علی سردار جعفری کا شمار ترقی پسند ادبی تحریک سے وابستہ اردو کے عظیم شاعروں میں ہوتا ہے ان کی شخصیت ہمہ جہت پہلوئوں کی حامل تھی ۔وہ بہ یک وقت ایک اچھے شاعر اور نقاد کی حیثیت سے ادب میں پہچانے گئے۔بقول وحید اختر’’سردار جعفری نے ایک عمر میںکئی عمریںہی نہیں گزاریں،بلکہ ہر عمر میں مختلف سطحوں پر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت بھی دیا ہے وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں لیکن اسی کے ساتھ ادب کے اچھے ناقد بھی ہیں۔بے مثال مقرر بھی ہیں۔کلاسکی ادب کے شارح بھی،سیاسی رہنما بھی اور ادبی نظریہ ساز بھی۔‘‘
(علی سردار جعفری شخص شاعر اور ادیب مرتب عبدالستاردلوی2002)
انھوں نے تمام عمر ترقی پسند تحریک کا دامن تھامے رکھا اور اُس کی ترویج و تبلیغ میں اپنی تخلیقات کو زورِ تخیل سے آراستہ کرکے عوام و خواص کے سامنے پیش کرتے رہے۔
وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے لیکن انھوں نے غزلیں بھی کہیںجن کا خاصہ یہ ہے کہ وہ مسلسل اور مربوط ہیں اور ایک جذباتی رو اُن میں پائی جاتی ہے ساتھ ہی ان میں ایک ایسا صوتی آہنگ ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔چونکہ وہ ایک درد مند دل کے مالک تھے اور سماج و کائنات میں اصلاحی کارفرمائیوں کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔ یعنی قوم و ملت کی خوش حالی و ترقی ان کاخواب تھا اس لئے انھوں نے اپنی پوری شاعری کو امن و سلامتی کا پیغامبر بنا کراہلِ ادب کے روبرو پیش کیا۔ان کے یہاں یقین بلندیوں پر فائیز نظر آتا ہے وہ بداعتقادی کے شکار نہیں ہوتے۔یہی وجہ ہے کہ ان کا جو بھی خیال یا نصب العین تھا وہ مستحکم طور سے آگے بڑھتا رہا ۔ وہ سادہ گو اور سلیس شاعری کے دلدادہ رہے ۔رفعت سروشؔ ان کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’سردار جعفری عنفوان شباب میں اپنے اس شعر کے ساتھ مطلع شاعری پرطلوع ہوئے‘‘
دامن چھٹک کے منزلِ غم سے گزر گیا
اُٹھ اُٹھ کے دیکھتی رہی گردِسفرمجھے
(درد کا ساحل بہ یادِ علی سردار جعفری ایوانِ اردو،ستمبر2000ء)
ان کی غزلیں مسلسل ہونے کی وجہ سے بعض مقامات پر نظم گوئی کے فن پر کھری اُترتی نظر آتی ہیں۔ مثلاً:
نئے زمان و مکاں، انقلاب زندہ باد
نئی ہے عمرِرواں ،انقلاب زندہ باد
دمک رہی ہیں فضائیں،چمک رہے ہیں فلک
بلند شعلۂ جاں،انقلاب زندہ باد
قدم ہے نغمہ گرو نغمہ ریز و نغمہ فشاں
زمیں ہے رقص کناں،انقلاب زندہ باد
اس بات سے کوئی بھی نقاد یا اہلِ ادب ہرگزانکار نہیں کر سکتا کہ سرسید کی تحریک کے بعد ترقی پسند تحریک نے سب سے زیادہ اپنے اثرات ڈالے اور ادب پر اپنا نمایاں اور منفرد اندازِ اثر ثبت کیا۔ ترقی پسند تحریک کے سلسلے میں اگرچہ سب سے پہلا نام سجاد ظہیرؔ کا آتا ہے لیکن علی سردار جعفری ترقی پسند تحریک کے روحِ رواں کی حیثیت کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ وہ خود کہتے ہیں:
’’تحریک، تنظیم اور تخلیق کا باہمی رشتہ ہے۔تحریک کسی بھی تاریخی عہد میں ہزاروں لاکھوں انسانوں کی غیر اورغیر شعوری تمنائوں اور آرزئوں کا اظہار ہوتی ہے یہ وقت کے تقاضوں سے پیدا ہونے والے اجتماعی احساس کا نام ہے اور یہ اجتماعی احساس تنظیم اور تخلیق کا مطالبہ کرتا ہے۔تنظیم تحریک کی کامیابی کے لئے آسانیاں فراہم کرتی ہے اور تخلیق تحریک کا حاصل ہے۔‘‘
ان کے خیال کی روشنی میں ان کی ترقی پسند تحریک سے متعلق جزبہ سب پر آشکار ہو جاتا ہے۔اسی طرح ان کی نظموںمیں بھی انقلاب کی ترجمانی صاف نظر آتی ہے اور وہ اس کے ذریعے ترقی پسندوں کی دل کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مثال کے طور پر وہ اپنی نظم’’ جوانی‘‘ میں کہتے ہیں:
مراجی لگ نہیںسکتاہے شاہوں کی شبستاں میں
بنایا ہے نشیمن میں نے زخموں کے گلستاں میں
مرے ہونٹوں پہ نغمے کانپتے ہیںدل کے تاروںکے
میں ہولی کھیلتا ہوں خون سے سرمایہ داروں کے
ان کے مشاہدے میں ان کے قُرب و جوار کی دنیاصاف نظر آتی ہے جو عوام کا درد،کرب اور رنج و الم سمیٹ کر شاعری کا قالب اختیار کر لیتا ہے۔ کہتے ہیں:
تمنائوں میں کب تک زندگی الجھائی جائے گی
کھلونے دے کر کب تک مفلسی بہلائی جائے گی
نیا چشمہ ہے پتھر کے شگافوں سے ابلنے کو
زمانی کس قدر بیتا ب ہے کروٹ بدلنے کو
ان کی نظم ’’مشرق و مغرب‘‘ میں بھی اس کی مثال دیکھنے کو ملتی ہے:
ؔ جس نے لوٹا ہے ہمیں جس نے ستم ڈھایا ہے
ارض مغرب نہیں مغرب کا وہ سرمایہ ہے
اور سرمایہ نہ ہندی ہے نہ برطانی ہے
یہ مرے اور ترے خون کی ارزانی ہے
تیرا قاتل بھی وہی ہے مرا قاتل بھی وہی
زیست کی جہد بھی اور جہد کا حاصل بھی وہی
ان کی شاعری کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں اعلیٰ پیمانے کی پیکر تراشی بھی پائی جاتی ہے۔بقول رفیعہ شبنم عابدی:
’’اگر سردار جعفری کے کلام کا بغور مطالعہ کریں تو پتا چلے گا کہ ان کی شاعری میں جو سب سے نمایاں خصوصیت نظر آتی ہے وہ امیجری یاپیکر تراشی کا استعمال ہے۔‘‘
(افکار کراچی۔سردار جعفری نمبر۔نومبر دسمبر1991ء)
’’نئی دنیا کو سلام‘‘ ان کی ایک شاہکار اور طویل نظم ہے جس میں پیکر تراشی کی عمدہ مثالیں ملتی ہیں:
دن آہستہ آہستہ ڈھلنے لگا تھا
فضائوں میں سونا پگھلنے لگا تھا
اُفق پر کرن خواب سا بن رہی تھی
دوپٹے کو اپنے شفق چن رہی تھی
اپنی ایک غزل میں وہ پیکر تراشی کے جوہر کچھ اس طرح دکھاتے ہیں:
کتنی آشائوں کی لاشیں سوکھیں دل کے آنگن میں
کتنے سورج ڈوب گئے ہیں چہروں کے پیلے پن میں
بچوں کے میٹھے ہونٹوں پیاس کی سوکھی ریت جمی ہے
دودھ کی دھاریںگائے کے تھن سے گر گئیںناگوںکے پھن میں
نظم ’’نیند‘‘ کا مطالعہ کرنے سے بھی ان کی پیکر تراشی کے جوہر کھل کر سامنے آتے ہیں۔ جس میں وہ جیل کی چاردیواری ،سلاکھوں اور رات کی ایک بے مثال کیفیت پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
نیلگوں جواں سینہ
نیلگوں جواںباہیں
مخملیں اندھیرے کا
پیرہن لرزتاہے
وقت کی سیہ زلفیں
خامشی کے شانوں پر
خم بہ خم مہکتی ہیں
رات خوب صورت ہے
نیند کیوں نہیںآتی!
