::: "علی کریم : آزربئیجان کے جدید تر حسیّت کے شاعر " :::
*** تعارف و ترجمہ: احمد سہیل ***
علی کریم آزربئیجان کی ادبیات کا اھم نام ہے۔ ۱۸ مارچ ۱۹۳۱ میں " گویچا" مین پیدا ہوئے اور کم عمری میں ۳۰ جون ۱۹۶۹ میں صرف ۳۸ سال کی عمر میں " باکو" میں انتقال کرگئے ۔ وہ " گویچا" میں رزق خاک ہوئے۔ وہ جدید حسیّت کے عمدہ شاعر ہی نہیں ہے اچھے ناول نگار، مترجم اور فلم نویس بھی ہیں۔ ان کی نظموں میں آفاقی نوعیت کا رومانی انبساط اور کرب نمایاں ہے۔ جو انسان دوستی سے عبارت ہے۔
ان کی شاعری میں استبدار ، استعماریت کے خلاف علامتی احتجاج اور مزاحمت بھرپور طور پر نمایاں ہے۔
علی کریم نے باکو یونیورسٹی کی لسانیات کی فیکلٹی میں داخلہ لیا اور ڈرامہ اور تھیٹر کے انشی ٹیوٹ سے بھی منسلک رہے۔ انھوں نے ۱۹۵۵ میں ماسکو کے " گورکی انسیٹوٹ برائے عالمی ادب" سے اعزاز کے ساتھ سند حاصل کی۔ ان کی پہلی نظم " نیا استاد" ایک جریدے " پائینر آف آزربئجان" میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد وہ " باکو" چلے گئے اور ایک ادبی جریدے " آزربئجان" کے شاعری کے حصے کے مدیر رہے۔ علی کریم نے۔۔ " پتھر"۔۔ " سات جذبات" ۔۔ "آخری سانسیں" ۔۔۔ " مستقبل کا شاعر " ۔۔ "علی کریم" ۔۔۔ نامی دستاویزی فلمیں لکھیں۔ ان کی ایک مشہور نظم " پتھر" ازربئجان کے علمی ادبی جریدے میں ۱۹۹۹ کے شمارے چھپی۔ علی کریم کے انتقال کے بعد ان کے اہلیہ ازلا کریماوا اور ان کے بیٹوں نے ان کی شاعری کو شائع کیا۔ اور ان کی شاعری کا کئی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا۔
ان کی کتابوں کی فہرست یہ ہے :
Two-love.
• Always in visit.
• Red wings.
• Return mother’s debt.
• Steps (novel).
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" اپنے آپ سے مصالحت نہ کریں"
علی کریم ۔آزربئجان
*** ترجمہ : احمد سہیل***
جب غم زدہ ہوں تو مصالحت نہ کریں
یا آپ ہر چیز سے لاتعلق ہو جائین
خوشی حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ سے مصالحت نہیں کریں
یا تم نشے میں چلے جاو گے
مصالحت کرو صرف جدوجہد کے لیے
اس بارے میں سوچو
وہاں شیکسبیر ہے
شیکسپیر
۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔–
" دروازے پر تالا لگا دو"
علی کریم؛ آزاربئجان
ترجمہ: ااحمد سہیل
اندر سے دروازہ بند کردو
نظمیں لکھنا
دروازے پر ایک دفعہ دستک ہوتی ہے
جو میرے خیالوں کو بیاں کرتی ہے
بھر بھی یہ میرے بیٹے ہیں اور کوئی نہیں
انھوں نے دوسرے تمام کھلے دروازوں کو نظر انداز کردیا
لیکن وہ یہاں آنا چاہتے ہیں
وہ کسی طور پر میری جاسوسی کررہے ہیں
اچانک میرے ذہن میں خیال آتا ہے
خدا کا شکر ہے کہ وہ تیار نہیں ہیں
کھلے ہوئے دروزے سے جانا
میرے بیٹو، " کرن، پاشا اور اطہر"
اگر تم نے وہ دیکھ لیا تو میں وہ دروازہ نہیں کھولوں گا
آگے بڑھو، بند دروازوں کو توڑنے کے لیے
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