(Last Updated On: )
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اُٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب ِ بقائے دوام لا ساقی
محلہ مصطفیٰ آباد کے معمر محنت کش اللہ دتہ چھاپہ گر نے چودہ اگست ۲۰۲۱ء کی صبح عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ صر صر ِاجل سے محنت کی عظمت کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی زمیں بوس ہو گئی۔وہ نخل تناور جو ایک صدی تک خود کڑی دُھوپ میں جل کر دُکھی انسانیت کے لیے خنک چھاؤں فراہم کرتارہا اب ماضی کاحصہ بن چکاہے ۔ وہ شمع بُجھ گئی جس کی ضیا پاشیوں نے گزشتہ آ ٹھ عشروں میں سفاک ظلمتوں کو کافور کیا ۔ ستاروں کے گھرانے سے یہ خورشید صفت انسان غروب ہوگیا جس کی زندگی کا مقصد مصائب و آلام کی ظلمتوں کو کافور کرنا تھا۔اپنا تعلق محض زمیں سے رکھنے والے اور آسمان کی جانب للچائی نظرو ںسے نہ دیکھنے والا وہ نخل تناور اجل کے وار سے کٹ گیا ۔جس نے رہ نوردانِ شوق کو ہمیشہ اپنی چھاؤں میں جگہ دی ۔میں علی الصبح تعزیت کے لیے اللہ دتہ چھاپہ گرکے گھر پہنچاسورج کی پہلی کرن جب اُدا س بام اور کُھلے درپر پڑی تو اجل کی اس تحریرنے مجھے متوجہ کیا کہ کارِ جہاں میں حیات محض ایک لفظ ِ نا معتبر ہے ۔تعزیت کے لیے آنے والے جگر فگارو ںنے جب ڈوبتی آنکھو ںسے سوگوار پس ماندگان کے چہرے دیکھے تواُن کی آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں ۔حیرت وحسرت کے عالم سب سوگوار اسی نتیجے پر پہنچے کہ اس فانی جہان میں انسان کے سب ارادے ریگ ِ ساحل پہ نوشتہ وقت کی تحریرکے مانند ہیںجنھیں اجل کی ایک لہر مٹاکر نکل جاتی ہے ۔رفتگاں کی یادیں جو پرچھائیاںچھوڑجاتی ہیں وہ الم نصیب پس ماندگان کو سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیتی ہیں ۔یہ شہر نا پرساں جہاں ہر کوئی اپنی فضا میں ہمہ وقت مست دکھائی دیتاہے وہاں زندگی کی اقدار عالیہ پر جان کنی کا عالم ہے ۔یہ عجیب شہرہے جس پر اکثر لوگوں کو کوفہ کے قریب ہونے کا گماں گزرتا ہے۔
احساسِ زیاں کی شدت کے باعث کچھ سمجھ نہیں آتا کہ اِس باکمال صناع ،محنتی دست کار ،بے لوث خادم خلق اوریگانۂ روزگار ڈیزا ئنرکے بارے میں اپنی بات کہاں سے شروع کروں ؟فضاؤں میں اس کی عطر بیزیادی ںاس طرح بکھری ہیں کہ جس سمت بھی نگاہ اُٹھتی ہے اس کی صد اسنائی دیتی ہے ۔ایام گزشتہ کی کتاب کی ور ق گردانی کرتاہوں تو جو واقعات سامنے آتے ہیں ان کے مطابق میر ے والدرانا سلطان محمود نے سال ۱۹۶۶ء میں مصطفیٰ آباد جھنگ شہرکی نئی بستی میں چھے مرلے قطعہ ٔ اراضی خریدا اوراس میں سر چھپانے کے لیے ایک کٹیا تعمیر کی ۔یہاں کے اجنبی ماحول میں یہاں کے جن مکینوں سے ہماری پہلی ملاقات ہوئی اُن میں اللہ دتہ چھاپہ گر اور اُس کے افرادِ خانہ شامل ہیں ۔ اس ملاقات میں دردمندی اور خلوص کا جو رشتہ استوار ہوا وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پختہ تر ہو تاچلا گیا۔
زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے مصائب و آلام کے پاٹوں میں پسنے والے مجبور اور بے بس و لاچار انسانوں کی زبوں حالی ،پریشانی اور درماندگی میں داد رسی کرنے والادیانت دارمحنت کش اللہ دتہ چھاپے گر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا سے اُٹھ گیا اور اہلِ درد کی آ نکھیں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں ۔اس کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر دِل بیٹھ گیا اور دل میں اک ہُوک سی اُٹھی۔اللہ دتہ چھاپے گر جھنگ کا ایک گم نام مگر بے حد نیک نام بزرگ محنت کش تھا ۔اس بے ثبات کارِ جہاں میں رہتے ہوئے خدمت خلق کے کاموں میں ہمہ تن مصروف رہنے والے اس عظیم انسان کی یادیں لوحِ دِل پر ہمیشہ ثبت رہیں گی اور اس کی بے تکلفی کی مظہر سادگی ،اپنائیت ، بے لوث محبت ،ایثار ،خلوص اور دردمندی سے دامنِ دِل سدا معطر رہے گا ۔وہ اقلیم معرفت کاایک ایسا فقیر تھا جس کے مسلک میں جھکنااور بِکنا کبھی شامل نہ رہا ۔اس نے کسی صورت میں بھی درِ کسریٰ پر صدا نہ کی اورسدا عزت نفس اور خودداری کا بھرم برقرار رکھا ۔اس نے اپنے احباب پر یہ بات واضح کر دی تھی کہ جاہ و حشمت کی ان نشانیوں اور کھنڈرات میں جامد و ساکت پتھروں ،سنگلاخ چٹانوں اور عبرت کی مظہر حنوط شدہ لاشوں سے وابستہ داستانوں کے سوا کچھ بھی تو نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ وہ قلعہ ٔ فراموشی کے کرتا دھرتاکسی عوج بن عنق یا تیامت سے ہراسان نہ ہوا۔ اس کی دائمی مفارقت نے پس ماندگان کی حیاتِ مستعار کو غم کے فسانے میں بدل کر اس دنیا کے آئینہ خانے میں ایک تماشا بنا کر رکھ دیا۔سب پس ماندگان سوچتے ہیں اب دعائے نیم شب میں الم نصیبوں کو یاد کون کرے گا ۔
