اللہ اور اس کی قدرت وفطرت و قوانین
جنگلی شکاری نام نہاد انسان اور دوسرے جانور خدا کا تصور نہیں رکھتے تو یہ بھی نہیں جانتے کہ قدرت کیا چیز ہے؟ جوں جوں قدرت کے عوامل انسان پر اثرانداز ہوئے تو اس نے خداکی کھوج لگانے کی کوشش کی تو کبھی کچھ اُس کے حوالے کردیتے اور کبھی کچھ اُس سے لے لیتے تھے۔ خدا اور قدرت ایک دوسرے کے ساتھ گہری نسبت رکھتے ہیں جبکہ انسان خدا کے بغیر رہ سکتا ہے لیکن قدرت کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کے برعکس یہ کہا جائے کہ انسان قدرت کا شاہکار ہے تو بھی غلط نہیں ہوگا۔ اسی لیے وہ کسی نا کسی طرح اور کچھ نا کچھ تخلیقی نمونے (Intelligent Design)کا تصور تو رکھتا ہی ہے چاہے اس میں قدیم تہذیب کا انسان ہو یا جدید دور کا دہریہ ہی کیوں نہ ہو۔ رچرڈ ڈاکنز کا کہنا ہے "تخلیقی نمونہ والوں اور مُلحدمادہ پرستوں کے پاس برابر کے دلائل ہیں جس پر ہم خدا کے اقرار یا انکار کا فیصلہ نہیں کرسکتے"
تہذیب کے اوائل میں جب زرعی دور کی ابتداء ہوئی تو لوگوں نے قدرت پر قابو پانے اوراپنے کاموں کی آسانی سے سرانجام دینے کو کسی نا کسی کی طرف نسبت یا تعبیر کردیتے تھے کیونکہ انسان سبب کے ساتھ مسبب کو جوڑتے رہتے تھے جن پر چھوٹے چھوٹے دیوتاؤں کی تخلیق ہوئی۔ مظاہر پرستوں (Pagan) نے سبب مسبب اور تخلیقی نمونے کو وسعت دی اور سورج کوتمام دیوتاؤں کاآسمانی باپ بتایا اور کائناتی قدرت کو سورج تک وسعت دی۔ چاند ستاروں سے آسمان کو منور کیا۔ جبکہ عیسائیوں کی تثلیث کوئی واضح تخلیقی نمونہ تو نہیں رکھتی تھی لیکن خدا کو تین میں سے ایک مانتے تھے کیونکہ یہودیوں میں کثرت پسندی سے نظریہ توحید آیا تھا جن میں شخصی رنگ پایا جاتا ہے جو عیسائیوں میں قدرے دیکھائی دیتا ہے۔مجوسیوں کے ہاں دوہی کا تصورنفی اثبات سے تخلیقی نمونہ آگ (Energy) کے گرد اور معاشرتی نمونہ دوہی کے گرد گھومتا ہے۔ اسلام نے تخلیقی نمونہ میں اللہ کا تصور یکتا پیش کیا اور مضبوط (تخلیقی نمونہ کے) دلائل سے تقویت بخشی۔ جبکہ معاشرتی و تہذیبی تصور میں شیطان سے دوہی پیش کی آخرت میں شخصی توحید کا تصور پیش کیا۔آخرت کی کامیابی کیلیے شخصی شرک برداشت نہیں کرتے حالانکہ اس کو قدرت یا فطرت سے تقویت بھی بخش سکتے تھے جس سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی ممکن تھی۔اس سے تقدس کا لبادہ پہنانا مشکل کام تھا اور قابلِ استعمال احمقوں پر حکومت کرنا مشکل تھی۔
