پروفیسر علی نقی خان کا شمار پاکستان کے ان ممتاز نقادوں میں ہوتاہے جنھوں نے مغربی تنقید کا وسیع مطالعہ کیا ہے۔ کالجز اور جامعات میں انگریزی زبان و ادب کی تدریس اُن کا شعبہ ہے۔ اس کتاب کی نصابی اہمیت مسلمہ ہے جس سے اُردو زبان اور انگریزی زبان کے طلبا و طالبات اور اساتذہ استفادہ کر سکتے ہیں۔ پروفیسر علی نقی خان نے گزشتہ چالیس برس میں اردوتنقید و تحقیق کی ثروت میں جو اضافہ کیا ہے وہ تاریخ ِ ادب میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔اس کتاب کے بیس ابواب ہیں جن میں محقق نے مغربی تنقید اور اس کے نمائندہ مغربی نقادوں کے تنقیدی اسلوب کا جائزہ لیاہے ۔پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے میں مغربی تنقید سے استفادہ کی جو روایت پروان چڑھی پروفیسر علی نقی خان اُس کے بنیاد گزارو ںمیں شامل ہیں ۔ایک رجحان ساز محقق کی حیثیت سے پروفیسر علی نقی خان نے اس کتاب میں افلاطون،ارسطو،ہوریس ،لانجانس،سر فلپ سڈنی ،بن جانس،جان ڈرائیڈان،ڈاکٹر سیموئل جانسن،ولیم ورڈز ورتھ ،ایس ۔ٹی کالرج ،پی ۔بی شیلے،میتھیو آرنلڈ ،والٹر پیٹر ،آئی ۔اے رچرڈز،فرینگ ریمنڈ لیوس،ٹی ۔ایس ۔ایلیٹ ،ریمنڈولیمز،کیتھرائن بیلسی اور الفریڈ پروپراک کے اسلوب پر نظر ڈالی ہے ۔کتاب کی زبان سادہ ،سلیس اور عام فہم ہے ۔
پروفیسر علی نقی خان نے اس جانب متوجہ کیا ہے کہ اس نا تمام کائنات میں دما دم کُن فیکوں کی جو صدا سنائی دے رہی وہ اس حقیقت کی غماز ہے کہ زندگی مسلسل تغیر و ارتقا کی زد میں ہے اور سیکڑوں دورِ فلک ابھی آنے والے ہیں ۔ادب اور فنون لطیفہ میں نئے تجربات کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بولی جانے والی بڑی زبانوں میں تخلیقِ ادب اور تنقید و تحقیق کے نئے میلانات اور متنوع تجربات نے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی ہے ۔تیزی سے بدلتے ہوئے ان حالات میں تیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک میں بسنے والے تخلیق کار اپنی زبان کو روایتی کیفیات ،سکوت و انجماد کے صدمات اورفرسودہ تصورات کے جان لیوا سانحات سے نجات دلا کر نئے تجربات سے روشناس کرانے کی کوششوں میں ہمہ وقت مصروفِ عمل رہتے ہیں۔تہذیب وتمدن کے فروغ کی یہ انفرادی نوعیت کی مساعی جہاں نئے اور دل کش اسالیب کو رو بہ عمل لانے پر آمادہ کرتی ہیں وہاں ان کے معجز نما اثر سے زبان میں وسعت اور ہمہ گیر ترقی کے نئے امکانات بھی پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ادب اورثقافت کے شعبوں میں ترجمہ نگاری کی افادیت و اہمیت مسلمہ ہے ۔ایک زبان سے دوسری زبان میں تخلیقی ادب اور تنقیدی تحریروں کا ترجمہ دراصل دوسری تہذیب سے قریبی ربط کا مؤثر وسیلہ ہے۔اس طرح دوسری زبان کی فکری منہاج،معمولاتِ زندگی اور تہذیبی اورثقافتی اقدار کے بارے میں حقائق سے آگاہی حاصل ہوتی ہے ۔پروفیسر علی نقی خان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس دنیا میں اس طرح زندگی بسر کی جائے کہ عالمی سطح پر تہذیبی و ثقافتی تقابل ،انجذاب اور نمو کو یقنی بنانے کی کوششیں پیہم جار ی رہیں۔