کب سے دنیا و مافیہا سے بے خبر عالمِ بے خودی میں کھوئے ہوئے تھے۔ دوستوں نے بہت کوشش کی لیکن وہ اقبال کو ہوش میں نہ لا سکے۔ آخر عطیہ فیضی نے باقی دوستوں کو باہر بھیجا اور اپنی بے تکلفی اور اپنائیت کا سہارا لیتے ہوئے انہیں اتنا زور زور سے جھنجھوڑا کہ وہ ہوش میں آ گئے۔ اس ایک واقعہ سے اقبال اور عطیہ کی خصوصی دوستی اور چاہت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عطیہ کی ڈائری سے اندازہ ہوتا ہے جیسے وہ اپنے دوست کی بجائے اپنے محبوب کی کہانی سنا رہی ہوں۔
1908 میں جب اقبال مغربی تعلیم ختم کر کے ہندوستان لوٹے تو انہیں ایک نفسیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنے روایتی ماحول اور ناگفتہ بہ حالات سے اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ گھر اور ملک سے بھاگ جانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگے۔ ان دنوں انہوں نے عطیہ فیضی کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے اپنا حالِ دل رقم کیا ہے۔ اس خط کا ذکر عبدالجید سالک نے اقبال کی سوانح حیات ’ذکرِ اقبال، میں بھی کیا ہے کیونکہ وہ خط کئی حوالوں سے بعد میں اقبال کا مشہور ترین اور بدنام ترین خط ثابت ہوا۔ اس خط میں اقبال نے اپنی زندگی سے بیزاری اور غصے کا اظٖہار کیا ہے۔ اس خط میں انہوں نے اپنی ذہنی اذیت کا کچھ حد تک ذمہ دار اپنی بیوی کو قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کے والد نے نوجوانی میں ان کی زبردستی شادی کر دی تھی اور وہ بندھن ان کے پائوں کی زنجیر بن گیا تھا کیونکہ اقبال اپنی بیوی سے ذہنی مطابقت محسوس نہ کرتے تھے۔ اقبال نے یہ بھی لکھا کہ کبھی کبھار وہ سوچتے ہیں کہ اپنے تمام دکھوں کو شراب میں گھول کر پی جائیں کیونکہ شراب خود کشی کو آسان بنا دیتی ہے۔ اقبال اپنے 9 اپریل 1909 کے خط میں رقم طراز ہیں ’ میں بیوی کو نان نفقہ دینے پر آمادہ ہوں لیکن میں اسے اپنے پاس رکھ کر اپنی زندگی کو عذاب بنانے کے لیے تیار نہیں۔ ایک انسان کی حیثیت سے مجھے مسرت کے حصول کا پورا حق حاصل ہے۔ اگر معاشرہ یا فطرت میرے اس حق سے انکار کریں گے تو میں دونوں کے خلاف بغاوت کروں گا۔ میرے لیے صرف ایک ہی چارہ ہے کہ میں اس بدبخت ملک کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں یا مے خواری میں پناہ ڈھونڈوں جس سے خود کشی آسان ہو جاتی ہے۔ کتابوں کے یہ مردہ بے جان اور بنجر اوراق مسرت نہیں دے سکتے اور میری روح کے اعماق میں اس قدر آگ بھری ہوئی ہے کہ ان کتابوں کو اور ان کے ساتھ ہی معاشرتی رسوم و روایات کو بھی جلا کر خاکستر بنا سکتا ہوں،
اس خط سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال ان دنوں ایک شدید ذہنی بحران سے گزر رہے تھے اور ان کی ذات کی گہرائیون میں اپنی بیوی، روایتی خاندان اور فرسودہ روایات پر مبنی معاشرے کے خلاف چھپا ہوا غصہ سطح پر آ رہا تھا جسے وہ اپنی دوست اور محبوبہ کا بتا رہے تھے۔ عطیہ فیضی نے اس دکھ بھری خط کا نہایت ہمدردانہ جواب دیا اور مشورہ دیا کہ وہ ایک ماہرِ نفسیات سے رجوع کریں۔
جب ہم اقبال کی زندگی کے اس دور کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یورپ سے واپسی پر اقبال ایک دوراہے تک آ پہنچے تھے۔ وہ اپنی شادی سے ہی نہیں وہ اپنی ثقافت اور روایت سے بھی بد دل ہو گئے تھے۔ وہ ایک شدید نفسیاتی تضاد کا شکار تھے۔ ایک طرف انہیں خاندانی ذمہ داریوں کا احساس تھا اور دوسری طرف وہ یورپ کی آزاد طرزِ زندگی کے گرویدہ ہو گئے تھے جس میں اور کئی معاشرتی اور رومانوی نعمتوں کے ساتھ ساتھ عطیہ فیضی کی دل موہ لینے والی قربت بھی شامل تھی۔
