جب ذیست کا ترازو تو حید کے دائرے سے باہر آتا ہے تو سوناچاندی جمع کرتے دست کے پلڑے کو اندر ہی اندر یوں ہلا دیتا ہے' جیسے سیلاب کی پیشگوئی'زلزے کا آغاز'بحر میں بھنور کا بہاؤاور طوفان میں طیش میں آتی ہواؤں کا رخ کیونکہ جو اس رب لم یزل کو نہ مانے جسکی ایک جھلک طور کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے'بلاشبہ اسکی ٹوٹ پھوٹ میں پھرکوئی نقطہ کار گر نہیں…شداد'فرعون'ہود ایسے ہی متزلزل نقطے ہیں پھر تم غور کیوں نہیں کرتے؟؟؟
"پیانو ان جیسا کوئی نہیں بجاتا اور وہ بھی پاؤں کی مدد سے'میں نے جب جب You are beautiful کی دھن سنی'مجھے لگا' اس سے ذیادہ قشر ارض پر کوئی ذی روح خوبصورت نہیں."
مسز لیاقت بڑے جذب سے اپنا خیال بیان کر رہی تھی."سنا ہے محض جلد کے ٹچ سے لیپ ٹاپ پر بہت معیاری کام کر لیتا ہے یہ'منہ کی حرکات کی مدد سے اس نے ایسے ایسے شاہکار مصوری بناۓہیں کہ نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک بھی اسے اعزازات سے نواز چکے ہیں.ان میں "Got talent " سر فہرست ہے." مسز ظفر کے لہجے میں رشک کی چاشنی تھی.
"بیوی مگر عام سی ہے ' ہاں یاد آیا خوش نویسی بطور بس "اللہ اکبر" لکھتا ہے پاؤں کی مدد سے.دست ناتواں کی انگلی یوں کھڑی رہتی ہے جیسے کہ رہا ہو "اللہ ایک ہے."
حروف کے تخت پر حسد اور بر تری کا احساس یکجا تھا. دونوں خواتین اپنے گھر کے سامنے بنے عالیشان مکان میں بیٹھے شخص کی شان میں ستائشی قلابے ملا رہی تھیں. جہاں وہ شخص براجمان تھا وہاں موجود کھڑکی پر پردہ گرا تھا'یکدم فضا کا فسوں مبہم ہوا تھا. اور رہ گئی تھی' پھر ہر شے بس بے معنی…!!!
کہر کا پالا طیش میں دھند کے بادل اٹھاۓ سحاب سے اٹھکھیلیاں کرتا ہنوز مگن تھا.چلغوزوں'ملوک'خشک خوبانی'بادام اور موم پھلیوں زرق برق طشتریوں میں نفاست سے قد آدم میز پر سجی تھیں.ٹائی ٹینک دیکھتے اصفہاد عدم کی گہری سرمئی آنکھیں گردوپیش سے بے نیاز فل سائز ایل سی ڈی کی سکرین پر یوں جمی تھیں جیسے شہد کی مکھیاں شہد بنانے میں شب و روز مگن رہتی ہیں.گاؤ تکیے کے مرکز میں کہنیاں ٹکاۓ ٹانگوں کے بل لیٹے اس کا کامل ارتکاز سامنے نظر آنے والی فلم پر تھا.شدید جاڑے کے عالم میں بھی وہ ایک آف وائٹ بنیان اور شارٹس میں ملبوس تھا.دائیں ہاتھ کی جانب ٹیبل لیمپ کے نزدیک دھری چاکلیٹ فلیور میں کافی یخ بستہ ہو چکی تھی.صاف شفاف کھڑکیوں سے ٹکراتی خنک ہوائیں اندر جانے کی تگ و دو کرتی بارہا واپس لوٹ رہی تھیں.ساکت ماحول پر قابض پر اسرار خامشی خوف کا عنصر پیدا کر رہی تھی.یکدم استغراق کے بحر میں لمعہ کا مبہم نقطہ ابھرا تھا.پاس پڑا قیمتی سلور کوٹنگ کور سے مزین آئی فون جھنجھناتا تقریبا چیخ ہی تو اٹھا تھا."وچ ازکالنگ یو!" سیل سکرین پر مختصر تحریر جل بجھ کر رہی تھی."یہ واصی بھی نا'ٹائی ٹینک کی ہیروئن کی طرح بصورت مقناطیس اپنی جانب کشش کرتی چلی جاتی ہے." کچھ کو فت کچھ محبت ان دونوں ہی احساسات نے اسے yes کا بٹن دبانے پر مجبور کر دیا تھا."