ہر اخلاق کی اساس آگہی ہے —چیزیں دیکھنے کے رخ سے اپنی ماہیت بدل لیتی ہیں نہ تو کوئی شے کلی طور پر نقصان دہ ہوتی ہے اور نہ ہی فائدہ مند۔ یا تو سب کچھ جزوی اچھا یا برا ہوتا ہے یا پھر غیر متعلق۔ ہر انسان انفرادی طور پر اپنے اندر ایسا پیمانہ رکھتا ہے جو اپنے اچھے بر ے کی پرکھ کر سکے اور جو عمل انسان کو خود ساختہ اخلاقیات کا محکوم بنا لیتا ہے وہ اس پر علم کے سارے دروازے بند کر کے اسے غریب ترکر دیتا ہے۔ علی بابا چالیس چور الف لیلوی کتھا ہے اگر ہم اس کی تفہیم علمی و اخلاقی سطح پر کریں تو اس کہانی میں چھپے ہیرو کی تلاش کے تین ممکنہ طریقے ہیں:
پہلا طریقہ یہ کہ اس دنیا میں ہمیشہ سے علم‘ دانش‘ مادی وسائل اور طاقت کا ارتکاز ہی ہیرو کی کھری اور سچی پہچان ہے یوں اس داستان کے چالیس کے چالیس چور ہیرو ٹہرتے ہیں کہ جنہوں نے جہالت سے لبریز بستیوں کے پچھواڑے ایک ایسی غار کو تخلیق کیا جس کا دروازہ آواز کی طاقت سے کھلتا اور بند ہوتا تھا جبکہ وہاں دور و نزدیک بھوک اور جہالت کے سوا کچھ بھی کاشت نہ کیا جا رہا تھا اور نہ ہی کسی دوسرے شخص کواس میکانیت کی اب تک ہوا لگی تھی یعنی علم کی طاقت۔
دوسری صورت میں علی بابا کو اس داستان کا ہیر و کہا جا سکتا ہے جو لکڑیاں کاٹتے کاٹتے ایک روز اتفاق سے وہ بھید پا لیتا ہے جو آواز کی میکانیت اور ایک بڑے خزانے سے وابستہ تھا۔ ورنہ تو کھل جا سم سم پکار کر چوروں کے مال پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے بالآخر خودداستان کا اکتالیسواں چور بن گیا تھا یوں اسے ہیرو بنانے والی طاقت معجزے کی طاقت ہے جو ہر کامیاب شخص کی زندگانی میں کہیں نہ کہیں ضرور کارفرما ہوتی ہے۔
یا پھر تیسری آخری صورت میں مرجینا اس ساری داستان کی ہیرو ہے جس نے دروازے کو نشان زدہ پا کر سارے دوسرے دروازوں کو بھی نشان زدہ کیا تا کہ چور علی بابا تک نہ پہنچ سکیں یا تاجروں کے روپ میں چھپے چوروں کو پہچانا جن کی پہچان اس جدید دور میں بھی ممکن نہیں۔ میرے خیال میں اس کہانی کے وسیلے سے وہ حقیقت بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو اکسیویں صدی کے حقیقی کرداروں اور ان سے وابستہ کہانیوں میں پنہا ہے یعنی ہماری کہانیوں میں چھپے ان سچے کرداروں کی نشاندہی جن کی قربانیوں پر داستانیں اور حقیقی کہانیاں استوار ہوتی ہیں جیسے مائیں‘ بیویاں اور بیٹیاں ایک ایسی سچائی جو ہر کہانی میں ناقابل تنسیخ ہے اور ساتھ ہی وہ سارے کے سارے جھوٹے لوگ جو چہرو ں پر چہرہ سجائے عزت دار کہلانے کا ڈھنڈورا پیٹ کر اکسیویں صدی کے مادی المیے کو جنم دیتے ہیں یہ داستان انہیں پہچاننے میں مدد فراہم کرتی ہے۔