گزشتہ سال ۱۲؍ مارچ ۲۰۲۱ء وطن عزیز میں آزادی کا امرت مہوتسو منایا جا رہا ہے جس کا مقصد ہے آزادی کے ۷۵؍ برس مکمل ہونے تک یعنی ۱۵؍ اگست ۲۰۲۲ء تک اور اس کے آگے بھی ہم ہندوستانی انگریزوں سے اپنے ملک کو آزاد کرانے والے جاں بازوں کی قربانیوں کو یاد کریں اور ہر ممکن طریقے سے انھیں خراج عقیدت پیش کریں۔جدوجہد آزادی میں شریک جاں بازوں کی تعداد کا حساب رکھنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ملک کا ہر ہر گوشہ اور بوڑھے بچے خواتین جوان سب حصول آزادی کے خواہاں تھے اور سر پر کفن باندھے انگریزوں کی توپوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔ان توپوں نے کتنوں کو لقمہ اجل بنایا ، کسی کو نہیں معلوم۔کتنے لوگوں کو درخت پر لٹکا کر پھانسی دے دی گئی ، ان کے بھی اعداد و شمار کا حساب نہیں۔اس سمت اسٹیٹ آرکائیوز ، پریاگراج نے کوشش کی ۔ اس کے خزانے میں متعدد فائلیں موجود ہیں جو اس سمت ہماری مدد کرتی ہیں۔آرکائیوز کے عملے نے بڑی جانفشانی سے چند دستاویز کو پڑھا اور دیو ناگری خط میں ان کی فہرست تیار کی ہے۔ اس فائل سے الہ آباد کے چند شہیدوں کے نام کی بھی شناخت ہوتی ہے۔اس پر Allahabad Mutiny Bastaدرج ہے ۔اس فہرست میں شہیدوں کا نام ، الزام کی قسم اور سزا اس طرح درج ہے ؎
علی بخش ۔ آپ الہ آباد کے ہی رہنے والے تھے۔۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے خلاف بغاوت میں شامل رہے۔کئی مورچوں پر انگریز فوجوں کا مقابلہ کیا۔آپ نے انگریزی خزانے کو ضبط کرنے میں مقامی لوگوں کا ساتھ دیا۔آخر کار انگریزوں نے انھیں گرفتار کر لیا اور انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے کے الزام میں آپ کی پوری جائیداد ضبط کر موت کی سزا کا اعلان کر دیا۔۱۸۶۰ء میں آپ کو درخت سے لٹکا کر پھانسی دے دی گئی۔
علی شیر ۔ آپ الہ آباد کے باشندے تھے۔۱۸۵۷ء کے انگریزوں کے خلاف محاذ میں آپ نے انقلابیوں سے ہاتھ ملایا۔آپ نے انگریزی خزانے کو ضبط کرنے اور انقلابیوں کے لئے مالی امداد جمع کرنے میں مدد کی۔مارچ کے مہینے میں آپ گرفتار کر لئے گئے۔انگریزی حکومت کے خلاف لوٹ اور بغاوت کے الزام میں آپ کو ۱۸۵۷ء میں ایک درخت سے لٹکا کر پھانسی کی سزا دی گئی۔
بدھو شیروانی ۔ آپ الہ آباد کے شمال مغربی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔آپ نے ۱۸۵۷ء کی جد وجہد آزادی میں الہ آباد اور فتحپور کے کئی مورچوں میں حصہ لیا۔مقامی لوگوں کو انگریزوں کے مظالم کے خلاف اکسایا۔انگریز فوجوں کے خلاف لڑتے ہوئے وہ گرفتار کر لئے گئے۔ان پر انقلابیوں کو اکسانے اور انگریزی سرکار پر حملہ کرنے کا الزام لگا کر جولائی ۱۸۵۷ء میں سزائے موت سنائی گئی اور پھانسی دے دی گئی۔
