اردو فکشن کی عمر یوں توبہت طویل نہیں ہے مگر مختصر سی مدت میں اردو فکشن بالخصوص افسانے نے جس تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی ہے اتنا غالباًکوئی اور صنف نہ کرسکی۔ اس مدت میں اردو افسانہ رومان پسندی، سماجی حقیقت نگاری،ترقی پسندی اور جدیدیت کے مراحل سے گذرا۔ کسی نے رومان پسندی کے تحت افسانے لکھے تو بہتوں نے ترقی پسند تحریک کے زیرسایہ بہترین افسانے تخلیق کیے ۔ اگرچہ ترقی پسند نظریے نے اردو افسانے کو معراج عطا کی مگر ایک خاص مدت کے بعد ترقی پسند تحریک اپنے مخصوص نظریۂ حیات اور پیرایۂ بیان کی شدت پسندی کی وجہ سے روبہ زوال ہونے لگی ۔ پھر جدیدیت نے سر ابھارنا شروع کیا اور یکے بعد دیگرے بہت سے ادبا اس رجحان کے زیر اثر تجریدی افسانے تخلیق کرنے لگے۔ اسی زمانے میں کچھ نئے قلم کاروں نے کسی اِزم، تحریک یا رجحان کی پابندی سے آزاد ہوکر کھلی فضا میں افسانہ لکھنا شروع کیا۔ اُن میں ایک نام علی باقر کا ہے۔ علی باقر 1960کے آس پاس اردو کے افسانوی منظر نامے پر ایک خاص لب ولہجہ اور موضوع و مواد کے ساتھ وارد ہوئے۔علی باقر ترقی پسند تحریک سے بخوبی واقف تھے۔ مخدوم محی الدین اور سجاد ظہیر کے پرستار تھے لیکن وہ کسی تحریک یارجحان سے سروکار نہیں رکھتے تھے۔ مخدوم محی الدین اور سجاد ظہیر سے شخصی طور پر متاثر تھے نہ کہ پرقی پسند تحریک کی وجہ سے۔ علی باقرسے میری اکثر ملاقات ان کے گھر پر عموماً صبح میں ہوا کرتی تھی، کبھی کبھی شام کے وقت بھی ان سے ملنے ان کے جے این یو والے مکان پر جایا کرتا تھا۔ ان سے ایک بار دورانِ گفتگومیں جاننا چاہا کہ آپ نے جس زمانے میں افسانہ لکھنا شروع کیا وہ جدیدیت کا زمانہ رہا۔تو کیا آپ اس رجحان سے متاثر تھے یا نہیں۔ تو انھوں برجستہ کہا کہ مجھے کسی ازم یا رجحان کے بارے قطعی علم نہیںتھا۔ ادب سے شوق ضرور تھا مگر میں نے ان باتوں پر دھیان نہیں دیا۔ پھر میرا اپنا مزاج تھا جو اردو دنیا والوں سے مختلف ہے۔ اس لیے اپنے لیے ایک الگ راہ نکالی ۔‘‘ یہی راہ اور یہی جدت علی باقر کی شناخت بن گئی۔
علی باقر کو ہم سے جدا ہوئے تقریباً دس سال ہونے کو ہے۔ اس درمیان ان پر ایک کتاب’کائناتِ علی باقر‘ مرتبہ راقم الحروف اور ان کے دوطویل افسانوں ،ایک انٹرویواورایک مضمون پر مشتمل کتاب ’ننگے پاؤں‘ مرتبہ پروفیسر نجمہ ظہیر باقر،کے نام سے شائع ہوئی لیکن آج تک ادبی حلقے میں ناقدین ادب نے ان کی اس طرح سے پذیرائی نہیں کی جس کے وہ حق دار تھے،پذیرائی تو دُور گنے چنے چند دوست ناقدین نے ان پر دوستی کی خاطر مضمون تو لکھ دیا مگر محفلوں میں جب 1960کے بعد کے افسانہ نگاروں کی بات آتی ہے تو علی باقر یااُن جیسے دوسرے افسانہ نگاروں کا نام شعوری یا غیر شعوری طور پر بھلا دیاجاتا ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے ناقدین نے ان ہی افسانہ نگاروں کو پڑھا جو بہت زیادہ مشہور ہوگئے یا ان کی پہنچ میں تھے، ورنہ فہرست تک میں نام شامل کرنا گوارا نہ کیا۔ کیا واقعی علی باقر نے جن موضوعات کو چھوا ہے اس پر ان سے پہلے کسی اور افسانہ نگار نے قلم اٹھایا تھا؟ کیا ان کے افسانے فن پر کھرے نہیں اترتے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ صرف مشہور افسانہ نگار یا روایتی فہرست کو نہ ڈھویا جائے بلکہ ان افسانہ نگاروں کی تخلیقات کو بھی پڑھا جائے جنھوں صدق دل سے بنی نوع کے مسائل کو اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔
علی باقر ایک دانشور افسانہ نگار تھے۔ جن کے چار افسانوی مجموعے ’’خوشی کے موسم‘‘، ’’جھوٹے وعدے سچے وعدے‘‘، ’’بے نام رشتے‘‘ اور ’’مٹھی بھر دل‘‘ کے علاوہ ان کے افسانوں کا انتخاب ’’لندن کے رات دن‘‘ بھی منظر پر عام پر آچکا ہے۔ ایک ناول ’’کہانی لندن شہر کی‘‘ تقریباً لکھ چکے تھے مگر اسے حمتی شکل نہیں دے سکے۔ اکثر کہا کرتے تھے دو تین مہینے انگلینڈ جاکر وہیں اس ناول کومکمل کروںگا۔ وہاں کے موسم کی بات ہی الگ ہے۔انھوں نے ایم ایف حسین پر ایک ناولٹ ’’ننگے پاؤں‘‘ بھی لکھا ہے جسے ان کی شریک حیات اور سجاد ظہیر کی بڑی بیٹی پروفیسر نجمہ ظہیر باقر نے ناچیز کی مدد سے ترتیب دے کر مکتبہ جامعہ سے شائع کرایا۔’ننگے پاؤں‘ میں ایم ایف حسین کا ایک طویل انٹر ویو بھی شامل ہے جس سے قارئین کو ایم ایف حسین کے فن کی باریکیوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
علی باقر کی اکثر کہانیاں مغربی معاشرے کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں۔ انھوںنے یوروپ کو کسی مخصوص نظریے کے تحت نہیں دیکھا بلکہ اپنی نظر سے دیکھا اور یہ یوروپ ان کے افسانوں میں پوری توانائی کے ساتھ سانس لیتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ علی باقر کے افسانوں کے مطالعے سے اردو افسانے کے قارئین کا ایک بڑا حلقہ مغربی معاشرے کے بعض نئے گوشوں سے پہلی دفعہ روشنا س ہوا۔ یوروپ کے بارے میں جو عام تصور ابھرتا ہے وہ یہ کہ ایسا معاشرہ جہاں سب کچھ ہے ، دولت ہے، عیش وعشرت کا سامان ہے، دکھ کا پرتو بھی نہیں ۔ مگر علی باقر کے افسانوں کے مطالعے سے ہماری نظر کے سامنے ایک ایسا یوروپی معاشرہ سامنے آتا ہے جہاںجوان دوشیزائیں ہیں،بوڑھی عورتیں ہیں اور ہسپتال میں کام کرنے والی نرسیں ہیں، جن کے اپنے مسائل ہیں۔ گوکہ علی باقر کے افسانوں میں یوروپی تہذیب وتمدن پوری طرح نمایاں ہوگئی ہے۔ علی باقر نے مغربی عورتوں اور عشق کے جذبات کو جس طرح پیش کیا ہے اس کے متعلق عصمت چغتائی کچھ اس طرح کہتی ہیں:
’’میں نے اور منٹو نے جو باتیں کونین میں ڈبو کر کہی ہیں ان کو علی باقر نے شکر میں لپیٹ کر کہا ہے جو ان کے فنکارانہ کمال کی غمازی کرتا ہے۔ مغرب والے جس قسم کا لٹریچر لکھ رہے ہیں ان میں کھری عورت نظر نہیں آتی۔ علی باقر نے یوروپ کی عورتوں کو اصلی روپ میںدیکھا ہے اور یہ کہانیاں لکھ کر مغرب کی عورت پر احسان کیا ہے۔ میں عرصہ سے انتظار کررہی تھی کہ اردو افسانے کے بند ماحول میں ایک روزن کھُلے، سویہ روزن اب علی باقر کے روپ میں کھل چکا ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ علی باقر نے یوروپ کی عورت کو دریافت کیا ہے جسے علی باقر سے پہلے کسی اورافسانہ نگار نے دریافت نہیںکیا تھا۔ یہ کام صرف اور صرف علی باقرجیسا حساس انسان ہی کرسکتا تھا۔
علی باقر نے اپنے افسانوں میں صرف مغربی معاشرت کو موضوع نہیں بنایا بلکہ ہندوستانی مہاجرین، تقسیم ہند کے نتیجے میں رونما ہونے والے فسادات، دوسری جنگ عظیم اور اس کا معاشرے پر اثرات اور معذوروں کے مسائل کو بڑی فنکاری سے افسانوں میں پیش کیا ہے۔
علی باقر نے اپنے پہلے افسانوی مجموعہ ’’خوشی کے موسم‘‘ میں مغربی سماج بالخصوص لندن کے ماحول ، وہاں کے کردار اور معاشرتی اقدار کے مختلف رنگ وروپ کو پیش کیا ہے۔ا ن افسانوں میں مغربی تہذیب وتمدن اور کرداروں کے ان گوشوں کا احاطہ کیا جسے اب تک کسی نے قلم بند کرنے کی جسارت نہیں کی تھی۔ دراصل یہ افسانے علی باقر کی باریک بینی، گہرے مشاہدے ، تجربات اور دانشوری کا بین ثبوت ہیں۔ افسانہ ’’ہٹ دھرم‘‘ کرنل ہارڈی اور مسز ہارڈی کی کہانی ہے۔ کرنل ہارڈی اپنی بیوی کے ساتھ ہندوستان میں فوج کے اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد کرنل ہارڈی لندن واپس چلا جاتا ہے اور اُسے وحید خاں کی یاد برافروختہ کرتی رہتی ہے۔ کرنل ہارڈی کے مطابق وحید خاں نے وہ کنگن چرالیا تھا جسے کرنل ہارڈی کے کسی عزیز نے مغل شہزادی کی کلائی سے نکال لیے تھے۔ لیکن مسزہارڈی راوی کو کرنل ہارڈی کے غصے کا اصل سبب بتاتی ہیں کہ کرنل ہارڈی کے پاس دوسرا کنگن کبھی تھا ہی نہیں۔ بلکہ مسز ہارڈی کو وحید خاں سے محبت ہوجاتی ہے اور مریم اس محبت کی نشانی ہے۔ اس بات کا علم کرنل ہارڈی کو ہوتا ہے تو کرنل ہارڈی بیوی کو بدچلن کہنے کے بجائے وحید خاں پر فرضی چوری کا الزام عائد کرکے گرفتار کرادیتا ہے۔ اس افسانے کے ذریعہ انگریزوں کی شخصیت کے ایک پہلو سے واقف کرایا ہے۔’’ شراب اور شہد‘‘ عشق ومحبت کے حسین کیفیت کی داستان ہے۔ فرانسواس شادی شدہ خوبصورت لیڈی ہے۔ اس کے حسن سے ہر کس وناکس متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا ہے۔ افسانے کا راوی بھی اسکے حسن سے متاثر ہوکر اس کی قربت کا طلب گار ہے۔ ادھر فرانسواس بھی اس سے متاثر ہوتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگتے ہیں۔ فرانسواس کا شوہر اڈولف سب کچھ جاننے کے باوجود راوی کے ساتھ مصنوعی خوش اخلاقی سے پیش آتا ہے۔ مگر جب فرانسواس راوی کو اپنا پتہ دیتی ہے تو اڈولف اپنی بے کسی اور دکھ ودرد کو چھپا نہیں پاتا ہے۔ اور اڈولف کا شکست خوردہ انداز محبت کے نئے اسرار ورموز سے واقف کراتا ہے۔
