اور یہ کوئی خواب نہیں تھا۔ ایک بڑا سا اسٹیج ۔ بھیڑ آہستہ آہستہ بڑھنے لگی تھی۔ لوگ ایک دوسرے سے اشاروں میں دریافت کر رہے تھے۔۔ بوڑھے کو کیا روگ ستایا ہے۔۔؟ پھر کوئی نیا تماشا۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے بوڑھا پردے کے درمیان سے سامنے آیا۔۔ بڑی سی داڑھی۔ مگر لباس جوکروں جیسا۔۔
تالیاں اس وقت بھی بجی تھیں۔۔
بوڑھا سیڑھی پر پاؤں رکھے آرام سے چڑھ گیا۔ بلندی تھی۔ اوپر نیلا آسمان تھا۔ سیڑھیاں تھامے ابو بھایی سے آہستہ سے کہا، عمر کا خیال رکھئے ۔اندیشہ ہے، کہیں اپ گر نہ جاہیں۔ بوڑھے کے ہاتھ میں اسکیل اور نقشہ تھا۔۔ اس نے گنبد کو دیکھا۔ اندازہ لگانا ضروری تھا کہ گنبد کی لمبایی اور چوڑائی کتنی ہے۔۔ سیڑھی ہلی اور بوڑھا زمین پر گر کر کراہنے لگا۔۔ ۔میاں گر گئے نا ۔۔چوٹ تو نہیں لگی؟
بوڑھا ہنسا ۔۔میں کہاں گرا ۔وہ تو تاریخ کی اینٹ گرنے والی تھی ۔۔ میں نے اینٹ کو گرنے نہیں دیا ۔
ایسے تھے ہمارے سر سید ۔ پیارے سر سید ۔ کوئی بات بھی مجھے قائل نہیں کر سکتی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریبات میں فسطائیت کے اس شہنشاہ کو جگہ کیوں دی گئی ، جس نے جمہوریت کی لہلہاتی فصلوں کو روند ڈالا ۔ کیا ہم بھول جائیں کہ یہی وو لوگ تھے اور یہی میڈیا تھی جس نے علی گڑھ کے معصوم نوجوانوں کو غدار ٹھہرایا تھا ۔ ۔٢٠١٨ ، اے ایم یو میں زعفرانی تنظیم کے نمائندے داخل ہوئے ۔ علی گڑھ کے نوجوانوں کو دہشت گرد ٹھہرا یا گیا ۔ ۔شیروانی پہنے ہوئے بچے ۔ٹوپی لگاہے ہوئے ۔شکل و صورت سے مہذب نظر آنے والے یہ بچے دنیا کے بہترین بچوں میں سے ایک ہیں ۔ان بچوں کو دیش بھکتی کا سرٹیفکیٹ ایسے لوگ دے رہے تھے جو انگریزوں کے مخبرتھے ،جو گاندھی کے قاتل کے مندر بناتے تھے ۔جو فرقہ پرستی کی خوفناک رسم کو نبھاتے ہوئے ہندوستان کے ٹکڑے کرتے کا خواب دیکھ رہے تھے ۔امریکی رپورٹ میں بھی یہ بات صاف ہو چکی تھی کہ موجودہ ہندوستان میں اصل ٹارگیٹ مسلمان ہیں ۔گھر واپسی ، گو رکشا جیسی مہم کے بعد اے ایم یو پر مسلسل حملہ اسی ٹارگیٹ کی منظم اور منصو بہ بند کڑی تھا ۔ ۔آر ایس ایس اور حکومت کے کارندے اب بھی مسلسل علی گڑھ کو سازش کا حصّہ بنا رہے ہیں ۔ ۔ہمارے پاس بڑے خزانے کے طور پر علی گڑھ کے سوا کچھ نہیں ۔جامعہ ملیہ اسلامیہ بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے ۔ کیا ہم بھول جائیں کہ مسلمانوں کے پاس سے ان کی تعلیمی درس گاہیں چھین لئے جانے کی کوششیں اب بھی جاری ہیں ۔ ٢٠١٨ میں مہذب بچوں کے لباس کو بھی ٹارگیٹ کیا گیا اور پولیس کی بے رحم لاٹھیاں بھی ان بچوں پر برسایی گیں ۔ آر ایس ایس وہاں اپنی شاخیں کھولنا چاہتی ہے ۔اسکا دوسرا ٹارگیٹ ہے کہ چند مسلم بچوں کو خریدا جائے جس سے مستقبل قریب میں اے ایم یو میں آر ایس ایس کی شاخوں کی بنیاد رکھنا آسان ہو جائے ۔
مودی حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے ظلم کی ہر تصویر صاف ہے ۔آر ایس ایس کا ایک ہی ٹارگیٹ ہے ۔مسلمانوں کی بڑی آبادی کو محتاج بنا دو ۔ان سے تعلیم چھین لو ۔مسلم نوجوانوں کو خوفزدہ کرو ۔ انہیں جیل بھیجو ۔ان پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگاو ۔ سات برس کے سیاسی منظر نامے کا ہر قدم مسلمانوں کو برباد کرنے کے ارادے سے اٹھایا گیا ۔۔ نوٹ بنندی سے سب سے زیادہ مسلمان متاثر ہوئے ۔جی ایس ٹی نے سب سے زیادہ مسلمانوں سے روزگار چھینا ۔ گوشت پر پابندی نے چھوٹے چھوٹے کاروباریوں سے رزق چھین لیا ۔بنکر برباد ۔۔مسلم تاجر برباد ۔۔سات برس کی تاریخ میں مسلمان تباہ کر دئے گئے ۔۔آر ایس ایس آھستہ آھستہ ایک ایک قلعہ فتح کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے ۔ ۔ بابری مسجد کے بعد حوصلہ دو قدم آگے بڑھا تو مسلم اداروں کے خلاف سازش زور پکڑنے لگی ۔اب مسلم نوجوانوں کی باری تھی ۔اقلیتی کردار کو تباہ کرنے کی باری تھی ۔
