انگریزی زبان کے باون (52) شعرا کے منتخب کلام کے آزاد اُردو ترجمے پر مشتمل کتاب ’’چاسر سے شماس ہینی تک‘‘ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ پروفیسر علی نقی خان کا شمار انگریزی زبان وادب کے اُن باکمال اساتذہ میں ہوتا ہے جنھوں نے اُردو زبان و ادب کے فروغ کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت سے اردو ادب کی ثروت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ لائق ترجم نے جس فنی مہارت سے ترجمے کو تخلیق کی چاشنی عطا کی ہے اس میں کوئی اُن کا شریک و سہیم نہیں۔ دو تحریری زبانوں میں ترجمے کا عمل سنجیدہ فعالیت، گہری معنویت اور لسانی اہمیت کاحامل سمجھا جاتا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ترجمہ ایک ماخذی زبان کے تحریری متن کو دوسری ترجمہ والی زبان کے تحریری متن میں تبدیل کرنے کی کاوش ہے۔ جہاں تک ماخذی زبان سے ترجمہ قبول کرنے والی زبان کواسالیب اور مفاہیم کی ترسیل کا تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ ترجمہ اپنے مآخذ کے قریب تر تو ہو سکتا ہے لیکن اس کی اپنے مآخذ کے ساتھ من و عن مطابقت بعید ازقیاس ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں برصغیر کی مقامی زبانوں میں ادیبوں کی تخلیقی فعالیت نے خُوب رنگ جمایا ہے۔ اس خطے کے فن کاروں نے ستاروں پہ کمند ڈالنے، خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے اور قلب و روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر کر اپنی اثر آفرینی کالوہا منوانے والی تخلیقات پیش کر کے لوح ِجہاں پر اپنا دوام ثبت کردیا۔ ابد آشنا تاثیر کی حامل اِن طبع زاد تخلیقات نے سنگلاخ چٹانوں، جامد و ساکت پتھروں، بے حِس پہاڑ و ںاور چلتے پھرتے ہوئے مُردوں اور مجسموں کو بھی موم کر دیا اور اپنی مسحور کُن تخلیقی فعالیت سے جہانِ تازہ کی نوید سنائی۔ اس کے باوجوداس مردم خیز دھرتی کے زیرک تخلیق کار عالمی کلاسیک سے بے نیاز نہ رہ سکے اوراخذ، استفادے اور تراجم کا ایک لائق صد رشک و تحسین سلسلہ ہر دور میں جاری رہا۔ تراجم کو تخلیقی آہنگ سے مزین کرنے میں ان مترجمین کے کمالِ فن کا عدم اعتراف نہ صرف تاریخِ ادب کے حقائق کی تمسیخ اورصداقتوں کی تکذیب ہو گی بل کہ یہ ایک ایسی غلطی ہو گی کہ جسے نا شکری اور احسان فراموشی پر محمول کیا جائے گا۔ عالمی کساد بازاری اور قحط الرجال کے مسموم ماحول میں چربہ ساز، سارق،کفن دُزد اور حیلہ جُوعناصر نے اپنے مکر کی چالوں سے گلشنِ ادب کی حسین رُتوں کو بے ثمر کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ تخلیق ادب جو دیدۂ بینا کا معجزہ تھا اسے کاتا اور لے دوڑا قماش کے مسخروں، اجلاف و ارذال اور سفہا نے بچوں کا کھیل بنا دیا ہے۔ سراپابے بصری اور کور مغزی کا نمونہ بنے یہ ابلہ اپنی جسارتِ سارقانہ، دُزدیٔ عاجلانہ اور سرقہ کو نہایت ڈھٹائی سے رتبۂ الہام دینے اورقارئین ِادب کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں۔ عالمی کلاسیک کے براہِ راست تراجم مترجم کی فکری بالیدگی،عظمتِ کردار،عزتِ نفس، اعلاذہن و ذکاوت اور ذوقِ سلیم کے مظہر ہوتے ہیں۔اس کے بر عکس چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزدعناصر کی جسارت سارقانہ ان ننگِ انسانیت کرگس زادوںکے ذہنی افلاس، نمود و نمائش کی ہوس، علمی تہی دامنی، فکری بے بضاعتی اورجہالت کو سامنے لاتی ہے۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ عالمی کلاسیک کا کسی دوسری زبان میں براہِ راست ترجمہ کرنا چربہ سازی اور سرقہ سے بدر جہا بہتر ہے۔ مترجم دو ثقافتوں کے مابین ایک غیر جانب دار ثالث کا کردار ادا کرتا ہے ۔اس کی علمی فضیلت،دونوں زبانوں کے ادب پر خلاقانہ دسترس، دیانت اور ثقاہت کی بنا پر دونوں ثقافتوں کو اس سے انصاف کی توقع ہوتی ہے ۔ وہ محض ایک زبان کے الفاظ کے متبادل دوسری زبان کے الفاظ کا انتخاب کر کے مفاہیم اور مطالب کو پیش نہیں کرتا بل کہ وہ اپنی بصیرت اورذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے فکر و خیال کے ارتقا ،زبان کی ثروت مندی اور عصری آگہی کے بارے میں تفہیم کینتنئے امکانات سامنے لانے پر قادر ہوتا ہے۔وہ مقامی اور دیسی ثقافت کی ترقی اور اسے عالمی معیار عطا کرنے کی خاطر ہر قسم کی علاقائی ،لسانی اور مقامی حدود سے آگے نکل کر سوچتا ہے اورنئے زمانے ،نئی صبح و شام کی جستجو اس کا مطمح نظر ٹھہرتاہے۔ ترجمہ کو محض ایک بین اللسانی عمل سے تعبیر کر نا درست انداز فکر نہیں بل کہ ترجمہ نگاری اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک انتہائی پیچیدہ اور معنی آفریں فعالیت ہے ۔ تراجم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے سال 1953سے ہر سال تیس ستمبر کو ترجمہ کا عالمی دن منانے کے سلسلے کا آغاز ہوا ۔اس کے ہمہ گیر تعلیمی ،تخلیقی،نفسیاتی،تہذیبی اور ثقافتی پہلوؤں پر توجہ دینا از بس ضروری ہے ۔کسی زبان سے ترجمہ کرتے وقت مترجم کی حیثیت ایک دو لسانی ثالث کی ہوتی ہے جسے دونوں زبانوں کے ساتھ پورا پورا انصاف کر نا ہوتاہے۔ جھنگ میں تراجم کی لسانی ،ادبی اور تاریخی اہمیت کا ادبی تاریخ کے ہر دور میں اعتراف کیا گیا ہے ۔ علی نقی خان نے کوشش کی ہے کہ ترجمے کی اس روایت کو اس مردم خیزخطے میں پروان چڑھایا جائے جو گزشتہ سو برس سے یہاں موجود ہے ۔گورنمنٹ کالج جھنگ میں پروفیسر رانا عبدالحمید خان(پرنسپل) کی ہدایت پر سال 1926میں شعبہ تالیف و ترجمہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس شعبے میں پروفیسر غلام رسول شوق،پروفیسر حکیم محمد حسین،لال چند لالہ اور سردار پریم سنگھ نے تراجم پر توجہ مرکوز رکھی۔کالج کا ادبی مجلہ ’’ کاروا ں‘‘ اردو ،انگریزی اور ہندی تین زبانوں میں شائع ہوتا تھا ۔ قیام پاکستان کے بعداس مجلے میں ہندی حصہ کی جگہ پنجابی حصے نے لے لی ۔