(يہ ياداشتيں پاکستان کے سب سے بڑے فلاسفر اور تحریک خرد افروزی کے رہبر جناب سید علی عباس جلالپوری سے 1994/95کے دوران جب وہ اپوا محلہ جہلم ميں اپنے بيٹے کے ہاں صاحب فراش تھے سے ملاقاتوں پر مشتمل ہيں )-ويسے تو خاکسار حساب کتاب ميں پیدائشی کمزور رہا ہے، مگر يہاں ہمارا مقصد کسی شخصیت کے قد کا حساب کرنا بلکل نہیں ہے، بڑی شخصیت کا قد ہمیشہ تاريخ ہی متعین کرتی ہے۔مجھے تو بس اٹھويں جماعت کے امتحان والے دنوں ميں حساب(رياضی) کی وہ کتاب ياد آرہی ہے جسکی گاہيڈ بک لینے”ويری باگ “بک پبلشرز گيا تھا۔
“ویری ناگ “بک پبلشرز ميرپور ميں کتابوں کی سب سے بڑی دوکان تھی اور يہ اپنی کتابيں پبلش بھی کرتے تھے۔اسکے مالک سہیل فاروق کے۔ایچ خورشید کے ساتھی رہے تھے۔”ویری ناگ “وادی کشمیر ميں وہ جگہ ہے جہاں سے دریا جہلم کا چشمہ پوٹھتا ہے جو سندھو دیش کے سمندر تک کے علاقے کی پیاس بجھاتا ہے فاروق سہیل کا خاندان ویری ناگ کی سرزمين کا خمیر رکھتا ہے اور انکی دوکان کا نام اپنے خمیر سے نسبت۔ (بعدازاں فاروق سہيل نے ہميں بتايا تھا کہ انکی دوکان کے نام کا انتخاب بھی کے ایچ خورشید نے ہی کیا تھا)”ویری ناگ “بک پبلشرز کے اندر داخل ہوا تو سامنے شاید نئی بلٹی سے پہنچنے والی کتابوں کا ڈھیر پڑا تھا، اس ڈھير سے ايک کتاب میری اوڑ ھ دیکھ رہی تھی۔اس کتاب کا نام تھا”عام فکری مغالطے “۔ اس سادہ مگر قابل فکر نام جس نے میری توجہ حاصل کر لی تھی۔کتاب کا ٹاہٹل انتہائی سادہ تھا دو رنگ اور بیچ ميں سفید لائن،جیسے زمانہ قديم اور زمانہ جدید کے بیچ واضح لکیر کھينچ دی گئی ہو۔کتاب اٹھائئ تو اس کے پہلے صحفے پر الگزنڈر ڈوما کے خوبصورت الفاط درج تھے۔
““انسان دیکھے جاسکتے ہيں ٹٹولے جاسکتے ہيں،تم انہیں پکڑ سکتے ہو، ان پر حملہ کر سکتے ہو اور قید کر کے ان پر مقدمہ چلا سکتے ہو اور انہيں تختہ دار پر لٹکا سکتے ہو۔ليکن خيالات پر اس طرح قابو نہيں پایا جا سکتا۔ وہ نہ محسوس طور پر پھیلتے ہيں، نفوذ کر جاتے ہيں۔ روح کی گہراہيوں ميں چھپ کر نشوونما پاتے ہيں، جڑيں نکالتے ہيں۔ جتنا تم انکی شاخيں جو بے احتیاطی کے باعث ظاہر ہو جاہيں، کاٹ ڈالو گے اتنا ہی انکی زمین دوز جڑيں مضبوط ہو جاہيں گی “-آج جس شخصيت کی ياداشتيں لکھنے ميں بیٹھا ہوں،اسے بھی دبایا گیا تھا سماجی جبر تلے، مشترکہ خاندانی نظام کی چکی ميں، طبقاتی فرق سے، معاشرتی کٹھن کے اندر، اسکی بصیرت کی شاخوں کو کوٹنے کی کوشش کی گئی، عملی طور پر اسکو کمزور کرنے کيلیے خاندان سے ليکر ریاست تک اور نظام سے ليکر معاشرے تک سب اسکے راستے کی ديواريں تھيں۔