بدلو ۔ آپ کا تعلق الہ آاد کے شمال مغربی علاقے سے تھا۔آپ انگریزی سرکار کے ملازم تھے مگر ۱۸۵۷ء میں آپ نے ملازمت ترک کی اور انقلابیوں کے ساتھ ہو لئے۔انھوں نے اسلحے خریدنے کے لئے انقلابیوں کی مدد کی اور انگریزی خزانے کی لوٹ میں بھی شامل رہے۔انگریزوں سے مورچہ لیتے ہوئے گرفتار ہوئے اور جون ۱۸۵۷ء میں آپ کو پھانسی کی سزا دے دی گئی۔
بھوانی دین ۔ آپ ۱۸۵۷ء کی جدو جہد آزادی میں شامل تھے۔آپ نے دوسرے لوگوں کو بھی انگریزوں کے خلاف اکسایا۔آپ پر انگریز فوجیوں پر حملہ کرنے، چوری اور قتل کا الزام لگا اور آپ کی کل جائیداد ضبط کر ۱۸۵۷ء میں پھانسی کی سزا دے دی گئی۔
دیوی چند ۔ آپ الہ آباد کٹرہ کے رہنے والے تھے۔۱۸۵۷ء کی جدوجہد آزادی میں فعال رہے۔انگریزی خزانہ لوٹ کر اس سے اسلحے خریدنے میں آپ شامل رہے۔ انگریزوں کے خلاف ایک ریلی کرتے ہوئے انھیں گرفتار کیا گیااور ۱۸۵۷ء میں بغاوت کے الزام میں درخت سے لٹکا کر پھانسی دے دی گئی۔
دیوی ۔ آپ الہ آباد کے ہی رہنے والے تھے اور ایک انگریز افسر کے ڈرائیور تھے۔۱۸۵۷ء میں آپ نے ملازمت کو خیر باد کہہ انقلابیوں کا دامن تھام لیا۔آپ نے انگریزوں کا خزانہ لوٹنے میں ان کی مدد کی ۔ انگریزوں سے معرکہ آرائی کے دوران آپ گرفتارہوگئے۔آپ پر انگریز سرکار سے بغاوت اور خزانہ لوٹنے کا الزام لگا اور ۱۸۵۷ء میں آپ کی پوری جائیداد ضبط کر پھانسی دے دی گئی۔
دیا پرساد ۔ آپ کٹرہ الہ آباد کے باشندے تھے۔۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں آپ شامل رہے۔انگریزوں کا خزانہ لوٹنے اور اس سے اسلحے خریدنے میں بھی آپ کا نام آیا۔الہ آباد میں چھاپے کے دوران انگریز فوجیوں نے آپ کو گرفتار کر لیا۔ آپ پر انگریزوں سے بغاوت اور خزانہ لوٹنے کا الزام لگا کر درخت سے لٹکا کر پھانسی کی سزا دی گئی۔
دوارکا ۔آپ الہ آباد میں پیدا ہوئے اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مختلف جگہوں پر انگریزوں سے مورچہ لیا ۔آپ اپنے ساتھیوں کو بھی انگریزوں کے خلاف اکساتے رہے۔الہ آباد میں انقلابیوں کے خلاف چھاپے ماری کے دوران ۱۸۵۷ء میں آپ گرفتار ہو گئے۔ آپ پر انگریزوں کے قتل اور بغاوت کا الزام لگا اور آپ کی بھی پوری جائیداد ضبط کر سزائے موت دی گئی۔
انعام خان ۔ آپ کٹرہ الہ آباد کے رہنے والے تھے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے دوران آپ نے انگریزوں کے خلاف مورچہ سنبھالا۔انگریزی خزانے کو لوٹ کر انقلابیوں کی ضرورت پر اسے خرچ کیا۔الہ آباد میں برٹش چھاپے ماری کے دوران آپ گرفتار ہوئے ۔لوٹ اور بغاوت کے الزام میں آپ کو پھانسی دے دی گئی۔