اس عمل سے اخلاقی اورقدرتی محاسن کی نمو میں بہت مدد ملتی ہے ۔پاکستانی زبانیں اس خطے کے قومی کلچرکی آئینہ دار ہیں۔یہاں کے باشندے اپنی مقامی زبانوں کے فروغ میں جس قدر دلچسپی لے رہے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ قومی کلچر اور قومیت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔پاکستانی قوم کو اپنے اسلاف کے علمی و ادبی کارناموں پر ہمیشہ ناز رہاہے ۔اپنے آبا کی ادبی میراث کو وہ دِل و جاں سے عزیز رکھتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ وہ علوم و فنون کے نئے چشموں سے سیراب ہونے کے بھی آرزو مند ہیںتا کہ جدید دور کے نئے تجربات کے ذریعے احساس ،شعور اور تخلیق کی نئی شمعیں فروزاں کر کے مہیب سناٹوں ،جان لیوا سکوت اورسفاک ظلمتوں کی پیدا کردہ تقلیدی روش ،بے عملی ،کاہلی اور اضمحلال کے مسموم اثرات سے نجات حاصل کی جا سکے۔
پروفیسر علی نقی خان نے مغربی تنقید کے تر اجم کے ذریعے تاریخی شعوراور تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں مثبت اندازِ فکر پروان چڑھانے کی جو مساعی کی ہیں وہ ثمر بار ثابت ہوئی ہیں۔انھوں نے مغربی نقادوں کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ یورپ میں ترجمہ نگاری کے اسالیب پر توجہ دینے کے سلسلے میں مترجم ،ماہر سیاسیات ،قانون دان ،دانش ور ،فلسفی اور ماہر علم بشریات مارکیوس ٹیو لیس سسرو ( :B ,106 BC,D,43BC Marcus Tullius Cicero) کو اولیت کا اعزاز حاصل ہے ۔ اس یگانۂ روزگار فاضل نے یونان کے عبقری مفکرین ڈیموستھینز (B,384BC,D,322BC : Demosthenes) اور (Aeschines :B,389BC,D,314BC ) کے فکر پرور اور بصیرت افروز خطبات کو تراجم کے ذریعے لاطینی زبان کے قالب میں ڈھال کر لاطینی زبان کی ثروت میں جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ دور دراز علاقوں کی تہذیب و ثقافت ،تاریخ ،تمدن اور معاشرت کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے دِل میں احتساب ذات کا روّیہ بیدار ہوتا ہے ۔اس طرح قومی کلچر میں انجذاب اور قبولیت کا غیر مختتم سلسلہ چل نکلتا ہے ۔تراجم کے ذریعے معاشرتی زندگی میں رائے عامہ کو عصری آگہی کے اعجاز سے بیدار کیا جا سکتاہے ۔عصبیتوں کے پُھنکارتے ناگوں کا سر اخوّت و مروّت کے عصا سے کُچلا جا سکتا ہے ۔بے لوث محبت ،بے باک صداقت اور حریتِ فکر و عمل کا پرچم تھا م کر جہد و عمل کا لائق صد رشک و تحسین سلسلہ افراد کی ذہنی بیداری اور فکر و خیال کی جدت کو یقینی بنا دیتا ہے ۔ حبس کے ماحول میں تراجم تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند قریۂ جاں کو معطر کر دیتے ہیں۔تخلیق ادب کے نئے اسالیب ،حسین ودل کش سانچوں ،نئی اصناف اور افکار کی بو قلمونی کے دھنک رنگ مناظر تراجم کا ثمر ہیں۔ثقافتی میراث اورعلوم و فنون کی نسل در نسل منتقلی بلا شبہ زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کاروںکی مساعی کی مرہونِ منت ہے ۔اس مقصد کے لیے وہ عالمی ادب کے وسیع مطالعہ کو شعار بنا تے ہیں۔ مارکیوس ٹیو لیس سسرو کے تراجم کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اُس نے تخلیق کا تراجمہ کرتے وقت اکثر تکلم کے سلسلوں پر انحصار کیا ہے۔