يہ جفا کش کونے ميں بيٹھا اپنا کام کرتا رہا، خرد افروزی کی بیج تيار کر کے اپنے زمين زادوں کو ديتا رہا، جس سے بہت سے پودے اوگے، جو تناور درخت بن گے، کچھ ثمر آور ٹھہرے، کچھ بے ثمر سوکھ گے۔يہ بہادر شخص کھڑا رہا، جب يہ يتيم بچہ تھا تب بھی اور جب وحشی ملاؤں نے اسکے گھر کا گھيراو کرکے اسے مرتد قرار دے کر اسے مارنے اسکے دروازے تک آگے تھے يہ صاحب فراش تھا مگر کھڑا رہا تب بھی۔۔نصف صدی سے اسکے بوے ہوے بیجوں سے آج بھی خرد مندی کے نئے نئے پودے اگ رہے ہيں۔ ڈوما کے الفاظ کی خوبصورت موسيقی میرے دماغ ميں گیت کی شکل اختیار کر چکے تھے، کہ جانے انجانے ميں کتاب کا ورق الٹ دیا۔ اگلے صحفے پر ان سارے مغالطوں کی لسٹ تھی جسکو مصنف نے موضوع بحث بنانا تھا، ایک سے بڑ کر ايک چونکا دینے والے مغالطے!
ميں طالبعلم تھا اور طالبعلم کی جيب ميں بس اتنے ہی پيسے ہوتے ہيں جس سے وہ جنک junk فوڈ سے پيٹ بھر سکے يا گھر واپسی کا کرايہ دے سکے۔ اپنے پاس دونوں تھے۔ سموسہ چاٹ کی بڑی پلیٹ کے اضافی پيسے اور گھر واپسی کو رکشے کا کرايہ بھی، مگر کتاب کی قيمت پھر بھی زیادہ تھی۔گاہیڈ بک کی قيمت دريافت کی تو وہ اپنے اندازے سے نسبتا کم تھی، شاید پرانا ايڈیشن تھا، مگر کتاب کیلئے دس روپے ابھی بھی کم تھے۔ کتاب اٹھائی تو پيپر کی ياد آگئئ تو پھر رکھ دی۔چار ونچار گاہیڈ بک خرید لی۔ دروازے پر پہنچ پیچھے دیکھا تو پھر رک گيا،کتاب چھوڑنے کا من نہيں کر رہا تھا، دروازے سے پلٹ کر بيچنے والے سے عرض کیا کہ آپ يہ گاہیڈ بک رکھ ليں اور اضافی رقم ليکر مجھے يہ (جلالپوری کی) کتاب دے ديں۔ دوکاندار نے میری طرف ديکھا، اٹھويں جماعت کے بچے جسکی نہ دھاڑھی اوگی ہے نہ مونچھ کا نشان،اس نے چہرے پر ٹکٹکی باندھ کر پوچھا کتنے پیسے کم ہيں؟عرض کيااگر دونوں کتابيں لوں تو دس روپے کم ہيں۔ وہ فٹ سے بولا ہم جنرل بکس پر ۲۰% چھوٹ بھی دیتے ہيں۔ ميں خوش ہوگيا، ان دنوں اس کتاب کی قيمت شاید۹۰ روپے تھی۔
