علی سردار جعفری 29 نومبر 1913 کو بلرام پور میں پیدا ہوئے تھے۔جعفری کا شمار ترقی پسند تحریک کے اہم شعراء میں کیا جاتا ہے۔سردار جعفری ترقی پسند تحریک کے سرگرم رکن میں سے تھے انھوں نے اپنے کلام کے ذریعے ترقی پسند تحریک کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ان کے شعری اور نثری تحریروں میں ترقی پسندی کی جھلکیاں واضح طور پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ابتدائی دور میں ان کے یہاں رومانی اثرات کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ وہ اپنیکلام کا اظہار روایتی انداز میں بھی کرتے ہیں۔لیکن ان کے کلام کی خولصیات یہ ہے کہ ان کے یہاں وطن دوستی اور انسانی قدروں کا احساس ملتا ہے ترقی پسند تحریک سے منسلک ہونے کے بعد یہ احساس اور شدت پکڑتا چلا گیا اور ان کی رومانیت حقیقت پسندی میں تبدیل ہونے لگی۔
سردار جعفری کے ادب سے ذوق کا عالم یہ تھا کہ انھوں نیآٹھ سال کی عمر میں میر انیس کے مرثیوں میں سے ایک ہزار اشعار کو یاد کرلیا تھا۔جس کو وہ روانی کے ساتھ پڑھتے تھے۔اور 15 برس کی عمر میں انھوں نے اپنے کلام کو باضابطہ طور تحریر کرنا شروع کیا۔ ایک طرف وہ حافظ، رومی، جامی، عرفی، نظیری،شیکسپئر،ملک محمد جائسی، تلسی اور کبیر سے متاثر تھے۔ تو دوسری طرف انھوں نے میرتقی، میر انیس، نظیر اکبر آبادی کی ادبی روایات سے بھی استفادہ کیا۔ جب پختہ عمر کو پہنچے تو وہ اقبال کے بھی معترف ہوگئے۔ وہ کہتے تھے ''میں اپنی جوانی میں اقبال کے بارے میں کچھ الگ ہی رائے رکھتا تھا بعد میں اندازہ ہوا کہ اقبال پہلے شاعر ہیں جنہوں نے لفظ انقلاب استعمال کیا ہے۔'' ہندی ادب میں غالب کو متعارف اور مقبول بنانے والوںمیںسردار جعفری کا اہم رول ہے۔ انہوں نے غالب کی مثنوی ''چراغ دیر'' کا ہندی زبان میں ترجمہ'' سومنات خیال'' کے نام سے کیا تھا۔ جس سے غالب کا اثر ہندی ادب پر بھی بہت گہرا پڑا۔ماہرین کے مطابق ان کی شعری زندگی کا آغاز اس شعر سے ہوا تھا:
دامن جھٹک کر منزلِ غم سے گزرگیا
اٹھ اٹھ کے دیکھتی رہی گرد سفر مجھے
انھوں نے کم سنی میں جو پہلا مرثیہ کہا اس کاایک بند ملاحظہ فرمائیں:
آتا ہے کون شمع امامت لییہوئے
اپنے جلو میں فوج صداقت لییہوئے
ہاتھوں میں جام سرخ شہادت لیے ہوئے
لب پر دعائے بخشش امت لیے ہوئے
اللہ رے حسن فاطمہ کے ماہتاب کا
ذروں میں چھپتا پھرتا ہے نور آفتاب کا
ان کے اس بند پر میر انیس کے مرثیوں کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔وہ خود کہتے ہیں کہ میں نینماز اور کلمہ کے بعد مرثیوں میں آنکھ کھولی ہے۔سردارجعفری کی نظموں میں سیاسی، انقلابی، سماجی شعور، کا احساس دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایشیا جاگ اٹھا، نئی دنیا کو سلام، اور امن کا ستارہ اسی فکر کی نظمیں ہیں۔جس میں انھوں نے نئی نئی تشبیہوں اور استعاروں کے پیرائے میں بڑی بڑی باتوں کو قلم بند کیا ہے۔
ان کی شاعری میں زور خطابت اور آہنگ پایا جاتا ہے۔ جو جوش ملیح آبادی سے محبت کا نتیجہ ہے۔ جعفری کی قید و بند کے وقت لکھی گئی نظموں میں اقبال اور جوش کا لب و لہجہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ان نظموں میں پتھر کی دیوار،میرے خواب،ایک خواب اور،اور جیل کی رات قابل ذکر ہیں۔ان نظموں میں سوز و گداز اور دل کو چھو لینے والی کیفیت ہے۔اور کہیں مایوسی کی فضا نظر نہیں آتی بلکہ رجائیت کا احساس نمایا ہوتا ہے۔ نرمی کی جگہ بلند آہنگی اور جاہ و جلال نظر آتا ہے۔ ایک نظم ''آنسوں کے چراغ'' مہاجر عورتوں سے یوں مخاطب ہیں:
''شریف بہنو!