وہ ایک شارح ،ناصح اور مقرر کے روپ میں جلوہ گر ہوتاہے اور تخلیق کار سے معتبر ربط کویقینی بنانے کی مقدور بھر سعی کرتا ہے ۔اُس نے تخلیق کار کے اشہبِ قلم کی جولانیوںکے بارے میں پر جوش انداز میں خطاب کیا ہے ۔اُس کی دلی تمناہے کہ تخلیق ِ فن کے لمحوں میں ایک تخلیق کارنے لہو کی صورت اختیار کرکے چٹانوں اور پتھروں کی رگوں میں اُترنے کی جو کاوش کی ہے اس کااحساس وادراک اِن تراجم کی اساس ہونا چاہیے ۔حرف بہ حرف ترجمے کے بجائے اُس نے گنجینہ ٔ معانی کے طلسم کی گرہ کشائی پر اصرارکیا ہے۔
پروفیسر علی نقی خان نے جب اپنے تخلیقی ،تنقیدی اور تحقیقی فعالیت کا آغاز کیا تو انھوں نے زبان میں ادبی شعریات کے متنوع خدو خال سامنے لانے کی مقدور بھر سعی کی ۔ اُردوزبان کو ثروت مند بنانے کے سلسلے میں اُن کی تحقیقی و تنقیدی بصیرت کا ایک عالم معترف ہے۔و ہ معاصر عالمی ادب اور عالمی کلاسیک کے وسیع مطالعہ کو وقت کااہم ترین تقاضا سمجھتے ہیں ۔عالمی کلاسیک کے عمیق مطالعہ کے بعد وہ اپنے ذوقِ سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی زبان کو دوسری زبان کے ادب کے اُن عظیم فن پاروں سے مالا مال کرنے کا آرزو مند ہوتے ہیںجن کی پوری دنیا میں دُھوم مچی ہوتی ہے ۔ترجمے کے ذریعے اُن کی یہ خدمت اُن کی اپنی زبان کو دوسری زبانوں کے ادبیات کی مسحور کُن عطر بیزی سے مہکانے کی لائقِ تحسین کاوش سمجھی جاتی ہے ۔ عالمی کلاسیک اُفقِ ادب پر مثل آفتاب ضو فشاں ہوتی ہیںایک حساس تخلیق کار ،نقاد اور محقق کی حیثیت سے پروفیسر علی نقی خان نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی ایسی تخلیقات کی ضیاپاشیوں سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ دنیا کی بڑی زبانوں کے نابغۂ روزگار ادیبوں نے عالمی ادبیات کا دامن اپنے متنوع تخلیقی تجربات سے مالا مال کر دیا ۔دنیا کی بڑی زبانوں کے عظیم ادب پاروں کا چھوٹی اور نسبتاً کم ترقی یافتہ زبانوں میں ترجمہ لسانی ارتقا کے لیے نا گزیر ہے ۔ ترجمہ نگاری کے ماہر اور فرانسیسی ماہر لسانیات جین پال ونے ( 1910-1999 : Jean-Paul Vinay ) کا خیال ہے کہ عالمی ادب میں حرف بہ حرف ترجمہ کو پسند نہیں کیا جاتا ۔اُس کا خیا ل ہے کہ اس سے جو متعدد دشواریاں سامنے آ تی ہیں اُن میں تخلیق کار کے مقاصد سے انحراف ،معانی و مطالب سے تہی ہونا ،جمود کے باعث جملوں کی تشکیل ِ نو میں رکاوٹ پیدا ہونا ۔عالمی کلاسیک کا کوئی شاہ کارجب پروفیسر علی نقی خان کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے تو معاً اُن کے دِل میں یہ خیال آتا ہے کہ کیا ہی اچھا ہو کہ اُن کے اہلِ وطن اور ہم زبان بھی اس لافانی تخلیق سے حظ اُٹھا سکیں ۔ ایسی بیش بہا تخلیق کامطالعہ کرتے وقت وہ یقیناً تنہا ہوتے ہیں مگر اس کے بعد جب وہ عالمی ادب کی اِن ابد آشنا تخلیقات اور نقادوں کے اسالیب کا اپنی زبان میں ترجمہ کر لیتے ہیں تو اُنھیں معلوم ہوتا ہے کہ اب اُن کے سارے ہم زبان اور راز داں بھی اس عمل میں شریک ہو گئے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...