دنیا کی اکانومی پر کس کا قبصہ ہے؟ یہ بھی وہ سوال ہے جس کے بارے میں کئی سازشی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔ دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست اٹھا کر دیکھیں تو یہ واضح ہو جائے گا کہ اگر کسی کا قبضہ ہے تو اس کا نام تبدیلی ہے اور دولت اکٹھا کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار ٹیکنولوجی ہے۔ پچیس سال پہلے آج کے امیرترین افراد میں سے اکثر لوگ امیروں کی فہرست کا حصہ نہ تھے۔ دنیا کے امیر ترین شخص جیف بیزوس کا بزنس ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا۔ یہ صرف مغربی ممالک تک محدود نہیں۔ مشرق میں ہونے والی تبدیلیاں تیز تر ہیں۔ آج کی کہانی علی بابا کی۔
اپریل 1999 کو شروع ہونے والا ای کامرس کا یہ بزنس نئے اور ابھرتے چین کی علامت ہے۔ دنیا بھر میں اس کے ساٹھ کروڑ براہِ راست کسٹمر ہیں۔ اس کو شروع کرنے والے جیک ما اب چالیس ارب ڈالر کے اثاثوں کے ساتھ چین کے امیر ترین فرد ہیں۔ پچھلے سال اس نے ساڑھے سات کھرب ڈالر کی مصنوعات فروخت کیں۔ (ایمیزون کا بزنس چار کھرب ڈالر تھا)۔ ایشیا اس وقت ایک معاشی انقلاب سے گزر رہا ہے۔ سولہ کروڑ افراد سالانہ غربت کے چنگل سے نکل کر مڈل کلاس کا حصہ بن رہے ہیں۔ یہ اسی طرح جاری رہا تو اگلے کچھ برسوں میں فلپائن اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کی مڈل کلاس برطانیہ، فرانس اور اٹلی جتنی بڑی ہو جائے گی۔ اور پھر چین، جس کی مڈل کلاس بڑھنے کی رفتار کا کوئی ثانی نہیں۔ تو پھر جب کوئی شخص مڈل کلاس میں داخل ہوتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ اب اس کے پاس خرچ کرنے کو رقم ہوتی ہے۔ پچھلے پانچ برس میں چین کی ریٹیل مارکیٹ چار گنا ہو چکی ہے۔ اور پیشگوئی یہ ہے کہ اگلے چار سے پانچ برسوں میں چین میں کنزمپشن برطانیہ اور جرمنی سے آگے نکل جائے گی۔ اس مارکیٹ میں ستر فیصد حصہ علی بابا کا ہے اور یہ تیزی سے بڑھتی دوسرے ایشیائی ممالک میں بھی فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہے۔
جیک ما اچھے سٹوڈنٹ نہیں تھے اور نہ ہی کسی امیر خاندان سے تھے۔ ماوٗ کے کلچرل ریوولیوشن سے دو برس پہلے پیدا ہونے والے جیک ما اپنے والد کے ایک آسٹریلوی فیملی سے اچھے تعلقات ہونے کی وجہ سے انگریزی سیکھ گئے اور دنیا کو ذرا ہٹ کر دیکھنے کے قابل ہو سکے۔ ان کی روایتی تعلیم نہیں بلکہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے تجربے ان کے لئے معاون ثابت ہوئے۔ ویسے تجربے جن کی طرف ہم توجہ نہیں دیتے۔
“میں سو فیصد میڈ اِن چائنہ ہوں۔ میں نے انگریزی بھی خود سیکھی اور مجھے ٹیکنالوجی کا بھی پتہ نہیں۔ علی بابا کی کامیابی کی ایک وجہ یہ ہے کہ مجھے کمپیوٹرز کا زیادہ علم نہیں۔ میں ایک اندھے شخص کی طرح ہوں جو ایک اندھے شیر کی سواری کر رہا ہے” ۔جیک ما
جیک ما یونیورسٹی تو نہیں جا سکے تھے لیکن انگریزی کے ٹیچر کے طور پر نوکری مل گئی اور پھر کچھ سال بعد انہوں نے مترجم کی کمپنی کھولی۔ جو اسی سلسلے میں امریکہ آئے تھے جب ان کے ایک دوست نے انہوں ایک نئی اور جادوئی ٹٰیکنالوجی سے متعارف کروایا۔ انٹرنیٹ۔