آستین کے سانپوں ،زاغ وزغن ،بوم و شپر اور کرگس سے نفرت کرنے والا یہ جری محنت کش زندگی بھر طوفانوںکے سامنے سینہ سپر ر ہااور ہوائے جورو ستم میں بھی رُخِ وفا کو فروزاں رکھنے کی سعی میں مصروف رہا۔ اُس کی موت کے صدمے نے سب احباب کی روح کوزخم زخم اور دِل کو کِرچی کِرچی کر دیا۔موت کے بارے میں یہی کہاجاتا ہے کہ یہ ہمیشہ زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے۔ان با کمال ہستیوں نے اپنی موت کی آہٹ سُن کر بھی زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ۔تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جانے والے ان زیرک ،فعال اور مستعد صناعو ں نے خونِ دِل دے کے گلشنِ صنعت و حرفت کو اس طرح سیراب کیا کہ اس کے معجز نما اثر سے گلشن ِ فن میں گل ہائے رنگ رنگ سے سماں بندھ گیا اور ان کی عطر بیزی سے قریہ ٔ جاں معطر ہو گیا ۔ اللہ دتہ چھاپہ گر اس تلخ حقیقت سے آگاہ تھا کہ مشعلِ زیست کے گُل ہونے کے خطرات کو کسی طور بھی ٹالا نہیں جا سکتا لیکن خوف اوراندیشوں کے سم کے مسموم اثرات سے گلو خلاصی ممکن ہے۔ اللہ کریم نے اللہ دتہ چھاپہ گر کو مستحکم شخصیت سے نوازا تھا اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ زندگی کے سفرمیں جب بھی کوئی موہوم ڈر یا اضطراب سد راہ بنتا تو وہ اپنے قدموں کی ٹھوکر سے اسے دُور کر دیتا اور کبھی دِل میں ملال نہ آنے دیتا۔اس نے موت کو کبھی دل دہلا دینے والا لرزہ خیز سانحہ نہیںسمجھابل کہ وہ جانتا تھا کہ رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے،انسان کا نہ توہاتھ اس کی باگ پر ہے اور نہ ہی پائوں رکاب میں ہیں۔ کسی بھی وقت اور کسی بھی مقام پر اس کی روانی تھم سکتی ہے۔اس کی زندگی کے نشیب و فراز کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ واضح کر نا چاہتا تھا کہ ماحول کی سفاکی کے باعث جب آہیں اور وفائیں بھی اپنی تاثیر سے محروم ہوجائیںتو زندگیاں بھی مختصر ہو جاتی ہیں۔گلزارِ ہست و بُودمیں سمے کے سم کے ثمر سے ایسی فضا پیدا ہو جاتی ہے کہ نرگس کی حسرت کی صدائے باز گشت کرگس کی کریہہ صورت میں دکھائی دیتی ہے اور بقا کی تمنا اپنی ہر اداسے فنا کے سیکڑوں مناظر سے آشنا کرتی ہے ۔خزاں کے اس نوعیت کے بے شمار تکلیف دہ مناظر کو دیکھنے کے بعد طلوعِ صبحِ بہارا ں کی اُمید وہم و گُماںاور سراب سی لگتی ہے۔اللہ دتہ چھاپے گرکے فن میں نُدرت ،تنوع اور جدت پر مبنی خیال آفرینی دیکھنے والے کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔کورانہ تقلید سے اسے سخت نفرت تھی اس لیے وہ خضر کا سودا چھوڑ کر اپنے فن میں اظہار و ابلاغ کی نئی راہیں تلاش کرنا زندگی بھر اُس کانصب العین رہا۔اس کے تیار کیے ہوئے ڈیزائن کلیشے کی آلودگی سے پاک ہو تے تھے ۔اس کے دل کش ،حسین اور منفرد بلاکس میں ہرلحظہ نیا طُور نئی برق ِتجلی کی کیفیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ تخلیق ِفن میں اُس کا مرحلہ ٔ شوق پیہم نئی منازل کی جانب روا ں دواں رہتا ہے ۔ مثال کے طوروہ اپنے بلاکس میں نئے پھولوں ،نئی کلیوں ،نئے بیل بُوٹوں ،نئے حاشیوں اور جاذب نظر پتوں ،ٹہنیوں ،شاخوں اور شگوفوں کے بر محل نقوش سے اپنی دست کاری کو گنجینہ ٔ معانی کا طلسم بنا دیتا ہے ، بھنورکے بھید ،خیال کی جوت ،جھرنے کا ساز،کوئل کی کوک ،گیت کی لے ،وقت کی نے اور خوابوں کے سرابوں جیسے چونکا تصورات اُ س کے بلاکس میں نمایاں ہیں جن میںزندگی کی کم ما ئیگی کا احساس دیکھنے والے پر فکر و خیال کے متعدد نئے در وا کرتا چلا جاتا ہے۔وہ اچھی طرح جانتا تھاکہ موت کی دیمک ہر فانی انسان کے تن کو چاٹ لیتی ہے مگر فن اندیشہ ٔ زوال سے ناآشنا ہے ۔وہ چشمِ تصور سے زندگی کی راہوں میں ناچتی ،مسکراتی اور ہنستی گاتی موت کی اعصاب شکن صدا سُن کر بھی دِ ل ِ برداشتہ نہیں ہوتا تھابل کہ نہایت جرأت کے ساتھ اپنے فن کو تزکیہ ٔ نفس کا وسیلہ بناتاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ پس نوآبادیاتی دور میں پاکستان کے طول و عرض میں اللہ دتہ چھاپہ گر کے فن کی دھاک بیٹھ گئی اور لو طویل مسافت طے کر کے اس سے لکڑی کے بلاک بنوانے کے لیے اس کے گھر آتے تھے ۔ زندگی کی حقیقی معنویت کے عکاس اُس کے بلاکس اس کے داخلی کرب اور سچے جذبات کے مظہر ہیں ۔موت کی دستک سُن کر وہ موت کے بارے میں جن چشم کشا صداقتوں کا اظہار کرتا ہے وہ زندگی کی حقیقی معنویت کو سمجھنے میں بے حد معاون ہیں۔ا س کی دست کاری کا بہ نظر غائر جائزہ لینے کے بعدقاری کے لیے اپنے آنسو ضبط کرنا محال ہو جاتا ہے۔اس حساس تخلیق کار کی دلی کیفیات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں جو موت کی دستک زنی کے دوران بھی اپنے قلبی احساسات کوپیرایہ ٔ اظہار عطا کرنے میں پیہم انہماک کامظاہرہ کرتا رہا۔