عین ممکن ہے وہ دل کے نہاں خانوں میں عطیہ فیضی کو اپنانا چاہتے ہوں لیکن اتنی جراتِ رندانہ نہ رکھتے ہوں کہ اپنی محبت کا کھل کر اظہار کر پائے ہوں۔ انہوں نے اشارتاٌ تو لکھا کہ وہ اپنی بیوی سے ناخوش ہیں لیکن عطیہ فیضی بھی ایک تجربہ کار اور جہاندیدہ عورت تھیں۔ وہ ایک دکھی شاعر، رنجیدہ فلاسفر اور پریشان حال شوہر سے ہمدردی تو کر سکتی تھیں انہیں اپنا شریکِ حیات نہیں بنانا چاہتی تھیں۔ انہیں اندازہ تھا کہ انہیں دوسری بیوی سے زیادہ ایک نفسیاتی معالج کی ضرورت تھی۔ عطیہ فیضی اقبال کی مداح ضرور تھیں لیکن جذباتی اور سادہ لوح نہیں تھیں۔
اقبال کو جب اندازہ ہو گیا کہ عطیہ فیضی انہیں اپنا شریکِ حیات نہیں بنانا چاہتیں اور وہ اپنی پہلی بیوی کے ساتھ رہ کر اپنی زندگی حرام نہیں بنانا چاہتے تو وہ بہت پریشان ہوئے۔ انسانی نفسیات کے طالب علم ہونے کے ناطے میں اس تکلیف دہ حقیقت سے بخوبی واقف ہوں کہ جب انسان نفسیایت بحران کا شکار ہو اور اس اس کے اندر غصے کا الائو روشن ہو تو وہ جو جذباتی اور رومانوی فیصلے کرتا ہے وہ دانشمندانہ نہیں ہوتے۔ یہی حال اقبال کا ہوا۔ انہوں نے اس نفسیاتی بحران سے نکلنے کے لیے دوسری شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا اور کسی کے مشورے پر سردار بیگم سے نکاح کر لیا۔ نکاح کے بعد ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ انہیں گمنام خطوط موصول ہونے شروع ہو گئے جن میں سردار بیگم کے کردار پر کیچڑ اچھالا گیا تھا۔ اقبال ان خطوط سے اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ انہوں نے سردار بیگم کو طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا۔
ابھی اقبال ان نفسیاتی اور رومانوی تضادات کی کیچڑ سے باہر نہ نکلے تھے کہ انہیں لدھیانہ سے ایک اور رشتہ آ گیا اور وہ رشتہ وہاں کے مشہور ڈاکٹر سبحان علی کی بیٹی مختار بیگم کا تھا۔ اقبال کی بہن کریم بی بی نے ( جو ان کی پہلی بیوی کی ہم نام تھیں) لدھیانہ جا کر دلہن دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو اقبال مان گئے۔
کریم بی بی نے دلہن کی خوبصورتی کی اتنی تعریف کی کہ اقبال نے دلہن دیکھے بغیر بڑے جوش و خروش سے مختار بیگم سے شادی کر لی۔ جب دلہن لدھیانہ سے لاہور آئیں اور اقبال نے شبِ عروسی انہیں قریب سے دیکھا تو وہ حواس باختہ ہو گئے۔ مختار بیگم بالکل خوبصورت نہ تھیں جس طرح کہ ان کی بہن نے ذکر کیا تھا۔ مختار بیگم سے مل کر اقبال کے رومانوی خوابوں کے شیش محل چکناچور ہو گئے۔ جب حالات کی تفتیش کی گئی تو پتہ چلا کہ اقبال سے دھوکہ ہوا ہے۔ دلہن کا نام مختار بیگم تو تھا لیکن وہ ڈاکٹر سبحان علی کی بیٹی نہیں بھانجی تھیں۔ اقبال کو جب حقیقت کا پتہ چلا تو پانی سر سے گزر چکا تھا کیونکہ وہ مختار بیگم کے ساتھ شبِ عروسی گزار چکے تھے۔
ابھی اقبال اس نفسیاتی اور رومانوی دھچکے سے سنبھلنے نہ پائے تھے کہ انہیں دوسری بیوی سردار بیگم کا خط ملا جس میں لکھا تھا کہ وہ اس دن کا انتظار کر رہی ہیں جب اقبال انہیں اپنا شریکِ حیات بنا کر اپنے گھر لے جائیں گے۔ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو وہ ساری عمر شادی نہ کریں گی۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اقبال نے سنی سنائی باتوں اور افواہوں پر اعتماد کر کے جذباتی فیصلے کیے تھے جن کی انہیں ایک ذہین شاعر اور دانشور سے بالکل توقع نہ تھی۔ سردار بیگم کا خط پڑھ کر اقبال احساسِ گناہ کا شکار ہو گئے۔