سقراط کا کونسا مجسمہ بنا رہے تھے اصفہی! جو اسقدر تاخیر سے کال وصول کی؟یاتصور میں اس فلاسفر کے روایتی لیکچر میتھڈ سے محظوظ ہو رہے ہو گے یقینا!کبھی تو مجھے لگتا ہے تم چاننگ کے وہ فاتح گھوڑے ہو جو کریہ النظر ہونے اور بدترین کا لقب پانے کے باوجود بھی ریس میں کامیابی و کامرانی کاجھنڈا گاڑتے سونے کا کپ جیت لیتا ہے. تمہارا یہی قوی اعتماد ہے جو بطون سنگ سے پھوٹتے پھولوں کی طرح تمہیں بہت سے لوگوں میں نمایاں کر دیتا ہے'مگر نہیں موخر الذکر مجھے پھر خود ہی اپنے بیان سے اختلاف ہونے لگتا ہے کہ موصوف اصفہاد عدم تو خود اعتمادی اور لگن جیسی صفات رکھنے کے ساتھ ساتھ باخدا بے انتہا حسن کی دولت سے بھی مالا مال ہیں جو اپنے ہر کام کو بذات خود کرنے پر ترجیح دیتے ہیں'دوسروں پر تکیہ کرنا تو ان کی سرشت میں ہی نہیں."
اپنے ہلکے سنہری لمبے بالوں کو کمر پر گراتے بات کے اختتام پر اس کے پرکشش گندمی چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ ابھری تھی.جسکی وجہ سے رخسار پر پڑتاڈمپل اور لب کے عین اوپر سیاہ تل ماہ رخ ہو گیا تھا."واصی!تمہاری آنکھوں کی کھڑکیاں کچھ ذیادہ ہی اصفہی کے اندر جھانکنے نہیں لگیں؟" لہجے میں میٹھا سا طنز تھا."تمہیں کیا لگتا ہے؟" سوال کے جواب میں سوال تھا." میرے حلقہ احباب میں محض ایک عدد پیاری سی تو لڑکی ہے' جو نہ صرف میری کزن میری بہترین دوست بھی ہے'اس سے ذیادہ بہتر مجھے کون جانتا ہوگا!" اونٹ نے کروٹ بدلنے کی سعی نہ کی تھی.صاف گوئی واضح تھی. اسے معلوم تھا اب وہ فلم نہیں دیکھ سکے گا سو اس نے ایل سی ڈی کا سوئچ آف کر دیا تھا.دیر تک باتیں کرتے دونوں ہی سیل فون سینے پر رکھے گہری نیند میں جا چکے تھے. اصفہاد عدم کے گھنگھریاے بال اسکے متناسب سراپے پر خوب جچتے تھے.لب حزیں غنچہ دہن'اونچی آنکھیں عکاس ذہانت تو نوکیلی ناک اسکے اونچے خاندان اور اعلی مرتبہ ہونے کو ظاہر کرتی تھی.جہاں تعلیمی میدان میں اسکے نمایاں ریکارڈ تھے'وہیں کھیلوں میں بھی بہت کلیدی حصہ تھا.حسن و خوبصورتی کے ساتھ مزاج بھی قدرے فلسفیانہ تھا.مصوری اور فوٹوگرافی میں بھی بلا کی مہارت تھی.ہر کھیل خواہ اس کا تعلق جمناسٹک سے ہو'سرکس یا ویٹ لفٹنگ سے اصفہاد عدم کا دیکھنا ضروری تھا.ادبی اور شاعرانہ ذوق کے جراثیم وراثتی تھے.پکے راگ اور کتھک رقص اسے بے حد پسند تھے.جس سوسائٹی میں وہ موو کر رہا تھا وہاں ڈسکوڈانس میں کوئی اس سے سبقت نہ لے جاسکتا تھا.اعلی لباس'شاندار رہائش اور پر لطف مزیدار طعام اسکی زیست میں اولین درجے پر تھے.بحث و مباحثے میں بھی بڑھ چڑھ کر دوسروں پر خود کو قابل تسخیر ٹھہرانا اس کا محبوب مشغلہ تھا. بھوک'پیاس'رنج وغم سے اس کا براۓ نام پالا پڑتا تھا.محض بائیس برس میں ہی اپنی قابلیت کے جواہر عیاں کر کے اس نے کئی معرکے بلا خوف وخطر سر انجام دئیے تھے.شخصیت میں رعب اس قدر تھا کہ مخاطب کرنے والا پہلے سو دفعہ سوچنے کے مراحل سے گزرتا تھا. صنف نازک کا التفات بس اتنا تھا`جیسے آئل سے آب کا پل بھر کا ملاپ!