اپنے کمالِ فن سے ایک عالم کو مسحور کر دینے والے دست کار اللہ دتہ چھاپہ گرکے ہاتھوں سے اجل کے بے رحم ہاتھوں نے ہتھوڑی اور تیشہ چھیں لیا۔مختلف کپڑوں پر پرنٹ کی جانے والے گل ہائے رنگ اور بیل بوٹوںکے لکڑی کے بلاکس بنانے میں اللہ دتہ چھاپے گر کوجو مہارت حاصل تھی اس میں کوئی اس کاشریک و سہیم نہ تھا۔ وہ اپنے فن کا خود ہی موجد اور خاتم تھااُس کی پیروی کرنے والے اُس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے ۔آرٹ اور ڈیزائن کے رمز آشنااس لا فانی دست کار کی وفات پر غرقاب ِ غم اور نڈھال ہیں ۔کسے معلوم تھا کہ وہ ہاتھ جنھوں نے ایک صدی تک فیشن اور ڈیزائن کو نیارنگ اورنیا آ ہنگ عطاکیااپنے فن کو اوجِ کمال تک پہنچانے کے بعد ہمیشہ کے لیے بے حِس ہو جائیں گے اور شوق کے سب سلسلے تھم جائیںگے ۔اللہ دتہ چھاپہ گرکی رحلت سے لکڑی کی بلاک سازی کے فن کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچاہے ۔اُس نے بہت کوشش کی کہ اپنے کسی شاگرد کو یہ فن منتقل کر دے مگر اُس جیسی طباعی اور اختراع کسی نو آموز کے بس کی بات نہیں ۔میں نے جب اس دست کار کے جسد خاکی پر آخری نظر ڈالی تو میرے دِل میں خیال پیداہوا جس طرح گلزارِ ہستی میں پیہم عنبر فشانی میں مصروف گلِ تر اپنی عطر بیزی کے منابع سے ،ثمر ِ نورس اپنی حلاوت کے ذخیرے سے،بُور لدے چھتنار اپنی گھنی چھاؤں کی اداؤ ں سے،دریا اپنی طغیانی سے ،حسنِ بے پروا اپنی حشر سامانی سے ،اُٹھتی جوانی اپنی طبع کی جولانی سے،سمندر اپنی گہرائی سے ،کلام ِ نرم و نازک اپنی ہمہ گیر گرفت و گیرائی سے ، شعلہ اپنی تمازت سے ،گفتار اور رفتار اپنے معیار اور نزاکت سے ،کردار اپنے وقار سے ،جذبات و احساسات مستقبل کے خدشات اور اپنی بے کراں قوت و ہیبت سے ، نو خیز کونپلیں اپنی روئیدگی سے ، سمے کا سم کے اپنے ثمر سے ،قوتِ عشق اپنی نمو سے ، سادگی اپنے در پئے پندار حیلہ جُو سے، گنبد نیلو فری کے نیچے طیور کی اُڑان گھات میں بیٹھے صیاد کی مچان سے ،خلوص و دردمندی اپنی خُو سے ،حریت ِ ضمیر اپنے خمیر سے ،موثر تدبیر سوچنے والے نوشتۂ تقدیر سے،ایثار و عجز و انکسار کی راہ اپنانے والے جذبۂ بے اختیار کی پیکار سے ، حسن و رومان کی داستان جی کے زیاں سے ،جبر کی ہیبت صبر کی قوت سے ،ظالم کی واہ مظلوم کی آہ سے ،چام کے دام چلانے والے مظلومو ں کے ضمیر کی للکار سے اور تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے فراعنہ جاہ و حشمت کے طومار سے وابستہ حقائق کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اسی طرح ایک فطری تخلیق کار،دست کار اور صناع کے قلزم ِ خیال کا پانی اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ وہ زندگی بھر اس کی غواصی کرنے کے باوجود تخلیقی عمل کے پس پردہ کا فرما محرکات کے تاب دار موتی بر آمد کرنے سے قاصر ہے ۔
لکڑی کے بلاک بنانے والے ایک ماہر دست کار کی حیثیت سے اللہ دتہ چھاپہ گر کو ہرقسم کی لکڑی کی شناخت تھی ۔ وہ شیشم کی پختہ اور کالے رنگ کی لکڑی سے اصل بلاک تیار کرتا۔اس بلاک کی نقل کے لیے وہ سرس کی سفیدلکڑی کا انتخاب کرتاتھا۔ کپڑے پر چھپائی کرنے والے دست کارپہلے اصل بلاک کسی خاص رنگ میں بھگو کر سفیدکپڑے پر لگاتے اس کے بعد اسی نشان پر نقل والا بلاک کسی اور محلول میں بھگوکو کپڑے پر لگایا جاتااور یوں آرٹ و ڈیزائن کا نادر نمونہ سامنے آتا۔ وطن عزیز کی ٹیکسٹائل مِلز اور اُونی کپڑے بنانے والے کارخانوں میں گزشتہ نصف صدی سے چھپائی کے لیے جو بلاکس استعمال ہوتے چلے آرہے ہیں اُن میں سے اکثر اسی لافانی صناع کی فکر وخیال اور جدت وتنوع کے مظہر ہیں۔ اللہ دتہ چھاپہ گرکو نو خیز پودوں اور درختوں سے بہت محبت تھی اوران درختوں پر رہنے والے طیور کے آشیانوں کو وہ بڑی توجہ سے دیکھتا تھا ۔وہ خشک لکڑی کو دیکھ کر بتا دیتا تھا کہ یہ کس درخت کی لکڑی ہے اور اس درخت کی نشو و نما کس علاقے میں ہوئی ۔درخت کے تنے کی لکڑی دیکھ کر وہ درخت کی عمر بتا دیتا تھا ۔ اپنے بلاکس کے لیے لکڑی کے انتخاب کے لیے وہ لکڑ منڈی کا رخ کرتااور وہاں آرے سے اپنے کام کے لیے درکار سائز کے بلاکس تیار کر ا کے گدھا گاڑی پر لادکر اپنے گھرلاتا۔ان بلاکس کونمی اور دیمک سے محفوظ رکھنے کے لیے وہ تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرتا۔ہر معاملے میں احتیاط سے کام لینا اس دست کار کا شیوہ تھا۔خاص طور پر تعلق اوررشتے کے معاملے میں اپنے من کی غواصی کر کے فیصلہ کر نے کا عادی تھا۔جسے وہ دِل میں جگہ دے کرعہدِ وفا استوارکر لیتااس کے بعد زندگی بھر کے لیے اُس عہد کو علاج ِ گردش ِلیل و نہارقرار دیتاتھا۔اپنے ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے پیش آنے والا یہ دست کار محنت و مشقت کے افق سے غروب ہو گیا مگر ایسی روشن لکیر چھوڑ گیا جو آنے والی نسلوں کے لیے راستے کی نشان دہی کرتی رہیں گی ۔