ان کی شاعری میں محرکات،جذبات،تجربات کے ساتھ ساتھ تمثیل اور ڈرامائی عناصر کی بھی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے مثلاً ان کی نظم’’ نوالا‘‘ اس بات کی ترجمان ہے:
ماں ہے ریشم کے کارخانے میں
باپ مصروف سوتی مل میں ہے
کوکھ سے ماں کی جب سے نکلا ہے
بچہ کھولی کے کالے دل میں ہے
جب یہاں سے نکل کے جائے گا
کارخانوں کی کام آئے گا
اپنے مجبور پیٹ کی خاطر
بھوک سرمائے کی بڑھائے گا
وہ آزادی کے بعد تقسیمِ ہند کے کرب سے بھی دوچار نظر آتے ہیں۔ ہند و پاک کے مسائل اور ان کے حالات کی بھی منظر ان کی شاعری میں بخوبی نمودار ہوتی ہے۔وہ بین الاقوامی اتحاد کی حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
تم آئو گلشنِ لاہور سے چمن بر دوش
ہم آئیں صبح بنارس کی روشنی لے کر
ہمالیہ کی ہوائوںکی تازگی لے کر
پھر اس کے بعد یہ پوچھیںکہ کون دشمن ہے
گفتگو بند نہ ہو
بات سے بات چلے
صبح تک شامِ ملاقات چلے
سر پہ ہنستی ہوئی یہ تاروں بھری رات چلے
وہ ہندوستان اور پاکستان کہ رشتوں کو بھی ہموار کرنا چاہتے تھے اس کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ہمارے دل میں رفاقت بھی اور پیار بھی ہے
تمہارے واسطے یہ روح بے قرار بھی ہے
ایک دوسری نظم میں وہ ہندوستانی اور پاکستانی عوام میں اتحاد اور محبت کی باتوں کو عام کرنے کی پیش کش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
ہاتھ میں ہاتھ لئے سارا جہاں ساتھ لئے
تحفۂ درد لئے پیار کی سوغات لئے
ریگ زاروں سے عداوت سے گزر جائیں گے
خوں کے دریا ئوں سے ہم پاراتر جائیںگے
وہ ملک میں امن و شانتی کی فضابھی قائم کرنا چا ہتے تھے مثلاً اپنی ایک نظم وہ اس طرح عوام کو مخاطب کرتے ہیں:
متحد ہو کراُٹھو جس طرح دریا میں ابال
متحد ہو کر بڑھو جیسے صحرا میں غزال
متحد ہو کراُڑو جس طرح شاعر کا خیال
متحد ہو کر چلو مانندِبادِ برشگال
پھر بہار آجائے شاخِ آرزو پھلنے لگے
کھیتیاں شاداب ہوجائیں ہوا چلنے لگے
اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے کلام کو حسین تشبیہات اور استعارات میں سجا سنوار کر پیش کیا ہے۔مثال کے طور ان کے یہ اشعار:
؎ شوق کی حد مگر چاند تک تونہیں
ہے ابھی رفعتِ آسماں اور بھی
ہے ثریا کے پیچھے ثریا رواں
کہکشاں سے پرے کہکشاں اور بھی ہیں
یہ اشعار ان کے مشاہدات،تجربات کے غماز ہیںاور ان کے کلام کی گہرائی اور گیرائی اور ان کی فکر کی پرواز کے ترجمان ہیں ۔علی سردار جعفری جہاںاپنے کلام میں نئی نئی تراکیب کا استعمال کرتے وہی وہ اردو کی کلاسکی شاعری کے استعاروں کو اپنے منفرد انداز میںبیان کرتے ہیں مثال کے طور پر انھوں نے’بت‘’کعبہ‘’شیخ و برہمن‘ کے استعمال کو اپنی شاعری میں بڑے منفرد انداز میں پیش کیا ہے:
کعبۂ دل میں بیٹھے ہیں اب بھی صدیوں کے فرسودہ بت
رنگ و نسل و شیخ برہمن مذہب وملت ملک و وطن
لے کر پھر قندیلِ محبت اترو دل کے اندھیرے میں
روح کی تاریکی کو روشن کر تی نہیںسورج کی کرن
ان کی شاعری وہ شاعری ہے جو رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گی جب تک اردو ادب چاہنے والے زندہ رہیں گے تب تک ان کو علی سردار جعفری یاد آتے رہیں گے ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے جو ان کو ادب کی دینا میں تا حیات زندۂ جاویدرکھے گی وہ خود اپنی ایک شہر آفاق نظم اس بات کی پیشین گوئی کر گئے ہیں:
لیکن میں یہاں پھر آئوں گا
بچوں کے دہن میں بولوں گا
چڑیوں کی زباں سے گائوں گا
جب بیج ہنسیںگے دھرتی میں
شبنم کے قطرے تولوں گا
میں رنگِ حنا،آہنگ غزل،اندازِ سخن بن جائوں گا
اور سارا زمانہ دیکھے گا
میں سوتا ہوں میں جاگتاہوں
اور جاگ کے پھر سو جاتا ہوں
میں مر کے امر ہوجاتا ہوں