"اللّٰہ تعالیٰ ذات و صفات میں یکتا اور بے مثل ہیں"
قرآن مجید میں اللّٰہ تعالٰی کا تعارف صفات کے حوالے سے کروایا گیا ہے۔ جنہوں نےصفات کی بجائے ذات پر غورکرنے سے اللّٰہ کوجانا تو انہی لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کو کسی نا کسی صورت میں تجسیم کیا یا پھر اللہ کے بارے مختلف نظریات جیسے تثلیث ، ہمہ اوست ، وحدۃ الوجود، وحدۃ الشہود اور حلولی جیسے نظریات کشید کر لیئے گئے۔
سورۃ الاخلاص میں ایسے تمام باطل نظریات کی نفی موجود ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ کی صفات کے بارے مغالطے کی وجہ یہ ہےکہ بعض لوگوں نے مخلوقات کی صفات کو اللّٰہ تعالٰی کی صفات کا عین ، عکس و پرتو سمجھا۔
بعض نے لکھا ہےکہ اللّٰہ تعالٰی نےانسان میں اپنی صفات کا کچھ شمہ ڈالا ہے۔ انسان کے اندر علم، فکر، شعور، ارادہ ، فیصلہ ، اختیاراور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں۔ وہ سب اللّٰہ تعالٰی کی صفات کے پرتو ہیں۔
قرآن مجید ایسے تصورات کو باطل قرار دیتا ہے۔
لیس کمثلہ شیء42/11
کائنات میں اللّٰہ تعالٰی کی ذات و صفات کی مثل کوئی بھی نہیں ہے۔
فلا تضربوا للّٰہ الامثال 16/74 ۔
اللّٰہ تعالٰی کی ذات و صفات مثالیں بیان نہ کرو۔
ولہ المثل الاعلیٰ 30/27 ۔ اللّٰہ کی صفات کی مثال اعلیٰ ہے۔
تثلیث، وجودی، شہودی اور حلولی نظریات کی عقل بھی نفی کرتی ہے۔
مثلاً سونا ایک دھات ہے۔ چاہیے جتنے بھی چھوٹے چھوٹے ذرات میں کر لیا جائے تو ہر ذرہ سونا ہی ہوگا۔
اللّٰہ تعالٰی کے سوا جوکچھ ہے۔ سب مخلوق ہے ۔ سورۃ الفاتحہ کی پہلی ہی آیت مبارکہ میں بتا دیا گیا ہے کہ اللّٰہ رب العالمین ہے اور عالمین مخلوق اور مربوب ہے۔
الحمد اللہ رب العالمین۔ (1/1)
اللّٰہ تعالٰی خالق ہے اور باقی سب مخلوق ہے۔ اللّٰہ تعالٰی مالک ہے اور مخلوق مملوک ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ کی صفت صرف حمد نہیں ہے بلکہ الحمد ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ
اللّٰہ ناظرہے ، سمیع اور بصیر ہے۔
انسان کے ذہن میں تصور بنتا ہے کہ
انسان بھی ناظر ہے۔ سمیع ہے اور بصیر ہے۔ یہ صرف لفظی مشارکت ہے ناکہ حقیقی اور معنوی مشارکت ہے۔
اللّٰہ تعالٰی ہر صفت پر ,ال، معرفہ یعنی کہ صفت خاص ہے جو کہ صرف اللّٰہ واحد کو لائق ہے۔
انسان صرف ناظر ہے۔ اللّٰہ تعالٰی الناظر ہے۔ انسان سمیع ہے۔ اللّٰہ تعالٰی السمیع ہے۔ انسان بصیر ہے۔ اللّٰہ تعالٰی البصیر ہے۔
دوسری بات کہ انسان کا وجود اور اس کی صفات مخلوق ہیں۔ انسان کی ذات و صفات ازلی و ابدی نہیں بلکہ فنا ہے۔
اللّٰہ تعالٰی اپنی ذات وصفات میں یکتا ہے۔اور ذات وصفات ازلی و ابدی ہیں۔
اللّٰہ تعالٰی کی صفات کا مخلوق کی صفات میں ایک شائبہ بھی نہیں اور نا ہی اللّٰہ تعالٰی کی صفات کا عکس و پرتو ہے۔
انسان سمیع اور ناظر ہونا عضویاتی ہے۔ اللّٰہ تعالٰی ذات کی صفات عضویاتی نہیں ہیں۔
یہ کہنا کہ انسان میں اللّٰہ تعالٰی کی صفات کا عکس و پرتو ہے۔ سراسر نفی قرآن ہے۔
اللّٰہ تعالٰی کی صفات مخلوق میں بیان کرنا گویا کہ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے سوا الہ بنانے کے مترادف ہے۔