علی ریحان اور جاوید صاحب کے درمیان ایک دلچسپ مکالمہ
علی ریحان نے اپنا نقطہ نظر بیان کرتےہوئے کہا،جاوید خان صاحب مجھے ایسے لگتا ہے جیسے انسانیت کے آخری لمحات آ پہنچے ہیں۔اس پرجاوید خان بولے،میاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو ،انسان مررہا ہے اور یہ انسانیت کے بھی آخری دن چل رہے ہیں ۔زیادہ وقت اب نہیں رہ گیا،اس دنیا کے حساس،زہین اور تخلیقی انسانوں کو محسوس ہونے لگا ہے کہ انسانیت کا خاتمہ ہونے والا ہے ۔صرف جاہل ،حساسیت سے محروم کند زہن ہی اس بات سے ناواقف ہیں۔علی نے کہا جاوید صاحب پاکستان اور بھارت میں انسانیت کی تباہی کے زمہ دار کون ہیں؟جاوید صاحب نے کہا پاکستان اور بھارت کے جاہل سیاستدان،فوجی حکام،میڈیا کے ٹھیکیدار اور انتہا پسند عناصر اس زمین کے لئے خطرات پیدا کررہے ہیں ۔اپنے مفادات کی خاطر یہ تباہی پھیلا رہے ہیں ۔ان لوگوں کو یہ معلوم بھی نہیں کہ وہ انسانیت کو کس طرح کی تباہی کی طرف لیکر جارہے ہیں ۔ پاکستان اور بھارت کے عوام معلوم نہیں ان خطرناک لوگوں کے جھانسے میں کیوں آجاتے ہیں؟ہاں یہ حقیقت ہے کہ سرحد کہ دونوں اطراف کچھ درد دل رکھنے والے حساس افراد خطرے کو بھانپ چکے ہیں ،لیکن وہ بے بس ہیں ۔ان کے پاس طاقت نہیں ۔پاکستان و بھارت کی انسانیت کسی بھی لمحے اجتماعی خود کشی کر لے گی ۔ان دونوں ملکوں کا حال جتنا آج غیر یقیینی اور پریشان کن ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھا ۔یہ لمحات بہت بحرانی ہیں لیکن پریشان ہونے کی بجائے ان لمحات کو عظیم تخلیقی انداز میں گزارنا چاہیئے۔جاہل لوگوں کے لئے اپنی زندگی کو کیوں جھنم بنائی جائے؟مرنے اور لڑنے دو ان کو اگر یہی ان کی سب سے بڑی خواہش ہے؟علی ریحان نے سوال کیا کہ جاوید صاحب ایسا کیوں ہے؟اور یہ کیوں ایک دوسرے کو تباہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں؟جاوید صاحب نے کہا،یہ لوگ احساس سے عاری ہیں ۔اپنی طاقت اور مفادات کی خاطر یہ جنگ و جدل چاہتے ہیں ۔جنگ جاری رہے گی توان کی دولت بڑھتی رہے گی ۔ان کی سلطنت میں اضافہ ہوگا اور یہ مزید طاقتور ہوں گے ۔ان کو ووٹ بھی لینے ہوتے ہیں ۔فوجی چوکیوں میں بھی اضافہ کرنا ہوتا ہے ۔جنگی ساز و سامان میں بھی اضافہ کرنا ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ انتہا پسندی کے اڈوں کو بھی مظبوط و طاقتور بنانا ہوتا ہے ۔آمریت اور جمہوریت بھی چلانی ہوتی ہے ۔اس لئے یہ ایسا کرتے ہیں ۔جاوید صاحب نے کہا بدقسمتی یہ ہے کہ برصغیر کی سرزمین پر ہمیشہ غیر حساس لوگ ہی طاقتور رہے ہیں ۔ نظریات کے ٹھیکیدار بھی اس زمین پر صدیوں سے یہ لوگ رہے ہیں ۔تاریخ بھی انہی کے قصے کہانیوں سے اٹکی پڑی ہے ۔یہ غیر حساس طاقتور لوگ خوبصورتی،محبت ،موسیقی،شاعری اور زندگی کے دشمن ہیں ۔لاشوں پر سیاست چمکانے والے یہ لوگ ہمیشہ یہی تبلیغ کرتے آئے ہیں کہ انسان برابر نہیں ۔مذہب اور خدا کے نام پر انسانوں کو تقسیم کرنا ان کا کاروبار ہے اور عام انسان صدیوں سے آج تک ان کے کھیل کو سمجھ نہیں سکے اور اب بھی سمجھ نہیں رہے ۔ان طاقتوروں نے جگہ جگہ غدار بنانے کی فیکٹریاں کھولرکھی ہیں ،جہاں ان آزاد انسانوں کو غدار بنایا جاتا ہے جو ان کے پیشے پر نقطہ چینی کرتے ہیں ۔کافر بنانا ،غدار بنانا ان کا کاروبار ہے اور طاقت کا زریعہ بھی ۔کسی کو یہ مودی کا یار بنا کر غدار کا لقب دے دیتے ہیں ،کسی کو امریکہ کا یا ر بناکر غدار بنا دیتے ہیں ۔دیکھو بیچارے حسین حقانی کو بھی ان لوگوں نے پاکستان دشمن بنادیا ہے ۔میں نے کہا جاوید صاحب کیا پھر ان کے خلاف آوازنہیں اٹھائی جانی چاہیئے؟جاوید صاحب نے کہا اگر ہمت ہے تو آواز اٹھاؤ،کس نے تمہیں روکا ہے ۔ہاں پھر کافر یا غدار کے طعنےبرداشت کرنے ہوں گے ۔پاکستان اور بھارت کے انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ اس زمین کو اپنا گھر نہیں سمجھتے ۔ہندو یا مسلمان کہلوانا پسند کرتے ہیں ۔بھارتی یا پاکستانی کہلوانا انہیں پسند ہے ۔انسان کہلوانے سے انہیں چڑ ہے ۔اسی وجہ سے جاہل ان پر ہمیشہ حکومت کرتے آئے ہیں ۔طاقتور تو یہی چاہتے ہیں کہ کوئی ہندو انتہا پسند ہو ،کوئی مسلمان انتہا پسند ہو۔کوئی وہابی ہو تو کوئی سنی ۔کوئی محب وطن ہو تو کوئی غدار ۔کوئی ملحد ہو تو کوئی سیکولر ۔طاقتوروں کا کھیل ہی یہی ہے کہ انسانیت تقسیم رہے ۔یہ تقسیم ہی ان کی طاقت ہے ۔دوسرا یہاں کہ انسانوں کا بھی مسئلہ نمبر ون یہی ہے کہ سارے ایک دوسرے کو اپنا جیسا بنانا چاہتے ہیں ۔اسی وجہ سے ان میں تقسیم ہے ۔وہابی چاہتا ہے دنیا وہابیوں سے بھر جائے ۔سنی چاہتا ہے ہر جگہ سنی ہی سنی نظر آئیں ۔سیکولر انسان کی خواہش ہے دنیا سیکولروں سے مزین ہو جائے اور دہریہ دنیا کو اپنے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے۔ہر ایک پوری انسانیت کو اپنے جیسا بنانا چاہتا ہے ،کسی کی یہ خواہش نہیں کہ ہم سب انسان ہونے کے ناطے ایک دوسرے سے تعلقات استوار کریں ۔یہی سیاست ایٹمی جنگ کا سبب بنے گی ۔انہی طاقتوروں کی وجہ سے پاکستانی اور بھارتی جنگ کی کیفیت میں ہیں ۔قومی نغموں کا دور شروع ہے ۔نور جہاں اور لتا کو پھر زندہ کیا جارہا ہے ۔ہر کسی کے ہاتھ میں اپنا اپنا جھنڈہ ہے ۔جھنڈوں کی سیاست کا میڈیا پر خوب راج ہے۔ان بے وقوفوں کی وجہ سے لاکھوں انسان مریں گے ۔علی نے کہا اس صورتحال میں کیا کیا جائے ؟جاوید صاحب نے کہا،بھائی پاکستان ایک غریب ملک ہے ۔اس غربت پر پاکستان اکیلا قابو نہیں پاسکتا۔اس کے لئے پاکستان کو ساری دنیا سے تعاون کرنا چاہیئے۔کیونکہ ٹیکنالوجی باقی دنیا کے پاس ہے ۔سائنس و ٹیکنالوجی سے ہی غربت کا خاتمہ ہوگا ۔کیا تم پاکستانی سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ہو؟ایک تو تم پاکستانی غربت کا شکار ہو دوسرا تمہاری انا اور خودی ہے کہ اس میں دن رات ترقی ہو رہی ہے ۔بھائی تم خود اس غربت اور بے روزگاری کو ختم نہیں کرسکتے ۔دنیا کے لئے اپنے دروازے کھول دو ۔امن و آشتی سے دنیا کے ساتھ تعلقات بناو۔یہ سیکیورٹی سیکیورٹی کا کھیل بند کرو ۔دماغوں کو وسیع کرو اور پاکستان کو سیکیورٹی اسٹیت کی بجائے فلاحی و لبرل ریاست بناؤ۔باقی انسانیت سے مدد لینی پڑے گی اور یہ قومی مفادت کا دھندہ ختم کرنا ہوگا ۔یہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کی فیکٹریاں بند کرنی ہوگی اور جنگجووانہ خیالات کو ختم کرنا ہوگا ۔انہی ںظریات کی وجہ سے دنیا جھنم کا منظر پیش کررہی ہے۔زہانت یہ ہے کہ جہاں سے مدد ملتی ہے وہاں سے لو۔یہ زمین تمام انسانوں کے لئے ہے اور ہم ایک ہی انسانیت کے باشندے ہیں ۔انا کی وجہ سے کشمکش اور تقسیم ۔میرا ملک سب سے بہترین اور باقی دنیا کافروں کی ۔اس خیال نے تم پاکسنایوں کو برباد کیا ہے ۔پاک بھارت جنگ ہو گئی تو اس زمین پر غربت میں اضافہ ہوگا ۔لاکھوں انسان مر جائیں گے ۔بے روزگاری بڑھے گی ۔تعلیم ،معیشت اور نام نہاد جمہوریت کے ادارے تباہ ہوجائیں گے ۔ہتھیارخریدنے اور ہتھیار چلانے کے بدصورت نظریئے سے باہر نکلو ۔پاک بھارت جنگوں کی وجہ سے پہلے کیا ملا؟ہتھیاروں اور ایٹم بموں کے پہاڑ کھڑے کرنے سے انسان مریں گے ،انسانیت تباہ ہوگی تہذیب و کلچر تباہ ہوگی ۔جہالت بڑھے گی اور انسان بھوک سے مریں گے ۔قومی مفاد کے نام پر رچایا گیا ڈرامہ سمجھنے کی کو شش کرو۔پاکستان اور بھارت دونوں ایک دوسرے کی ترقی سے خوف زدہ ہیں ،ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں ۔یہ پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے ۔عجیب قوم ہے یہ پاکسانیوں کو شاہ رخ خان پسند ہے اور گھر گھرمیں ان کی فلمیں چل رہیں ہیں ۔بھارتی فواد خان اور علی ظفر کے دیوانے ہیں ۔لیکن پھر بھی ہم ایک دوسرے کو زندہ باد اور مردہ باد کہتے رہتے ہیں ۔عجیب سا نفسیاتی مرض ہے جس کا یہ دونوں قومیں شکار ہیں ۔علی نے کہا جاوید صاحب پھر کیا کیا جائے؟ جس سے دونوں ملکوں کے عوام میں شعور اور آگہی آجائے اور دوسرے سے نفرت کرنا بند کر دیں ؟پاکستان اور بھارت کے عوام کا انسانی شعور بہتر کیا جائے ۔زہین ،تخلیقی اور حساس انسانوں کو باہر نکلنا چاہیئے ۔میڈیا کو استعال کیا جائے ۔دونوں ملکوں کے میڈیا کو طاقتوروں سے آزاد کرایا جائے کیونکہ دونوں ملکوں کے قومی مفاد کے ٹھیکیدار نے میڈیا کا استعمال کرکے انسانوں کے زہنوں کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔پاکستان اور بھارت کو بنے کئی دہائیاں بیت گئی ،اب تو ہندو مسلم نظریات سے نکلیں ۔جاوید صاحب نے کہا علی ریحان ،دیکھو ،جب پاکستان سے ایک پرندہ بھارت کی زمین پر داخل ہوتا ہے تو اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کہیں اور آگیا ہے ۔وہی آسمان ،وہی پرواز اور وہی انسانیت اسے پرواز کرتے ہوئے نظر آتی ہے ۔کاش پاکستانی اور بھارتی کسی دنیا اس پرندے کی طرح کی سی آزادی انجوائے کر سکیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