:::" علی ناظم: ایران کے یساریت پسند ادبی نقاد اور نظریہ دان اور مارکسی سیاسی مزاحمت کار، شاعر ۔ جن کو زندان میں تشدد کے بعد ہلاک کیا گیا " :::
علی ناظم کا نام زیادہ معروف نہیں لیکن کے ادبی اور سیاسی فکریات اپنے عہد کا ایک " انحرافی "اور ریڈکل کا مخصوض مزاج تھا۔ میرا علی نظم سے غائبانہ تعارف امریکہ میں جدید فارسی کے جدید معروف ایرانی شاعر احمد شاملو نے کروایا تھا وہ نیو جرسی { امریکہ}جب وہ شوگر کے عاضے میں مبتلا تھے اوراحمد شاملو نے علی ناظم کے کچھ تحریریں دکھائی بھی تھی۔ میری ان سے ملاقات کوئی 25 سال پہلے ہوئی تھی اور پھر میرے زہن سے علی ناظم کے تحریکی، نظریاتی اور ادبی کارنامے نکل گئے۔ میں نے اپنے پرانے روزنامچے میں ان کا ان کا ذکر نظر آیا۔ تو سوچا کہ علی ناظم کا مختصرتعارف اردو کے قارئین کے کروادیا جائے۔ احمد شاملو بھی ان کے تعلق بہت مجھے زیادہ کچھ نہیں بتا سکے۔ میں نے بھی ان پر زیادہ گفتگو کرنا بہتر نہیں سمجھا کیونکہ وہ ان دنوں شدید بیمار تھے۔ علی ناظم کی ذاتی زندگی کے متعلق معلومات بہت کم ملتی ہیں۔
علی ناظم 24 نومبر 1906 کو تبریز { ایران} میں پیدا ہوئے انہوں نے لینین گراڈ انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز سے گریجویشن کیا اور بعدازاں ماسکو میں پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم مکمل کی جہاں انہوں نے تحقیق و تدریس کے صیغے سے منسلک ہو گئے۔ جہاں ان کو اس ماحول میں نظریاتی فکریات کو تطہیر ممکن ہوئی۔ اور ان ک فکری جہات مین وسعتیں پیدا ہوئی اور انھوں نے مارکسی فکر کو دیگر تناظر مین بھی پھرکھا اور مطالعہ کیا۔
ان کی زیادہ ترتحریریں " نظریاتی" ہیں۔ مگر ان کی نگارشات میں سوچنے کا مختف انداز ملتا ہے۔ ان کی تحریروں کا بیانیہ مارکسی تو ہوتا تھا مگر اس میں محیط ارّض حسیات اور معاشرتی حرکیات کا گہرا ادارک اور آگہی دکھائی دیتی ہے۔ ان کی تحریر سب سے پہلے 1921 میں اخبار "اشتھارک" ("کمیونسٹ") میں شائع ہوئی تھی۔ 1930 میں ، ناظم کمیونسٹ پارٹی میں شمولت اختیار کی اور ایک فعال مارکسی ادبی نقاد کی حیثیت سے معروف ہوئے ۔ان کو آزربائیجان میں مارکسی تنقید کے بانیوں میں سے ایک تسلیم کیا جاتا ہے۔ جو کلاسیکی ادب کی تاریخ کے علوہ ایم ایف اے خندونوف ، جے ميمڈکولیزاڈ ، ایم اے صابر وغیرہ کے بارے میں دقیق ادبی اور فلسفیانہ مقالا ت لکھے ۔ اور ان زعما کے علمی کارناموں کے بارے میں فکر انگیز کام کیا۔ ان کی ملاقاتیں ٹالسٹائی اور میکسم گورکی سے بھی رہتی تھی۔
1937 میں ، انہوں نے اے جواد ، ایچ جاوید ، مشفگ ، مشہنی ، یوسف وازیر ، ایس حسین ، کینٹیمیر ، طالبلی اور اے رازی کے ساتھ مل کر ، "جرمن-جاپانی فاشزم ، ٹراٹسکی ، مساوات اور قوم پرست کا ایجنٹ قرار دیا۔ جس پر خاصا ہنگامہ رہا حکومت نے علی ناظم کو 1937 میں گرفتار کیا گیا ان کا انتقال 23 اگست 1941 میں اس وقت ہوا میں جب وہ پابند زندان تھے ان پرجیل میں شدید تشدد کیا گیا تھا۔علی ناظم کی قبر کی نشاندھی 1957 میں ہوئی۔ علی ناظم کی یہ تصویر ان کی زندگی کی آخری تصویر ہے جو جیل میں اتاری گئی
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...