“میں کمپیوٹر کو ہاتھ لگانے سے ڈر رہا تھا۔ دوست نے کہا، ڈرو نہیں۔ یہ کوئی بم نہیں ہے۔ میں نے ایک مشروب کا نام لکھ کر سرچ کی۔ جاپانی اور جرمن مشروب تو آ گئے، چینی نہیں۔ میں نے چین کا نام لکھ کر سرچ کی۔ کوئی رزلٹ نہیں۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ اگر ہم چینی کمپینوں کو اکٹھا کر کے ایک پیچ ان کے لئے بنائیں تو کتنا بڑا کام ہو گا” ۔جیک ما
جیک نے واپس جا کر یہی کیا اور چائنہ پیجز کے نام سے کمپنی بنائی۔ یہ کامیاب تو نہیں ہوئی لیکن اس سے جیک اگلے تجربے کے لئے تیار ہو گئے۔ ان کا اگلا تجربہ علی بابا تھا جو بغیر کسی بڑی سرمایہ کاری کے شروع ہوا۔
علی بابا کیا کرتا ہے؟ شاید اس سے آسان جواب اس کا ہو کہ علی بابا کیا نہیں کرتا۔ یہ براہِ راست چیزیں بیچنے کے بجائے مارکیٹ کا کام کرتا ہے جہاں پر ہزارہا برانڈ، پروڈیوسر، ڈسٹری بیوٹر اپنی مصنوعات بیچتے ہیں۔ علی بابا ان مارکیٹس کا اونر ہے۔ ان سب کا ڈیٹا، جس میں خریداروں کی عادات، ان کے خریدنے کی ٹائمنگ، بجٹ، ٹرینڈ، وغیرہ یہ سب علی بابا کے پاس ہے اور یہ اپنی مارکیٹ کی کمپنیوں کے ساتھ یہ شئیر کرتا ہے۔ تا کہ وہ نئی پراڈکٹس شروع کر سکیں، صارفین کو بہتر جان سکیں اور زیادہ کامیاب ہو سکیں۔ یہ مارکیٹیں ہیں کیا اور ان میں فرق کیا ہے؟
سب سے پہلے تو علی بابا ڈاٹ کام جو ایک تھوک کی منڈی ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا آن لائن ہول سیلر ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو اپنے سٹور کے لئے پانچ ہزار سرخ قمیضیں ایک خاص لوگو کے ساتھ بیچنے کے لئے رکھنی ہیں تو آپ اس مارکیٹ میں آئیں گے۔ علی بابا کے بغیر یہ سپلائیر ڈھونڈنا آسان نہیں تھا۔ اس کے علاوہ چین کے اندر علی بابا کے پاس دو الگ الیکٹرانکس کی مارکیٹس ہیں۔ ٹاوٗ باوٗ اور ٹی مال۔ ٹاوٗ باوٗ میں کوئی بھی اپنی مصنوعات فروخت کر سکتا ہے اور یہاں پر خریداروں کی تعداد ساٹھ کروڑ کے قریب ہے۔ ٹی مال بڑے برانڈز کی مارکیٹ ہے۔ اس میں سپلائیر فیس دے کر رجسٹر ہوتے ہیں۔
اس کے بعد لازاڈا ہے۔ جس میں علی بابا کا اسی فیصد حصہ ہے۔ یہ جنوبی ایشیا میں مصنوعات بیچنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ یہ انڈونیشیا، ویت نام، تھائی لینڈ سنگاپور اورملیشیا میں آپریٹ کرتی ہے۔ ان ممالک میں تیزی سے بڑھتی مڈل کلاس جو 2020 تک دگنی ہو جائے گی۔ چالیس کروڑ افراد 2020 میں مڈل کلاس کا حصہ ہوں گے، جن کو علی بابا اپنا گاہک بنانا چاہتا ہے۔
اور پھر وہ جس سے شاید آپ واقف ہوں، علی ایکسپریس۔ بین الاقوامی کنزیومرز کے لئے پلیٹ فارم۔
یہ علی بابا کی بڑی مارکیٹس ہیں لیکن اس کمپنی کی ایکٹیویٹی یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ علی بابا دنیا کی پانچ بڑی کلاوٗڈ کمپیوٹنگ کمپنیوں میں سے ایک ہے اور چین میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہ بزنس ہر سال دگنا ہو رہا ہے۔ نیسلے، فلپس، کے پی ایم جی اور ایس اے پی جیسے ادارے پہلے ہی علی کلاوٗڈ استعمال کر رہے ہیں۔
