فیصل آباد کے ادبی افق کے روشن اور نمایاں ستاروں میں علی اختر کا نام بہت اہم ہے۔جنہوں نے فیصل آباد کے ادبی ایوانوں میں اپنی متنوع ادبی جہات کی شمع جلا کر ان کی روشنی میں اضافہ کیا ہے ۔علی اختر کے افسانوں پر گرد و پیش کی زندگی کے بعد اہم تقاضوں کا اثر ہے دوسرے لفظوں میں علی اختر کی افسانہ نگاری میں ایک اچھے افسانہ گو کی ساری خصوصیات موجود ہیں ۔۔انہوں نے تاریخ ،معاشرت ،مشاہدے اور تخیل و تصور کی دکھائی ہوئی روشنی میں نئے نئے جہان آباد کیے ہیں۔ علی اختر نے اپنے ماضی کے واقعات سے نوجوان نسل کو آشنا کر کے حال سے وابستہ کیا ہے وہ واعظ بھی ہے اور مصلح بھی ،رندی اور سرمستی کی ہم نوائی بھی کی اور فہم و فراست کے ادراک سے حقیقتوں پر روشنی ڈالی۔ان کی کہانیوں کے پلاٹ زندگی ہی کے واقعات ہیں۔موضوعات کی ان کے پاس کمی نہیں ہے ۔ہر لفظ سے، ہر فقرے سے ، وقت سے ، ماحول سے ،انسانی رویوں سے موضوعات کشید کرتے ہیں۔موضوعات ان کی گود میں ہنستے کھلکھلاتے ، روتے بسورتے اور چہکاریں مارتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ان کی گہری نظر کے حصار میں سماجی رشتوں کا احساس ،طبقاتی آویزش کا شعور ،نفسیاتی الجھنوں کا تصادم ، وطن پرستی و انسان دوستی کے جذبات ، حقیقت پسندی کا متوازن سلجھاؤ بندھا ہوا نظر آتا ہے۔فکر و نظر کی روشنی ،زبان و بیان کی سادگی ، تکنیک کی صفائی کردار نگاری کا حسن’ علی اختر کے افسانوں کی خوبیاں ہیں۔
انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو انھوں نے ہمیشہ اپنا مطمع نظر سمجھا ۔عوام کے ساتھ انھوں نے جو عہد وفا استوار کیا اسی کو علاج گردش لیل و نہار قرار دیا ۔وہ جبر کے ہر انداز کو لائق استرداد خیال کرتے تھے۔وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ جبر کے سامنے سپر انداز ہونا اور ظلم کو سہہ کر حرف شکایت لب پر نہ لانا ایک ایسا رویہ ہے جس کے باعث ظلم کو تقویت ملتی ہے اور ظلم کا ہاتھ روکنے کی مساعی کا میاب نہیں ہو سکتیں ۔اس نوعیت کے رویے کو وہ ایک اہانت آمیر فعل سے تعبیر کرتے جو ظلم سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور مذموم ہے ۔حریت ضمیر سے جینے کے لیے انھوں نے ہمیشہ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر توجہ مرکوز رکھنے پر اصرار کیا۔وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے حامی رہے اسی لیے در کسریٰ پر صدا کرنا ان کے مسلک کے خلاف رہا ۔وہ ایک جری تخلیق کار ہیں جن کی تخلیقی کامرانیوں نے اردو زبان کو عزت و وقار سے متمتع کیا ۔زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کر کے اور عوام میں مثبت شعور و آگہی پیدا کرنے کے سلسلے میں ان کی بے لوث خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔
اردو افسانہ میں تخلیقی تنوع اور موضوعات کی ندرت کا جو دھنک رنگ منظر نامہ علی اختر کے معجز نما اسلوب سے سامنے آیا وہ نگاہوں کو خیرہ کر دیتا ہے ۔وہ تمام عمر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم میں مصروف رہے ۔ علی اختر نے ناول اور افسانہ نگاری کو اپنی تخلیقی تجربات سے جس تنوع ،ندرت اور معنی آفرینی سے مزین کیا وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔علی اختر کا تخلیق ادب میں جو کردار ہے وہ نا قابل فراموش ہے ۔
ایم اے علی کے نام سے ادبی حلقوں میں شہرت پانے والے گلدستہ ادب کے معروف ادیب کا مکمل نام محمد اختر علی ہے جو بعد میں سمٹ کر”علی اختر” رہ گیا ہے ۔آج وہ اسی نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں ۔علی اختر کی ابتدائی نگارشات ایم اے علی کے نام سے چھپ چکی ہیں ۔”پھر اک تارا ٹوٹا” ،”برننگ پرابلم “(جاسوسی ناول )،اردو افسانوں کا مجموعہ “کرب کی دہلیز ” پنجابی افسانوں کا مجموعہ ” ہون دا دکھ ” ” ایم اے علی کے نام سے ہی اشاعت پزیر ہو۔ کر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں ۔ایم اے علی سے علی اختر کے نام کی تبدیلی کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں ۔
