علامہ اسرارجامعی طنز و مزاح کے بے تاج بادشاہ ہیں-ان کا بڑاخاصہ یہ ہے کہ وہ خالص ادبی اور معیاری مزاح کی بدولت ادبی حلقے میں معروف ہوئے- وہ دبستان عظیم آباد کے گوہر نایاب تھے-ان کے گزر جانے سے اردو کا جو نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ شاید ہی ممکن ہو-
وہ جس قدر اپنی پرلطف شاعری سے قہقہے بکھیرتے تھے – اسی قدراپنی طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے ذریعہ اپنے معاشرے کےمضحک پہلوؤں کو بھی اجاگر کرنے سے نہیں چوکتے تھے-وہ ایک معصوم انسان تھے لیکن اس معصومیت میں جو کشش تھی اور جو والہانہ انداز تھاانھیں کبھی بھلایا نہیں جاسکتا-
وہ ایک متمول، مالدار تعلیم یافتہ گھرانےکے چشم وچراغ تھے- والدین کی حیات میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے والا یہ بانکا شاعر آخر کار اپنوں کے ستم کا شکار ہو گیا نتیجتا وہ تنگی اور عسرت کی زندگی بسر کرنےپر مجبورہوا-
علامہ اسرار جامعی 4/اپریل 2020 بروز سنیچربہ وقت پانچ بجے صبح دارفانی سےکوچ کر گئے-
ہماری دعاہے کہ اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطافرمائے-آمین
اب ہم سب کی ذمےداری ہے کہ ان کے غیرمطبوعہ کلام کو یکجا کرکے منظر عام پر لائیں-
اور اردو شاعری میں معیاری اور سنجیدہ طنز ومزاح کی توسیع کے ساتھ ان کے صحافتی کارناموں پر بھی کام کریں-
مگر افسوس صد افسوس کہ ان امور کو چھوڑ کر چند اشخاص نے علامہ کے انتقال پرملال کی خبر سنتے ہی تحریری طعن و تشنیع کا غیر سنجیدہ اور قابل مذمت سلسلہ شروع کردیا-
میں ان حضرات سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ بحیثیت انسان اور بحیثیت مسلمان آپ خود کتنی دفعہ ان کی عیادت کو گئے یا ان کی دیکھ بھال کی غرض سے آپ کبھی ان سے ملے؟
میرا یہ ماننا ہے کہ جب کسی چیزکے متعلق پوری معلومات نہ ہو تو خاموشی ہی بہتر رہتی ہے-
وہ اس لیے کہ مجھے معلوم ہے دہلی اردو اکیڈمی کی جانب سے علامہ اسرار جامعی صاحب کو ماہانہ پانچ ہزار روپیے بطور پنشن دیئے جاتے تھے،جب پروفیسر شہپر رسول صاحب وائس چیئرمین ہوئے تو انھوں نے اس رقم کو بڑھاکر ماہانہ دس ہزار روپیے کردیے اور یہ رقم انہیں اخیر وقت تک ملتی رہی-
ابھی پچھلے ماہ دستخط کے لیے فارم ان کے پاس بھیجا گیا تھا جسے وہ دستخط کرکے واپس بھیج نہیں سکے تھے-
ہمیں معلوم ہے کہ دہلی اردو اکیڈمی اردو طبقے کا ایک نمائندہ ادارہ ہے،اور اس نے اس کام کو بخوبی انجام بھی دیاہے- اس کے لیے ہم اکیڈمی کی جتنی تعریف کریں کم ہے-
اسی طرح شہپررسول صاحب جب جامعہ ملیہ اسلامیہ شعبہ اردو کے سربراہ تھے تو اسی اثنا میں علامہ اسرارجامعی شدید طور پر بیمار ہوگئے تھے-
لہذا شعبہ اردو کے اساتذہ اور طلبا نے تقریباساٹھ ہزار کی رقم ان کے علاج کے لیے جمع کرکے دیا تھا-
اس تعلق سے پروفیسر شہپر رسول نے اپنے تعزیتی پیغام میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے –
"اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے. کیا خوب آدمی تھے اور کیا البیلے شاعر تھے. میں صدرِ شعبہ تھا تو اکثر میرے چیمبر میں آجائے تھے. ان کی گفتگو بھی پر لطف ہوتی تھی. آخری دنوں میں خاصے کمزور ہو گئے تھے. کچھ لوگ حقیقت کو جانے بغیر یہ کہتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں کہ وہ لوگوں کی بے حسی کے شکار رہے. لوگوں نے ان کے لیے بہت کچھ کیا. ہمارے بہت سے طلباء اور بعض اساتذہ کا جو نیک سلوک ان کے ساتھ رہا اس کے بارے میں کچھ لوگ شاید جانتے ہوں. اردو اکادمی دہلی ان کو ماہانہ پنشن کے طور پر دس ہزار روپے ادا کرتی تھی. ان کے علاج کے سلسلے میں بھی کچھ نہ کچھ کیا جاتا رہا. سب سے زیادہ تو وہ صاحب ہم سب کے شکریے کے مستحق ہیں جنہوں نے اسرار صاحب کو ایک طویل مدت تک نہ صرف اپنے گھر پر رکھا بلکہ ان کی ہر طرح کی دیکھ بھال بھی کی. اللہ پاک ان کو اجر دیگا. اسرار جامعی بہت معصوم آدمی تھے. ان سے لوگوں کی اکثریت محبت کرتی تھی-"
اس طرح کی اور بھی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جن سے ہم چشم پوشی نہیں کرسکتے مگر ان سب باتوں کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے-
جناب ایڈووکیٹ مشتاق صاحب نے اپنافلیٹ علامہ کے لیے مختص کردیا تھا- اور علامہ کی ہمیشہ دیکھ بھال بھی کیا کرتے تھے.
