علی اعجاز سحر صاحب ( سحر ستانوی ) فیس بک پر بننے والے میرے سب سے پہلے بہترین شاعر دوست جبکہ فیس بک پر خواتین شاعرات میں ڈاکٹر لبنی عکس صاحبہ میری پہلی بہترین شاعرہ دوست ہیں یہ دونوں 2017 میں میرے فیس بک فرینڈ بنے کیوں کہ میں نے یکم جون 2017 سے فیس بک اور واٹس ایپ کا استعمال شروع کیا تھا ۔ علی اعجاز سحر صاحب ایک نوجوان اور قادر الکلام شاعر ہیں اور نوجوان نسل میں مقبولیت کی حد تک مشہور و معروف شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ شاعری میں ان کا اپنا ایک منفرد لہجہ ہے اور زبان و بیان میں بھی انفرادیت کے حامل شاعر ہیں ۔ ان کی شاعری میں استعمال ہونے والے استعارے، تشبیہات اور تمثیلات بھی جداگانہ انداز کے اور چونکا دینے والے ہیں اور ان کی عام گفتگو میں بھی یہی کچھ ملتا ہے ۔
علی اعجاز صاحب 19 جون 1989 میں مشہور لوک داستان کے کردار ہیر رانجھا کی سرزمین ضلع جھنگ کے معروف قصبہ شور کوٹ میں پیدا ہوئے ان کے والد صاحب کا نام رب نواز ہے ۔ انہوں نے تعلیمی لحاظ سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کیا ہے ۔ شاعری کے شوق اور ابتداء کے حوالے سے کیئے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ پیدائشی شاعر ہیں تاہم انہوں نے پانچویں جماعت میں پہلی غزل لکھی ۔ شاعری میں سجاد حسین ساجد صاحب ان کے استاد ہیں ۔ ان کا اصل نام علی اعجاز اور تخلص سحر ہے ۔ ان کی مادری زبان سرائیکی ہے مگر وہ اردو، پنجابی، فارسی اور انگریزی بھی بول اور لکھتےہیں ۔ اگست 2020 میں انہوں نے شادی کی ہے اور گردش حالات یا غم روزگار کے سلسلے میں وہ آجکل کراچی میں مقیم ہیں ۔ زبان کے حوالے سے سحر صاحب کا کہنا ہے کہ ان کو دنیا کی تمام زبانوں سے پیار ہے حتی کہ گونگوں کے اشاروں کی زباں سے بھی محبت ہے ۔ شاعری کی کتاب کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ کتاب چھاپنے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں ہے ادیب و شاعر یا کسی بھی انسان کو اپنی ذات میں لائبریری ہونا چاہیے ۔ اخبارات و رسائل اور جرائد وغیرہ میں ان کو اپنی شاعری چھپوانے کا شوق نہیں ہے مشاعروں میں بھی کم کم ہی شریک ہوتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ مشاعروں میں وقت کی کمی کے باعث سنجیدہ شعر مکمل طور پر کھل نہیں پاتا جبکہ آن لائن مشاعروں کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ پھیکی چائے کی طرح ہیں اس لیئے وہ آن لائن مشاعروں میں شرکت نہیں کرتے ۔ انہوں نے کہا کہ شاعری کے حوالے سے آج کل کا دور پر سہولت ہے تاہم قاری یا سامع کو اپنی طرف متوجہ کرنا یا کھینچنا ایک آرٹ ہے ۔ ان کے پسندیدہ ادباء و شعراء اور شاعرات میں مولانا رومی، علامہ محمد اقبال، ( انہوں نے اقبال لاہوری لکھا ہے ) محسن نقوی، ممتاز مفتی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ اور قدرت اللہ شہاب شامل ہیں ۔
علی اعجاز سحر صاحب کی شاعری سے ایک غزل اور چند منتخب اشعار پیش خدمت ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سفر ہو کے ترے ساتھ چلوں سنگ لگے
ایسےکھو جاؤں کہ ملتان مجھےجھنگ لگے
لے چلوں تجھ کو ستاروں کے جہاں سے آگے
اتنا آگے کہ ستاروں کا جہاں تنگ لگے
تیری تصویر کوشدت سےمیں پھرزوم کروں
اتنی شدت سے کہ انگلی پہ ترا رنگ لگے
تیرے کرتے کی سلائی پہ وہ درزی ہو شہید
ایک نلکی کی خریداری پہ یوں جنگ لگے
تیرے نینوں کے کناروں پہ دو دھاری کاجل
ہائے قصاب کی چھریوں کو ناں زنگ لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کربلا، شام، نجف، کوفہ، بقیع، بیت نبی
میرا غم ہجرت سادات میں کھو جاتا ہے
ورنہ اک کوہ گراں کچا گھڑا ریگ عرب
دل ہے جو ایسی مہمات میں کھو جاتا ہے
تب کہیں حسن کرامات پہ ہوتا ہے یقیں
جب گماں اس کے کمالات میں کھو جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل لگی، پیار، الفت، محبت، یہ سب ایک بلا کے حسیں نام ہیں
شوق، حسرت، طلب، بے خودی، تشنگی، یہ مراحل وفا کے حسیں نام ہیں
اشک، آہ و فغاں، ہچکیاں، سسکیاں، یہ ادائیں دعا کے حسیں نام ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اک گھنا درخت اور میں اس سے منسلک کنواں
سو اک جگہ رکے رہے، ہوا نہیں کیے گئے
سر دعا ہر ایک لفظ، طلب کی بھینٹ چڑھ گیا
پس دعا جو اشک تھے، صدا نہیں کیے گئے
علی اعجاز سحر