“جب لوگوں نے پہچاننا شروع کر دیا تو یاد آیا کہ ایسے نام نجومیوں اور جوتشیوں اور فٹ پاتھ پر حال بتانے والوں کے ہوتے ہیں مگر ان کی اپنی قسمت کہیں اور سو رہی ہےچنانچہ میں نے پھلیاں دے کر ” ایم اے علی کو سلا دیا اور علی اختر کی جوت جگا لی ۔اللّه کا شکر ہے کہ اس نام نے مجھے جلد ہی پہچان بخش دی ۔پھر اسی نام سے میری آج تک مختلف کتابیں اور تحریریں چھپتی چلی آ رہی ہیں ۔”
علی اختر یکم اپریل 1950ء کو ایک متوسط خاندان میں چودھری اصغر علی کے ہاں پیدا ہوۓ ۔۔چودھری اصغر علی ایک شریف النفس سیدھے سادھے انسان تھے ۔علی اختر کے والد لائلپور کاٹن ملز میں بطور وارپر ملازم تھے ۔جب راشن بندی کوئی تو انہیں راشن ڈپو پلاٹ ہو گیا اور وہ آخر تک راشن کے شعبے سے وابستہ رہے۔علی اختر کا ادب کی طرف رجحان بھی ان کی والدہ سے قربت اور مشاورت کی بدولت ہے۔ان کا کہنا ہے کہ
” انہوں نے اپنے پہلے ناول “پھر اک تارا ٹوٹا” کا انجام بھی اپنی والدہ کے کہنے پر بدل ڈالا تھا۔علی اختر کو اپنی والدہ سے بے پناہ محبت تھی ۔والدہ کی سختی کی وجہ سے ان کے گھر کا ماحول منظم تھا ۔ان کے والد اولاد سے محبّت اور شفقت رکھنے کے باوجود ایک فاصلہ رکھنے کے قائل تھے ۔علی اختر کی والدہ نے قرآن پاک کی ابتدائی سوجھ بوجھ کے بعد انہیں گھر سے کچھ فرلانگ کے فاصلے پر واقع پرائیویٹ اسکول جونیئر ماڈل ہائی اسکول سنت پورہ فیصل آباد میں داخل کرا دیا جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم کا مرحلہ طے کیا ۔1966ء میں صابریہ سراجیہ ہائی سکول نمبر 1 سنت پورہ فیصل آباد سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1968ء میں گورنمنٹ کالج سمن آباد فیصل آباد سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا اسی دوران ہلکی پھلکی تحریروں سے وہ اپنی ادبی زندگی کا آغاز کرچکے تھے۔۔علی اختر پڑھنے کے شوقین تھے ۔زیادہ سے زیادہ جان لینے کے تجسس نے انہیں لائبریری کی کتابیں پڑھنے کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ انہوں نے جیسے تمام کتابیں حفظ کر ڈالی تھیں ۔ علی اختر اپنے اسکول کے ماسٹر نذیر بیگ کو بہت احترام سے یاد کرتے ہیں۔بقول ان کے ان کی سختی ان کے لیے تعلیمی مدارج طے کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوئی ۔گورنمنٹ کالج موجودہ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے انہوں نے گریجویشن مکمل کیا ۔اور ساتھ ہی N.D.V.P.(این – ڈی -وی – پی )پروگرام کے تحت پاکستان ماڈل اسکول میں بطور معلم ملازمت کرتے ہوئے عملی زندگی میں قدم رکھا ۔یہ وہ زمانہ تھا جس میں ان کا ادبی ذوق بڑی تیزی سے پروان چڑھا اور انہیں کئی ایک ادبی لوگوں سے ملنے کے مواقع میسر آئے ۔جن میں محبوب جاوید ، قمر لدھیانوی ، مشتاق شفائی جو زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں کام کرتے تھے ان کے نام سرفہرست ہیں ۔تعلیم کی لگن ان کے دل میں موجود تھی چناچہ انہوں نے اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع نہیں کیا بلکہ ایک پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا ۔1974ء میں انہوں نے بینک میں ملازمت اختیار کر لی۔ ابتداء میں ان کی تعیناتی چنیوٹ ، جڑاوالا گوجرہ ، ٹھیکری والا اور ٹوبہ ٹیک سنگھ جیسے شہروں اور قصبوں میں ہوئی۔اس کے بعد بطور سٹاف آفیسر ریجنل آفس فیصل آباد میں ان کی تعیناتی ہو گئی اور کچھ عرصے بعد ریکوری سیل میں انہیں لگا دیا گیا اس دوران 1978ء میں انہوں نے ایم اے اردو کا امتحان پاس کیا ۔
جولائی 2007ء میں ملازمت کی پابندی سے اکتا کر بینک کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور ملازمت چھوڑ کر اپنا ذاتی کاروبار شروع کر دیا ۔
ان کی شادی 1974ء میں ان کی پھوپھی زاد کنیز زہرا سے ہوئی ۔۔علی اختر کے ہاں یکے بعد دیگرے تین بیٹیوں کی شکل میں اولاد پیدا ہوئی لیکن وہ زندہ نہ رہ سکیں ۔اس طرح علی اختر اولاد جیسی نعمت سے محروم رہے ۔۔
علی اختر کا ادبی سفر