خیر کتاب خرید لی،بچے ہوے پیسوں سے آدھا سفر رکشے پر کیا اور آدھا پیدل۔گھر پہنچا تو سہہ پہر گزر رہی تھی سوچا تھوڑی دير قيلولہ کرنے کے بعد اٹھ کر پیپر کی تياری کرونگا، پھر دوستوں کے ساتھ شام کی واک۔ بستر پر لیٹا ہی تھا کہ ڈوما کے الفاظ اور عام فکری مغالطے کی ہيڈ لائنز دماغ ميں گھومنے لگيں،سوچا تھوڑا پڑھ ليتے ہيں، کتاب اٹھائی اور عام فکری مغالطے کا پیش لفظ نکالا تو اسے پڑھنا شروع کردیا، ايک ڈیرھ صحفے کی تحریر کی روانی نے اپنا حساب (ریاضی)اور کتاب ( ٹيکسٹ بک) بھلا ديے۔ ميں عام فکری مغالطے کو بے فکری سے پڑھنے لگا۔ فلسفہ، تاريخ، فطرت،وجدان،عقل، دولت مسرت، عشق، آذاری، فن، اخلاق،محبت ،عورت کا مقام اور ریاست ومذہب کا رشتہ، ايک کے بعد ايک زندگی کے مغالطے ڈھیر ہونے لگے ،حاصل بعداز جمع تفريق يہ تھا کہ جو سن رکھا تھا، پڑھ رکھا تھا یا بتایا گیا تھا سب جھوٹ لگنے لگا، عقيدت کے بت لرز گے، بغاوت رگوں ميں دوڑنے لگی۔ جوں جوں پڑھتا گیا مغالطہ پاکستان کا مینار زمین بوس ہوتا گیا، حدود اربعے والی دنیا لھلتی گئی، جغرافیہ پھیلنے لگا۔پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو سوچا ہوں کہ اگر جلالپوری کی عام فکری مغالطے اس دن ہاتھ نہ اتی تو شائد آج ميں جماعت کاامير نہ ہی سہی رفیق ضرور ہوتا۔ جب سوشل ميڈيا نہيں ہوتا تھا تو طلباء کيلیے امتحان کے بعد سب سے اچھے دن ہوتے ہيں،رات دير تک جاگ کر اپنی پسند کی کتابيں پڑھنے،صبح دیر سے جاگنا اور دن کو دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرنا ان سے اچھے دن کبھی نہيں آتے، فرصت کے ان دنوں ايک روز پھر”ويری ناگ بکس “ پر جانے کا اتفاق ہوا تو جلالپوری کی ايک اور کتاب ”مقامات وارث شاہ “ خرید لی۔ صوفی شعرا کے سینہ بہ سینہ چلے انے والے کلام بچپن سے سنتے آرہے تھے اوپر سے مياں محمد بخش سے نہ صرف قبیلائئ نسبت تھی بلکہ ہمارے دودھیالی چچا اور ننھیال نانا کے گھر پنجن بالا ميں برسوں قیام کیا اور اپنی سیف الملوک کا بیشتر حصہ يہيں لکھا ہم ہر شب برأت کو دھمڑياں والی سرکار اور عارف کھڑی مياں محمد بخش کے دربار پر منعقد ہونے والے عرس پر جاتے، دن بھر انے والے قافلوں اور انکی ڈوليوں، ڈھول کی تھاپ پر اٹھنے والے ہاتھوں و پيروں، دھنتے ہوے سروں اور مچلتے ہوے جسموں کی حرارت سے ببھبکیاں مارا کرتے۔ہم شکر پارے کھاتے، شربت پیتے مخانے لوٹتے اور چکوال سے انے والے قافلوں کی ريوڑی چکھتے تو سوکھے ہوے چھوارے چھوڑ دیتے ۔شام کو دربار پر ہونے والے دھمال، لڈی، خواجہ سراوں کے خوبصورت ميک اپ کیساتھ رکس اور وہ ڈانڈے پر ڈانڈا مار کر خوبصورت جوانوں کا گھوم کر پر ڈاندے پر ڈنڈا مارنے پر جو موسیقی پیدا ہوتی تھی، اپنی لے ميں لے ليتی تھی۔ پھر رات گے کلام مياں محمد بخش و سیف الملوک پڑھنے، گانے والوں کی محفل جمتی، جس ميں راجہ بوٹا جيسے لوگ بھی پہلے تحت اللفظ پھر سر ميں گا کر عارف کھڑی کو یاد زندہ کرتے۔يوں صوفی شاعری و رسومات ہماری رگوں ميں دوڑتے خون کا حصہ تھيں، ايسے ميں ہير ہمارے لئے پرائئ تھی نا وارث شاہ۔ مگر ہیر و وارث کا جو مقام ہميں جلالپوری نے بتانا شروع کیا تو ہم عش عش کر اٹھے، پنجاب کے جاٹوں کے تپتی دوپہر ميں گندم کی کٹائی سے کھانے کی بريک ميں لسی پی کر مست وحال رقص و سرور کی محفل ميں بے تکان اٹھ جانا اور” ہیریے نی ہیرے آج ميں اکھہاں “ کی لے پر بھنگڑا ڈالنے کا جو زرعی معاشرے کی روایات کو تاريخی مادیت ميں تول کر وزن دیا اور وارث شاہ کو پنجاب کا شیکسپر قرار دے کر، وارث شاہ کا گوٹے، ہیومر اور باخ جیسے فلاسفروں سے جو تقابل پيش کيا، ہم تھے کہ حیران رہ گے۔
میرے لیے صوفی شعرا سے يہ پہلا باقائدہ تعارف تھا اور سب سے اچھا بھی۔ يہ موسم بہار 1994 کی بات ہے کہ ہم دوست انقلابی سياسی و مارکسسٹ رہنما جناب قربان علی خان کے ڈیرے پر بیٹھے ان سے رشین مارکسسٹ پلخانوف کی کی مارکسی فلاسفی پر انڈرسٹینگ پر ليکچر سن رہے تھے، کہ بیچ ميں علی عباس جلالپوری کا حوالہ آگیا، تو ہمارے کامريڈ نصير تبسم نے ہميں بتایا کہ دو دوست مخدوم عالم کاشو اور ظفر قاضی ان سے جہلم ميں ملاقات کر آے ہيں۔ میرے لیے يہ انکشاف انتہائی خوشی کا باعث تھا کيونکہ ميرا پلخانوف تو ابھی زندہ تھا اور ميں اس سے مل بھی سکتا تھا۔
دوسرے روز قاضی ظفر میرپور کے سب سے بڑے پارک”ويو پوائنٹ “ جہاں ہماری بيٹھک ہوا کرتی تھی آ گے، جب پوچھا تو کہنے لگے کہ آپ کو ساتھ لے چليں گے، مگر میری تشنگی باقی تھی۔ سہہ پہر کو رکشا لیا تو ہم کلیال مخدوم عالم کاشو کی دوکان پر پر پہنچ گے۔مخدوم ایک سائن بورڈ پر اپنے رنگ بکھیر رہے تھے۔چلتے چلتے اس کامریڈ کا بھی آپ سے تعارف کرواتا چلوں کيونکہ اگر ایسا نہ کیا تو نہ صرف يہ اپنے آپ سے بلکہ تاريخ سے بھی زیادتی ہوگی۔مخدوم کی کہانی جھوٹے روپ کے درشن والے اپنے راجہ انور سے بھی زيادہ درد ناک ہے کیونکہ راجہ انور نے طبقاتی سماج ميں اوپر والے طبقے کی خاتون سے جوانی والا عشق لڑایا تھا مگر مخدوم جو بچپن ميں ہی يتيم ہو گیا تھا اس نے زندگی سے عشق کيا ہے۔ زندگی اچھی زندگی جس کے خواب آپ ميں اور ہم سب ديکھتے ہيں، جو خواب بذات خود کارل مارکس نے دیکھا تھا، جسکی تعبیر کی خاطر لينن نے بالشویکوں کو اکٹھے کیا تھا، وہ خواب جسکی خاطر کاسترو صرف چند ساتھیوں کے ساتھ ہی نکل پڑا تھا یا چی نے بلوویاکے جنگلوں ميں اپنا جسم ٹکرے ٹکرے کروایا تھا۔ انيسوی صدی ميں آہرلینڈ کے آلو کے قال (Great potato famine) پر لکھے ایک ڈرامے کے اختتام ميں اپنے حصے کے آلو چھننے والے مجرم تھامس سے پھانسی کے پھندے پر جانے سے قبل جب راہب کہتا ہے کہ تم آخری بار اپنے باپ (عیسی) سے معافی مانگ لو تاکہ تمھارا گناہ تمھاری بخشش کا سبب بن جاے تو تھامس پھانسی کے پھندے سے چلاتا ہے کہ” ميرا کوئی باپ نہيں “ تو راہب اسے پھر للکارتا ہے “ تمھارا دماغ ماؤف ہو گیا ہے تم کرائس (Christ ) کی توعین کر رہے ہو، تو”
تھامس پھر چلاتا ہے”بہتر ہے تم اپنے گلے ميں پڑی سلیب سے خود کشی کر لو، پاگل! ميں یتيم پیدا ہوا تھا “
مخدوم بھی يتيم پیدا ہوا تھا، وہ جتنا چھوٹا تھا اپنے گھر کا اتنا ہی بڑا تھا۔بلکل جلالپوری کی طرح! مخدوم نے جب سکول جانا شروع کيا تو تفريح کے وقت جب باقی بچے کھيل رہے ہوتے يا کچھ کھانے کيليے خرید رہے ہوتے تو يہ گھر سے لائی ہوئی “چھلیاں” دوسروں بچوں کو بیچ کر گھر کے چولہے کے کيلیے چند روپے جمع کرتا اور سکول سے چھٹی والے دن مزدوری کر کے اپنی ماں کو چند روپے مزید دیتا جس سے اسکے گھر کا چولہا جلتا۔
تھوڑا بڑے ہو کر اس نے بجلی کا کام سیکھا اور ساتھ پڑھتے پڑھتے اس نے ميٹرک کر لیا ،اور سيکھتے سيکھتے ایک روز وہ پینٹر بھی بن گیا۔آج وہ اپنے شہر کا بہت بڑا پینٹر ہے بڑے بڑے بورڈ اور بینر لکھتا ہے مگر اس کے مشہور ہونے کی وجہ اس کے پینٹر ہونے سے زیادہ اس کے مارکسسٹ ہونے سے ہے۔
شہر ميں مشہور ہے کہ”اگر آپ اس سے مکالمہ کريں گے تو يہ آپکا ایمان متزلزل کر دے گااور آپکو کيمونسٹ بنا دے گا۔”لوگ کہتے ہونگے تو ٹھیک ہی کہتے ہونگے “ميں نے جب سے اسے جانا ہے اسے بقول جون ايلیا”شہر کا سب سے بڑا فسادی “ پايا ہے۔بلکل علی عباس جلالپوری کیطرح۔مجھے اپنی زندگی ميں بہت سارے باہيں بازو کے سیاستدانوں اور ترقی پسند دانشوروں سے ملنے اور کچھ کے ساتھ کام کرنے کا بھی موقع ملا، مگر ان ميں سے زیادہ تر مڈل کلاسيے تھے یا اپر مڈل کلاس والے، لیکن بہت کم ورکنگ کلاس والے کامریڈ ملے،مخدوم کے حوالے سے ميں فخر سے بتا سکتا ہوں کہ اصل ميں پرولتاريہ ہے، اس سے زيادہ کميٹڈ اور مارکس ازم پر ذہنی کليرٹی کسی مارکسسٹ ورکر ميں نہيں دیکھی۔ يہ غیر جذباتی سوشل ساینٹسٹ ہے، يہ اپنے خیالات ميں علی عباس جلالپوری کیطرح کلیر ہے، کبھی کسی سوال پر غصہ نہيں کرتا، بحث کرنے والے کو اپنے سوالات سے غریب الخیال کر کے جدلی مادیت اورسائنسی خيالات کے آگے بے بس کر دیتا ہے۔اس نے مارکس ازم اپنے طور پر صرف کتابوں سے نہيں رٹا بلکہ اسکو عملی زندگی ميں اپنے تجربے سے گزار کر سیکھا، شاید اسی لیے میکسم گورکی کے ناول ماں کے ہیرو کی ماں کیطرح اس کی سادہ لوح ماں، اسکی بیوی، بہنيں اور سارا کنبہ مساوات، برابری اور حقوق کی اس جنگ میں ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔جسطرح ہمارے ہر ترقی پسند دوست کيلیے ضروری ہے کہ وہ علی عباس جلالپوری کی کتابوں کو پڑھے، اسی طرح اگر آپ کسی سچے عملی اور ورکنگ کلاس کےکیمونسٹ سے ملنا چاہتے ہيں تو مخدوم سے ملیے۔جلالپوری کيطرح اسے بھی ذہنی بتوں کو توڑنے کی عادت ہے۔
مخدوم کی قسمت سمجھیں خصوصیت يا کمال کہ اسے کشمیری مارکسسٹ رہنما قربان علی خان کے قریبی ساتھی کی حثيت سے اور کشمیری مارکسسٹ لينينسٹ سیاسی جماعت جموں وکشمیر پيپلز نيشنل پارٹی کے نمائندے کے طور پر بھی بہت سے باہيں بازو کے دانشوروں ملنے کا موقع ملا،پھر کچھ دانشوروں کو وہ اپنی ذاتی کاوشوں سے ملے جیسے دانشور و کالم نگار اکبر علی ايم اے اور مفکر علی عباس جلالپوری۔ مخدوم سے ميں نے علی عباس جلالپوری کا پتہ پوچھا تو مخدوم نے انکا اپوا محلہ جہلم والے گھر کا پتہ دیا ۔ میری خوش قسمتی تھی کہ میرے بھابھی کا تعلق بھی جہلم سے ہے، ایک روز ميں جہلم گيا ہوا تھا اور ارادہ تھا کہ جلالپوری صاحب سے بھی ملوں گا۔ ميں نے بھابھی کے بھائی سے درخواست کی کہ وہ مجھے اپوا محلے تک چھوڑ آے، اس نے پوچھا کس سے ملنا ہے بتایا کہ جلالپوری صاحب سے تو وہ کہنے لگا کہ يہ کون ہيں جنکو ميں نہيں جانتا، ميں نے عرض کيا کہ ایک رہيٹاہرڈ پروفیسر ہيں۔ وہ مجھ پر ہنس کے کہنے لگا چھوڑا کريں ان سے مل کر آپکو کيا ملے گا؟ ميں نے”ایسے ہی “ کہہ کر ٹال دیا، شاید ميں بھی نہيں چاہتا تھا کہ جلالپوری صاحب کا مقام بتاؤں کیونکہ ميں وہاں دو چار گھنٹے بيٹھنا چاہتا تھا، اور نہیں چاہتا تھا کہ وہ میرے ساتھ جاے تو مجھے اپنی پياس بجھانے کا زیادہ موقع نہ مل سکے۔ویسے بھی وہ آج جہلم کا ملک رياض ہے اور ملک رياض بننے کيلیے ایک خاص ذہنیت کی ضرورت ہوتی ہے، يہ ایک خاص ماحول ميں مضبوط ہوتی ہے ایسے ماحول ميں جس ميں فلاسفر وہ ہوتا ہے جس کے پلاٹ زیادہ ہوں اور گھر بڑا ہو!