علی گڑھ میں دن دہاڑے بھگوا دہشت گردوں کا ایک گروہ آیا ۔ کس کے اشارے پر؟۔یہ سوال خود سے پوچھ کر دیکھئے۔ آر ایس ایس اور مودی کا ہندتو اس وقت ملک کو جس سمت بہا لے جا رہا ہے ، وہاں تشدد کی رفتار نے خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کر دی ہے ۔حکومت کے خلاف دیے جانے والے بیان کو ملک سے غداری کا جذبہ قرار دیا جاتا ہے اور مخصوص نظرئیے کی حکومت بھول جاتی ہے کہ ہزاروں شاخیں ، ایک دن میں ہزاروں بار جس طرح کھلے عام ہلاکت اور نفرت کی سیاست کر رہی ہیں ، در اصل ایسے اشتعال انگیز بیان دینے والے نہ صرف سخت سزا کے مستحق ہیں بلکہ انکے خوفناک کارنامے اس لایق ہیں کہ عدلیہ ایسے مجرموں اور قاتلوں کو ملک کا غدار قرار دے ۔کیا مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکا کر یہ فسطائی طاقت ملک کے تمام ہندوؤں کا دل جیت لے گی ؟ کیا سات برسوں کی گھنونی سیاست صدیوں کی ملت کے چیتھڑے اڑا دیگی ؟ ۔۔عام ہندو بھی ملک کو خانہ جنگی کی طرف جاتا ہوا دیکھ رہا ہے ۔۔ناگپور سے نشنلزم یعنی راشٹر واد کا فتویٰ جاری ہوا ۔دلی دنگے اور بھاگوت کی ٹائمنگ دیکھ لیجئے ۔ راشٹر واد کو بھاگوت نے ہٹلر ، نازی ازم اور فاشزم کا نام دیا ۔ یہ اس ہٹلر کے نام پر مہر لگانا تھا جس نے جرمنی کو آگ کے شعلوں میں جھونک دیا ۔ ٩ لاکھ یہودی ہلاک ہوئے ۔سات برسوں میں ٹارگیٹ مسلمان رہے ۔ ہلاک مسلمان ہوئے ۔ مسلمانوں سے وابستہ نشانیاں تبدیل ہوئیں ۔شاہراہ اور سڑکوں کے نام بدلے گئے ۔ کھلا کھیل شروع ہوا جس نے بھاگوت تک یہ بات پنہچا دی کہ اب بر سر اقتدار حکومت کا موازنہ جرمنی سے ہو رہا ہے ۔ ملک میں شاہین باغ بننے لگے تو پولیس اور بھگوا مظاہرین کا وہی رخ سامنے آیا جو گجرات میں سامنے آ چکا تھا ۔ پولیس بھی ہندو ہوتی ہے ۔ ہاشم پورا سے لے کر مظفر نگر اور اب دلی تک ہزاروں تشدد کے واقعات ہیں ، جو پولیس نے انجام دیے ۔ یہی وقت تھا جب اندھے بھکتوں کو ہٹلر بن جانے کا پیغام جاری ہوا ۔ جب جے این یو ، علی گڑھ ، جامعہ کو جلایا جا رہا تھا ، جب ملک کے ہندو ، سکھ ، دلت مسلمانوں کی حمایت میں سامنے آ چکے تھے ، ہندو راشٹرواد کے نعرے کے ساتھ دلی کو تین دنوں تک آگ کی بھٹی میں جھونک دیا گیا اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ طوفان گزر گیا ۔اس سے کہیں زیادہ خوفناک طوفان دوبارہ بھی آ سکتا ہے ۔ بلکہ یہ آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی ہے ۔ میں نہیں بھول سکتا کہ علی گڑھ اور جامعہ اسٹوڈنٹس پر پولیس کی زیادتیاں یہ ظاہر کرنے میں کامیاب تھیں کہ ان کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو کسی ڈیٹینشن کیمپ یا گیس چیمبر میں ہوتا ہے ۔ وہی علی گڑھ ، وہی سر سید کا خواب اور اہ ۔۔ جمہوریت کی قبر کھودنے والے شان سے بلائے جا رہے ہیں ۔
کوئی دلیل بھی مجھے قائل نہیں کر سکتی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریبات میں ایسے شخص کو جگہ کیوں دی گئی ، جو پچھلے سات برسوں میں علی گڑھ کی جمہوری شناخت سے کھیلتا آیا ہے اور اب علی گڑھ کو منی انڈیا بتا رہا ہے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...