علی اختر نے مختلف زاویوں سے معاشرتی ، معاشی ، اقتصادی ، نفسیاتی اور جنسی مسائل کو کہانی کی شکل میں ڈھالا ہے ۔اسی ماحول میں رہتے ہوئے زندگی کی ان کوششوں کو کھنگالا ہے جو ہر دور کے معاشرتی تغیرات اور انسانی رویوں کے آئینہ دار ہیں ان کا سماجی شعور اور فنی پختگی اس ماحول کی دین ہے یہاں انہوں نے آنکھ کھولی اسی وجہ سے ان کے افسانوں کے کردار چمکتے دمکتے اور مخملیں نہیں ہیں بلکہ انہی گلیوں ،بازاروں ،محلوں میں سانس لیتے چلتے پھرتے انسان ہیں ۔علی اختر نے مصائب کی ماری اور اندھیروں میں بھٹکتی مخلوق کو اپنے فن کی روشنی عطا کی اور علامت نگاری کے تجربات کیے۔ ان علامتوں میں انھوں نے انسانی زندگی کی اہم صلاحیتوں کو پیش کیا کیونکہ افسانے کا فن اشارے کا فن ہے جس میں واقعہ سب کچھ کہتا ہے ۔علی اختر نے جن معاشرتی مسائل کو اجاگر کیا ہے اس میں غربت سب سے بڑا مسئلہ ہے بلکہ اس معاشرے کے سب مسائل کا دائرہ غربت کے ارد گرد ہی گھومتا ہے غربت انسانی وقار کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتی ہے اور ہم سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ انسان فطرتا کیا ہے ، کیا وہ وحشی درندہ ہے کہ معصوم اور فرشتہ سیرت ہے۔ دراصل بھوک اور غربت کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔خالی پیٹ کا کرب وہ کیا جانے جس کا بھرا پیٹ اسے اپنے جیسے انسانوں کی بدحالی سے بے نیاز بنا دیتا ہو۔بھوک کا یہ احساس غریبوں میں اس قدر کھو چکا ہے کہ ان کی بھوک مٹائے نہیں مٹتی ۔
علی اختر نے اپنے اکثر افسانوں میں غربت کو اور جوان لڑکیوں کے والدین کی پریشانیوں کو بیان کیا ہے۔ کھنڈر آنکھوں میں آباد غم ، ڈستے چاند کے زخم ، خواب کاتنے والی تتلی ، گیلی ریت کے نشان ، پتھریلے ہونٹ ،بول ری گڑیا ، اندھیرے کا زہر ، آئینہ توڑ دے اور دستک جیسے افسانوں میں علی اختر نے غربت کی وجہ سے والدین کی دہلیز پر بیٹھی لڑکیوں کے جذبات کی خوبصورت عکاسی کی ہے اور معاشرے کی کربناکیوں کی شدت سے نشاندہی کی ہے ۔یہ معصوم لڑکیاں جو اپنی مچلتی ہوئی خواہشات اور تشنہ خوابوں کے ساتھ معاشرے کے رحم و کرم پر ہیں اور معاشی جبر کے ساتھ زندہ ہیں ۔معاشرے کے اس نچلے طبقے کے ہاں سماجی ،معاشی ، اقتصادی بدحالی کا ایسا نقشہ ہے جو ان لڑکیوں کی بےبسی ،آنسوؤں اور سسکیوں سے مزین ہے ۔علی اختر نے اس طبقے کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے ان کے کردار ہماری حقیقی زندگی کے کردار ہیں جو اپنے مسائل ، پریشانیوں اور حسرتوں کی تصویر کشی کرتے ہوئے زندگی کی تلخیوں کو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔
“ڈستے چاند کے زخم ” کی نوشی اپنی بد حالی کا نقشہ یوں کھینچتی ہے ۔
“ہم لوگ شہر سے دور ایک ایسی خودساختہ بستی میں رہتے ہیں کہ یہاں کے باسیوں کی اکثریت زندگی کی سل زدہ دیوار کے اردگرد گندگی کے کیڑوں کی طرح کلبلاتی گزر جاتی ہے ۔ان کیڑوں کی طرح جنہیں چلنے کے لئے اپنا جسم سکیڑنا پڑتا ہے۔ سکڑتے بڑھتے جسم سے رینگ رینگ کر ہم میں سے ہر کیڑا زندگی کی سل زدہ دیوار پر چڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور اکثر ناکام ہو کر دوبارہ ہمجولیوں میں آ ملتا ہے۔””
اس طبقے کی لڑکیاں ساری زندگی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی آس میں گزار دیتی ہیں ۔اس زندگی میں جہاں ان کے ارمانوں کا خون ہوتا ہے ہر روز اپنی خواہشوں کے ساتھ وہ خود بھی مرتی ہیں۔یہاں تک کہ عید جیسے تہوار پر ایک جوڑا نئے کپڑے اور کانچ کی چوڑیوں کی خواہش بھی حسرت بن کر دبی کی دبی رہ جاتی ہے۔اس طبقہ کی لڑکیاں زندہ لاشوں کی طرح اپنی خواہشوں کے لاشے بھی اپنے ساتھ اٹھائے پھرتی ہیں۔مصنف اپنی نوک قلم میں نوشی کی حسرت کو یوں پروتا ہے ۔
“” نیم کا یہ درخت میرا ساتھی ہے اس اس نے بھی میری طرح کئی عیدیں پرانے لباس میں دیکھی ہیں۔””
” چوڑیوں میں چھپی کہانی میں مصنف نے اور بھی بے دردی سے اس تلخ حقیقت کو اجاگر کیا ہے اس افسانے کی مرکزی کردار رفتی چوڑیوں کی خواہش کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہے ۔
