جھنگ میں مقیم عالمی شہرت کے حامل ادیب، شاعر، محقق، نقاد اور دانش ور پروفیسر علی نقی خان گزشتہ چار عشروں سے پرورش ِ لوح و قلم میں مصروف ہیں۔ اُن کی بیس کتابیں شائع ہو چُکی ہیں جنھیں قارئین کی طرف سے بے پناہ پذیرائی مِلی ہے۔ حال ہی میں ہجومِ زندگی کے نام منسوب اُن کا معرکہ آرا ناول ’’ سنگ ِآسیہ ‘‘ شائع ہواہے جس کی تکنیک کی ادبی حلقوں میں دُھوم ہے ۔تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُترجانے کی صلاحیت سے متتمع اس زیرک ،فعال ،مستعد اور جری تخلیق کار کے حضور تکنیک از خو د اپنے در وا کر کے نئے امکانات کو سامنے لاتی ہے ۔زمان و مکان اور عرفان ِ ذات کے نئے زاویے سامنے لانے والا یہ ناول تاریخ اور اس کے پیہم رواں عمل کے بارے میں مثبت شعور و آ گہی سے لبریز ہے ۔لمحۂ موجود اور اس کو درپیش مسائل و مضمرات کوپیشِ نظر ر کھتے ہوئے پروفیسر علی نقی خان نے جو تخلیقی تجربات کیے ہیں وہ ان کی انفردیت کا ثبوت ہیں۔ اس ناول میں کئی مقامات پر طلسمی حقیقت نگاری اپنا رنگ جماتی ہے تو کہیں شعور کی ر و کی تکنیک کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتاہے ۔پروفیسر علی نقی خان نے اپنے اس ناول میں بلاوسطہ دروں بینی ،بالواسطہ داخلی کیفیات ،کثیر الجہات وسعت ِ نظر اور تکلم کے ذاتی سلسلوں کو زادِ راہ بنایا ہے ۔اپنے گرد و پیش کے ماحول ،مسائل اور اس کے مضمرات پر گہری نظر رکھنے والے اس فلسفی نے اپنی دُوربین نگاہوں سے سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں کا احوال اس طرح زیب قرطاس کیا ہے کہ قاری اُن کی ہمہ گیر وسعت نظر پر اش اش کر اُٹھتاہے ۔ناول میں شعور کی رو کو اپنا تابع بنانے کی خاطر پروفیسر علی نقی خان نے بالعموم نفس انسانی کی خاص کیفیت آزاد تلازم پر انحصار کیاہے ۔نفس انسانی کا امتیازی وصف یہ سمجھا جاتاہے کہ یہ سکون سے ناآشنا ہے اور خوب سے خوب تر کی جستجو اسے مرغوب ہے ۔عالم ِ رنگ و بُوپر قناعت کر نا اس کا شیوہ نہیں کیونکہ اُسے معلوم ہے کہ سیکڑوں دورِ فلک ابھی آنے والے ہیں اور اُس کے سامنے نئے حالات کا منظر نامہ نئے فکر ی پہلووں کا آئینہ دار ہو گا۔رخشِ حیات پیہم رو میں ہے اور یہ کیفیت محض ماضی سے تعلق نہیں رکھتی بل کہ حال اور مستقبل سے بھی اس کا انسلاک کیا گیا ہے ۔ ناول کا ایک مختصر اقتباس پیش ہے :
’’ مجھے اُس وقت اور بھی د ُکھ ہوا کہ مظلوموں نے بھی مصلحت کے کمبل اوڑھ لیے اور خاموشی اختیار کر لی ۔‘‘ ( صفحہ 21)
پروفیسر علی نقی خان نے اِ س ناول میں حریتِ ضمیر سے جینے کی تلقین کرتے ہوئے ہر قسم کی مصلحت اندیشی سے بالاتر رہتے ہوئے جبر کا ہر ندازمستردکرنے پر اصرارکیا ہے۔ وقت بھی آب ِرواں کے مانند ہے کوئی بھی شخص اپنی شدید تمنا اور قوت و ہیبت کے باوجود بیتے لمحات اور پُل کے نیچے سے بہہ جانے والے آب ِ رواں کے لمس سے دوبارہ کبھی فیض یاب نہیں ہو سکتا۔مہیب سناٹوں اورسفاک ظلمتوںسے انسان اس لیے لرزہ خیز اور اعصاب شکن خیا ل کرتاہے کہ وہ دِن دُور نہیں جب ہر شخص زینہ زینہ وقت کی تہہ میں اُ تر جائے گا اور لحد کی تاریکی ہی اس کی آخری پناہ گاہ ثابت ہو گی ۔ یہ امر لائق تحسین ہے کہپروفیسر علی نقی خان نے اپنے ناول میں کہانی کونیا آ ہنگ عطا کیا ہے اور گزشتہ صدی کی ستر کی دہائی میں اُردو فکشن پر جو کڑاوقت آیااُس کا مداوا کرنے کی مقدور بھر سعی کی ہے۔