احسان الہی ظہیر 31 مئی 1941 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم حفظِ قرآن سے لے کردرسِ نظامیہ اور عالم فاضل تک جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ اور جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے حاصل کیں،اعلیٰ تعلیم کے لیے اسلامک یونیورسٹی مدینہ منورہ تشریف لے گئے،
1969 میں ممتاز ڈویژن سے پاس ہوکر وطن آ گئے اور جامعہ پنجاب سے چھ مضامین میں ایم اے کیا یعنی عربی، اردو، فارسی، فلسفۂ تاریخ، ایم او ایل (قانون) اور اسلامیات۔ تمام امتحانات میں اچھے نمبرات سے کامیابی حاصل کی، آپ کئی زبانوں میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔
تصنیفات
زمانۂ تعلیم ہی سے تصنیف و تالیف کا کام شروع کر دیا تھا،کم وبیش بیس ضخیم کتابیں تالیف کیں اس کے علاوہ بے شمار مقالات و مضامین لکھے،ان کی آخری کتاب قتل سے صرف آٹھ گھنٹے قبل مکمل ہوئی تھی،آپ کی چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں : 1-القادیانیہ دراسات و تحلیل(عربی) 2-التصوف (عربی) 3-مرزائیت اور اسلام (اردو) 4-البابیہ عرض ونقد (عربی) 5-البہائیہ نقد وتحلیل (عربی) 6-الشیعۃ والسنۃ (عربی،فارسی،انگریزی) 7-الشیعہ و اہل البیت (عربی) 8-الشیعہ و القرآن (عربی) 9-البریلویہ عقائد و تاریخ(عربی) 10-الاسماعیلیہ (عربی) ان میں سے اکثر کتب کے دس سے زیادہ ایڈیشن نکل چکے ہیں، دنیا کی کئی زندہ زبانوں میں ان کتابوں کے ترجمے ہوئے ہیں۔ عربی، اردو، فارسی، انگریزی کے علاوہ ترکی، تھائی، انڈونیشی اور مالدیپی زبانوں میں ان کی کئی کتابیں کئی بار اور کئی کئی ترجموں کے ساتھ نکل چکی ہیں،"الشیعۃ والسنۃ"کے صرف انڈونیشی زبان میں تین ترجمے ہوئے، جن میں ایک پر "پیشِ لفظ" انڈونیشیا کے وزیرِ اعظم ڈاکٹر محمد ناصر نے لکھاہے۔
صحافت
میدانِ صحافت میں طویل عرصہ رہے اور مختلف اوقات میں ہفت روزہ "الاعتصام"ہفت روزہ "اہلِ حدیث"ہفت روزہ "الاسلام"کے مدیر رہے اور پھر اپنا ذاتی ماہنامہ "ترجمان الحدیث"نکالا،جس کے تاحیات مدیر رہے۔
سیاست
اپنی دینی،علمی اور فکری مصروفیات کے سبب 1968 تک آپ سیاست سے دور رہے،1969 میں میدانِ سیاست میں قدم رکھا،بھٹو دور میں کئی بار قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں،عزائم میں فرق آنا تو کجا آپ کے لہجے میں تک کوئی فرق نہ آیا بلکہ آئیں جواں مرداں حق گوئی و بیباکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی کی زندہ مثال بن ک رہے۔ تحریکِ استقلال میں زبردست حصہ لیا یہاں تک کہ اس کے مرکزی ناظمِ اطلاعات بھی رہے،1977 میں تحریکِ استقلال کے قائم مقام سربراہ بنائے گئے۔ بنگلہ دیش نامنظور تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ تحریکِ نظامِ مصطفٰی کے لیے بڑی کوششیں کیں۔ ضیاء الحق صاحب کی حکومت نے آپ کو علمائے کرام کی ایڈوائزری کونسل کا کارکن نامزد کیا لیکن آپ نے استعفی دے دیا۔ تحریکِ استقلال سے علٰیحیدگی کے بعد جمعیۃ اہل حدیث کی تنظیمِ نو کی اور اس کو زبردست کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اہلِ حدیث یوتھ فورس کی بنیاد ڈالی جس کے ذریعہ نوجوانانِ اہل حدیث میں جہاد کی روح پھونکی۔ جمعیۃ اہلِ حدیث کے جنرل سیکریٹری رہے۔ آپ کی سیاسی سرگرمیوں سے خوفزدہ ہوکر حکومتِ پاکستان نے با رہا فرضی مقدمات میں پھنسایا اور جائداد کی قرقی کے احکامات صادر کیے مگر پائے ثبات میں ذرہ برابر لغزش نہ آئی۔
غیر ملکی دورے :آپ کی علمی و فکری قابلیت نے آپ کو متعدد بار غیر ملکی دوروں پر آمادہ کیا،دنیاکے کونے کونے سے کانفرسوں اور سیمناروں میں شرکت کی دعوتیں آتی رہتیں،جن میں آپ اکثر شامل ہوا کرتے۔ سعودی عرب، کویت، قطر،متحدہ امارات و مصر میں آپ کا اکثر آنا جانا ہوتا علاوہ ازیں امریکا، برطانیہ،کنیڈا،سوڈان،تھائی لینڈ،انڈونیشیا،ملیشیا کے بھی متعدد دورے کیے تھے۔
خطابت
یہ آپ کا مخصوص و محبوب ترین میدان تھا،آپ کی شعلہ بیانی اور اثر آفرینی کا ایک زمانہ قائل ہے۔ پاکستان کے ایک نامور ادیب،صحافی و خطیب آغا حشر کاشمیری نے اپنی کتاب "ختمِ نبوت"میں علامہ کے بارے میں یہ الفاظ لکھے تھے :
” علامہ صاحب ایک شعلہ بیان خطیب،معجز رقم ادیب،بالغ نظر صحافی اور بہت سی زبانوں میں مہارتِ تامہ رکھنے کے باوجود دور رس نگاہ کے عالمِ متبحر ہیں “
وفات و تدفین
آپ 23/مارچ 1988 کی شب موچی دروازہ لاہور میں جمعیۃ اہلِ حدیث کے ایک جلسے میں خطاب کر رہے تھے کہ ایک زور دار دھماکا ہوا جس میں آپ شدید زخمی ہوئے،فورا اسپتال لے جایا گیا،جب یہ خبر سعودی عرب پہنچی تو خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز ابن سعود کے حکم سے ریاض منتقل کیا گیا، مگر ہزار کوششوں کے باوجود آپ جانبر نہ ہو سکے۔
آپ کو جنت البقیع، مدینہ منورہ میں سپردِ خاک کیا گیا!