“یقین جانو۔۔۔۔ بابو۔۔۔۔۔۔ یہ تیسری عید آ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور میری باہوں میں کانچ کی چوڑیاں تک نہیں ہے بابو اس دفعہ میں یہ کان کی چوڑیاں ہر قیمت پر پہننا چاہتی ہوں ہر قیمت پر ۔۔۔۔ مجھے یہ کہتے ہوئے سسک پڑی اور میرے ذہن میں خواہشات کے بوجھ تلے دبا ہوا کردار یاد آ گیا۔۔جیسے سعادت حسن منٹو کے افسانے کالی شلوار کا کردار ۔۔””
شوکت صدیقی نے بھی اپنے ناولوں میں عورت کے مسائل اور ان کی سماجی حیثیت اور اس کی کسمپرسی کو اس طرح بیان کیا ہے ۔جس کو شیخ محمد غیاث نے یوں لکھا ہے ۔
” شوکت صدیقی جب افسانے لکھتے ہیں تو کرداروں پر جو گزرتی ہے وہ ان پر بھی بیتتی ہے ایسے وقت کرداروں کے علاوہ ہر رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔”
علی اختر بھی کرداروں کے ساتھ دکھ سہتے ہیں اور ان دکھوں کو چن چن کر قاری کے سامنے لاتے ہیں ۔علی سفیان آفاقی لکھتے ہیں ۔
” علی اختر کی کہانیوں کا موضوع عام طور پر معاشرہ اور معاشرتی ناہمواریاں ہوتی ہیں۔خاص طور پر ہمارے معاشرے میں خواتین کو جن مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان کی عکاسی وہ بہت خلوص اور دردمندی سے کرتے ہیں جس کی وجہ سے کہانی کے تاثر میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے ۔”
“کھنڈر آنکھوں میں آباد غم” کی پینو اور “خواب کاتنے والی تتلی” کی رضیہ ایسی ہی لڑکیاں ہیں جو غربت کی چکی میں پسنے کی بجائے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جبکہ سعیدہ اور “آوازوں کے سائے” کی عفت نفسیاتی مریضہ بن جاتی ہیں۔جہیز لعنت ہے جو معاشرے کی جڑوں میں ناسور بن کر رہتا ہے اور یہ ناسور ان لڑکیوں کے دکھوں کے گرداب میں جکڑ زندگی کے بھنور میں پھنسا کر رکھ دیتا ہے ۔لڑکی کی جوانی یہاں اسے ان دیکھے جہانوں کی سیر کراتی ہے اور سپنوں کے محل بنواتی ہے وہیں اس کے والدین کے لئے سوچوں کا لامتناہی جال بھی بچھا دیتی ہے۔ مصنف نے اپنے افسانوں میں اس مسئلہ پر مختلف انداز سے روشنی ڈالی ہے۔” گیلی ریت کے نشاں ” میں مصنف لکھتا ہے ۔
” خاص طور پر ہمارے معاشرے میں غربت ایک پھندے سے کم نہیں جوں جوں لڑکیاں جوان ہوتی ہیں والدین کے گلے کا پھندہ اپنا دائرہ سمیٹتا رہتا ہے۔”
جہیز کی آس میں بیٹھی لڑکی سوچتی ہے۔
” میں ایک غریب والدین کی بیٹی ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اپنی تمنائیں اور آرزوئیں جہیز کے کفن میں لپیٹ کر زندگی کی چتا میں ساری عمر کے لئے جلتی رہ جاؤں ۔”
مادہ پرستی کے دور میں جہیز کی سولی پر لٹکتی ان لڑکیوں کی جوانی اس کی خواہشوں اور امنگوں کے ساتھ عمر کے
بڑھتے سایوں کو تیزی سے اپنی طرف لپٹتی دیکھتی ہیں لیکن غربت ٹوٹ چکی میں پستے والدین بے بسی کی تصویر بنے اس مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔یہاں تک لڑکی کی شادی کے موضوع کا تعلق ہے یہ کوئی آج کا نیا موضوع نہیں ہے ۔مختلف افسانہ نگاروں نے مختلف انداز میں اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے ۔احمد ندیم قاسمی کے افسانے” نصیب” اور “گھر سے گھر تک ” میں یہ موضوع بڑی خوبصورتی سے برتا گیا ہے۔لیکن عصمت چغتائی کے “چوتھی کے جوڑے” نے تو قاری کے دل کو آغاز میں ہی لرزا کر رکھ دیا ہے ۔جہاں کبریٰ کی ماں بیٹی کے لیے جہیز کے کپڑے سینے کے برعکس اس کے لیے کفن تیار کر رہی ہے۔ یہ فضا قاری کو غم و الم کی فضا میں لے جا کر اس کی ماں کے ساتھ مل کر رونے پر مجبور کر دیتی ہے ۔
کبریٰ جو دق کی مریضہ تھی شادی کی خواہش اسے موت کی طرف دھکیل رہی ہے۔ خواب کاٹنے والی تتلی کی سعیدہ بھی اس خواہش میں ٹی بی کی مریضہ بن کر موت کا انتظار کرتی ہے اس کی سوچ کو مصنف نے اس طرح بیان کیا ہے۔