’’تونل بانا‘‘ ((Under Ground Railway Stationسوئیڈش معاشرے بالخصوص سوئیڈش عورتوں کی کہانی ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار سوئیڈش عورت کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتا ہے۔ وہ ایک خاتون کے گھر پہنچتا ہے ۔ ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ اس کا شوہر پہنچ جاتا ہے اور ’’میں‘‘یعنی مرکزی کردار کو دیکھ کر غصے میں تمتماتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے تو تونل بانا میں بیٹھ کر فارشٹا اترنے کے لیے کہا تھا۔ وہ دوسرے اسٹیشن ویلنگ بی پر کیوں اتر گیا۔ یہ وہی شخص ہے جو راوی کو مشورہ دیتا ہے کہ سوئیڈش عورت اور مرد آزاد خیال ہوتے ہیں۔’’تونل بانا‘‘ میں علی باقر نے جس فنکاری سے سوئیڈش مرد اور عورت کے ظاہر وباطن کو پیش کیا ہے۔علی باقر نے اپنے ہر افسانے میں یورپی معاشرے اور افراد کے ایک نئے روپ کو قارئین پر منکشف کیا ہے۔ بالعموم یورپین کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ یہ آزاد خیال ہوتے ہیں لیکن ان کی آزادیٔ خیالی اسی حد تک ہے جہاںتک انھیںفائدہ پہنچاتی ہے۔ اس کے بارے میں مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں:
’’اگر میں اس کہانی کو لکھتا تو اسے ایک لطیفے کی شکل میں بیان کردیتا۔ مگر علی باقر نے اس کہانی میں ایک انجانے غم کی وہ تہہ داریاں تلاش کی ہیں جو ایک سلیقہ مند اور وفادار ادیب ہی سے ممکن ہے۔‘‘
’’فرشتے‘‘ تقسیم ہند کے بعد برپا ہونے والے فسادات کے پس منظر میں ویر سہگل اور نسیمہ کی غیر فانی محبت کی کہانی ہے جو ایک ویرانے میں بی بی مریم کے مجسمے کے سامنے دس سالہ انگریز لڑکے روڈنی نورٹن کو گواہ بناکر ایک دوسرے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا لیتے ہیں۔ دراصل اس افسانے میں ویر سہگل، نسیمہ اور روڈنی نورٹن تینوں ظلم وبربریت اور خوف وہراس کے اس منظرنامے میں محبت، معصومیت اور پاکیزگی کی زندہ علامت بن کر ابھرتے ہیں۔
افسانہ ’’فن کار‘‘ میں علی باقر نے مغربی سماج کے ایک ایسے پہلو سے متعارف کرایا ہے جہاں باپ اور بیٹی کے مقدس رشتے پر آرٹ اور فن کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ یعنی ایک باپ اپنی بیٹی کو اسٹرپ فنکارہ کی حیثیت سے اسٹیج پر پیش کرتا۔ غرضیکہ آرٹ کے نام پر مغربی سماج کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہے۔ آج کل یہی صورت ہندوستانی سماج میں بھی نظر آنے لگی ہے۔ جہاں فن اور آرٹ اور ایکٹنگ کے نام پر پورا معاشرہ اس دلدل میں دھنستا جارہا ہے۔ جس کی نمائش ، بوس وکنار اور اُس آگے جو کسی زمانے میں گناہ تصور کیا جاتا تھا اب فن بن گیا ہے۔
