اللہ تعالی نے رحم کا معاملہ فرمایا، خان جیت گیا ، پاکستان جیت گیا ۔
ہماری روحانیت میں جب بہت ساری رُوحیں کسی انرجی کی طرف رُخ کرتی ہیں اور دلوں کی دھڑکن میں وہ چیز سمو جاتی ہے تو پھر کائنات اُس کو پُورا کرتی ہے ۔ ایسا ہی ہوا ، ۲۲ کروڑ لوگوں کی آخر سنی گئ ۔ پاکستان جیت گیا ۔ آج مجھے CNN کہ کچھ منٹ ہہلے کا مضمون بہت پسند آیا جس میں جنرل غفور کا تزکرہ تھا کہ، الیکشن کہ فورا بعد اُس نے پاکستانیوں کا سازشیں ناکام بنانے میں شکریہ ادا کیا ۔ بی بی سی نے ابھی بھی زہر اُگلا پاک فوج کہ خلاف ۔ نواز شریف کا پیسہ دھرا کا دھرا رہ گیا ۔ کل نیویارک میں صحافی بہت پریشان تھے ، تقریباً ہر ایک نے شریفوں سے پیسہ پکڑا ہوا تھا ۔
میں نے کچھ دن ہہلے لکھا تھا کہ پہیہ آخر کار سیدھا گھومنا شروع ہو رہا ہے ۔ ایسا ہو گیا ۔ میں نے عمران خان کو ، ڈٹرٹے ، شیواز، اردگن اور ملا عمر کی لیگ کا تگڑا لیڈر گردانا تھا ۔ ایسا ہی ہوا ۔ وہ پاکستان کی تقدیر بدل دے گا ۔ یہاں امریکہ میں کل شام یہ خبر بھی بہت عام رہی کہ کل الیکشن میں خون خرابہ ہو گا اور پاکستان میں مارشل لاء لگ جائے گا ۔ بہت سارے امریکیوں نے مجھ سے پُوچھا ۔ اس سارے پروپیگنڈے میں پاک فوج panic نہیں کی ۔ میرا سلام ان فوج کہ افسروں اور سپاہیوں کو جنہوں نے الیکشن ڈیوٹی انجام دی اور جج حضرات اور اسکول اساتذہ کو جو پولنگ اسٹیشن میں مشکل حالات میں گرمی اور حبس میں ڈیوٹی دیتے رہے ۔
قوموں کا جزبہ دراصل جیتتا ہے ۔ ہمارا تو جزبہ اور ایمان ہی لٹیروں نے چھین لیا تھا ۔ دیکھنا اب عالمی برادری میں کس طرح پاکستان کی آؤ بگھت کی جائے گی ۔ ٹرمپ عمران کو red carpet استقبال دے گا ۔ لیڈر ملکوں کی تقدیر بدلتے ہیں ۔ پاکستان آگے بڑھے گا ۔ اپنی کھوئ ہوئ ساکھ انشاء اللہ بحال کرے گا ۔ جنرل باجوہ کا تحمل ، حوصلہ اور جمہوریت پر ایمان قابل ستائیش ہے ۔ امریکہ اور بہت ساری طاقتیں بشمول نواز شریف چاہتے تھے کہ وہ مارشل لاء لگائیں اور نیچے لگ جائیں ۔ حالات بھی ایسے پیدا کیے اور انہیں مجبور کیا ، لیکن وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے ۔ ایک بدمعاش جج کو الیکشن سے دو دن پہلے ایک بار روم میں فوج کہ خلاف کھڑا کر دیا گیا ۔ لیکن جنرل باجوہ کو پتہ تھا کہ پاکستان کی بقا جمہوریت میں ہے اور ہر تبدیلی اسی کہ زریعے لانی ممکن ہے ۔
آج پاکستان میں جشن کا سماں ہو گا ، ہر طرف روشنی ، چراغاں اور مٹھائ ۔ ہم پاکستانی جو باہر رہ رہے ہیں ان چند سیاسی گماشتوں کہ ستائے ہوئے وہ بھی بہت خوش ہیں ۔ میں نے ۲۰۱۱ میں شریفوں سے لڑائ جھگڑا کر کہ ، تنگ آ کر فیملی سمیت یہاں سیاسی پناہ لی ۔ ۲۰۱۳ کا الیکشن بھی ہم سے چھینا گیا ، شاید رب کو ان کو مزید زلیل کرنا منظور تھا ۔ جھوٹے ، چور اور ڈاکو کا دنیا میں کوئ مقام نہیں ہوتا، اس نے ایک نہ ایک دن زلت اور رسوائ کا سامنا کرنا ہوتا ہے ۔ ۲۲ کروڑ عوام کی آہیں لگ گئیں ، جو بھوک ، ننگ اور بیماری سے مر رہے تھے اور یہ اپنے سونے چاندی کہ محلوں میں آخری دم تک پاکستان کہ خلاف سازشیں کر رہے تھے ۔ سب کچھ شکست فاش میں بدل گیا ۔ ببلو ڈبلو کو اسحاق ڈار سمیت پاکستان واپس آنا ہو گا ۔ حساب دینا ہو گا ۔ یہ قدرت کا نظام ہے ، ہر شہنشاہ ، جنرل اور بادشاہ نے یہ بُھگتا ۔
آج تو واقعہ ہی میں حضرت واصف علی واصف کا نعرہ مستانہ پاکستان کہ چار سُو گونجے گا ۔
میں نعرۂ مستانہ، میں شوخیِ رندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا
میں طائرِ لاہوتی، میں جوہرِ ملکوتی
ناسوتی نے کب مجھ کو، اس حال میں پہچانا
میں سوز محبّت ہوں، میں ایک قیامت ہوں
میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ
کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں
خود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ
میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں
میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ
میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں
میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ
میں واصفِ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
اک ٹوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ
پاکستان پائندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