زمین و آسمان، چاند سورج ستارے، دریا و سمندر، شجر و حجر، سیارے اور کہکشاں اور اس طرح کی چیزیں جو دنیا کیلئے زینت ہیں سب اللہ کی تخلیق کردہ ہے، وہ ہر ذرّہ کا مالک ہے اس کی دسترس سے ایک تنکا بھی باہر نہیں، ہر چیز پر اسی کا حکم چلتا ہے چاروں طرف اسی کی حکمرانی ہے، سارا نظام عالم اسی کے ہاتھ میں ہے وہی قانون کا مالک ہے ہر چیز کے اصول و ضوابط اس کے پاس موجود ہے، لہذا جو بھی اس کے نظام میں کتر بیونت کریگا وہ اس کی سزا پاے گا دنیا کتنی طاقتور ہو جائے مگر اس کی طاقت کے آگے ساری طاقتیں ہیچ ہیں ، ہر انسان کیلئے ایک حد مقرر ہے اس سے باہر نکلنا اس کیلئے پریشانی کا باعث ہے، اگر چادر چھوٹی ہو تو پاؤں پھیلانے سے پاؤں باہر آہی جاے گا اور جب پاؤں باہر نکل جاتاہے تو پھر انسان کو تکلیف ہونے لگتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اچھائی اور برائی کو واضح کردیا ہے اچھائی کی راہ پر چلنے والوں کیلئے انعام اور برائی کی راہ پر چلنے والوں کیلئے سزا مقرر ہے،
دنیا میں مذاھب بہت ہیں ہر مذہب کا اپنا ایک قانون ہے اور ہر مذہب کے ماننے والوں کا اپنا اپنا مذہب جان سے بھی زیادہ عزیز ہے اپنے مذہب کے خلاف ادنیٰ سی زبان درازی برداشت نہیں ہوتی، لیکن ان تمام مذاھب میں جو سب سے برتر اور افضل ہے وہ "" مذہب اسلام ہے" جو سراپا خدائی قانون ہے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس مذہب سے بڑھ کر اور کوئی مذہب نہیں ہے، اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو انسان کو انسان بناتا ہے ، حیوانیت سے نکال کر انسانیت کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے ، ظالم و مظلوم حاکم و محکوم، آقا و غلام کے فرق کو بتاتا ہے الغرض پوری انسانی رہنمائی اس میں موجود ہے، مگر اس مغرور اور ہٹ دھرم دنیا کو اسلام اور اس کے ماننے والوں سے سخت نفرت ہے، اور یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ازل سے چلا آ رہا ہے، جب سے اسلام کا ظہور ہوا اسی وقت سے اسلام کے خلاف چالیں چلنی شروع ہوئیں اور شیطان نما انسانوں نے اس کو مٹانے کی انتھک کوشش کرڈالی لیکن چونکہ یہ خدائی قانون ہے اس لئے یہ اتنا ہی ابھرتا گیا جتنا کہ اس کو دبانے کی کوشش ہوتی رہی، انہیں شیطان نما انسانوں کی نسل آج بھی موجود ہے جو اپنی پرانی روش پر قائم ہیں جو اسلام کو مٹانے اس کے اصول کو بدلنے اس کے شعائر کو ختم کرنے کی خوب جدو جہد کررہے ہیں، ان کو نفرت اس قدر بے کہ وہ اس کی گنگناہٹ تک نہیں سننا چاہتے، یورپین ممالک کی بات تو دور کی ہے ہم اپنے ملک ہندوستان کی بات کررہے ہیں جو ایک جمہوری ملک ہے، جس کا دعویٰ سیکولرازم کا ہے، یہ ملک مختلف مذاھب کا سرچشمہ ہے ہر رنگ و نسل کے لوگ یہاں موجود ہیں اور یہی اس ملک کی خوبصورتی ہے، لیکن اس کو بھی نظر لگ گئی اور اسلام دشمنی میں اب یہ ملک بھی کوشاں ہے، آئے دن اسلام کے خلاف طوفان برپا کردیا جاتا ہے، کبھی اس کے قانون پر ڈاکہ زنی ہوتی ہے تو کبھی اس کے شعائر مٹانے کی کوشش ہوتی ہے،کبھی اس کے ماننے والوں کے خلاف قانون بنایا جاتا ہے تاکہ اس ملک سے اسلام کا نام و نشان تک نہ رہے، حکومت کی طرف سے کوشش بھر پور ہے ۔ طلاق کا مسئلہ جو سالوں سے زیر بحث تھا بالآخر خدا کے اٹل قانون پر پابندی عائد کردی، رام مندر کا ایشو جو برسوں سے حل نہیں ہو رہا تھا اس کو بھی غیر منصفانہ فیصلہ کرکے مندر میں تبدیل کردیا، اب۔۔۔۔