ہجوم غم میں دِ ل کو سنبھالتے ہوئے میں نے اللہ دتہ چھاپہ گر کے یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھا ۔سب بچے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور دائمی مفارقت دینے والے اپنے عظیم محسن کی خدمت میں جذبات حزیں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے ۔مصطفیٰ آباد کی وہ تنگ سی جس میں اللہ دتہ چھاپہ گر کا بسیرا تھا وہاں ہر طرف ہُو کا عالم تھا۔ایسا محسوس ہوتا تھاکہ قزاق اجل نے یہاں کے مکینوں کا سکونِ قلب لُوٹ کر الم نصیب سوگوارو ںکو غرقابِ ،حواس باختہ اور نڈھال کر دیاہے ۔ یہ صورت ِ حال دیکھ کر مجھے یہ خیال آیا کہ موت یاس و ہراس کے سو اکچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے ۔ عزیزہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور یہ عنبرفشاں پھول شہر ِخموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں ۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جا تی ہے اس کے بعد فضائو ں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میں اُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و ذکاوت میں ان کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ الم نصیب پس ماندگان کے لیے موت کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے ۔ دائمی مفارقت دینے والے عزیزوں کاآخری دیدار کرنے کے بعد ایسا محسوس ہوتاہے کہ فرشتہ ٔ اجل نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے اور ہم اس کے بغیرسانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں ۔ اپنے رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی ، اذیت ناک محرومی اور عبر ت ناک احساس ِزیاں کے باعث ہوتی ہے ۔رفتگاں کاغم بھی ایک متلاطم بحرِ ذخار کے مانند ہے جس کے مدو جزر میں الم نصیب انسانوں کی کشتی ٔجاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے ۔ غم و آلا م کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت ومسرت کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح ،ذہن اورقلب کی اتھاہ گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے ۔کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو کبھی مصائب و آلام کی یہ بلاخیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔ یاس و ہراس ،ابتلا وآزمائش اور روحانی کرب و ذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روزمیں دِ ل گرفتہ پس ماندگان کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ ٔ کار نہیں کہ وہ باقی عمرمصائب و آلام کی آگ سے دہکتے اس متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارہ ٔ عافیت پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤ ں مارتے رہیں ۔کئی بار ایسا بھی ہوتاہے کہ ہمارے عزیز رفتگاں ہماری بے قراری ، بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھا تے ہیں کہ اب دوبارہ ملاقات یقیناًہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہوگا۔سینۂ وقت سے پُھوٹنے والی موجِ حوادث نرم و نازک ،کومل اورعطر بیز غنچوں کو اس طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر دیتی ہے جس طرح گرد آلود آندھی کے تند و تیز بگولے پھول پر بیٹھی سہمی ہوئی نازک، نحیف و ناتواں تتلی کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں ۔پیہم حادثات کے بعد فضا میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے قلبِ حزیں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں ۔کہکشاں پر چاند ستاروں کے ایاغ دیکھ کردائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے ۔تقدیر کے ہاتھوں آرزووں کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ، خوشبو،رُوپ ، چھب اور حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ روح کے قرطاس پر دائمی مفارقت دینے والوں کی یادوں کے انمٹ نقوش اور گہرے ہونے لگتے ہیں ۔ان حالات میں قصرِ دِل کے شکستہ دروازے پر لگا مشیت ِ ایزدی اورصبر و رضا کا قفل بھی کُھل جاتاہے اور آہ و فغاں کی صورت سامنے آتی ہے ۔سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں،من کے روگ،جذبات ِ حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے اس طرح سامنے آتی ہیں کہ دِ ل دہل جاتا ہے ۔ سیل ِ زماں کے مہیب تھپیڑے اُمیدوں کے سب تاج محل خس و خاشاک کے مانند بہالے جاتے ہیں اورتمناؤں کے سبزہزار بھی رفتہ رفتہ وقت بُرد ہو جاتے ہیں ۔ جنھیںہم دیکھ کر جیتے تھے ان سے وابستہ یادیں اور فریادیں ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو جاتی ہیں ۔ دائمی مفارقت دینے و الوں کی زندگی کے واقعات تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں ۔ جب ہم راہِ عدم پر چل نکلنے والے اپنے عزیزوں کا نام لیتے ہیں تو ہماری چشم بھر آ تی ہے ۔ ہجومِ غم میں گھرے ہم اپنا دل تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں اس طرح جینے کے لیے جگر کہاں سے لائیں ؟