کل جب مجھے ان کی وفات کی جانکاہ اطلاع ملی تو میں نے سب سے پہلے استاذی شہپررسول صاحب کو فون کیا- انھوں نے مشورہ دیا کہ ہمیں کیا کیا کرنا چاہیے اور یہ بھی کہا کہ ان کے اکاؤنٹ میں اکیڈمی کی جانب سے جو رقم ہر ماہ آتی تھی وہ ابھی تقریبا پچپن یاساٹھ ہزار ہے دیکھ لینا-
مزید کوئی بات ہوتو مجھے مطلع کرنا –
اس وقت چونکہ حالات معمول پر نہیں ہیں اس لیے احتیاط کے ساتھ سارے کام انجام دینا-
جب میں جامعی صاحب کی تجہیزوتکفین کے لیے پروفیسر کوثر مظہری اورجناب حامد علی اخترصاحبان کے ہمراہ ایڈووکیٹ مشتاق صاحب کے گھر پہنچا تو دیکھا کہ جماعت اسلامی ذاکر نگر یونٹ کی جانب سے پانچ افراد تجہیز وتکفین میں مصروف تھے- جب میں نے مشرف حسین صاحب سابق امیر مقامی ذاکر نگر سے دریافت کیا تو انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی ذاکر نگر یونٹ نے ان کے کھانے پینے کا ذمہ لے رکھا تھا-
تو یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ہم انہیں اپنے سماج کا حصہ نہیں گردانیں گے؟
جب کہ یہ بھی ہمارے ہی بیچ کے لوگ ہیں- باجود اس کے ہم اور ہمارے ساتھی جاوید حسن اکثر ان کی تیمارداری کے لیے جایاکرتے تھے-
شاید لوگوں کویہ نہیں معلوم کہ دہلی میں قیام کے دوران اور اس کے بعد بھی ڈاکٹر نسیم احمد نسیم دامے درمے ان کے ساتھ نیک سلوک کرتے رہے اور اکثر مجھ سے فون کرکے ان کی خیریت بھی معلوم کرتے تھے-
کیا انہیں بھی منافق کے زمرے میں رکھاجائے گا؟
اسی طرح ڈاکٹر ابرار رحمانی بھی مجھ سے بار ہا اسرار جامعی صاحب کی خیریت دریافت کیا کرتے تھے-سب جانتے ہیں ہے کہ ابرار رحمانی صاحب ایک عرصے سے علیل ہیں باوجود لاک ڈاؤن کے مصر تھے کہ میں بھی نماز جنازہ میں شریک ہونا چاہتا ہوں-لیکن میں نے ان کی بیماری کا واسطہ دے کر کسی صورت انہیں روکنے میں کامیابی حاصل کی-
اسی طرح پٹنہ سے جناب اسلم جاوداں سےجب بھی بات ہوتی وہ علامہ کی خیریت ضرور پوچھتے-
میں جب بھی علامہ سے ملنے گیا الحمد للہ تین چار افراد کو ان کے پاس دیکھتا،طبیعت خوش ہوتی بلکہ اکثر میں اپنے دوستوں کو ان کے پاس لے جاتاتھا-اور ہم سب ان کی دل جوئی کی کوشش کرتے تھے
تو کیا ہم اور یہ سارے لوگ ہمارے اسی سماج سے وابستہ نہیں ہیں؟
پھر اپنی کوتاہیوں کاٹھیکرااردو والوں کے سر پھوڑنا کیا مناسب ہے؟ کیا انہیں بے حس کہنا صحیح ہے؟
ہاں ہم سب کی ذاتی کوتاہیاں رہی ہیں کہ ہمیں جتنا کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کرسکے-
مگر یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اس سے زیادہ شاید کر بھی نہیں سکتے تھے-
اسرار صاحب محروم زمانہ تو تھے ہی مگر وہ ان معنوں میں خوش نصیب تھے کہ ہر شخص دل سے ان کی قدر کرتا تھا اور ان کی عزت و تعظیم کرتا تھا اور بہت سارے لوگ تو ان کے لیے اپنے دل میں بہت کچھ کرنے کا جذبہ بھی رکھتے تھے-
یہ اسی جذبہ کامظہر ہے کہ لوگ ہمہ وقت ان کی خدمت میں لگے رہتے تھے-
ہمیں معلوم ہے کہ اپنے خدمت گاروں میں وہ کسی کے نہ رشتے دار تھے اور نہ ہی ان سے کوئی علاقائی تعلق تھا باوجود اس کے لوگ ایک شریف انسان،نیک دل، نیک طینت اور اردو کا بےلوث خادم ہونے کے ناطے ان کی قدر کرتےتھے اور حسن سلوک کا معاملہ بھی کرتے رہتے تھے-
اس لیے یہ کہہ دینا قطعی درست نہیں کہ اردو والوں نے انہیں نظر اندازکیا-
اگر کوئی ایسا کہتا ہے تو یہ سراسر بہتان ہے اور مذہب اسلام میں بہتان کی سخت وعید آئی ہے-
اس لیے ہمیں اللہ تعالی سے دعاکرنا چاہیے کہ اللہ تعالی ہم سب کو اس برے عمل سے محفوظ ومامون رکھے-آمین یارب العالمین-
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...