نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد خان مغربی پاکستان کے گورنر تھے ـ امریکی کانگریس کے اراکین ان کی ملاقات کے لئے آئے۔ نواب صاحب کی عادت تھی کہ وہ لوگوں کے مسائل بذاتِ خود کچہری لگا کر سنا کرتے تھے اور اس میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا تھا۔ امریکی وفد کی موجودگی میں بھی یہ کچہری جاری رہی اور وہ بغور یہ سب کچھ دیکھتے رہے ـ نواب صاحب ہمیشہ انشاء اللہ کی جگہ خالص میانوالی کے لہجے میں ’’ اللہ کریسی ‘‘ یعنی اللہ کرے گا کہا کرتے تھے چنانچہ وہ کسی سائل کی بِپتا سنتے تو ازالے کےلئے احکامات جاری کرنے کے ساتھ ساتھ شکایت کنندہ کی تسلی کے لئے ‘اللہ کریسی’ کہتے جاتے۔۔۔۔
کچہری ختم ہوئی تو ایک امریکی رکنِ کانگریس نے پوچھا: بیوروکریسی ، ٹیکنوکریسی وغیرہ تو سنا تھا لیکن یہ ’’ اللہ کریسی‘‘ کونسا سا سسٹم ہے ؟
نواب صاحب نے مسکرا کر جواب دیا: اللہ کریسی وہ نظام ہے جس پر پاکستان چل رہا ہے.
اب اس واقعہ کی حقیقت کیا ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مملکت خداداد کا نظام واقعی ہی اللہ کریسی کے تحت چل رہا ہے ۔اس بات کی تصدیق آپ خود بھی اپنے گردوپیش کا جائزہ لے کرکرسکتے ہیں آپ کو اللہ کریسی کا نظام ہر جگہ نظر آئےگا۔ادارے ، افسران اور ان افسران کے نیچے کام کرتے ہوئے بابو سب علامتی اور محض رسمی کاروائیاں کرتے نظر آئیں گے تاکہ مملکت کا نظم ونسق چلتا ہوا نظر آئے ۔
ٹریفک کو دیکھ لیں ۔دنیا میں ہر جگہ ٹریفک قوانین لاگو ہیں جبکہ یہاں پر جو بھی بخریت گھر پہنچا اللہ کے فضل وکرم سے ہی پہنچا ہے ۔امن وامان کے قیام کے لیئے دنیا بھر کے ممالک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کام کرتے ہیں جو جرائم پیشہ افراد کو پکڑتے ہیں تاکہ معاشرہ میں امن ہو اور لوگ سکون کی زندگی بسر کرسکیں ۔جبکہ ہمارے ہاں اگر کہیں پر ڈکیتی ہوجائے تو شریف آدمی تھانے جانے سے کتراتا ہے اور جس کا مال اسباب محفوط رہتا ہے وہ صرف اور صرف اللہ کریسی کی بدولت محفوظ ہوتا ہے ۔وگرنہ زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ اس عہد ناگوار میں ہر غریب کی جمع پونجی لٹ رہی ہے مگر ہمارے سلطان ہیں کہ اپنی بھول کو ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں ۔
صحت کی سہولیات کو دیکھ لیں کہ دیہاتوں میں اتائی اب مسیحا بنے ہوئے ہیں اور بیمار ان سے علاج کے بعد شفا یاب بھی ہورہے ہیں اور یہ سب اللہ کریسی کی ہی بدولت ہے۔تعلیم کے شعبہ کی تو حالت ہی ابتر ہے جان بوجھ کر یہاں حالات ٹھیک نہیں ہونے دئیے گئے کہ اگر تعلیم کا معیارہر خاص وعام کے لیئے بہتر کردیا تو کل یہ نوکری مانگیں گے قانون کی بالادستی کی بات کریں گے ۔لہذا اتنی حوصلہ شکنی کرو کہ پرائمری سے ہی لوگ مایوس ہوکر بھاگ جائیں اور جو کسی نا کسی طرح پڑھ لکھ گئے تو اس کا کریڈٹ اللہ کریسی کے علاوہ کس کو دے سکتے ہیں ۔
