آج اس پوسٹ میں جس شہر کے کهنڈرات میں موجود ہوں اس کا نام الخریبہ دادن ہے اور یہاں پہ صدیوں پہلے نبطی قوم آباد ہوا کرتی تھی وہ لوگ کون تهے. ?
آئیں آپ کو ان کهنڈرات سے وابستہ قوم کا احوال پیش کرتا چلوں
نبطیوں کی تاریخ
۔ نبطی ایک تعلیم یافتہ قوم تھی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان کا اپنا لکھا ہوا کوئی تحریری ریکارڈ اثری تحقیقات کے نتیجے میں سامنے نہیں آیا۔ ان کی تاریخ کے بارے میں زیادہ تر ریکارڈ ان کی معاصر اقوام سے ہی ملتا ہے۔
قدیم یہودی مورخ جوزیفس کے مطابق، نبطی سیدنا اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد میں سے تھے۔ یہ لوگ شمالی عرب میں آباد ہوئے۔ اس دور میں دوسری قومیں اپنی فوج کے بل پر سلطنتیں قائم کیا کرتی تھیں۔ نبطیوں نے اس کے بالکل برعکس تجارتی بنیادوں پر اپنی سلطنت قائم کی۔ انہوں نے تجارت کو اتنا فروغ دیا کہ ایک وسیع و عریض سلطنت کی بنیاد رکھی جو موجودہ دور کے اردن سے لے کر سعودی عرب کے مشرقی اور عراق کے جنوبی حصے سے ہوتی ہوئی حضر موت اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔
سیدنا یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کو جو قافلہ اپنے ساتھ مصر لے گیا تھا، اس کے بارے میں بھی یہی مشہور ہے کہ وہ نبطیوں کا ایک قافلہ تھا۔ بائبل نے بھی اسے بنی اسماعیل کا قافلہ قرار دیا ہے۔ نبطیوں کا عروج اس زمانے میں ہوا جب اسکندر اعظم (Alexander the Great) یونانی سلطنت کی بنیاد رکھ رہا تھا۔
نبطیوں کی سب سے بڑی طاقت علم تھی۔ ان کے ایڈونچر پسندوں نے بہت سے برّی اور بحری راستوں کا کھوج لگا کر انہیں تجارت میں استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔
اس دور میں جب معروف تجارتی راستوں پر ایسے قبائل قابض تھے جو لوٹ مار کیا کرتے تھے، نبطیوں نے نئے محفوظ راستے دریافت کیے۔ انہوں نے کوئی ایسی ٹیکنیک دریافت کی جس کے مدد سے وہ پانی کا ذخیرہ اسٹور کر کے اپنے ساتھ لے جا سکتے تھے۔ اس صلاحیت نے انہیں راستے میں موجود پانی کے ذخائر سے بے نیاز کر دیا جن پر لوٹ مار کرنے والے قبائل کا قبضہ تھا۔
اس دور میں بنی اسرائیل زوال پذیر ہو چکے تھے اور ان کی دو بڑی سلطنتیں یہودا اور اسرائیل نبوکد نضر کے حملوں کے باعث تباہ ہو چکی تھیں۔ موجودہ اردن کے علاقے پر ادومیوں (Edomites) کا قبضہ ہو چکا تھا جو کہ سیدنا یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام کے بھائی عیسو علیہ الرحمۃ کی اولاد تھے۔ عیسو کی شادی سیدنا اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ غالباً اسی رشتے کے باعث نبطیوں کے ادومیوں سے اچھے تعلقات تھے اور انہوں نے ادومیوں کے دارالحکومت "بُشیرہ" جو کہ اردن کے موجودہ قصبے "طفیلہ" کے جنوب میں واقع تھا، کو بنیاد بنا کر پیٹرا کی بنیاد رکھی۔
نبطیوں نے اپنے دور میں ارد گرد کی رومی اور مصری سلطنتوں سے اچھے تعلقات رکھے۔ یہ لوگ چونکہ عرب کے صحرائی راستوں سے واقف نہ تھے اس لئے انہوں نے نبطیوں کو تجارت کی آزادی دیے رکھی۔ نبطیوں کے بارے میں ایک اچھی بات یہ بھی ملتی ہے کہ ان میں کسی قدر جمہوری نظام بھی موجود تھا۔ ان کی دعوتوں میں بادشاہ اپنا کھانا خود اٹھا کر لاتا اور اپنی باری پر دوسروں کی خدمت بھی کیا کرتا۔ پیٹرا کے علاوہ یہ لوگ مدائن صالح اور دیگر مقامات پر بھی آباد رہے۔
شروع میں تو یہ لوگ سیدنا اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد ہونے کے باتے سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے مذہب یعنی دین توحید پر ہی کاربند رہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، دوسری قوموں کے زیر اثر، ان میں بھی شرک کا غلبہ ہوا۔ پیٹرا سے ملنے والے مجسموں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بھی بت پرستی میں مبتلا ہو گئے تھے۔
پانچویں صدی قبل مسیح سے لے کر تیسری صدی عیسوی تک تقریباً آٹھ سو سال تک نبطیوں کی حکومت اس علاقے پر قائم رہی۔ دوسری طرف سیدنا عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد آپ کے پیروکار توحید دعوت کو پھیلانے میں مشغول رہے۔ چوتھی صدی کے اوائل میں رومی بادشاہ قسطنطین نے عیسائیت قبول کر کے اسے سرکاری مذہب قرار دیا۔ اس کے بعد اہل کلیسا دنیا سے شرک اور مشرکین کو مٹانے کا عزم لے کر نکل کھڑے ہوئے۔ اسی مہم کے دوران انہوں نے پیٹرا پر بھی حملہ کیا اور نبطیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
اس کے بعد سے لے کر آج تک نبطی بکھری ہوئی حالت میں بعض عرب ممالک میں موجود ہیں۔ صحیح بخاری کی بعض احادیث میں نبطیوں کا ذکر ملتا ہے۔ یہ لوگ عہد رسالت میں بھی شام اور اردن سے اناج اور سبزیاں لے کر مدینہ آیا کرتے تھے۔ جب مسلم افواج نے اردن، مصر اور فلسطین فتح کیے تو ان کی اکثریت نے بھی اسلام قبول کر لیا اور اب یہ اردن کے عرب بدوؤں کی شکل میں دنیا میں موجود ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیجسے لی گئی ہے۔
“