اس رجحان ساز ادبی مجلے میں بھی عالمی ادب کی منتخب تحریروں کے تراجم شائع ہوتے رہے۔ اس تاریخی تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والے جن ممتاز طالب علموں نے تراجم کے فروغ میں فعال کردار ادا کیا ان میں رجب الدین مسافر، کبیر انور جعفری، رانا سلطان محمود ،محمدشیرافضل جعفری، ڈاکٹر وزیر آغا،ڈاکٹر عبدالسلام،مجید امجد ،صاحب زادہ رفعت سلطان،امیر اختربھٹی،حاجی محمد یوسف ،سردار باقر علی خان،سید جعفر طاہر،عبدالغنی ،خادم مگھیانوی، مہر محمد امیر خان ڈب ، میاں رب نواز، میاں محمد علی ،محمد خان ،سید مظفر علی ظفر،غلام علی خان چین،ڈاکٹر محمد کبیر خان، محمد شریف خان ،نور احمد ثاقب ،محمد حیات خان سیال، حاجی محمد حسین ،دیوان احمد الیاس نصیب، رانا ارشد علی خان ، سمیع اللہ قریشی ،عاشق حسین فائق،مہر بشارت خان ،سجاد بخاری ،احمد بخش ناصر،حاجی محمد ریاض ، شیخ ظہر الدین ،حاجی احمد طاہر ملک ، اور گدا حسین افضل کے نام قابلِ ذکر ہیں۔گورنمنٹ کالج جھنگ میں شعبہ انگریزی ادبیات کی شیکسپئیر سوسائٹی(Shakespeare Society) جو سال 1926سے تراجم کے فروغ میں فعال کردار ادا کر رہی تھی اس کے زیر اہتمام کئی انگریزی ڈراموں کا اردو میں ترجمہ کیا گیا اور انھیں کالج کی ڈرامیٹک کلب نے کالج کے سٹیج پر پیش کیا ۔گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں پروفیسر خلیل اللہ خان نے انگریزی زبان کے عظیم ادیب اور ڈرامہ نگار شیکسپئیر کے مشہور طربیہ اور المیہ ڈراموںکے اردو تراجم کیے اور انھیں گورنمنٹ کالج جھنگ کی ڈرامیٹک کلب کے زیر اہتمام سٹیج پر پیش کر کے بر صغیر میں اردو سٹیج ڈرامے کی تاریخ میں انقلاب بر پا کر دیا ۔گورنمنٹ کالج جھنگ میں تدریسِ اردو پر مامور اس عظیم ماہر تعلیم ، ترجمہ نگار ، ڈرامہ نگار اور ڈرامے کے اس نابغۂ روزگار ہدایت کار نے تراجم کے فروغ میں جو اہم کردار ادا کیا وہ تاریخ ادب کا درخشاں باب ہے ۔ان کے تراجم کے مخطوطے گورنمنٹ کالج جھنگ کی ڈرامیٹک کلب کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔پروفیسر خلیل اللہ خان کی اچانک وفات نے ڈرامہ کے شائقین کی روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیا ۔ان کی الم ناک وفات کے بعد ان کی یاد میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان اور اس کالج کے سابق طالب علم )سائنس بلاک کے سامنے واقع ایک وسیع میدان میں خلیل اللہ خان میموریل سٹیج تعمیر کیا گیا ہے ۔اس تاریخی سٹیج پر ہر سال مارچ کے مہینے کے وسط میں ڈرامہ فیسٹیول کا انعقاد ہوتا ہے جس میں نئے تخلیق کاروں کے ڈراموں کے علاوہ پروفیسر خلیل اللہ خان کے عالمی ادب سے کیے گئے کسی ایک منتخب ڈرامے کو بھی سٹیج پر پیش کیا جاتا ہے ۔
پروفیسر علی نقی خان نے انگریزی زبان کے ممتاز شعرا کے کلام کو اردو زبان کے قالب میں ڈھال کرعلم و ادب کی جو خدمت کی ہے اُس کی بنا پرتاریخ ہر دور میں اُن کے نام کی تعظیم کرے گی۔