لب بام آفتاب گھر لوٹا تو دماغ میں عجب ہنگامہ خیزکیفیت تھی.تحمل اور ارادے کی قوت گونگی بنی مجھے خباثت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی.میرا جی چاہا میں چیخوں'چلاؤں مگر بے سود! حرکات و سکنات معلق تو لبوں پر قفل لگ گۓ تھے. سگریٹ کا ٹکڑا ازخود اچھل کر مرتعش دست سے پھسل کر دور جاگرا.ذہن پر کھنچاؤ سے پر تسلط تھا.سرکے ہر حصے میں گویا زلزلہ آگیا تھا."آئی نیڈ پیس…آئی نیڈ پیس!"(مجھے سکون چاہئیے) قلبی خانوں سے صدا ابھری تھی.بیشک اطمینان قلب اللہ کے ذکر میں ہے.ہوش و خرد سے بیگانہ وہ فرش پر ہی اوندھے منہ گر گیا تھا.
اصفہاد عدم ابھی پانچ برس کا تھا کہ عدم حیات ایک پلین کریش کی ناگہانی افتاد کا شکارہو گۓ.اصفہاد کے باپ کا دنیا سے جانا ایسے تھا جیسے خاندان ایک قیمتی وراثت سے محروم ہو جاۓ.دادا'دادی'نانا'نانی اور ماما جان سب سلامت اس کے لۓ توشئہ محبت کشادہ کۓ ہوۓ تھے.دنیا میں آنکھ کھولتے یہ پہلی خوش بختی تھی جو اس کے حصے میں آئی تھی اور اس کا وصول ناممکن کے دائرے پر ثابت قدم کھڑا تھا.بعد ازاں تو جیسے تقدیر کی نوازشیں ابر نسیاں بن کر چھانے لگی تھی.بیٹھے بیٹھاۓ تھالی میں چاند ستارے ملیں تو برا کیا ہے؟ اصفہاد عدم کی فتوحات بھی ایسے ہی حقائق کا پرتو تھیں. سواۓ واصیہ واثق جو اس کی پھوپھی ذاد کزن کے علاوہ ہمدرد'ناصح اور دوست بھی تھی.کبھی کوئی اس کے قریب نہ آسکا تھا.وجہ اس کی انتہائی ریزروڈ طبیعت اور حلقہ اساتذہ میں بڑھتی ہوئی مقبولیت تھی. ایک دفعہ مقیم درانی جو تاریخ کے شعبے سے تھے'نے ایک دفعہ طالبعلموں کے سامنے سوال رکھا کہ"کیا آپ نے کبھی یا آپکے آباء میں سے کسی نے قائداعظم کو اداس یا مسکراتے حقیقی طور پر دیکھا ہے؟"