اللہ دتہ چھاپہ گر کو انسان شناسی کی جو صلاحیت عطا کی گئی تھی وہ اپنی مثال آپ ہے ۔کسی بھی شخص سے سر راہے سرسری سی ملاقات میں بھی وہ اس شخص کے کردار کے بارے میں ایسی جچی تُلی رائے دیتاکہ واقف ِ حال لوگ اس بصیرت افروز مطالعۂ احوال پرششدر رہ جاتے ۔اُس کی شگفتہ مزاجی اور تکلم کے سلسلوں پر لوگ اشاش کر اُٹھتے تھے ۔میرے بھائی شیر محمد نے مجھے بتایا کہ جون ۱۹۹۰ء میں ایک پر اسرار شخص تھری پیس سوٹ پہنے،سر پر ہیٹ رکھے اور بند بُوٹ پہن کر سرگودھا روڈ پر بابا سلطان سے ملنے آیا ۔بابا سلطان کے بیٹوں نے حسب ِ معمول نووار د اجنبی کو اپنے مہمان خانے میں بٹھایا اور ٹھنڈے مشروبات سے مہمان کی تواضع کی اوراُسی وقت بابا سلطان کو مہمان کی آمد سے مطلع کیا گیا۔ اسی اثنا میں اللہ دتہ چھاپہ گر کسی کام کے سلسلے میں بابا سلطان کے گھرپہنچا ۔اس مہمان کی ہئیت کذائی دیکھ کر اللہ دتہ چھاپہ گر نے بہت رازدارانہ انداز میں شیر محمد کو بتایا کہ یہ شخص سازندہ ،طبلچی یاڈھولچی ہے اور اس مسخرے نے جولباس پہن رکھا ہے وہ لُنڈے بازار سے خرید ا گیا واسکوڈے گاما کے زمانے کے کسی مرے ہوئے گورے کی یادگارہے ۔تھوڑی دیر کے بعد بابا سلطان بھی وہاںپہنچ گیا ۔باباسلطان نے مہمان کوایک طر ف بلایا،اُس کی بات سُنی جس نے کہا میری کچھ امداد کرو ۔بابا سلطان نے اس افسر نماپُر اسرا بھکاری کو دس روپے کا نوٹ تھما یا اور اُسے چلتا کیا ۔مہمان کے جانے کے بعدبابا سلطان نے بتایا کہ یہ طوفانی سرکس کا طبلہ نواز اور مہامسخرا رمجی اُٹھائی گیراہے۔رات کے وقت سر کس کے کھیل میں اِسے جس شدید طنز و تضحیک کا نشانہ بننا پڑتاہے اس کا ازالہ کرنے کی خاطر یہ دن کے وقت لوگوں کو مرعوب کرنے کے لیے نو آبادیاتی دور کے فرنگی افسروں کا بھیس بنا کر اہلِ کرم کا تماشا دیکھتاہے ۔
جب بھی اللہ دتہ چھاپہ گر سے ملاقات ہوتی وہ پرانے آشنا چہروں اوردائمی مفارقت دینے والے احباب کو یاد کر کے غموں کے ازدحام میں دِل کو سنبھالنے کی تلقین کرتے ۔چند روز قبل میں ان سے ملنے گیا تو اُس نے اپنی بزم ِ وفا کے رفتگاں کو یادکر کے اپنے دِلِ حزیں کو ان کی یاد سے آباد رکھنے کی سعی کی ۔مجھے ایسا محسوس ہوایہ یاد ایک دل گرفتہ شخص کی فریاد کی صورت اختیار کر گئی ہے ۔اس ملاقات میں اُس نے عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھنے محنت کشوں ،صناعوں ،دست کاروں اور خلقِ خدا کیی بے لوث خدمت کرنے و الے آفاق پر سے گہنا جانے والے جن ستاروں کویاد کیاان میں اللہ بخش ،، نو ر محمد ،رانا سلطان محمود ،شیر محمد ،منیر حسین ،سجادحسین ،بابانتھو،شہاب الدین ،بابا نورا،بابا شادی ،کرم حسین چودھری ،حق نواز چودھری ،بشیراحمد چودھری ،حکیم محمد نواز ،محمد رمضان،بہاول ،یارا ،بہادرا،شاہ محمد،حکیم محمد بخش ،حیدر،گھومی ،موسیٰ ،حکیم احمد بخش ( چونی والا حکیم ) ،اللہ دتہ حجام ( ایک آنہ لے کر بچوں جوان اور بوڑھے مَردو ںکی حجامت کرنے والا )،کرمو ںموچی ( جس کا ذکر قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں کیا ہے ) تایا نثار ،خیر دین ، غلام عباس رکشاوالا ،ککی ماچھی،فیض اللہ اور ابراہیم کے نام شامل ہیں ۔اس ملاقات میں اللہ دتہ چھاپہ گر نے گلو گیر لہجے میں کہا :۔
’’ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے زندگی کے متعدد واقعات اور ان سے وابستہ شخصیات کو اس طرح بہا لے جاتے ہیں کہ ایام گزشتہ کی کتاب میں رقم حقائق خیال وخواب کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ہماری محفل سے کیسے کیسے پیارے لوگ اُٹھ گئے ۔جب میں اُن کے بارے میں سوچتا ہوں تو دِل بیٹھ جاتاہے ۔پرِ زمانہ بلاشبہ پرواز ِ نور سے کہیں تیز ہے مگر اس کی برق رفتاریوں کے باوجود ایسی ہفت اخترشخصیات اب کبھی پیدا نہیں ہوسکتیں۔‘‘
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت وغم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
خلوص، دردمندی ،انسانی ہمدردی ،ایثار اور انسانیت کے ساتھ بے لوث ،محبت اللہ دتہ چھاپہ گر کی شخصیت کا اہم وصف تھا۔ اگرچہ وہ کم تعلیم یافتہ تھا مگر اپنے وسیع تجربے اور مشاہدے کے اعجاز سے اُس نے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے اسرار و رمو ز سے آگاہی حاصل کر لی تھی ۔وہ ایک مرنجاں مرنج اور صحت مند شخصیت کے مالک تھا اس لیے اُس نے آزمائشو ابتلا کی ہر گھڑی میں موقع اور محل کی مناسبت سے موزوں کردار ادا کیا۔جھنگ میں دریائے چناب کے قیامت خیزسیلاب نے اگست 1973ء میں جو تباہی مچائی اس کے اثرات اب تک محسوس کیے جاتے ہیں ۔دریا ئے چناب کی طوفانی موجوں کا بارہ فٹ اونچا ریلا شہر کے گردبنائے گئے کچی مٹی کے مضبوط حفاظتی پشتے کو توڑتا ہوا شہر میں داخل ہو گیا اور نشیبی علاقے میں رہنے والے غریب لوگوں کا سار اسامان بہا لے گیا ۔