یہ یوکو میں بھی بڑا شئیر رکھتا ہے۔ یہ یوٹیوب کی طرح کا پلیٹ فارم ہے۔ علی ڈاٹ می میں جو ڈیلیوری کی کمپنی ہے۔ وائبو میں جو چین میں سوشل میڈیا کا بڑا پلیٹ فارم ہے۔ اور علی پے جو کہ پے پال کی طرح مالیاتی لین دین کی سروس ہے۔ اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد اس وقت ستاسی کروڑ ہے اور چین میں موبائل پیمنٹ مارکیٹ کا لیڈر ہے۔ پاکستان کی طرح چین میں بھی کریڈٹ کارڈ ہر کسی کے پاس نہیں۔ علی پے ان کی جگہ پر ڈیجیٹل طریقے سے لین دین کو ممکن بناتا ہے۔ ویزا اور ماسٹرکارڈ کی جگہ علی پے یا وی چیٹ کی سروس کاروباری لین دین کے لئے مقبول ہے۔ علی بابا کے پاس اینٹ فائننشل کا ایک تہائی حصہ ہے جو چین کے علاوہ انڈیا میں موبائل پیمنٹ کے سب سے بڑے نام پے ٹی ایم کا مالک ہے۔ اینٹ فائننشل کی مارکیٹ ویلیو کا تخمینہ ڈیڑھ کھرب دالر ہے۔
علی بابا کے لئے انٹرنیٹ کافی نہیں تھا۔ یہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری فزیکل سٹورز میں کر رہا ہے۔ اپنا برینڈ ہیما کے نام سے ہے اور چین کی سب سے بڑی ریٹیل کی چین سن آرٹ ری ٹیل گروپ کا سب سے بڑا حصہ دار ہے۔
لیکن یہ کہانی نامکمل ہے اگر مستقبل کی بات نہ کی جائے۔ علی بابا کے مستقبل میں بڑے رِسک اور بڑے مواقع ہیں۔ 2020 تک علی بابا کے پلیٹ فارم سے ہونے والی فروخت ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ صرف اٹھارہ سال میں یہ کمپنی دو ارب کسٹمرز تک پہنچنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کیا یہ کر پائے گی؟ پتہ نہیں۔ لیکن اس کے سامنے میز پر بہت سے کارڈ رکھے ہیں۔ اس میں بڑھنے کا ابھی بہت موقع ہے۔ اس کی بڑی وجہ اس خطے کی دنیا میں ہونے والی تیز رفتار ترقی ہے۔
چین میں انٹرنیٹ ابھی صرف پچپن فیصد آبادی کے پاس ہے۔ یہ پہنچ بڑھ رہی ہے۔ یعنی کروڑوں لوگ انٹرنیٹ پر آئیں گے اور کبھی اپنی پہلی خریداری کریں گے۔ امیر ہوتے معاشرے میں خریداری کا حجم بھی بڑھ رہا ہے۔ انڈیا جو جلد دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا، علی بابا اس کے بڑے کاروباری گروپس میں سرمایہ کا عندیہ دے چکا ہے، ساوٗتھ ایشیا جو دنیا کا سب سے تیزی سے بڑھنے والا خطہ، یہ سب ملکر مشرق سے ابھرتے اس طوفان کو بڑی دیر تک بڑھا سکتے ہیں۔
لیکن ابھی سب نوعمر کمپنی میں سب کچھ اچھا نہیں۔ اس رفتار سے بڑھنے والی دوسری کمپینوں کی طرح یہ ابھی زیادہ منافع نہیں کما رہی۔ پچھلے سال صرف آٹھ ارب چالیس کروڑ ڈالر کا منافع ہوا ہے۔ جو سننے میں زیادہ لگے لیکن صرف یہ منافع اس کی مارکیٹ ویلیو کو جسٹی فائی نہیں کرتا۔
نئے چین کا ایک اور رخ یہ ہے کہ نئے کاروبار اور مقابلہ کرنے والے تیزی سے ابھر رہے ہیں۔ پن ڈیوڈیو اور جے ڈی ڈاٹ کام اس سے مقابلے کرنے کے لئے محنت اور سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ایک اور رِسک یہ ہے کہ چین کی حکومت جو اس سب میں ابھی تک مداخلت نہں کرتی۔ لیکن کئی بار مضبوط حکومتیں اپنا موڈ بدل کر کاروباروں میں خلل ڈال سکتی ہیں۔
مستقبل میں جو بھی ہو لیکن یہ ہماری بدلتی دنیا کی ایک بڑی مثال ہے۔ کس طرح اکانومی بدل رہی ہے۔ کس طرح ایشیا ابھر رہا ہے۔ ملٹی نیشلز کی اس دنیا میں علی بابا کی عمر صرف انیس برس ہے۔ ریٹیل کے اس بادشاہ نے اپنے خزانے صرف کھل جا سم سم کہہ کر حاصل نہیں کئے۔ اس دنیا کی معیشت کی باگیں تبدیلی کے ہاتھ میں ہیں۔ محنت کرنے والوں، مواقع بنانے والوں اور ان سے فائدہ اٹھانے والوں کے لئے یہ بُری خبر نہیں۔