’’ضدی‘‘ دو تہذیبوں اور دو نسلوں کے تصادم کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ افسانہ خط کی تکنیک پر مشتمل ہے اور لندن میں مقیم سلطانہ اپنی دوست سلمیٰ کو خط لکھتی ہے جو کہ حیدرآباد میں رہتی ہے۔ خط کے ذریعہ سلطانہ سلمیٰ کو اپنے والدین کی ناگوار عادتوں ا ور رویوں کو بیان کرتی ہے۔ماں کے انتقال کے بعد سلطانہ کے والد درد سربن جاتے ہیں کیونکہ ماں انھیں سنبھال لیا کرتی تھیں ۔ لہٰذا انھیں اولڈ ہوم بھیج دیا جاتا ہے۔ علی باقر صاحب نے بڑی فنکاری سے اس کہانی میں دو نسلوں کے تضاد کو پیش کیا ہے۔ مشرق ومغرب کی قدروں میں جو واضح فرق ہے اس کو نمایاں کیا ہے۔ یعنی ہندوستانی والدین مغرب میں رہنے والی اولاد کو اگر اپنی قدروں سے آگاہ کرانا چاہتے ہیں تو اولاد انھیں دقیانوسی، سنکی اور ضدی قرار دیتی ہے۔ اس افسانے کی سب سے نمایاں خوبی یہ ہے کہ سلطانہ نے جس طرح اپنے والدین کی ناگوار عادتوں اور دقیانوسیت کا ذکر کیا ہے وہی تحقیر اس کے والدین کی بے چارگی، بے کسی اور مجبوری کا گہرا نقش ابھارنے میں معاون ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی تہذیب سے ان کی والہانہ لگاؤ کا ثبوت بھی دیتی ہے۔ علی باقر کی فنکاری یہ ہے کہ انھوں نے منفی لب ولہجے میں مثبت قدروں کو واضح کیا ہے۔ اس طرح یہ افسانہ نئی نسل کی خود غرضیوں، خود پرستی، اور اعلیٰ قدروں سے بیزاری کا اشاریہ بھی بن جاتا ہے۔
علی باقر نے ’’آٹھ بیس‘‘ ، ’’بہروپ‘‘ اور’’ سنجوگتا‘‘،’’ ادھورے رشتے‘‘ میں معذوروں کے مسائل کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ اگرچہ معذور فرد ایک طبقہ کے لیے بوجھ بن جاتا ہے مگر ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو معذور فرد کو بوجھ نہ سمجھ کر معاشرے کا ایک فرد سمجھتے ہوئے اسے اپنے غم اور خوشی میں شریک کرتا ہے۔ دراصل ان افسانوں میں علی باقر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ انھیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے نا کہ ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جانا چاہیے۔ ان کے ساتھ سختی سے پیش آکر انھیں قابو میں نہیں کیا جاسکتا بلکہ انھیں پیار ، محبت اور ان کی نفسیات کا مطالعہ کرکے ہم رام کرسکتے ہیں۔ کئی بار ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ معذور بچوں کو والدین اپنے لیے سبکی کا سبب سمجھتے ہیں۔ انھیں کسی کے سامنے آنے نہیںدیا جاتا بلکہ گھرکے ایک گوشہ میںقید کردیا جاتا ہے۔ جو کہ معذوروں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ سماج کے ایسے نظر انداز کیے گئے افراد کو علی باقر نے ایک فرد کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔گو کہ علی باقرکے مذکورہ بالا چاروں افسانے معذوروں کے مختلف مسائل کا صرف احاطہ ہی نہیں کرتے بلکہ اس کا حل بھی بتاتے ہیں۔
غرض یہ کہ علی باقر کے افسانوں میں انسانی کیفیات وواردات کی ایک نئی دنیا آباد نظر آتی ہے۔ ان کے افسانے موضوعات کی سطح پر بھی اور اظہار کی سطح پر بھی اردو کے عام افسانوں سے مختلف ہیں۔ یہی خصوصیت علی باقر کی شناخت ہے اور امتیاز بھی۔