غیورماؤں!
تمہاری آنکھوں میں بجلیوں کی چمک کے بدلے یہ آنسوؤں کا وفور کیوں ہے
میں اپنے نغمے کی آگ لاؤں
تم اپنی آہوں کی مشعلوں کو جلا کے نکلو
ہم اپنی روحوں کی تابناکی سے اس اندھیرے کو پھونک دیں گے''
جعفری نے آزاد نظموں کے بہترین نمونے پیش کر کے اردو شاعری کے قابل قدر خدمت انجام دی ہے۔بقول ڈاکٹر محمد حسن''جس طرح سردار جعفری آزاد نظم کو کلبیت،فکری نراج اورمریضانہ انفعالیت سے آزاد کر کے اسے ایک نیا لہجہ بخش دیا۔ اور منظوم دائرے کو ایک سماجی معنویت دے دی۔اسی طرح انقلابی حسیت بھی نئے لہجے اور نئیآہنگ اختیار کر سکتی ہے۔''
جعفری نے اپنی شاعری میں محبوب کی زلف کے پیچ و خم کو سنوارنے کے بجائے شاعری میں انقلابی اور حب الوطنی کے جذبے سے جڑے موضوعات کو اپنیاظہار خیال کا ذریعہ بنایا۔ انقلابی شاعری کی وجہ سے آپ کو 1940ء میں گرفتار کر لیا گیا۔ انقلابی تحریک سے متعلق چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
اسی لیے تو ہے زنداں کو جستجو میری
کہ مفلسی کو سکھائی ہے سرکشی میں نے
مقتل شوق کے آداب نرالے ہیں بہت
دل بھی قاتل کو دیا کرتے ہیں سر سے پہلے
سردار جعفری کی ایک نظم ہندو پاک کی دوستی کو لے کر ہے جس میں آپسی رشتوں کو مضبوط کرنیاور امن و امان قائم رکھنے کا پیغام دیا ہے۔ نظم کا عنوان ہے ''تمہارا ہاتھ بڑھا ہے جودوستی کے لیے''۔ اس کے کچھ بندپیش خدمت ہیں:
زمین پاک ہمارے جگر کا ٹکڑا ہے
ہمیں عزیز ہے دہلی و لکھنئو کی طرح
تمہارے لہجے میں میری نوا کا لہجہ ہے
تمہارا دل ہے حسیں میری آرزو کی طرح
کریں یہ عہدکے اوزار جنگ جتنے ہیں
انہیں مٹانا ہے اور خاک میں ملانا ہے
کریں یہ عہد کہ ارباب جنگ ہیں جتنے
انھیں شرافت و انسانیت سکھانا ہے
تم آؤ گلشن لاہور سے چمن بردوش
ہم آئیں صبح بنارس کی روشنی لے کر
ہمالیہ کی ہواؤں کی تازگی لے کر
پھر اس کے بعد یہ پوچھیں کہ کون دشمن ہے
اس نظم کیان بندوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تقسیم ہند نے سردار جعفری کو کتنا بے چین اور افسردہ کر دیا تھا۔اور ہندو پاک کی یکجہتی کے لئے اپنی اس نظم کو کس قدر دلکش انداز میں بیان کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔
سردار جعفری کو ان کی ادبی خدمات کے سلسلے میں حکومت ہند نے پدم شری انعام 1967ء میں اور جواہر لال نہرو فیلوشپ1969ء میں دیا تھا۔اور ''ایک خواب اور '' پر سوویت لینڈ نہرو انعام 1965ء اور ''نئی دنیا کو سلام پر''
گیان پیٹھ انعام سے 1970ء میں سرفراز کیاتھا۔ سردار جعفری بیک وقت ایک اچھے ادیب،شعلہ بار مقرر، مرثیہ گو، افسانہ نگار، شاعرونقاد اور ڈرامہ نویس بھی تھے انہوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے انسانی دوستی کا پیغام دیا ہے۔