سیلاب زدگان کے رہائشی مکانات کھنڈر بن گئے،مویشی پانی میں بہہ گئے ،اجناس خوردنی اور زندگی بھر کا مال و اسباب دریابُرد ہو گیا۔ مصیبت زدہ لوگوں نے بڑی مشکل سے جان بچائی اوربے بسی کے عالم میں ٹیلوں اور بلند مقامات پر سیلاب زدگان کے لیے بنائے گئے پناہ گزین کیمپوں میں جا پہنچے ۔ جھنگ شہر کا ریلوے روڈ ،نور شا ہ اور میلاد چوک کا علاقہ قدرے بلندمقام پر واقع ہے اس لیے یہ علاقہ دریا ئے چناب کی طغیانی سے محفوظ رہا ۔ اللہ دتہ چھاپہ گراور اُس معتمد کے رفقائے کار نے مصیبت کی اس گھڑی میں سیلاب زدگان کی غذائی ،رہائشی اور طبی ضروریات کی تکمیل کے لیے دن رات کام کیا ۔جھنگ شہر میں اپنے قریبی عزیزوں کے رہائشی مکانات کے کچھ حصے خالی کراکے اُن میں ایک سو کے قریب پردہ دار خواتین اور ان کے کم سن بچوں اور بچیوں کے قیام کا انتظام کیا ۔ شہر کے مخیر افراد کے تعاون سے اپنے اور احباب کے گھر سے کھانا پکوا کر ان سیلاب زدگان تک پہنچایااور حکیم نذر محمد،حکیم احمد بخش،حکیم محمد صدیق ،حکیم شیر محمد،حکیم حاجی غلام محمد،حکیم ادریس بخاری ،حکیم کفیل احمد اور ڈاکٹر محمد کبیر خان کے ساتھ مل کر سیلاب سے پھیلنے والی وبائی امراض کی روک تھام پر توجہ مرکوز کر دی ۔جھنگ کے حفاظتی بند کے شمال میں جودیہات اور کچی آبادیاں دریا ئے چناب کے قریب تھیں وہاں کوئی امدادی ٹیم فوری طور پر نہ پہنچ سکی۔مصیبت زدہ لوگ درختوں پر چڑھ گئے اور کسی غیبی امدادکے شدت سے منتظر تھے ۔ جھنگ شہر سے چنڈ بھروانہ تک کا آٹھ کلو میٹر کا علاقہ دریائے چناب کی آٹھ فٹ بلند مہیب طوفانی لہروں میں ڈوبا متلاطم سمندر کا منظر پیش کر رہا تھا ۔ سیلاب کے انتہائی تکلیف دہ حالات میں اللہ دتہ چھاپہ گراور ان کے قریبی احباب نے اپنی مدد آپ کے تحت پلائو ،دال،سبزی ،گوشت اور حلیم کی دس دیگیں پکوائیں،مقامی نانبائی سے تین ہزار کے قریب تازہ نان پکوائے ۔ ہنگامی ضرورت کے لیے بانسوں اورلکڑی کے تختوں کو مضبوط رسیوں سے باندھ کر سے تیار کی گئی ایک کشتی میں یہ سامان رکھا ۔اس کے بعد وضو کیا تسبیح ہاتھ میں لی اور درود پاک کا ورد کرتے ہوئے کشتی میں بیٹھ گئے اور ملاح کو چپو چلانے اور کشتی کو کھینے کااشارہ کیا۔ اللہ دتہ چھاپہ گر قیامت خیز سیلاب کی طوفانی لہروں میں اللہ کریم کے بھروسے پر اپنے ساتھیوں سمیت جان پر کھیل کر بے خطر زندگی اور موت کے اس کٹھن مرحلے میں آگے بڑھے ۔ جھنگ کے شکستہ حفاظتی بند پر موجود سکیڑوں الم نصیب لوگوں نے اشک بار آنکھوں سے عزم و ہمت کے ان عظیم کو ہساروں کو رخصت کیااور ان کی سلامتی اور خیریت سے واپسی کی دعا کی ۔ جھنگ شہر میں مقیم طوفانوں میں پلنے والا ادھیڑ عمر کا محنت کش سوہارا موہانہ اپنی مدد آپ کے تحت بنائی گئی اپنی نوعیت کی اس انوکھی کشتی میں بیٹھا اپنی پوری قوت سے چپو چلارہا تھا ۔ طوفانی گردابوں کے عذابوں میں پھنسے دریائے چناب کے سیلاب کے پانی میں گھرے انسانوں کی دنیا بدلنے کی تمنا دل میں لیے اس جفاکش محنت کش نے ترنگ میں آکر یہ تان اڑائی :
بیڑی دتی ٹھیل اوئے مقدراں دے کھیل اوئے
رب چا کریسیں ساڈا پتنا ںتے میل اوئے
ترجمہ:کشتی کو ڈالا بیچ منجدھار مقدر سے یہ لگے گی پار
مجبوروں سے جا کے ملیں گے ،رب ہی کرے گا بیڑا پار
اللہ دتہ چھاپہ گر اور اُن کے معتمد ساتھیوں کی یہ سر فروشی بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی ۔ان کے اس لائق صد رشک و تحسین فلاحی کام کے بعد جذبہ ٔ ایثار سے سرشار بہت سے دلاور اور ہمت کے محیط کے شناور ان کی تقلید پر کمر بستہ ہو گئے چھے گھنٹے کے بعد جب اللہ دتہ چھاپہ گرسیلاب کے پانی میں گھرے تین دیہاتوں کے بے بس و لاچار مجبور انسانوں کو غذائی اشیا پہنچا کر بہ خیریت واپس پہنچے تو چار اور کشتیاںخوراک اور ادویات لیے تیار کھڑی تھیں۔اللہ دتہ چھاپہ گرکی سماجی ،معاشرتی اورفلاحی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے اختر الایما ن کے یہ اشعار یاد آ رہے ہیں :
ایک حسینہ درماندہ سی بے بس تنہا دیکھ رہی ہے
جیون کی پگڈنڈی یوں ہی تاریکی میں بل کھاتی ہے
کون ستارے چُھو سکتا ہے راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے
راہ کے پیچ و خم میں کوئی راہی اُلجھا دیکھ رہی ہے