ہندوؤں کے ہاں روحانی خدابرہما جس نے سب کچھ تخلیق کیااُس تک پہنچنے کیلیے روح بنیادی عنصر ہے قطرہ سمندر میں ملکر نجات حاصل کرسکتا ہے ورنہ روح آگوان چکر میں پھنس جاتی ہے قدرت کی ہر چیزاسکا ساتھ دیتی ہے انسان اپنے روحانی فضائل سے پہچانا جاتا ہے قدرت کی ہر چیز اسے پہچان لیتی سوائے دنیا دار انسان کے۔سلوق کے رستے پر گامزن انسان کا ذرہ ذرہ قدرت کے ساتھ مل کر گیت گارہا ہوتا ہے۔ ہر بھگت خود میں قدرت محسوس کرنے کی تمام شکتیاں محسوس کرنے کی مشقیں کرتا ہے۔ ہر صوفی خود میں ایک روحانی سائنسدان بھی ہوتا ہے
ڈارون کا فطرتی یا قدرتی نظریہ ایک جدید نظریہ ہے جس نے کئی دوسری چیزوں کی وضاحت کی یا روشنی ڈالی ہے جسے بیان کرنے کیلیے طبعیات سے شروع کرتے ہیں۔ماہرطبعیات کا ماننا ہے کہ کائنات ایک زور دار دھماکے (Big Bang)کائناتی مظہر کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئی جسے 13.7ارب سال گزر گئے ہیں۔ جس سے بہت سارے سادہ ہائیڈروجن ایٹم بنے ان کے مرکزہ میں ایک پروٹان اور شیل میں ایک الیکٹران مختصراً پایا جاتا ہے جس سے کئی دوسری ترتیب کے عناصر قدرتی طور پر بنے جن کی تعدادتقریباً 118عناصر ہے عناصر میں تبدیلی بھی سائنسی مظہر ہی ہے۔ کائنات میں ایک ہی عنصر کے ستارے پائے جاتے ہیں۔کئی ایسے ستارے ہیں جن کے چھوٹے ذرات ہمارے سیارے پر انتہائی مہنگے ہوسکتے ہیں اور کئی ہمارے سیارے کو جھٹکے سے تباہ بھی کرسکتے ہیں حالانکہ ہمارا سیارہ (زمین) کائنات کے مقابلے میں کوئی خاص اہمیت بھی نہیں رکھتا اور سورج کے گرد گھومنے کی اپنے انداز میں خوبصورتی(تخلیقی نمونہ) ایسے بیان کیا جیسے انسان کی خدمت کیلیے زمین مرکز ہے۔ زمین پر کئی کیمیائی عناصر مرکبات بناتے ہیں اور کچھ بانڈ بنا کرمِل جاتے ہیں۔ کائنات میں صرف زمینی سیارے پر یہ عناصر ایسے مرکبات اوربانڈ کی شکل میں بنے جس میں ایک ترتیب بنی تھی جسے یک خلوی جاندار کہا جاتا ہے ان سے کثیر خلوی جاندار بنے جن میں بیکٹیریا فنجی اور دوسرے کثیرخلوی جاندار اپنے جیسے جاندار می آسس اور مائی ٹاسس کے عمل سے پیدا کرسکتے ہیں۔ اس عمل سے روشنی کے زیر اثر جیلی مچھلی بنی پھر دوسری مچھلیاں بنی ان میں جنسی فرق (نر اور مادہ ) واضح ہونے لگے۔ان میں تبدیلیاں ماحول کے زیر اثر تھی پھر ایسی تبدیلی آئی کہ ڈولفن اور وہیل مچھلی،مینڈک اور مگرمچھ اپنے جسم میں گلپھڑوں کی جگہ پھپھڑے رکھتے تھے اور پانی کی سطح پر اور خشکی پر بھی رہ سکتے تھے جہاں سے ڈائینو سار نکلے جنہوں نے زمین پر راج کیا اس کے بعد ماحول ناسازگار ہوگیا اور وہ دنیا سے ناپید ہوگئے لیکن ان کی باقیات اگلی حیاتیات کا پیش خیمہ تھی جن سے حشرات نے فائدہ اٹھایا، پرندوں کی نسلیں بنی، چوپائے، اور دو ٹانگوں والے جاندار بنے۔ دوٹانگوں والوں سے بندر اور انسان نکلےان ایک ایک نسل میں کئی کئی نسل کے جاندار پائے جاتے ہیں یہ عمل فطرتی چناؤ سے جانداروں (حیاتیات و نباتات) میں وسعتیں آتی گئی جس کے نتیجے میں مختلف النواع نظر آتے ہیں جبکہ جدِ امجد سُکرتا ہوااُسی یک خلوی جاندار تک جا پہنچتا ہے۔ ان میں وقت کے لحاظ سے تبدیلیاں (اختلاف، مشابہت اوروسطی جاندار)ان کے فطرتی پھیلاؤ اور سکڑاؤ یا فطرتی انتخاب کا نتیجہ ہے نامیاتی ترکیب میں ہائیڈروجن، آکسیجن، کاربن اور دوسرے عناصر سے ملکر بنتے ہیں جن کے عنصروں میں کیمیائی، جوہری اور ماحولی تبدیلی سےDNA میں تبدیلی کا مظہر بنتی رہی۔ جسے حیاتیاتی سائنسدان ڈارون نے فطرتی یا قدرتی انتخاب سے بیان کرتے ہوئے انسان تک پہنچتا ہے۔انسان کی سماجی زندگی کا بنیادی محرک جنسی فعالیت ہے۔ سماجی زندگی نے اِسے تہذیب یافتہ بنایا زمین پر انسان نے اپنی حکومت کا اعلان کیا اور تہذیبیں بنائی جنگلی جگاڑی انسان نے آگ کے آلاؤ کو دریافت کیاجس نے تبدیلی کے رستے کھول دئیے۔ جنگلی شکاری انسان زرعی، صنعتی، آئی ٹی اور خلائی انقلاب کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ سماجی سائنس ہمیں اس قابل بناتی ہیں کہ ہم اپنے پرکھوں کے تجربات پر کھڑے ہوکر بہتر اور محفوظ مستقبل بنا سکیں۔ جن باتوں کو پرکھوں نے زاد راہ بنا کر ترقی کی تھی موجودہ انسان اسے بے وقوفی کہہ سکتا ہے لیکن اپنے آنے والے لوگوں کیلیے کیا کوئی بے وقوفی کا سامان بھی چھوڑے جارہے ہیں۔۔۔؟حتمی فیصلہ کوئی نہیں کرسکتا۔صحت ہی زندگی ہے اور صحت مادی علامات پر منحصر ہے سائنسی انقلاب سے انسان روحانیت سے نکل رہا ہے اور جدلی مادیت میں داخل ہورہا ہے تو یہ مادی Intelligent Designہے جہاں ایک مزدور دن میں 8 گھنٹے اور ہفتے کے 40 گھنٹے جائےمزدوری پر دینے پڑتے ہیں پھر آئی ٹی کی ترقی سے یہ نمونہ آئی ٹی یا خلائی لحاظ سے تبدیلی پیدا کرلے جہاں مزدور وقت کی گزاری کے بجائے پیداوار کا حساب دینا ہوگا چاہے کئی پر بھی ہو۔ طبعیاتی سائنس پہلے ایٹموں کی بات کرتی تھی پھر مادہ اورقوت میں تبدیلی اضافی(Relative) طور پر بیان ہونے لگی اب مزید چیزوں کو کھوجنے کیلیے ستلی (String) نظریہ پیش کیا ہے۔ ایسے ہی انسان تخلیقی نمونہ میں تبدیلی لاتا رہے گا جس کے پیچھے یہی سوچ ہے کہ قدرت کے جبر میں کتنی کمی لا سکتا ہے اور یہ کھیل قدرت اور قادر، فطرت اور فاطر کے درمیان چلتا رہے گا مشہور مقولہ ہے دنیا میں ایک ہی چیز ساکن ہے اور وہ تبدیلی۔۔۔اس تبدیلی کو وقت کے قید خانے(فریم ورک) میں بیان کیا جاتا ہے اور جو چیز ساکن ہے وہ لامکان، کائنات سے ماورا، ابد الآباد،اول و آخر،ظاہر و باطن وغیرہ میں پائی جاتی ہے۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“