عماد علی ۔ آپ الہ آباد کے رہنے والے تھے اور انگریز سرکار کے کسی محکمے میں ملازم تھے۔ آپ ترک ملازمت کر انقلابیوں کے ساتھ ہو لئے اور مختلف جگہوں پر انگریزی فوجوں سے مقابلہ کیا۔پھر آپ لکھنؤ چلے گئے اور وہاں بھی آپ کی انقلابی کار گذاریاں بدستور جاری رہیں۔آخر کار گرفتار ہوئے اور جون ۱۸۵۷ء میں آپ کو مچھی بھون لکھنؤ میں پھانسی دے دی گئی۔
غلام شیخ ۔ آپ الہ آباد کے شمال مغربی علاقے کے رہنے والے تھے۔جنگ آزادی میں آپ نے اپنے علاقے کے لوگوں کا ساتھ دیا۔انگریزی خزانہ لوٹنے اور اس سے اسلحہ خریدنے میں بھی شامل رہے۔برٹش فوج نے جب الہ آباد مارچ کیا تو آپ گرفتار ہو گئے۔لوٹ اور بغاوت کے الزام میں آپ کو درخت سے لٹکا کر پھانسی دے دی گئی۔
اس زمرے میں ایک لمبی فہرست شامل ہے جن میں الہ آباد کے رہنے والے لوگوں کی انقلابی کار کردگی ، انگریزی فوجوں کے ذریعے گرفتاری اور اس کے بعد ان کی جائیداد کی ضبطی اور پھانسی کا ذکر ہے ۔ ان کے نام اس طرح ہیں ؎
غضنفر علی، ہنگون مسلمان، ہلاس، حسین خان، حیدر، جگو، جھنو، ججو، کاسیگیر گوسائیں، خدا بخش، خوشحال خان، کریم بخش، لال چند، لعل خان، لودی، لعل چند، مدارا، ماتا دین، مولا بخش، محمد علی، محسن خان ، منگو، منو خان، منور، موتیا پاسی ہنڈیا، نور الدین، نبی بخش میواتی، رام لال، رام پرساد، رامدین، رگھوبھر، رقیم بخش، سدین، سیف اللہ ، سلامت علی منصف، سلامت علی کوتوالی، شیخ نور ، شیر خان اور سیوال وغیرہ۔
یہ ایک بستے میں بند تقریباً پچاس لوگوں کی روداد ہے جنھیں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں ہمیں تحریری
دستاویز حاصل ہیں۔ ایسی لاتعداد فائلیں الہ آباد اسٹیٹ آرکائیوز میں محفوظ ہیں جو اپنے پڑھے جانے کی منتظر ہیں۔یہ نستعلیق میں لکھی گئی ہیں جو اس وقت عدالت کی زبان ہوا کرتی تھی۔حکومت ہند نے آزادی کے متوالوں کو یاد کرنے کا ایک سرکاری موقعہ ہمین فراہم کیا ۔۷۵؍ ہفتے کی مدت میں ہم نے اس موقعے کی مناسبت سے کتنا کام کیا؟ نستعلیق سے واقفیت رکھنے والوں کی ذمہ داری کیا ہونی چاہئے؟ جنگ آزادی کے اسباب و علل کیا تھے ؟ایک صدی پر محیط اس جنگ کے مثبت اور منفی پہلوکیا ہیں؟ حصول آزادی کے بعد ہم کہاں ہیں ؟ان سوالوں کا جواب پانے کے لئے ہمیں ان بستہ بند فائلوں کو کھولنا پڑے گا۔شاید یہی ان جاں بازان آزادی کو سچا خراج عقیدت بھی ہوگا۔
ایم بی بی ایس 2024 میں داخلہ لینے والی طلباء کی حوصلہ افزائی
پروفیسر صالحہ رشید ، سابق صدر شعبہ عربی و فارسی ، الہ آباد یونیورسٹی نے گذشتہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو...