“علی پور کا ایلی، مُمتاز مُفتی کا شاہ کار ناول ہے جو 1961ء میں زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر منظرِ عام پر آیا۔ یہ اُردو ادب کے ضخیم ترین ناولوں میں شُمار ہوتا ہے۔ ناول کے پیش لفظ میں مُصنف اپنے مُتعلق رقم طراز ہیں۔”یہ روئیداد ہے۔ایک ایسے شخص کی جِس کا تعلیم کچھ نہ بگاڑ سکی۔
جِس نے تجربے سے کچھ نہ سیکھا۔
جِس کا ذہن اور دل ایک دوسرے سے اجنبی رہے۔
جو پروان چڑھا اور باپ بننے کے باوجود بچہ ہی رہا۔
جِس نے کئی ایک محبتیں کیں لیکن محبت نہ کر سکا۔ جِس نے محبت کی پھول جھڑیاں اپنی انا کی تسکین کے لیے چلائیں لیکن سپردگی کے عظیم جذبے سے بیگانہ رہا اور شُعلہ جوالہ پیدا نہ کر سکا۔ جو زندگی بھر اپنی انا کی دھندلی بھول بھلیوں میں کھویا رہا حتیٰ کہ بالآخر نہ جانے کہاں سے ایک کِرن چمکی اور اسے نہ جانے کِآدھر کو لے جانے والا ایک راستہ مِل گیا۔”
یہ ناول کرداروں کا ایک جنگل ہے جِس میں بھانت بھانت کے مرد وزن مِنصّہِ شہود پر نمودار ہوتے ہیں۔ مرکزی کرداروں میں ایلی، علی احمد، ہاجرہ اور شہزاد شامل ہیں جب کہ ضِمنی کرداروں کی تعداد بیسیوں ہے۔ ہر کردار مُنفرد اور یکتا ہے اور اپنے مزاج اور نفسیات کے مطابق عمل پیرا رہتا ہے۔ ناول کا پلاٹ انتہائی سڈول اور گُتھا ہوا ہے۔ اگرچہ کہانی میں افراد اور واقعات کی بھرمار ہے لیکن چھوٹے چھوٹے غیر اہم واقعات کو مرکزی پلاٹ کے ساتھ بڑی مہارت سے جوڑا گیا ہے جس سے کہانی کے ربط وتسلسل اور روانی میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ ناول دو پہلوؤں سے مُتنازعہ ہے، پہلا یہ کہ: آیا یہ ناول ہے بھی کہ نہیں؟ کیونکہ مُصنف (مُمتاز مُفتی) کے بقول یہ اس کی آپ بیتی ہے جِس میں اُنہوں نے 1905ء سے 1947ء تک اپنی زندگی کے تمام حالات وواقعات، خامیوں، کجیوں اور بے راہ رویوں کو بِلا کم وکاست انتہائی دلیری اور بغیر کسی لگی لپٹی کے بیان کیے ہیں لیکن تکنیکی لحاظ سے یہ تخلیق، آپ بیتی کی بجائے ناول کے زیادہ قریب ہے کیونکہ آپ بیتی کے ہر واقعے اور ہر کردار کو حقیقت پر مبنی ہونے کے باوجود افسانوی اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔ اس لیے اسے ناول قرار دیا جاتا ہے۔ ناول کے دوسرے ایڈیشن کے پیش لفظ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
“بیشتر لوگ جنہوں نے اس کتاب کا مُطالعہ کیا ہے، اس بات پر مُصر ہیں کہ یہ ناول ہے۔ محمود ایاز کہتے ہیں کہ ‘یہ تلاشِ ذات کا ناول ہے’، ابنِ انشا کا کہنا ہے کہ ‘یہ ناولوں کا گرنتھ صاحب ہے’، سعادت اور فرزانہ کا خیال ہے کہ ‘اس ناول میں ایسے ٹکڑے بھی ہیں جنہیں پڑھ کر پِھر سے جینے کی آرزو پیدا ہوتی ہے’، ایسے قاری بھی ہیں جو کہتے ہیں کاش یہ ناول ہوتا اور رومان کے نقطہِ عروج کے بعد ختم ہو جاتا۔ ایسے قاری بھی ہیں جِن کا خیال ہے کہ اسے ایسا ہی ہونا چاہیے تھا جیسے کے ہے۔”
دوسرا مُتنازعہ پہلو یہ ہے کہ: اس ناول کو آدم جی ادبی ایوارڈ نہیں مِلا، چنانچہ اس فیصلے پر اُردو ادب کے قارئین، ناقدین، شاعروں اور ادیبوں نے اپنے شدید غم وغصے اور ردِ عمل کا اظہار کیا۔ آدم جی انعام کا فیصلہ کرنے والے فاضل ججوں کے اس فیصلے پر بطورِ طنز واحتجاج ناول کے پہلے ایڈیشن کی ہر جِلد کے ساتھ ایک چیپی لگی ہوئی مِلتی تھی جس پر لِکھا ہوتا تھا: “اسے آدم جی انعام بھی مِلا”۔ علی پور کا ایلی کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُردو ادب کے عظیم تخلیق کاروں نے اس ناول پر اپنے اپنے انداز میں خامہ فرسائی کی ہے۔
جمیل الدین عالی رقم طراز ہیں۔
“آدم جی ادبی انعام کی ایک مجلس مصنّفین ہوتی ہے۔ میں پہلے سال سے اس کا معتمد اعزازی ہوں۔ میرا کام انتظامی ہے اور ضابطے کی رو سے میں کتابوں کے بارے میں حقِ رائے دہی نہیں رکھتا۔ جب اس کتاب (علی پور کا ایلی) پر غور ہوا، اس مجلس کے صدر ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری اور اراکین تھے پروفیسر مُمتاز حسن، پروفیسر وقار عظیم اور دیگر مشاہیر جن کے نام شائع ہو چکے ہیں……انہوں نے اس کتاب (علی پور کا ایلی) کو بہترین نہ سمجھا، بلکہ جمیلہ ہاشمی کی”تلاشِ بہاراں” کو انعام کا مستحق قرار دیا…… مصنّفین نے اپنی رائے دے دی جس کا احترام کیا گیا اور انتظامی پابندی بھی کی گئی۔ مجلس مصنّفین کی کارروائی خفیہ رکھی جاتی ہے، صِرف متفقہ یا اکثریتی رائے کی تشہیر کی جاتی ہے۔ اس لیے میں اس کارروائی کا حال نہیں بتا سکتا…… لیکن ایک قاری کی حیثیت سے مجھے ہمیشہ یہ حق ہے کہ یہ فیصلہ اُردو ادب کے ساتھ کم از کم ایک ناانصافی کے مُترادف تھا۔”
اُردو کے عظیم مزاح نِگار اور شاعر ابنِ انشا لکھتے ہیں:
“ہزار صفحے کے اس ناول کو شروع کرکے ختم کیے بغیر رکھنا مُشکل ہے۔ جس نے پڑھا، ایسے پڑھا کہ کام سے یا دفتر سے چار دن کی چُھٹی لی، اتنے دن کی رسد اور پانی کی ایک مٹکی پاس رکھ لی۔ بنیوں اور تاجروں اور ان لوگوں کے پڑھنے کی یہ چیز نہیں جِن کا لمحہ لمحہ بڑا قیمتی ہوتا ہے اور جو صِرف منڈیوں کے بھاؤ اور سینما کے اشتہار پڑھنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ غالباً انہیں طبقوں کا مفاد مدِنظر تھا کہ آدم جی انعام کے فاضل ججوں نے انعام نہ دے کر قوم کو اس ناول سے بچانے کی کوشش کی لیکن تقدیر پر کِس کا بس چلتا ہے۔”
کرنل محمد خان نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے۔
“جب مُمتاز مُفتی کی کتاب……علی پور کا ایلی……کو آدم جی انعام نہ مِل سکا تو معاً ہمیں احساس ہوا کہ یہ ضرور کام کی کتاب ہوگی، اسے پڑھنا چاہیے۔”
اشفاق احمد نے اپنا مافی الضمیر یوں بیان کیا ہے:
“جب علی پور کا ایلی شائع ہوا تو میں اسے اُردو زُبان کا ایک عظیم ناول تصور کیا کرتا تھا۔ انہی دنوں ناشر نے اسے آدم جی پرائز کے لیے گلڈ کے دفتر میں گُزارا۔ ججوں نے اسے پڑھا اور اس پر غور کیا۔ پھر فیصلہ دیا کہ علی پور کا ایلی اس قابل نہیں کہ اسے آدم جی انعام سے نوازا جائے۔ چونکہ یہ مُلک کے پانچ بڑوں کا فیصلہ تھا، اس لیے مُجھے بھی اپنی رائے میں تبدیلی کرنی پڑی۔ اس وقت سے لے کر اب تک میری رائے ویسی ہی چلی آ رہی ہے کہ پچھلے دنوں اس ناول کو پِھر سے دیکھنے کا موقع مِلا۔ چونکہ بزرگوں کی عزت کرنے کا حُکم مُجھے بچپن سے مِلا ہے، اس لیے میں ان کے فیصلے پر قائم رہنے پر مجبور ہوں۔ ویسے میرا دل پُکار پُکار کر کہتا ہے کہ فسانہِ آزاد اور علی پور کا ایلی اُردو کے دو عظیم ناول ہیں۔ خُدا کا شُکر ہے کہ میرے دل کی آواز مُجھ ہی تک محدود ہے ورنہ بڑا ہنگامہ کھڑا ہو جاتا۔ آپ اس ناول کو پڑھیے لیکن اپنی رائے قائم کرنے کے بجائے فاضل ججوں کے فیصلے کے پابند رہیے کیونکہ یہ اُردو ادب کی تاریخ کا اہم فیصلہ ہے اور اس کو بُنیاد بنا کر مُستقبل کے ادب کے بارے میں اقوال فیصل دیے جانے چاہئیں۔”
بانو قُدسیہ فرماتی ہیں۔
“اگر آپ کو غزل الغزلات پڑھنے کا شوق ہے اور آپ عورتوں سے باتیں کرکے مسرت حاصل کرتے ہیں تو علی پور کا ایلی ضرور پڑھیے۔
اگر آپ جانتے ہیں کہ مرد بطخ کی مانند ہے، اور ہمیشہ اُوپر سے پانیوں میں تیرتا ہے اور مچھلی کی طرح نچلے پانیوں میں نہیں جا سکتا تو بھی علی پور کا ایلی آپ کے لیے مسرت کا باعث ہوگی۔
اگر آپ میں تجسّس کا مادہ ہے اور آپ بچپن میں بھول بھلیاں اور پہیلیاں بوجھتے رہے ہیں تو آپ کے لیے علی پور کا ایلی وہ سُنہری پوستین ہے جو ہزار منزلوں کے بعد شہزادے کو مِلی تھی۔
اگر آپ لوگوں سے مِلنا چاہتے ہیں اور مکمل طور پر مردم بیزار نہیں ہوئے تو علی پور کا ایلی ضرور پڑھیے۔ اس میں اِک جہاں آباد ہے۔”
عالم گیر فُرصت کے اِن دِنوں میں، جب راوی چین ہی چین لِکھ رہا ہے، دفعُ الوقتی ہی سہی، علی پور کا ایلی آپ کا بہترین ساتھی ثابت ہو سکتا ہے۔
(منقول)