علی بابا چالیس چور، الہٰ دین کا چراغ، سندباد کے سفر جیسی کہانیاں، مرجانہ، شہرزاد، حکیم دوبان کی طرح کے فرضی اور خلیفہ ہارون الرشید، خسرو، شیریں، جعفر، ابونواس کی طرح کے اصلی کردار، یونان، ثمرقند، ساسان اور انڈیا سے قصے، عربی کے ساتھ ساتھ فارسی، ترکی اور سنسکرت سے لئے گئے اثرات۔ یہ الف لیلہ ہے۔ اس کے بنیادی پلاٹ میں ایک ہزار ایک راتوں تک ساسانی بادشاہ شہریار کو اس کی دلہن شہرزاد کہانیاں سناتی ہے۔
داستان گوئی اتنا پرانا فن ہے جتنا انسانی زبان۔ آج یہ فنکار ہمیں ٹی وی کی سکرینوں پر زیادہ نظر آتے ہیں۔ ٹی وی سے پہلے یہ فن کتابوں میں تھا اور اس سے پہلے زبانی۔ لوک کہانیاں دنیا کی ہر تہذیب کا حصہ رہی ہیں، خواہ اس تہذیب نے لکھنا بھی نہ سیکھا ہو۔ ٹی وی سے پہلے پیشہ ور داستان گو محفلوں میں یہ قصے سنایا کرتے تھے۔ شاہی درباروں سے لے کر گاؤں کے چوپال تک۔ فلسفہ، مزاح، رومانس، بے وفائی، حسد، جرم، فکشن، سسپنس سے بھری کہانیاں جو داستان گو اہم موڑ پر ختم کرتا تھا تا کہ اگلی محفل میں لوگ تجسس کے ساتھ آئیں۔ ویسے ہی جیسے آج کے ٹی وی سیریل۔ (ہم کہانیاں کیوں پسند کرتے ہیں، اس کا لنک نیچے دیکھ لیں)۔
ایک ہزار سال تک اس کے کردار آج بھی زندہ کیوں ہیں؟ آج بھی پناہ گزین کیمپوں سے لے کر ہالی وُڈ کی فلموں تک یہ الف لیلہ کے کردار نظر کیوں آتے ہیں؟ اس پر مختلف لوگ تجزیہ کرتے رہے ہیں۔ (ان میں سے ایک نیچے دئے گئے لنک میں)۔
ادب کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ ہمیں اس وقت کو دیکھنے کی کھڑکی دیتا ہے جب کہ وہ لکھا گیا۔ ادب وہ مشہور ہوتا ہے جو اس زمانے کے لوگوں کے ساتھ مطابقت رکھے۔ اردو ادب میں بھی ایسا دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر شاہ کا مصاحب بننے پر اِترانا آج کے پڑھنے والے کو سمجھ نہیں آتا تو ریاست کے ماں جیسا ہونے کے خواب دو صدی پہلے کی شاعری میں نہیں۔ فلسفے میں جبر و قدر کے مباحث ایک خاص وقت کے ادب میں ملتے ہیں۔ آج کی شاعری میں دانشورانِ عہد پر طاری خوف کا ذکر ہے۔ کسی دور کا شاعر اہلِ نظر کو کوفہ اور بغداد سے آگے بستیاں آباد کرتے دیکھتا ہے، کسی اور دور میں خلقِ خدا کو راج کرتے دیکھتا ہے۔ یہ سب اپنے اپنے وقت سے متعلقہ ہے۔ اکبری اور اصغری کے کردار آج ریلیونٹ نہیں۔ کسی وقت میں شاعر پائپ کا پانی پینے اور ٹائپ کئے گئے حروف پر نالاں نظر آتے ہیں۔ اس کے بہت بعد ایک اور شاعر لڑکیوں کے انگریزی پڑھنے کو فلاح کی راہ نہیں سمجھتے اور اس سین سے پردہ اٹھنے کے منتظر ہیں۔ جبکہ ایک آمر کی آنکھ سے دس کروڑ عوام کو جہل کا نچوڑ دیکھنے کا طنز ایک اور وقت کا ہے۔