سوال سامنے رکھتے سنجیدگی چہرے پر براجمان تھی." سر ہم تو اس دور میں تھے ہی نہیں'تو دیکھتے کیسے؟" علی جبار نے بر جستہ کہا تھا'ساتھ پیشانی پر بکھرے بال بھی سمیٹے تھے."برخوردار!خواب میں بھی تو دیکھ سکتے ہو نا" مقیم درانی نے نرمی سے جواب دیا."اور ہاں جنہیں جناح سے بہت محبت ہو'وہ تخیل کے تخت پر ان کی اداسی اور مسکراہٹ کی پرواز دیکھ سکتے ہیں."سب سے پیچھے موجود طالبعلم انور لودھی نے بھی ٹکڑا لگایا تھا."سر آپ کے پاس بیس کا نوٹ ہے" اصفہاد کے سوال پرسر سمیت سب ہی نے اسے اچنجھے سے دیکھا تھا."بیس کے نوٹ سے قائد کا کیا تعلق؟"مقیم درانی کا لہجہ تحیرو حیرت سے پر تھا.پھر بھی کچھ توقف کے بعد انہوں نے بیس کا نوٹ اسکی چوڑی ہتھیلی پر رکھ دیا تھا.اصفہاد نے نوٹ پر مبنی قائد کی تصویر پر جہاں آنکھیں بنی تھیں.دائیں اور بائیں آنکھ کی جانب سے اسکو تہ لگائی. پھر نوٹ ترچھا کرکے اپنی طرف سے سب کو دکھایا.سب خاموشی سے اس کی کاروائی دیکھ رہے تھے.کچھ نے تو دل میں اسے پاگل کا لقب بھی دے ڈالا تھا.قائد کی تصویر پر نظر پڑتے سب بیک وقت بولے تھے."قائد اعظم مسکرا رہے ہیں."اب اصفہاد نے نوٹ ڈھیلا چھوڑ رخ ان کی طرف کر کے پوچھا.اب نگاہوں کا زاویہ مختلف تھا اور قائد اداس لگ رہے تھے."گریٹ!برخوردار! "مقیم درانی نے اس کی پشت پر داد طلب تھپکی دی تھی. کمرہ ستائشی تالیوں سے گونج اٹھا تھا.خود بھی انہوں نے وہ عمل دہرایا اور اب اصفہاد کے ہم جماعت بھی یہ فعل بصد مسرت سرانجام دے رہے تھے.اس اثناء میں بیس کا نوٹ اپنی ہئیت کھوتے گاؤں کے سر پر سے سینگ کی صورت غائب ہو چکا تھا. اب مقیم درانی کو پانچ ہزار کی بجاۓ بیس کا نوٹ مانگنے کی منطق بخوبی سمجھ آ چکی تھی.
اصفہاد کو اٹھارہ برس کی عمر میں پیانو بجانے کاجی چرایا'بغیر کسی استاد کے جب پہلی ہی دفعہ اس نے مسحورکن دھن بجائی ہر کوئی اش اش کر اٹھا. موسیقی روح کی جان ہے اور دل اس کا ذہن'جبران کا یہ قول اس پر صادق آتا تھا. شاید ہی کوئی مشغلہ ہو جس پر موصوف نے توجہ نہ دی ہو ہاں ایک شے تھی'روپہلی شعاع تھی…مشرق تا مغرب پھیلی صدا تھی'مگر اس کی دسترس سے بہت دور دوا تھی'اس مرض کی جو اسے مغربی طرز کے خاندان میں پہلا قدم رکھتے ہی لاحق ہو گئی تھی…پرہیز کر نہیں سکتاتھا اور علاج کے اعداد وشمار رفتہ رفتہ اپنی سانس رکتی محسوس کر رہے تھے.