نو آبادیاتی دور کے سیاسی ،سماجی ،معاشرتی اور عمرانی مسائل پر اللہ دتہ چھاپہ گر کی پر گہری نظر تھی ۔ ایک بے لوث معاشرتی خادم خلق کی حیثیت سے اُس نے دُکھی انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنایا۔ زندگی اور موت کے بارے میںاُس کے خیالات سے متعدد حقائق کی گرہ کشائی ہوتی تھی ۔اُس کا خیال تھاکہ مرگِ ناگہانی اور مرگِ نوجوانی کے مسموم اثرات سے دائمی مفارقت دے جانے والے عزیزوں کے پس ماندگان پر قیامت گزر جاتی ہے۔ اس نوعیت کے جان لیوا سانحہ سے دو چار ہونے والاتخلیق کار جب اپنے ہاتھ میں قلم لے کر پرورشِ لوح و قلم میں مصروف ہوتا ہے تو دبے پائوں آنے والی موت کی آہٹ کوسننے کے بعد اس کا اظہار لا شعوری انداز میں اپنی تحریروں میں بھی کرتا ہے۔ادبیاتِ عالم کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ جو تخلیق کار عالمِ شباب میں دائمی مفارقت دے گئے ان کی تخلیقات میں موت کے دبے پائوں چلے آنے کی آہٹ صاف سنائی دیتی ہے جس سے یہ گُمان گزرتا ہے کہ ان عظیم ادیبوں کو اپنے نہ ہونے کی ہونی کا شدت سے احساس تھا۔رام ریاض ، عاشق حسین فائق ، بشیر سیفی ،اطہر ناسک،میراجی ( محمدثنااللہ ڈالر : 1912-1949)،قابل اجمیری( 1931-1962)،پروین شاکر (1952-1994)،اقتدارواجد،آنس معین ( 1965-1992)،شکیب جلالی (1934-1966 )، ظفر سعید، سجاد بخاری ، سجاد شبیر ،منیر حسین ،کوثر پروین ، ممتاز شیریں ( 1924-1973) ،شفیع بلوچ، لارڈبائرن ( 1788-1824: Lord Byron )، جان کیٹس ( : 1795-1821 John Keats ) اورشیلے ( 1792-1822 : Percy Bysshe Shelley ) کی تحریریں پڑھنے کے بعد اس احساس کوتقویت ملتی ہے کہ ایک داخلی کرب نے ان سب ادیبوں کے تخلیقی عمل کو اپنی گرفت میں لیے رکھا ۔ زندگی کے بارے میں غیر یقینی حالات میں جس لمحے سب دعائیں بے اثر ہو جائیں ،کلیاں شر ر ہو جائیں،کڑی آزمائش کے وقت جس گھڑی سب بلائیں تمام ہو جاتی ہیں تومرگِ ناگہانی کے اندیشے بڑھنے لگتے ہیںاور اس کے بعد زندگی کے لمحات مختصر ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی زندگی کے افق سے جب یہ چودہویں کے چاند ہمیشہ کے لیے غروب ہو جاتے ہیںتو سفاک ظلمتوں میں ہمارا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے ۔ہجومِ یاس میں جب دل گھبراتا ہے توہم آہیں بھرتے اور احساسِ زیاں سے نڈھال کفِ افسوس ملتے ہیں کہ اپنی دل کش ،حسین ا ور طویل عرصہ تک یادرکھی جانے والی خدمات سے علم و ادب کا دامن معمور کر دینے والی یہ نایاب ہستیاں کس قدرجلد پیمانہ ٔ عمر بھر گئیں۔موت کے بارے میں یہی کہاجاتا ہے کہ یہ ہمیشہ زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے۔ان با کمال ہستیوں نے اپنی موت کی آہٹ سُن کر بھی زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ۔تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میںاُتر جانے والے ان زیرک تخلیق کاروں نے خونِ دِل دے کے گلشنِ ادب کو اس طرح سیراب کیا کہ اس کے معجز نما اثر سے گلشن علم و ادب میں گل ہائے رنگ رنگ سے سماں بندھ گیا اور ان کی عطر بیزی سے قریہ ٔجاں معطر ہو گیا ۔
اللہ دتہ چھاپہ گر دست کاراور صناع کے ساتھ ساتھ دیہی علاقو ںکے کھیتوں میں مزدوری بھی کرتاتھا۔وہ اپنی والدہ ،بچوں اور اہلیہ کو ساتھ لیتااور جھنگ کے مشرق میں واقع ایک دیہات ’’ رولو والا ‘‘کے کھیتوں میں موسم کی فصلوں کی برداشت کے مو قع پر کھیتوں میں مزدور کرتاتھا۔اس مزدوری کے نتیجے میں اس کے گھر کی کلہوٹی گندم سے اور چٹوریوں کی پالیاں جوار ،باجرے ،مکئی ،چینا ،سوانک ،منڈوا ،دھان،روانہہ ،جو، ماش ،مسور اور چنے سے بھر جاتی تھیں ۔ حسنِ فطرت سے مالا مال دیہی علاقوں کی تاریخ اور یہاں کی صدیوں پرانی تہذیب و تمدن سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔
حرص و ہوس کی کچلی ہوئی مادی دنیا کی تیرگی ٔ مسلسل کے لمحات میں اللہ دتہ چھاپہ گر جیسے بزرگوںکا وجود سرابوں میں بھٹکنے والوں کے لیے نشانِ منزل اور ظلمتوں کے اسیر لوگوں کے لیے ایک مینارۂ نور ثابت ہوا ۔نظام دہر کو تیورا کر دیکھنے والوں پر اِس محنت کش نے واضح کر دیا کہ رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام تر اِستعارے سعی ٔپیہم کے مرہون منت ہیں ۔نظام کائنات کو ایک بے ربط سی زنجیر والے سمجھنے قنوطیت کے مارے اور یبوست زدہ لوگوں کی ژولیدہ خیالی کو مسترد کرتے ہوئے ایک جری ،فعال اور مستعد خادم خلق کی حیثیت سے اللہ دتہ چھاپہ گرنے وطن عزیز کی نئی نسل کو حوصلے اور ہمت کا پیغام دیا اور دلوں کو ایک ولولہ ٔتازہ سے متمتع کیا۔ اپنے ساتھی دانش وروں سے مِل کر اللہ دتہ چھاپہ گرنے معاشرتی زندگی میں فکری بیداری کا اہتمام کیا۔اُس نے نظام ِکہنہ کے سائے میں عافیت سے بیٹھنے والوں پر واضح کر دیا کہ یہ سب کچھ توایک گِرتی ہوئی عمارت کے ما نند ہے نظامِ کہنہ جو کہ خود ہی غرقاب ہو رہاہے ، اُسے ڈبونے کی سعی ٔرائیگاں کرنا وقت اور محنت کے ضیاع کے سوا کچھ بھی نہیں۔عمرانیات،علم بشریات اور تہذیب و ثقافت سے اللہ دتہ چھاپہ گر کو گہری دلچسپی تھی۔اُس کا خیال تھاکہ سیلِ زمان کی مہیب موجیں جاہ و حشم کے سفینوں کو تو غرقاب کر سکتی ہیں مگر تاریخ کے دفینوں تہذیب و ثقافت کے قرینوں کو دنیا کی کوئی طاقت گزند نہیں پہنچا سکتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر خطے کی تہذیب و ثقافت ہر صورت میں اپنا وجود برقرا ر رکھتی ہے ۔ حسنِ فطرت سے مالا مال دیہی علاقوں کی تاریخ اور یہاں کی صدیوں پرانی تہذیب و تمدن سے اللہ دتہ چھاپہ گر گہری دلچسپی تھی۔ اس خطے کے ارضی وثقافتی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اُس نے دیہاتیوں کی معاشرتی زندگی اور سماجی معاملات پر روشنی ڈالی اور حسنِ فطرت کے دلدادہ پرانے بزرگوں کی وضع داری ،عجز و انکسار ، سادگی،کفایت شعاری ،قناعت اور مہمان نوازی کی تعریف کرتے ہوئے بتایا :