70سال سے زیادہ ہوگئے ملک کو بنے ہوئے نا تو جمہوریت راس آئی اور نا ہی آمریت کو اپنا سکے ۔گویا اپنا حال بھی اس نامراد عاشق سا ہے جو محبوب پاس ہوتو بھی بے چین اور محبوب دور ہوتو پھربھی اضطراب کا شکار ہوتا ہے ۔آمریت میں جمہوریت کی یاد ستاتی ہے اور جمہوریت میں ہم سڑکوں اور چوراہوں پر جانے کی باتیں جانے دو کے پوسٹر لگاتے پھرتے ہیں ۔
معاشی حالت یہ ہے کہ اپنی چادر دیکھ کر پاوں کبھی نہیں پھیلائے ۔مغلیہ دور چلا گیا مگر سر سے شاہی عادات نہیں نکل سکیں بوئے سلطانی ہے کہ ختم نہیں ہورہی شاہی عادات ہیں کہ الامان الحفیظ۔ ملک کا سال کا اخراجات کا گوشوارہ بناتے ہیں جس میں آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہوتے ہیں ۔خسارے کے بجٹ پر جب زہین فطین ماہر معاشیات سے پوچھا جاتا ہے کہ خسارہ کیسے پورا ہوگا تو جواب جو بھی ملے اس کا بہرحال مطلب یہی ہوتا ہے کہ اللہ کریسی کجھ نا کجھ انتظام ہو ویسی ۔
قرض کی مئے پیتے ہیں سیاست سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور حوصلہ یہ کہ دنیا کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں ۔کرہ ارض پر موجود ہر پنگے میں ہاتھ ڈالنا فرض اولین سمجھتے ہیں ۔گویا اپنے عہد کے بنی اسرائیل بنے ہوئے ہیں لاڈ کیئے جارہے ہیں اور قرض کا من وسلویٰ ہے کہ اترتا جارہا ہے مگر بھوک ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔
معاشی حالات سے سے بے خبر ہم لوگ لانگ مارچ نکالنے اور اس لانگ مارچ کو روکنے میں مصروف ہیں ۔سیاسی اشرافیہ کے ایک طبقے کے مطابق کل کے چور آج سازش کرکے تخت نشین ہوگئے ہیں جبکہ دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ آج کا چور سازش کرکے گزشتہ کل اقتدار میں آیا تھا ۔چور چور کا کھیل جاری ہے ۔بالفرض دونوں کا موقف درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر ان چوروں کو پکڑنے والے کہاں ہیں قانون کہاں ہے ؟
زندگی اس سے زیادہ سہل کیا ہوگی کہ کروڑوں لوگ سیلاب کی وجہ سے ازیت بھری زندگی گذارنے پر مجبور ہیں اور ہم جمہوریت کو بچا رہے ہیں ۔ہماری سیاسی اشرافیہ نے کبھی سوچا ہے کہ جاڑے کے دنوں میں بنا گھر کے کون سکون کی نیند سوسکتا ہے ۔مگر قدرتی آفات سے کون لڑسکتا ہے یہ تو تقدیر کا لکھا ہے ۔کتنا آسان ہے اپنی نالائقیوں اور نااہلی کو تقدیر کا نام دے کر جان خلاصی کرلینا سو تقدیر میں لکھا تھا تو ایسے ہوگیا پہلے بھی تو قدرتی آفات آتی رہی ہیں پہلے بھی اللہ کریسی نے مدد کی اور اب بھی اللہ کریسی کا نظام دکھوں کا مداوا کرئے گا۔کیوں کہ کامل ایمان ہے کہ ہم کچھ کریں یا نا کریں اللہ ضرور کریسی ۔
اندھوں کا دیس
"اندھوں کا دیس" انگریزی ناول نگار ہربرٹ جے ویلز نے اس کو پہلی مرتبہ 1936 میں پبلش کیا گیا تھا...