اس سے قبل کہ سحر کا غازہ نمودار ہوتا'شفق کی نارنجی نیلگوں رنگین پتیاں فلک پر منتشر ہوتیں'واصیہ اس کے گھر میں اسکے کمرے کے باہر پہنچ چکی تھی.اگر وہ اسے جادوگرنی کہتا تھا تو ٹھیک کہتا تھا.آلارم کئی بار بند کرکے وہ تکیہ سینے سے لگاۓ سونے کا شغل جاری رکھے ہوۓ تھامگر واصی کی دھماکہ خیز دستک نے چارو ناچار اسے اٹھنے پر مجبور کر دیا تھا."اصفہی عیان انکل کتنے دن سے فون کر رہے ہیں'کہیں فائلز میں گڑبڑ ہوگئی ہے.'کہ رہے تھے اصفہی کو بھیج دینا.سہولت سے مسئلہ حل ہو جاۓ گا.اور ہاں وہ انا بی(دادی جان) بھی گلہ کر رہی تھی کہ کبھی مسجد کا بھی چکر لگا آیا کرو.جلال (کلاس میٹ)کے سی ڈی روم میں بھی ایشو آ رہا'وہ بھی تمہیں یاد کر رہا تھا.کئی لوگوں کے ذہن میں تو اپنے پیچیدہ کاموں کی تکمیل کےلۓ صرف "اصفہاد عدم" کا نام آتا ہے. ابھی تک تم ہر شے تسخیر کر تے آۓ ہو کبھی ہار کا منہ نہیں دیکھا.سجدۂ شکر تو واجب ہے نا تم پر" اندر داخل ہوتے ہی نان سٹاپ واصیہ شروع ہو چکی تھی.چہرے سے خفیف خفگی کے تاثرات ظاہر تھے."آفس چلا جاؤں گا'وہاں سے واپسی پر جلال سے بھی مل لوں گا'مسجد میں نہیں جا سکتا'میں ان سب چیزوں کو نہیں مانتا.نماز پڑھوں گا تو کامیابی ملے گی…سجدہ کروں گا تو ثروت ملے گی…تلاوت کروں گا تو ذبان پاک رہے گی…نیکیاں کروں گا تو جنت ملے گی…انف واصی…انف!میری ذیست کبھی ان مدارج کی پابند نہیں رہی اور نہ آئندہ ایسی امید رکھنا.ماما جان سوشل ورک کریں'دادی تادیر عبادت کریں'تم خود کو سات پردوں میں ڈھانپ کر رکھو'دادا ابا دن بھر ایل سی ڈی پر مصروف رہیں'آئی ڈونٹ کئیر!(میں پروا نہیں کرتا) پھر کیوں یہ لوگ یا تم سبق سکھاتے رہتے ہو مجھے؟؟؟" اپنا مدعا گوش گزار کرکے اسکا تنفس تیزی سے چلنے لگا تھا.جہازی سائز بیڈ کے کنارے پر دھری کوک اس نے غٹاغٹ کھڑے کھڑے منہ میں انڈیلی تھی اور واصی کو جھٹکا دے کر اپنے سامنے کیا تھا.اگر وہ توازن قائم نہ رکھتی تو براہ راست اس کے سینے سے جا لگتی."اگر تم ایسے ہی رہے تو انابی کی خواہش میں پوری نہ کر سکوں گی.میں تم سے شادی نہیں کروں گی اصفہی!" واصی کے لہجے میں لکنت اور آنکھوں میں بھیگا پن تھا."ہا ہا ہا!" اس کی بات سنتے اصفہی نے ذور دار قہقہ لگایا تھا.اور واصی غصے سے دھاڑ دروازہ بند کرتے پل بھر میں باہر تھی.اصفہاد کو پتہ تھا اگلے دن پھر وہ ساحرہ آ موجود ہوگی. اور واصی کو علم تھا اسکے کہے سارے کام ہونگے سواۓ عبادت کے. اکثر ہی ان کی بحث کا اختتام ایسے ہی ہوتا تھا.ادونوں ایک دوسرے کی رگ رگ سے واقف تھے. نہ انا بی کی تبلیغ اس پر اثر کرتی اورنہ ہی واصی کی ناصحانہ گفتگو!
اور تم میں سے بعض ایسے ہیں کہ بہت کچھ جاننے کے بعد بے علم ہوجاتے ہیں…!