” مگر میری خواہش ۔۔۔۔تمنائیں۔۔۔۔سب کچھ تو ختم ہو چکا ہے ۔مگر نجانے ڈاکٹر کیوں ڈرتا ہے۔ حالانکہ ٹی بی بھی تو اس نے تشخیص کی تھی۔وہ تو مجھے مسکرانے اور جینے کی امید دلاتا ہے کتنا بولا ہے ڈاکٹر، وہ نہیں جانتا کہ خواب کاتنے والی تتلیوں کا انجام کس قدر بھیانک ہوتا ہے اور جن لوگوں کو یہ اپنے سینے میں بسا لیتی ہے وہ انہیں اکیلا تھوڑا چھوڑ جائیں گے ۔۔۔۔یہ تو دکھ ہیں ۔۔میرے اپنے دکھ ۔۔جو مجھے ساتھ ہی لے جائیں گے ۔۔۔ہاں ۔۔۔بہت جلد ۔۔۔””
یہ علی اختر کے فن کی خوبی ہے کہ وہ تمام اہم سماجی مسائل پر روشنی ڈال کر ان نقصانات کا احساس کرانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں وہ یقینا کامیاب رہتے ہیں ۔ ادب معاشرتی تاریخ کا آئینہ دار ہے جو ہر دور کی معاشرتی تبدیلیوں اور انسانی رویوں کو تخلیقات کے سانچے میں ڈھال کر سماجیات کا لسانی شعور نسلوں تک منتقل کرتا چلا جاتا ہے ۔علی اختر نے بھی اس ادب کا حصہ بنتے ہوئے ایک بڑا ادبی سرمایہ ناول، افسانہ ڈرامہ اور دیگر تخلیقی جہات کی شکل میں آنے والی ادیبوں کو دان کیا ہے ۔علی اختر نے اپنے ادبی سفر کا آغاز اگرچہ افسانے سے کیا تھا جو شائع نہ ہو سکا۔اور بعد میں ناول کی شکل میں سامنے آیا ۔لیکن وہ بنیادی طور پر ایک افسانہ نگار ہیں ہیں وہ اپنی پہلی محبت بھی افسانے کو قرار دیتے ہیں اور آخری بھی ۔اور ان کے بقول وہ اب تک اس محبت کو نبھا رہے ہیں ۔باقاعدہ طور پر ان کا پہلا افسانوی مجموعہ “قرب کی دہلیز” تھا جو فروری 1982 میں اشاعت پذیر ہوا ان کے افسانوی مجموعے جو اب تک شائع ہو چکے ہیں ان کی تعداد آٹھ ہے -، ان میں سے سات اردو اور ایک پنجابی افسانوی مجموعہ ہے ۔افسانوی مجموعہ جات کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔
1- کرب کی دہلیز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس افسانوی مجموعہ میں کل سات افسانے ہیں پچھلے پہر کا چاند، کانچ کی چوڑیاں ، جذبوں کا کفن ، کرب کی دہلیز ،داغ داغ دل ، ننگی بانہیں ،اور سہارے ۔یہ افسانوی مجموعہ فروری 1982ء میں شمع بک سٹال فیصل آباد کے زیر اہتمام شائع ہوا تھا۔
2- ہون دا دکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ پنجابی میں لکھا ہوا افسانوی مجموعہ ہے ۔اس میں کل بارہ افسانے ہیں ۔کچیاں کندھاں ، سینک ، جوکاں والی ، تریڑاں ،نگہہ ،ہنیر ، پچھلے بوہے ، سیہان ، جاگدے سفنے ،سانجھ اڈاری ، ہون دا دکھ ۔۔۔۔یہ مجموعہ اگست انیس سو پچاسی میں مسلم پنجابی مجلس فیصل آباد سے شائع ہوا ۔
3- بول ری گڑیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اردو کا افسانوی مجموعہ ہے۔ اس میں کل گیارہ افسانے شامل ہیں۔گیلی ریت کے نشان ، جھونکا ہوا کا ، اندھیرے کا زہر ، پتھریلے ہونٹ ، بول ری گڑیا ،دستک ،ریزے ، پیپر ویٹ ، تمہاری قسم ،الفاظ کی دیمک ، آئینہ توڑ دے ۔۔یہ مجموعہ مارچ 1992ء میں الحمد پبلی کیشن پرانی انار کلی لاہور سے چھپا تھا ۔
4- ساری باتیں بھول نہ جانا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اردو افسانوی مجموعہ ہے ۔اس میں موجود افسانوں کی تعداد 13 ہے ۔پیدل کی مات ، کھنڈر آنکھوں میں آباد غم ، ڈستے چاند کے زخم ،بہار کو ترستی خزاں ،شام سے پہلے آجانا ، ٹہنیوں پر آگے طعنے، ساری باتیں بھول نہ جانا ، تجاوزات میں گھرا ذہن ، خواب کاٹنے والی تتلی کانچ کے رشتے ، جذبوں پر پڑی اوس ، آوازوں کے سائے ، چوڑیوں میں چھپی کہانی ۔یہ مجموعہ مارچ 1992ء میں الحمد پبلیکیشنز لاہور سے شائع ہوا تھا۔
5- خواب تیری آنکھوں کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اردو افسانوی مجموعہ)اس مجموعہ میں کل چودہ افسانے شامل ہیں ۔صاحباں جنڈ تے تیر ، جاگتی صبح کی آنکھوں میں تیرتی الجھن ، ٹشو پیپر ، روشنی کے صحن میں اتری کالک ، تنہائی سے لپٹا خوف ، سوچ کے پنجرے میں بند خواہش ، خواب تیری آنکھوں کے ، اندھیرے کی اوٹ سے مسکراتی دھوپ ، ان دیکھے لمحوں کی تلاش ،_سہمے شہر کا المیہ ، آوازوں کے ہجوم میں گمشدہ بصار تیں ، خوف جنگل میں گڑی صلیبیں ، گونگی گلیاں چپ دروازے ۔۔یہ مجموعہ 1998 میں فکشن ہاؤس لاہور سے شائع ہوا تھا ۔
6-آؤ درختوں کے نام لکھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو میں لکھا ہوا یہ افسانوی مجموعہ کل 13 افسانوں پر مشتمل ہے ۔جس میں شامل افسانوں میں باتوں کی سیج پر اترتی شام ، تعزیر سے بندھے خواب ، صدیوں پر بوجھ لمحے ، کترن ، ساحلوں سے الجھے دریا ، بند مٹھی میں تعبیر ، بارود پر بیٹھی فاختہ ، آؤ درختوں پر نام لکھیں ،خوابوں کی گواہی ، ۔۔۔۔اس مجموعہ کا انتساب انہوں نے وعدوں سے بندھی اولی پولی یاریوں کے نام کیا ہے ۔یہ مجموعہ دسمبر انیس سو چھیانوے میں الحمد پبلی کیشن لاہور سے شائع ہوا تھا ۔
7- تیرا دھیان رہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اردو میں لکھا ہوا افسانوی مجموعہ اس میں کل 12/ افسانے شامل ہیں ۔دکھ کا سورج ڈھلتا نہیں ، گواہی ، کھلی ہوا کے قیدی پنچھی ، خشک ہونٹ دریاؤں کے ، تیرا دھیان رہتا ہے ، طنز کے تکلے پر چڑھا سلوک ، ہارے لشکر کا سپاہی ، لسانی قاعدے میں انسانی رشتے ، پیر کی اونٹنی ، چیک پوسٹ پر بیٹھے شخص سے مکالمہ ، بوڑھی رات کی کہانی اور قیامت ۔۔۔۔یہ مجموعہ جون 2002ء کو الحمد پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوا تھا۔
8- تم تو میرے اپنے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس اردو افسانوی مجموعہ میں کل گیارہ افسانے شامل ہیں۔ بھید بھری ،وہ تو میرے اپنے تھے ، بن مول ، گلوبائزیشن ،اجتمائی قبر ، کل ، اڈیک ، ہم ، داستان گو ، بلیک ہول ، سراب ۔۔۔۔۔۔یہ مجموعہ 2005ء کو حق پبلیکیشنز لاہور سے شائع ہوا تھا۔
علی اختر کے افسانوں میں خاصا تنوع پایا جاتا ہے۔ ان کے ابتدائی افسانوں کے موضوع اور روحانی ہیں جن میں کہیں کہیں جنسی جذ بے کی خواہش کار فرما ہے۔انہوں نے معاشرے کے اردگرد بکھری حقیقتوں کو چابک دستی سے اپنے فن میں سمویا ہے ۔زندگی ان کے ہاں تلخیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ علامتی افسانے ان کے فکر و فن کا حسین امتزاج ہے۔افسانوں کی طرح ناول بھی طبقاتی تضاد اور عورت کے مسائل پر مبنی ہے۔ عورت بحیثیت ماں بیوی، بہن، محبوبہ کی شکل میں جلوہ گر ہو کر مختلف روپ ڈھالتی ہے ۔
9- پھر اک تارا ٹوٹا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کا پہلا ناول “پھر ایک تارا ٹوٹا “میں پہلی دفعہ انہوں نے اپنے آپ کو ادب کے میدان میں منوایا ہے ۔اس میں نوجوان جوڑے کی محبت کی کہانی کے ساتھ کئی دوسرے کرداروں کی کہانی بھی بیان کی گئی ہے ۔ عورت مسائل کے پتال میں گم ہے ۔علی اختر نے اس کی نشان دہی بڑے احسن طریقے سے کی ہے ۔اس کا پہلا ایڈیشن جون 1977ء میں چوہان اکیڈمی لائلپور میں شائع ہوا تھا۔
10-بچھڑنا زخم دیتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ناول میں ایک جوان لڑکی کی خواہشات پر روایتوں کے پہرے لگائے جاتے ہیں اور وہ ہسٹریا کی بیماری کا شکار ہو جاتی ہے لیکن معاشرے میں موجود عقل کے اندھے اور کانوں سے بہرے لوگ اس کی بیماری کو سمجھنے کی بجائے اسے جنوں بھوتوں کے سائے سے تعبیر کرتے ہیں ۔
11- برننگ پرابلم”(جاسوسی ناول)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1988ء میں نادر پبلیشرز فیصل آباد سے شائع ہونے والے یہ جاسوسی ناول کا ترجمہ ہے ۔
12- وتھاں سفنے کیرے (پنجابی ناول)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک گم ہوتی ثقافت کی کہانی ہے ۔جس
میں مصنف نے اپنے کلچر کو اپنی دھرتی سے جوڑتے ہوئے دھرتی سے پیار کا اظہار کیا ہے اس کو ادارہ پنجابی زبان تے ثقافت لاہور نے شائع کیا تھا ۔
13- دھوپ میں لکیریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ادبی شخصی رویوں پر مبنی کالموں کا مجموعہ ہے ۔جو 1990ء میں ماوراء پبلشرز لاہور سے شائع ہوا تھا ۔اس میں روزنامہ جنگ کراچی لاہور ، روزنامہ خبریں لاہور کے ادبی ایڈیشن و روزنامہ امروز ،روزنامہ جسارت کراچی روز نامہ حریت کراچی ،مقامی روزنامچے میں شائع شدہ کالموں کو مجموعہ کی شکل میں ترتیب دیا گیا ہے ۔
علی اختر کے بقول :
” انسانوں کے کردار اور رویوں میں بڑھتی تعداد دیکھ کر ان کا دل کڑھتا تھا وہ کہتے ہیں کہ لفظ کی حرمت اور حرف کی توقیر بنانے والوں کو کم ازکم صاحب کردار ہونا چاہیے۔”
مگر یہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے انہں تحفظات کو دیکھتے ہی انہوں نے یہ کالم مختلف اخبارات میں مختلف قلمی ناموں سے لکھنے شروع کیے تھے اس میں مختلف ادیبوں کے کیری کیچر بھی شامل ہیں ۔اس مجموعہ کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ اس کے صفحات پلٹتے ہی سب سے پہلے مصنف کا اپنا کریی کیچر ہمیں دکھائی دیتا ہے۔جو ان کی جرات رندانہ کا بے باک اظہار ہے۔
14- منظر میں پیش منظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مختلف کتابوں اور شعری مجموعوں پر لکھے ہوئے ان کے تنقیدی مقالوں اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے ۔جس میں منصورہ احمد کی نظم “سرحد کا تنقیدی جائزہ”، “لحاف” عصمت چغتائی کا، ” اتارا ہوا بوجھ” ، جیسا تنقیدی مقالہ ، ” الجھی سانسوں کا سنگیت “، مجید امجد اختر حسین جعفری کی شاعری میں سبزہ “، ” نسائی جذبوں کی شاعرہ پروین شاکر ، قتیل شفائی پاکستان کا ساحر لدھیانوی ، احساس کی صدائے حق جون ایلیا ،مشرف احمد کی ناول نگاری کا تنقیدی جائزہ اور بہت سے تنقیدی و تنقیدی مقالات شامل ہیں ۔
ڈاکٹر اظہار احمد گلزار کے مطابق؛
” علی اختر کے افسانے ان کا اسلوب دیگر افسانہ نگاروں کی مانند روایتی نہیں ہے ۔ ان کی تحریروں میں استعارات کے استعمال کی مہارت ،بیان کی چاشنی اور زندگی کی حقیقتوں کو کھل کر بیان کرنااور بے ساختہ پن قارئین کو ان کی تحریروں کے سحر میں گرفتار کردیتاہے ۔ اچھوتے اور مختلف موضوعات پر کالم نگاری بھی ان کا طرہ امتیاز ہے ۔ اُردو افسانے کا ایک معتبر نام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اسلوب اور بدلتے لہجوں کے باعث پیش منظر کے افسانہ نگاروں کے لیے بڑا چیلنج ہے ۔”
معروف محقق ، نقاد اور شاعر پروفیسر ریاض احمد قادری اپنے ایک مضمون میں علی اختر کی افسانہ نگاری پر یوں خامہ فرسائی کرتے ہیں ۔
“عہد حاضر کے ممتاز افسانہ نگاروں میں علی اختر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔افسانوی ادب میں علی اختر کی شناخت مقصد انگیز افسانہ نگار کے طور پر ہوتی ہے۔وہ بنیادی طور پر رومانوی افسانہ نگار ہیں۔مگر ان کے افسانوں میں معاشرتی نظام کے مسائل اور تعمیری اقدار کی بازیافت کی جھلک بھی صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے زندگی کی توانائی سے بھرپور ہیں۔ علی اختر ادب میں فن برائے فن اور ادب برائے ادب دونوں ہی نظریے کے یکساں طور پر قائل ہیں۔وہ ادب کو زندگی کی اعلیٰ قدروں کا ترجمان و آئینہ تصور کرتے ہیں۔ان کے افسانوں میں ان کے اس مسلک کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔انھوں نے اپنی ادبی زندگی کی شروعات شعر و شاعری سے کی۔وہ ایک اچھے افسانہ نگار اور اچھے انسان ہیں ۔ اس لیے ان کی شاعری ان دونوں ہی خوبیوں کا پرتو نظر آتی ہے۔”
علی اختر ایک بہترین ڈرامہ نگار بھی ہیں۔ آپ کے بے شمار ڈرامے ٹی وی اور ریڈیو پر آن ایئر ہو چکے ہیں ۔ریڈیو پاکستان فیصل آباد سے آپ نے قومی و ملی حوالوں سے اور مذہبی تہواروں پر بے شمار فیچرز غنائیے تحریر کیے ہیں۔ریڈیو پاکستان کو جب باقاعدہ ڈرامہ سینٹر بننے کا اعزاز حاصل ہوا تو قومی نشریاتی رابطے پر آپ کا پہلا ڈرامہ صدر دفتر اسلام آباد بھجوایا گیا جو نشر ہونے پر بے حد پسند کیا گیا ۔آپ کے تمام ڈرامے قومی نشریاتی رابطے پر نشر کیے گئے ہیں جو سامعین نے بے حد مقبول رہے ہیں ۔2006ء میں آپ کو ریڈیو پاکستان فیصل آباد سے نیشنل ایکسی لینسی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔اس کے علاوہ آپ کو پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سینٹر کی جانب سے 2009ء میں بحثیت بہترین ڈراما نگار ایوارڈ سے نوازا گیا ۔علی اختر کے لکھے گئے ڈراموں کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
ریڈیو پاکستان فیصل آباد سے آن ائیر ہونے والے ڈراموں میں ۔