’’ صدیوں سے ہم نے یہ سن رکھاہے کہ مہمان کی گھر میں آمد کو نیک شگون سمجھ کر ہمارے سادہ لوح مگر بے حد مخلص میزباناپنے مہمان کے لیے دیدہ و دِ ل فرش ِراہ کر دیتے نہایت بے تکلفی سے پیش آتے اور مقامی سطح پر بلا قیمت دستیاب سادہ غذا سے مہمان کی خوب خاطر تواضع کرتے۔گرمیوں میں گھر میں دھو کر صاف کی ہوئی اور گھر کی چکی پر پیسی ہوئی گندم کے آٹے کی روٹی کے پیڑے میں تاندلہ اور مکھن ملا کر تنور پر روٹیوںکو پکایا جاتا اورپھر اسے کنگ کے سا تھ کھا یا جاتا۔اِسی موسم میں جھنگ کے حفاظتی بند کی دوسری جانب دریائے چناب کے کنارے رہنے والے دیہاتی لوگ کاسنی، تاندلہ، بھیہہ، الونک ، گنار، پیلکاں ،کُھمبیاں،باتھو اور اکروڑی جیسی خود رو سبزیاں پکاتے جو دیہاتوں میں مفت دستیاب ہیں مگر شہروں میں عنقا ہیں۔ سُنجاونا کے پُھولوں اور پَھلیوں سے چٹخارے دار اچار تیار کیا جاتا تھا۔اسی طرح چنے،گاجریں ،لیموں، لسوڑیاں اور ڈیہلے بھی اچار بنانے میں کام آتے تھے،یہ لوگوں کی من پسند غذا تھی۔ چِبھڑ ، بیر، پیلوں ،پیلکاں ،لسوڑے ،ڈیہلے اور کھجوریں ان لوگوں کے مرغوب پھل تھے قسام ازل نے جن کی مفت فراہمی کا ذمہ لے رکھا تھا۔ موسم کی فراواں سبزیوں مثلاً شلجم ،کریلا،ساگ،مولیاں ،پودینہ، اورمیتھی کو دھوپ میں رکھ کر یادھاگے میں پر وکر ان کے ہار بناکر اُنھیں کھونٹی سے لٹکاکرخشک کر لیا جاتا ،اس کے بعداِنھیں مٹی کے کورے چٹورے میں ڈال کر چٹورے کے منھ پر چپنی رکھ کر لپائی کر کے انھیں محفوظ کر لیا جاتا۔ یہ چٹورے اور چٹوریاں کثیر المقاصد ہوتے تھے ان میں زیورات اور کرنسی نوٹ بھی رکھے جاتے تھے۔ موسم گزرنے کے بعد ان سوکھی سبزیوں کو چٹورے سے باہر نکال کر گھر کے آنگن میں کچی مٹی سے بنائے گئے سروڑ میں پڑے اُپلوں کی آ گ کی آ نچ پرکور ی ہانڈی میں پکا کردسترخوان کی زینت بنایا جاتا۔ ملک کے بڑے شہروں کے ایوانوں میں رہنے والے یورپی، انگریزی اور چینی کھانوں کے دلداہ فیشن زدہ نو جوانوںکو ان خالص ،لذیذ ،مقوی اور صحت بخش پکوانوں کے بارے میں کیابتائیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ کو رچشم بسنت کی بہار اور لنگور ادرک کے ذائقے کے بارے میں کچھ بھی نہیں سمجھ سکتا۔ سردیوں میں سرسوں کی گندلوںکا ساگ جس میں خود رو بُو ٹی باتھواور ہری مرچ ملائی جاتی تھی ،اس قدرخوش ذائقہ ہوتا کہ کھانے والے اُنگلیاں چاٹتے رہتے ۔ باجرے ،جوار،چنے اورمکئی کی روٹی پر مکھن لگا کرپراٹھے پکائے جاتے ،ان کے ساتھ سرسوں کا ساگ اور چاٹی کی لسی کا مشروب ساتھ، میٹھے کے طور پر گھی شکر یا چُوری میزبان کی دریا دِلی اور مہمان نوازی کا اعلا ترین معیار تھا۔ چنے ، مکئی ،جوار ،باجرے اور منڈوے کی مِرچ مصالحے والی تنوری روٹیوں اور توے کے پراٹھوں کا اپنا مزہ تھا۔گرمیوں میں جو کو بُھون کر اور اسے پیس کر ستُو جیسا فرحت بخش مشروب تیار کیا جاتا تھا جو دِل ، جگر اور معدے کو خنکی کے صحت بخش احساس سے سرشار کر دیتا ۔ سردیوں میں مولی کو کُتر کر اسے دو روٹیوں کے درمیان رکھ کر دیسی گھی میں توے پر پکا کر انتہائی لذیز روٹی تیار کی جاتی جسے ’’بُھسری‘‘کا نام دیا جاتا تھا ۔ قدیم بزرگ اپنی غذا میں گوشت کا استعمال بہت کم کرتے تھے ۔اس زمانے میں مر غ کے گلے پر چھری صرف اسی وقت پھیری جاتی جب یا تو مرغ پر جان کنی کا عالم ہوتا یا مرغ کا مالک شدید علیل ہوتا اور علاج کی خاطر اُسے یخنی پلانے کی نوبت آ جاتی۔اب تو برائلر مرغ کا گوشت باتھو سے بھی سستا ہے مگر ذائقے میں برائلر مرغ کا گوشت باتھو کی گرد کو بھی نہیں پہنچ پاتا۔ برائلر مرغ کے گوشت کی ارزانی دیکھ کر طیورِ آوارہ منقار زیر ِ پر ہیں اور اس فکر میں کھو ئے رہتے ہیں کہ اب ان کے طلب گار کہاں سے آ ئیں گے؟ دُور دراز علاقوں میں مقیم دریا کے کنارے رہنے والے محنت کش لوگ پیٹ بھر کر گوشت کھانے کے لیے عید ِقرباں کا شدت سے انتظار کرتے تھے۔ دیسی گھی سے گھر میں تیار کی گئی مٹھائیاں جن میں تمام دستیاب دالوں اور ہرقسم کے خشک میووں کی گُڑ اور دیسی گھی سے تیا ر کی ہوئی میٹھی پھکی ،چینے کا بھت ، بُھنی ہوئی اجناس خوردنی اور گُڑ کے شیرے سے تیار کیا ہوامرنڈا، ٹِکڑے ، بُوندی ،گجریلا ، ٹانگری ، الائچی دانہ ،پتاشے ، پُھلیاں،ریوڑی ،حلوہ ،وڑا ، اور پنجیری شامل ہیں ان کو تیار کرنے والے اور انھیں پسند کرنے والے نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے ۔آج بھی ان قدیم مہربانوں کی بے تکلفی اور بے ساختگی کی مظہر مہمان نوازی اور خوئے دِل نوازی کی یاد آتی ہے تو ان کی دردمندی،وفا،بے