سالک ان کی سوانح ’ذکرِ اقبال، میں لکھتے ہیں کہ اقبال کو جب اس حقیقت کا پتہ چلا کہ وہ گمنام خطوط ایک مقامی وکیل نبی بخش نے لکھے تھے جو اپنے بیٹے کا رشتہ سردار بیگم سے کرنا چاہتے تھے تو وہ اور بھی نادم ہوئے۔ اقبال نے جب اپنے دوستوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے بتیا کہ وہ سردار بیگم اور ان کے خاندان کو جانتے ہیں اور سردار بیگم ایک با کردار خاتون ہیں۔ اقبال کو اندازہ ہو گیا کہ انہوں نے سوچے سمجھےبغیر جلد بازی میں دوسری اور تیسری شادی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ احساسِ گناہ اور ندامت سے مغلوب ہو کر اقبال سردار بیگم کو گھر لانا چاہتے تھے لیکن اس فیصلے کے بعد وہ ایک اور نفسیاتی تضاد کا شکار ہو گئے۔ اقبال جانتے تھے کہ وہ اپنے دل میں سردار بیگم کو طلاق دے چکے تھے۔
اقبال کے مذہبی دوستوں نے انہیں بتایا کہ اسلامی شریعت کا ایک اصول حلالہ ہے جس کے تحت اگر کوئی مسلمان مرد اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہ اس وقت تک اس سے دوبارہ نکاح نہیں کر سکتا جب تک وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے اور پھر دوسرے شوہر سے طلاق نہ لے لے۔ اقبال حلالے کے تصور سے اور بھی پریشان ہو گئے۔ انہوں نے ایک مولانا سے مشورہ کیا۔ اس مولانا نے فتویٰ دیا کہ اقبال پر حلالے کا شرعی قانون اس لیے لاگو نہیں ہوتا کیونکہ انہوں نے سردار بیگم کے ساتھ شبِ عروسی نہیں گزاری تھی۔ مولانا کے فتوے کے بعد بھی اقبال کا ضمیر نہ مانا ۔ وہ اس قدر احساسِ گناہ کا شکار تھے کہ ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہونے کے لیے انہوں نے سردار بیگم کو گھر لانے سے پہلے ان سے ایک دفعہ پھر نکاح کر لیا۔ اس طرح سردار بیگم سے دو بار نکاح ہوا اور اس طرح وہ ان کی دوسری اور چوتھی بیوی بنیں۔ اس طرح دو سالوں کے وقفے کے دوران اقبال کی زندگی میں تین شادیوں اور دو بیویوں کا اضافہ ہوا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جب اقبال نے اپنی دوسری اور تیسری بیوی کو اپنے گھر میں یکجا کیا تو ان کی پہلی بیگم کریم بی بی نے بھی سیالکوٹ سے اپنے بچوں آفتاب اقبال اور معراج اقبال کے ہمراہ لاہور آنے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ ایک وہ دور تھا جب اقبال لاہور میں اپنی تین بیویوں اور دو بچوں کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔
شاعرِ مشرق کی زندگی کا یہ وہ دور ہے جب وہ ایک محبوبہ، تین بیویاں اور چار شادیاں سے نبھاہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ چونکہ یہ طرزِ زندگی نفسیایت کے حوالے سے نہایت تکلیف دہ اور غیر حقیقت پسندانہ تھا اس لیے وہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ آخر ایک دن کریم بی بی کی والدہ سیالکوٹ سے تشریف لائیں۔ انہوں نے اقبال کو نہایت غیر ذمہ دار داماد قرار دیا۔ وہ اس قدر برہم ہوئیں کہ غصے میں اپنی بیٹی اور اس کے بچوں کو لے کر واپس چلی گئیں