جو کچھ مجھ میں ہے'وہ ختم ہونے کی سرحد پر ہے.گویا پر تمازت دھوپ برف کے وجود کو برہنہ کرتی ساری دنیا پر تصرف کی آڑ میں ہے.خزاں زدہ پتوں کی مانند میرے اعضاۓ رئیسہ کے خامرے بکھر رہے ہیں.فکر کی سطح پر سفر کرتے عزم فنا ہورہے ہیں.قل من علیہ فان…ہرشے فانی ہے!میرا وجود ان چہار حروف قوی کے گرد گردش کرتا تکبرگزیدہ آسماں بنا بڑی شان و شوکت سے آفتاب پر نگاہ دوڑا رہا ہے.کیا جسد خاکی سے جب بقاء خائف ہو جاۓ گی'تو کیا میری روح جو اذیت و کرب کے پندار پر تعظیم و تکریم لۓ دولت و ثروت لۓ رو رہی ہے'چلا رہی ہے…نہیں…میں غلط ہوں شاید میری تو ذبان گنگ ہو رہی ہے…حقیر خرد الوہیت کی مٹھی میں گہری میٹھی نیند لینے کے لۓ مستعد ہے.سماعتیں سطحی ہوئی ہیں.فنا کی ڈور گردن پر باندھے کوئی عین شارگ کے قریب ہے اور قلب حیراں'قلب ویراں'قلب زنداں بس قالب سے نکلتا'بھٹکتا اور کھنچتاچلا جارہا ہے…میری محبت متحرک ہے اور اس کے آنسو تہی دست تہی داماں گرتے خشک ہونے کی جہد میں منتشر ہوتے جا رہے ہیں جیسے ساحل پر نمو کے کنج پر فرشتہ اجل اپنے سفید پر بکھراۓ ذیست کو خاکستر کا پیرہن ودیعت کر کے بس دھول ہو جانے کے لۓ دست بستہ ہے اور میرا وجود تو ابدیت سے تغافل آتش ہے'یہ کیسے مٹی کو اوڑھے گا؟؟؟مخمسے گورکھ دھندہ بنے ہیں اور میں صور پھونکنے کے انتظار میں ہوں…!!!
اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو…! رسی تنگ ہو رہی تھی اور ڈھیل دینے والا بھی سرعت سے رسی کھنچ رہا تھا."انا بی!یہ کیسا حافظ قرآن ہے جس نے سات سال تک اس پاک کتاب سے رشتہ استوار رکھا اور اب ایسے غافل ہے جیسے جانتا نہیں اس کے اندر کیا ہے؟بند کانوں سے میری بات سنتا ہے اصفہی!میں کیا کروں" شدید حالت بے بسی میں آنسو روکتے واصی نے انا بی کی گود سے سر اٹھایا تھا."ایک تمہاری تو سنتا ہے کچھ'ہمیں تو کب کا ایک طرف کر چکا نواب صاحب!"انی بوا نے ضیعف دست سے اسکے آنسو پونچھے اور بولی. "عیان علوی کا فون آیا تھا'کہ رہے تھے.اہم فائلز کا کچھ تو کام ہو گیا تھا مگر کچھ کو ادھورا چھوڑ دیا اصفہی نے'طبیعت میں بیزاری'کھنچاؤ کا سا سبب بتا رہا تھا." انا بی کے چہرے پر تفکر کے بادل تھے."ہفتہ ہو گیا میری بھی بات نہیں ہوئی." واصی کے لہجے میں تشویش کا عنصر تھا.
اگلا دن چہ میگوئیاں کرتا نمودار ہوا تھاگویا دھوپ چھاؤں کی آنکھ مچولی کھیلتا بادلوں کو بارش پر اکسا رہا تھا."السلام علیکم انا بی!"واصی نے بڑاگیٹ عبور کرتے سلام کیا."جیتی رہو'پیاری لڑکی'تم پر بھی سلامتی ہو." وسیع لان میں اخبار پڑھتی انا بی نے فوری جوابدیا. اصفہی پر اس کی نظر پڑی تو وہ آڑھا ترچھا لیٹا خلاؤں میں گھور رہا تھا."حال کیسا ہے یاربیمار کا"واصی اسکے سرہانے بیٹھ گئی تھی."جسم غیر متحرک ہوا جا رہا'ہاتھ سن'زبان ساکت اور زیریں حصہ بے جان سا لگ رہا."اصفہی کی عین آتشی'لہجہ شکستہ اور لسان میں لکنت واضح تھی."اپنا جان و دل صانع ازل کو بخش دو.جسد خاکی مادی ماحصل ہر شے کو پھانسی دو'اس کتاب کو کھولو جو ابدیت اور فنا کے اسرار سے مزین ہے'ہاتھ بلند کرو'گریہ اتنا کہ ساری کثافتیں دھل جائیں'جیسے بعد ابر رحمت ہر شے شفاف ہو جاتی ہے.وہ دیکھو!باہر."واصی کی صداۓ نم اسے سرگوشی سی محسوس ہوئی تھی.کھڑکی سے نظر آتی موسلا دھار بارش کی بوندیں دیکھتے اصفہی کی نگاہیں مرتعش تھیں."ڈاکٹر عدن احزم فالج کے اثرات بتا رہے تھے'ادویات کا استعمال جاری ہے.مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات!"اضطراب ہی اضطراب تھاٹوٹے پھوٹے حروف میں.