آلہ آباد ہائی کورٹ نے آذان پر پابندی عائد کردی، لہذا اب وہاں مائک کے ذریعہ آذان نہیں دی جا سکے گی،
ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے خاص طور سے اتر پردیش میں آذان کے سلسلہ میں کئی بار ہنگامہ ہوا بڑے بڑے لیڈروں نے آذان کے خلاف زہر افشانی کی مگر افسوس تو یہ ہے کہ وہاں کی حکومت اور وہاں کی عدلیہ بجائے اس کے کہ ان لیڈروں پر کارروائی کرتی جمہوریت کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے وہاں کی عدلیہ نے آذان پر پابندی عائد کردی، گویا کہ اب سنودھان کے خلاف یہ ملک اب جانے لگا اور سنودھان کے خلاف لے جانے والے یہ عدلیہ ہیں ججوں کی گردن میں تلوار لٹک رہی ہے کہ اگر وہ اسلام کے خلاف قانون نہیں پاس کرے تو پھر اس کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے گا، یہ ملک اسلام دشمنی میں اس قدر آگے نکل چکا ہے کہ آذان کی آواز جو مشکل سے پانچ منٹ میں ختم ہو جاتی ہے اس آواز سے بھی تکلیف ہونے لگی لیکن شیطان ان کے کانوں میں دن و رات ڈھول بجاتا رہتا ہے اس سے تکلیف نہیں ہوتی اس سے ان کی نیند میں خلل نہیں پڑتا، انہیں شاید معلوم نہیں کہ اس آذان میں کس کا نام پکارا جاتا ہے اسی کا نام پکارا جاتا ہے جو اگر رحیم ہے تو قہار بھی ہے، اگر دنیا خدائی قانون کو مٹانے کے درپے ہو جائے تو تو پھر جس طرح خدا نے دنیا کو عدم سے وجود میں لایا ہے وجود سے عدم میں کردیگا، پھر کوئی طاقت کام نہیں آئے گی،
یہ قانون ایسے وقت میں پاس کیا گیا جبکہ دنیا ایک لا علاج بیماری سے جھوج رہی ہے، ہر طرف مہاماری کا ماحول ہے، دنیا حیران و ششدر ہے، سیاست دانوں کے ہوش ٹھکانے لگ چکے ہیں، بڑے بڑے سورماؤں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، طب کی دنیا کے ماہر کہلانے والے اس قدر بے بس ہیں کہ اس کا کوئی پرسان حال نہیں کثرت اموات اس قدر ہورہے کہ کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں، لا تعداد افراد اس سے متاثر ہے کوئی دوا نہیں جس سے علاج کیا جائے، بس ایک دوا ہے کہ بیماری اور شفاف دینے والے کے سامنے خود کو سرینڈر کر دیا جائے، اس کی طاقت سے مقابلہ نہ کیا جائے، اس کے قانون کے خلاف کوئی قانون نہ بنایا جائے،
اس وقت خاص طور سے ہندوستانی مسلمانوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے اور لاک ڈاؤن کی آڑ میں جو گندی سیاست کھیلی جارہی ہے اس سے باخبر ہوں کوئی ایسا موقع نہ دیں جس سے ہماری شریعت پر آنچ آئے اور پھر حکومت ہماری شریعت کے خلاف قانون بنانے لگے، نفرت کے اس ماحول میں ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے، اور اپنی جان سے بڑھ کر اپنی شریعت کی حفاظت کریں،
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...