اقبال کی سوانح عمریوں کے مطالعہ اور تجزیہ سے یوں لگتا ہے جیسے اپنی تینوں بیویوں میں سے وہ اپنی بیوی سردار بیگم پر سب سے زیادہ مہربان تھے۔ وہ تینوں بیویوں میں سے خوبصورت بھی سب سے زیادہ تھیں۔ اس رشتے سے ان کے دو بچے جاوید اقبال اور منیرہ اقبال پیدا ہوئے لیکن آہستہ آہستہ اس محبت کی آگ بھی سرد پڑنے لگی۔ وہ خاندانی ذمہ داریوں سے پوری طرح عہدہ برآ نہ ہو سکے۔ سردار بیگم کو اندازہ ہو گیا کہ علامہ اقبال ایک کامیاب شاعر اور نابغہِ روزگار فلسفی تو تھے لیکن ایک ناکام اور غیر ذمہ دار شوہر تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سردار بیگم کے خوابوں پر اوس پڑنے لگی اور وہ ناراض اور برہم رہنے لگیں۔ علامہ اقبال کے چھوٹے بیٹے جاوید اقبال نے اپنی سوانح عمری ’اپنا گریباں چاک، میں اپنی والدہ اور والد کے رشتے کی نقشہ کشی بڑی دیانتداری سے ان الفاظ میں کی ہے ’میری والدہ کا اصرار تھا کہ والد باقاعدگی سے وکالت کریں کیونکہ گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ نیز کرایہ کی کوٹھی میں رہنے کی بجائے اپنا گھر بنوائیں۔ یہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ والدہ میرے والد کے ذاتی کمرے میں کھڑی انہیں کوس رہی ہیں اور روتے روتے کہہ رہی ہیں کہ میں اس گھر میں ایک لونڈی کی طرح کام کرتی ہوں اور ساتھ ہی پیسے بچانے کی کوشش میں لگی رہتی ہوں۔ دوسری طرف آپ ہیں کہ بجائے نیک نیتی سے کچھ کرنے کے،بستر پر دراز شعر لکھتے رہتے ہیں اور جواب میں میرے والد لیٹے ہوئے بغیر کچھ منہ سے بولے کھسیانی ہنسی ہنس رہے ہیں
اس تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ دنیا کے عظیم شاعروں، سیاست دانوں اور دانشوروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا شخص اپنی بیوی کے اعراضات کا تسلی بخش جواب دینے سے قاصر تھا۔ وہ بیوی اپنے آپ کو ملکہ سمجھنے کی بجائے لونڈی محسوس کرتی تھی۔ اگر پسندیدہ بیوی کا یہ حال تھا تو ہم تصور کر سکتے ہیں کہ دوسری بیویوں کے دل دلوں پر کیا بیتی ہوگی۔
علامہ اقبال ہندوستان میں تین بیگمات کے ساتھ زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ اپنی دوست اور محبوبہ عطیہ فیضی کو بھی متواتر خط لکھتے رہے۔ اقبال کی رومانوی زندگی ایک حوالے سے کئی اور مشرقی شاعروں کی زندگی سے مختلف نہ تھی جن کی محبوبہ کبھی ان کی بیوی نہ بن سکی اور بیوی کبھی محبوبہ نہ بن سکی۔
اقبال کبھی ہندوستان چھوڑ کر بقیہ زندگی گزارنے یورپ تو نہ گئے لیکن ساری عمر یورپی خواتین سے متاثر رہے اور وہ بھی ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار رہیں۔ وہ دور دور سے ان سے ملنے آتی تھیں۔ اقبال بھی بڑے تپاک سے ان سے ملتے اور اپنے اندازِ تکلم سے ان کا دل موہ لیتے۔ جاوید اور منیرہ کی والدہ کی وفات کے بعد انہوں نے کسی ہندوستانی خاتون کی بجائے ایک جرمن نژاد خاتون کو گھر میں رکھا تا کہ وہ بچوں کی نگہداشت کر سکے۔ وہ خاتون جرمن،انگریزی اور اردو تینوں زبانوں سے واقف تھیں اور بچے انہیں آنٹی ڈورسAUNTY DORIS کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ بچوں سے نہایت شفقت سے پیش آتیں۔ نفسیاتی طور پر یوں لگتا ہے جیسے ڈورس بچوں کو محبت مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اقبال کی یورپ کی نوسٹلجیا کی ضرورت بھی پوری کرتی تھیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اقبال نے اپنے فرزندِ ارجمند جاوید اقبال کے لیے بچپن میں ایک یورپی ماں تلاش کی لیکن جوانی میں ان سے شکایت کی
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گلا تجھ سے ہے یورپ سے نہیں
جاوید اقبال نے اپنی سوانح میں لکھا ہے کہ ان کی والدہ کی وفات کے بعد ایک ہندوستانی عورت ان کا اور ان کی بہن کا خیال رکھنا چاہتی تھیں اور اقبال سے شادی بھی کرنا چاہتی تھیں لیکن اقبال نے اس عورت کی دعوت کو قبول نہ کیا۔
سالک ’ذکرِ اقبال، میں لکھتے ہیں کہ ایک ہندو عورت بھی اقبال کے عشق میں گرفتار ہو گئی تھیں۔ وہ ایک صاحبِ ثروت ڈپٹی کمشنر کی بیٹی تھیں جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہندو مردوں کی نسبت مسلمان مردوں کو زیادہ پسند کرتی ہیں۔ انہوں نے اقبال سے راہ و رسم بڑھانے کی کوشش کی اور رشتہ بھیجا لیکن اقبال نے انکار کر دیا۔
علامہ اقبال کی بہو رشیدہ نے، جن کی شادی اقبال کے بڑے بیٹے آفتاب اقبال سے ہوئی تھی، اپنے شوہر اور سسر کی سوانح میں اقبال کی زندگی کے بہت سےراز ہائے سربستہ سے پردہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے عبدالمجید سالک کے بیان کہ علامہ اقبال کو سردار بیگم کے بارے میں خطوط نبی بخش وکیل نے بھیجے تھے کو غلط ثابت کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ خطوط اقبال کی بہن کریم بی بی کی سازش تھے۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کا بھائی دوسری شادی کرے۔ انہیں ان کی پہلی بیوی سے، جو ان کی ہم نام بھی تھی، ہمدردی تھی۔ اقبال کی بہن نے ان کی بیٹی معراج سے خط لکھوائے اور کسی اور شہر سے پوسٹ کروائے تا کہ اقبال کو شک نہ ہو۔ کافی عرصہ بعد اقبال کو اپنی بیٹی معراج کا خط ملا تو انہوں نے معراج کی لکھائی پہچان لی۔ اقبال کو شک ہوا تو وہ سیالکوٹ گئے اور بیٹی سے سچ پوچھا تو اس نے اعتراف کیا کہ خط اسی نے لکھے تھے۔ اس طرح برسوں کا راز بے نقاب ہو گیا
راز کہاں تک راز رہے گا منظرِ عام پہ آئے گا
جی کا داغ اجاگر ہو کر سورج کو شرمائے گا
اس رومانوی ٹریجڈی کا ایک پہلو یہ ہے کہ جب اقبال کی بہن اور بیٹی ایک سازش میں ملوث تھیں ان کی پہلی بیوی کو اس سازش کی بالکل خبر نہ تھی۔ وہ خاموشی سے آنسو بہاتی رہتی تھیں۔
نفسیات کا طالب علم ہونے کے ناطے میں یہ جان کر بہت حیران ہوا کہ شاعرِ مشرق، جو ساری قوم کے مسائل کا حل پیش کرتے رہے، اپنے رومانوی اور نفسیاتی مسائل نہ حل کر سکے۔ میرے لیے یہ باور کرنا بہت مشکل ہے کہ انہوں نے
۔۔۔ پہلی بیوی کریم بی بی سے سولہ برس کی شادی کے بعد علیحدگی اختیار کر لی اور ان کے بچوں سے کنارہ کش ہو گئے
دوسری بیوی سردار بیگم کو گمنام خطوط پڑھ کر طلاق دے دی
تیسری بیوی مختار بیگم سے شب زفاف کے بعد جانا کہ وہ غلط مختار بیگم تھی
اور
سردار بیگم سے دوسری بار نکاح کرنے سے پہلے کسی مولوی سے حلالہ کے بارے میں رجوع کیا، فتویٰ لیا اور پھر اس فتوے پر عمل بھی نہ کیا۔
اقبال کو اپنی زندگی کے تلخ رومانوی تجربات سے اندازہ ہو گیا تھا کہ کامیاب شاعر اور فلسفی بننا آسان ہے لیکن کامیاب عاشق بننا مشکل اور تین بیویوں کا شوہر بننا اور بھی مشکل خاص طور پر جبکہ ان کے دل میں ایک پری زاد محبوبہ بھی بسی ہوئی ہو۔ اقبال کو اندازہ ہو گیا تھا کہ الفاظ کا احترام کرنا آسان ہے لیکن عورتوں کا خلوصِ دل سے احترام کرنا مشکل۔ اسی لیے وہ فرماتے ہیں
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لے لیتا ہے
گفتار کا وہ غاضی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“