💥 دریا میں گرتی بوندیں ۔۔۔۔۔۔15اکتوبر 2005 ء
💥خوشبو ڈھونڈتی تتلیاں ۔۔۔15 دسمبر 2005ء
💥 ساحلوں کی ہوا ۔۔۔۔14 مئی 2006ء
لاہور سے آن ایئر ہونے والے ڈراموں میں۔۔
💥خواب سراب ۔۔۔۔۔14 مئی 2007ء
💥دھنک مسافر اترے ہیں ۔۔14 جون 2007ء
پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سے آن ائیر ہونے والا پنجابی ڈرامہ تھا
شاعر ہونے کی حیثیت سے انہوں نے شیتل لمحوں میں کومل جذبوں اور مدھر احساسات کو لفظوں کا پیرہن میں سمو کر اسے فن کا نام دیا ہے۔ ان کی شاعرانہ عظمت کا اظہار ان کے افسانوی مجموعوں کے نام سے بھی ہوتا ہے زیادہ تر نام شاعرانہ طرز کے ہیں ۔” آؤ درختوں پر نام لکھیں” ، “تم تو میرے اپنے تھے”، “خواب تیری آنکھوں کے”، “بچھڑنا زخم دیتا ہے”، وغیرہ اس کا بین ثبوت ہیں ۔ ادیب اس معاشرے کا حساس فرد ہوتا ہے۔اس لحاظ سے وہ ایک اچھا شاعر بھی ہیں۔آپ نے محبت ، مناظر فطرت سے وابستگی اور وطن سے محبت جیسے موضوعات کو اپنی شاعری میں سمویا ہے ۔شاعری میں آپ نے غزل اور نظم بھی لکھی ہے ۔لیکن ذاتی طور پر غزل کہنا پسند ہے ۔لیکن آپ کو دلی تسکین غزل کہنے میں ملتی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک کے ساتھ لگاؤ اور محبت ہر مسلمان کا جزو ایمان ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے بغیر ایمان کی تکمیل ممکن ہی نہیں تو ہر شاعر اور ادیب کی تخلیقات بھی ادھوری ہیں ۔اگر ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاکیزہ اطوار و اعمال کا ذکر نہ ہو ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت و محبت کا اظہار علی اختر کی سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر مبنی کتاب انوار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فہم و فراست لکھ کر کر رہے ہیں جو کی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ کتاب تخلیق نہ کرنا ہوتی تو میں اتنی کتابیں نہ لکھ پاتا ۔۔۔۔۔اس کے علاوہ “رنگ اترے نہ چاہت کا” (اردو ناول)، افسانوی مجموعہ ” ہمیں ہی انتظار کرنا ہے”اور کئی پنجابی ڈرامے “تاہنگھ ” ، کنیاں تے دریا ، سفنےدرگاہ دل ،پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سے تکمیل کے مراحل طے کر رہے ہیں ۔
یوں آپ نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں کامیابی سے نثر لکھ کر ادبی میدان میں اپنے آپ کو منوایا ہے۔
مجموعی طور پر علی اختر کے افسانوں میں سماجی زندگی کی تلخیاں اور معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیاں نمایاں ہیں ۔لب و لہجہ میں تلخی ، طنز اور غم و غصے کا پہلو بھی نظر آتا ہے ۔ان کے افسانوں “سوچوں کے پنجرے میں بند خواہش” ، “طنز کے تکلے پہ چڑھا سلوک” ، تعزیر سے بندھے خواب ” ، پلڑے میں رکھا ہوا بھاؤ” ، ساحلوں سے الجھے دریا ” ، جیسے افسانوں میں غلط معاشرتی رویوں ، سماجی بے اعتدالی اور اجتماعی بے حسی کو بیان کیا گیا ہے ۔
علی اختر کے اسلوب کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے مختلف اصناف، ادب میں اپنے اشہبِ قلم کی خوب جولانیاں دکھائی ہیں۔ان کے اسلوب کے سوتے ان کے مشاہدات اور تجربات سے پُھوٹتے ہیں ۔یہ مشاہدات و تجربات جب ایک انتہائی مؤثر ذہنی عمل کی صورت میں ان کے ڈراموں ،افسانوں ،ریڈیو اور اخبارات کے لیے لکھے گئے کالموں اور مضامین میں جلوہ گر ہوتے ہیں توان کی تخلیقی تحریروں کا ہر لفظ گنجینۂ معانی کا طلسم ثابت ہوتا ہے۔ افکارِ تازہ سے مزّین ان مسحورکُن تحریروں کے مطالعہ سے قاری ایک جہانِ تازہ میں پہنچ جاتا ہے جہاں فکرو خیال کی وسیع اور متنوع دنیا کا منفرد نظام دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔اپنے قلم کا احترام کرنے والے حریتِ فکر کے اس مجاہد نے گزشتہ نصف صدی کے دوران اپنے دل پر گزرنے والی ہر کیفت کو نہایت خلوص اور درد مندی کے ساتھ زیبِ قرطاس کیا ہے ۔ معاشرتی زندگی کے وہ تمام حقائق جو ذہن و ذکاوت اور فہم وادراک کو متاثر کرتے ہیں بڑی خوش اسلوبی سے ان کے افسانوں میں سمٹ آئے ہیں۔