ادب ہمیں زمانے کی سوچ، مسائل، حالات اور آلات سے بھی آگاہ کرتا ہے اور ہاں، زبان اور اقدار سے بھی۔ ادب سے اس دور کی سوچ ٹپکتی نظر آتی ہے۔
بارہویں صدی قبلِ مسیح میں دنیا میں بڑی اہم تبدیلیاں آئیں۔ یہ کانسی کے دور کا آخری وقت تھا اور دنیا کا پہلا گلوبل دور۔ اس وقت بہت سی تہذیبیں تباہ ہو گئیں۔ ہومر کے لکھے ایلیاڈ اور اوڈیسی ہمیں اس وقت کا بتاتے ہیں۔
الف لیلہ و لیلہ، طلسمِ ہوش رُبا، داستانِ امیر حمزہ جیسی داستانوں کے پاپولر تراجم آج کے دور کے حساب سے لکھے گئے ہیں۔ لیکن ان کی اصل عربی کی کہانیوں سے آج سے ہزار سال پہلے کی دنیا کی کھڑکی ہیں۔ جہاں پر کسی لٹریچر کو دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کس دور اور کس جگہ کا ہے، ویسی ہی وہ ہم سے اپنے دور کا بھی بتا دیتا ہے۔
فلسلفے میں قسمت کے کھیل کا اس وقت کا تصور۔ کہانی میں پہلے قسمت نظر آتی ہے جو ایک کے بعد دوسرے اتفاق سے پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ سندباد کے سفر یہ بتاتے ہیں کہ یہ زمین اس دور میں کتنی پرسرار تھی۔ ابھی اس کا بڑا حصہ ڈسکور نہیں ہوا تھا۔ بادشاہوں کے کرداروں میں، کوتوالوں میں، اس دور کی سیاست اور حکومت کا طریقہ نظر آتا ہے۔ حکیم دوبان کے کردار میں اس وقت کی دانائی۔ خلیفہ ہارون الرشید بیت الحکمت سے کتاب پڑھتا نظر آتا ہے۔ بغداد اور دمشق کی گلیوں میں چلتے پھرتے اور بولتے کردار اس وقت کی غمازی کرتے ہیں۔ گھریلو کہانیاں ملتی ہیں جو ہمیں اس وقت کے رہن سہن اور اقدار کا بتاتی ہیں۔
آج ہم نے اُڑن قالین بھی بنا لئے، ٹین کے عقلمند ڈبے بھی، آٹومیٹک کشتیاں بھی جو ان داستانوں میں بیان کئے گئے خواب تھے، لیکن اچھی کہانی بنانے، سنانے اور اس سے محظوظ ہونے کی ہماری فطرت وہ بنیادی وجہ ہے جو ہزار راتوں کی اس داستان کو ہزار سال بعد بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔
عربی میں لکھی الف لیلہ و لیلہ کا ترجمہ دنیا کی تقریبا ہر زبان میں ہو چکا ہے۔ یورپ میں اس کا پہلا ترجمہ غالاں نے کیا تھا۔ انہوں نے اس کے کئی حصے سنسر کر دئے تھے۔ ان کے مطابق یہ حصے 'اخلاق باختہ' تھے اور یورپی اقدار کے مطابق نہیں تھے۔ انگریزی میں ترجمہ وکٹورین عہد میں ہوا اور وکٹورین دور کے سخت قوانین جو فحش میٹریل سے متعلقہ تھے، ان سے بچنے کے لئے اس وقت عربی متن میں سے کئی حصے شامل نہیں کئے تھے۔ وکٹورین عہد آج سے خاصا مختلف دور تھا۔
ساتھ لگی یہ تصویر 1913 کی ہے جب ایک داستان گو انڈیا کے گاؤں میں کہانی سنا رہا ہے۔
نوٹ: پہلے پیراگراف میں لکھی تینوں کہانیاں الف لیلہ میں بعد میں ہونے والے اضافے ہیں۔ یہ نویں صدی کی کتاب میں نہیں تھے۔
الف لیلہ کی مقبولیت پر ایک آرٹیکل