" مجھے سب بھول گیا ہے واصی!وہ شخص کہیں میرے اندر دم توڑ رہا ہے.جسے ہر آیت کے اعدادوشمار ازبر تھے'جو ہر امتحان میں کبھی اول سے نیچے نہیں آیا'جس کی 'میں' کے آگے کسی کی 'ہاں' نہیں چلتی تھی'جس کے آگے ہر شخص کے دلائل چھوٹے پڑ جاتے تھے.جس کی کوئی خواہش کبھی تشنہ نہیں…!!!" پرزورجھٹکا لگا تھا 'لفظوں نے ساتھ چھوڑ دیااور لب ہاۓ حزیں ساکت دو کی ساکھ میں مربوط ہو گۓ تھے. اندرآواز معدوم اور باہر بوندوں نے دم توڑ دیا تھا. واصی کے آنسو اور انابی کی تسبیح کے دانے بکھر رہے تھے.دونوں کوسمیٹنا مشکل نہیں مشکل ترین ہو گیا تھا.واصیہ کو کن فیکون سے اب مانگنا تھا'کاسئہ دعا دراز کرنا تھا' جو سب کو سب کچھ دیتا ہے سواۓ ہدایت کے'جو بناء مانگے نہیں ملتی. "
جہاں تک کیس ہسٹری کا علم بتاتا ہے' اسکے مطابق مریض نے سگریٹ نوشی اور چکنائی والی اشیاء کا بھر پور استعمال کیا ہے.لہذا کولیٹرول بڑھ گیا ہے اور خون کے جمنے کی بدولت دماغی خلیوں کو خون کی فراہمی میں دقت پیش آ رہی ہے.وہ آکسیجن اور شوگر سے محروم ہیں'پس دماغی خلیے شدید متاثرہیں. انجیوگرافی اور سی ٹی سکین یہی کہتی ہے کہ فوری آپریشن ہونا چاہئیے.بعض اوقات دماغ کی رگ بھی پھٹ جاتی ہے.جوبہت جان لیوا امر ہے.اصفہاد ہاتھ پیروں کو حرکت نہیں دے رہا.ٹانگیں اور بازو بھی کمزور ہونیکے ساتھ زبان بھی عارضی طور پر غیر متحرک ہو چکی ہے.پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ کروڑ فالج زدہ افراد میں سے ساٹھ لاکھ تو موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں.یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ اصفہاد کی قوت استعداد بے حد ذیادہ ہے." ماما جان'واصیہ' دادا اور دادی جو کل ہی دبئی سے آرجنٹ پاکستان آۓ تھے سب دم سادھے ڈاکٹرعدن کو سن رہے تھے.سب ہی آپریشن کے حق میں تھے.مگر واصی کچھ اور چاہتی تھی اور اس سلسلے میں وہ اپنا کام تقریبا مکمل کر چکی تھی.دادا ابا امریکہ لے جانے کے حق میں تھے'خود واصی کے والدین کا بھی یہی خیال تھا.
کتنے دن ہوگئے تھے.صداۓ یار نہ آئی تھی.
رات چپ چاپ دبے پاؤں چلی جاتی ہے
صرف خاموشی ہے'روتی نہیں'ہنستی بھی نہیں
کانچ کا نیلا سا گنبد بھی اڑا جاتا ہے
خالی خالی کوئی بجرا سا بہا جاتا ہے
چاند کی کرنوں میں وہ روز سا ریشم بھی نہیں
چاند کی چکنی ڈلی ہے کہ گھلی جاتی ہے اور سناٹوں کی اک دھول اڑی جاتی ہے
کاش اک بار کبھی نیند سے اٹھ کر تم بھی
ہجر کی راتوں میں یہ دیکھو تو کیا ہوتا ہے…..!!!
بے شمار شبوں کی جاگی آنکھیں پی سی میں سی ڈی لگاتے سیلاب بنی تھیں.اصفہاد کا وجود بے حس و حرکت تھا.رخ خاموش نے نگاہیں جھپکی تھیں'چشم تمنا محصور ہوئی تھی.پردے پرانکشافات وا ہوۓ تھے."جس ذمین پر ہم رہتے ہیں.وہ ایک عام آدمی کے حجم کے مقابلے میں 30 عرب کھرب گنا بڑی ہے.جبکہ ہمارا سورج ہماری ذمین سے دس لاکھ گنا بڑا ہے.اسکے مقابلے میں بیٹا کوری نائین نامی ستارہ ہمارے سورج سے بھی 50 لاکھ گنا بڑا ہے.اسکے بعد بیٹل جوس نامی ستارہ ہےجو ہمارے سورج سے 30 کروڑ گنا بڑا ہے'اور پھر vy cani smajori کی بڑائی کا تو کیا کہنا یہ ستارہ سورج سے 1 عرب گنا بڑا ہے.جس کہکشاں میں ہم رہتے ہیں'اس کا نام ملکی وے اور صرف 1 کہکشاں میں مثل سورج 300 عرب سے ذائد سورج اور یہ کہکشاں اتنی بڑی کہ اگر ہم کسی ایسی چیز میں سوار ہو جو 1 سیکنڈ میں ذمین کے گرد 7 چکر لگانے والا ہو تو اسکو بھی اس کہکشاں کو پارہ کرتے1 لاکھ سال لگ جائیں گے.Andromeda جو ہماری کہکشاں سے 2 گنا یعنی 2 لاکھ نوری سال وسیع و عریض مگریہ بھی چھوٹی ہے.M81 کہکشاں ہماری کہکشاں سے 60 گنا بڑی ہے.سو گنا بڑی ہے."اصفہاد کو لگ رہا تھا جیسے کوئی قلب و روح کو جھنجھوڑتا اسے حرکت دینے کی مساعی میں محو ہو.گوشئہ عین تر بہ تر تھے اور کمرے میں دو نفوس کے مابین خامشی کی بین کرتی سسکیوں کا ایک تلاطم تھا.اصفہاد ولا کا ہر فرد رب سے راز و نیاز میں منہمک تھا."جیسے ستاروں سے کہکشائیں بنتی ہیں اسی طرح کہکشاؤں سے کلسٹر بنتے ہیں'اور جس کلسٹر میں ہماری کہکشاں' وہ virgo ہے اور محض اس ایک کلسٹر میں 7000 کہکشائیں ہیں'اور کلسٹر بھی ملکر سپر کلسٹر بناتے ہیں'جہاں ہم رہتے وہ لوکل سپر کلسٹر ہے'اس میں سو اور اس سپر کلسٹر جیسے کم و بیش 1 کروڑ سپر کلسٹر ہماری کائنات میں موجود ہیں'جو ایک معمولی عظیم جان میں نقطوں کی مانند دکھائی دیتے ہیں اور اس سب کو صرف ایک ذات "اللہ" نے بنایا ہے. ساکت لب پھڑا پھڑا اٹھے تھے."اللہ اکبر" کی صدا سے…اصفہاد عدم کا ہر ایک عضو "اللہ اکبر" کی گواہی دے رہا تھا.واصیہ بے اختیار سجدے میں گئی تھی. اس ذات عالیشان کے آگے امریکہ تو کیا سب کی تکنیکس ہیچ ہیں. "اور انہوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی'جیسی اسکی قدر کرنے کا حق تھا(اور اس کی بڑائی کا یہ حال ہے کہ) قیامت کے دن ذمین اسکی مٹھی میں ہو گی اور تمام آسمان اسکے سیدھے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے…!!!"
(سورۂ ذمر آیت 67 )
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1740612599538773/
“