ميں گلی کے نکر پر موٹر ساہیکل سے اتر گیا، باھر گلی ميں ايک بچہ تین پہیوں والی ساہیکل پر بیٹھا میری طرف ديکھ رہا تھا تو اس سے ميں نے پوچھا کہ جلالپوری صاحب کا کون سا گھر ہے ؟بچہ گردن اٹھا کر دروازے کی طرف منہ کرکے ساکت ہو گیا مگر کوئی جواب نہ دیا۔بچہ شاید جلالپوری صاحب کا کا پوتہ تھا جو اجنبی کو دیکھ کر ٹھٹھرا گیا تھا اور اس سوچ ميں تھا کہ وہ ہاں کرے يا نہ۔ ميں بچے کی معصومیت سے سمجھ گیا کہ گھر يہی ہوگا۔ دروازے پر دستک دی تو ايک گھريلو خاتون نے آدھا دروازہ کھول کر جہلم کے پوٹھوہاری لہجے ميں کہنے لگی” باوے کی ملنا اے”؟ (بابے سے ملنا ہے)
عرض کیا جی، ہاتھ کے اشارے کے ساتھ کہنے لگيں” اوس کمرے وچ نے”(اس کمرے ميں ہيں)۔
کالے گيٹ کے آگے صحن تھا پھر برآمدہ اور اسکے آگے درمیان والے کمرے ميں چارپائی پر ایک صاف ستھرا بستر بچھا تھا، کمرے کے دونوں اطراف دروازے اورکھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں اور ان پر خوبصورت رنگوں اور پھولوں بھرے پردے لٹک رہے تھے جو آدھے آدھے کھلے ہوے تھے، ہلکا ہلکا پنکھا چل رہا تھا، کمرے ميں تازہ ہوا آ رہی تھی اور تازگی کا ایک احساس تھا۔کمرے کے عین درمیان سفید چادر اوڑے چارپائی پر جلالپوری صاحب سفید کرتا اور پاجامہ زیب تن کئے ليٹے تھے ۔ جلالپوری صاحب فراش تھے، انکو کچھ سال قبل فالج ہوا تھا جسکی وجہ سے انکی ایک ساہیڈ اچھے سے کام نہيں کرتی تھی۔مجھے دیکھتے ہی انکے چہرے پر نور سا بکھر گيا تھا، ممسکراہٹ انکے لبوں سے ٹپک رہی تھی،آنکھوں ميں چمک اتر رہی تھی، پرتپاک طریقے باہيں ہاتھ اوپر کیا اور بولے،
” کی حال اے؟ اے کرسی اگے کر لو تے میرے کول آ جاؤ”( کيا حال ہے آپکا کرسی آگے کر ليں اور میرے پاس بیٹھ جاہيں)۔جلالپوری صاحب نے اپنی ساری گفتگو پنجابی ميں کی۔ بہرحال ہم انکی باتوں کو اردو ميں ہی رکھیں گے۔
جلالپوری صاحب کی زبان ميں فالج کی وجہ سے لکنت تھی، مگر انکی باتيں کوئی بھی تھورا غور کر سنے تو آسانی سے سمجھ سکتا تھا۔انکی ياداشت ابھی بھی مضبوط تھی، اپنا موقف وہ جاندار انداز ميں پیش کررہے تھے۔ميں تھوڑی سی بات بڑھاتا تو جلالپوری صاحب دھیرے دھیرے اپنی یاداشتوں کو کھولنا شروع کر دیتے ، انکی ہر بات نپی تلی اور منطقی ہوتی۔ وہ شاعری ميں حافظ سے بہت متاثر تھے کہنے لگے کہ حافظ میرے بچپن کا عشق ہے۔ دیوان حافظ کو وہ لڑکپن سے ہی تکیے کے نیچے رکھ کر سوتے تھے، ہنستے ہوے فرمانے لگے کہ کالا گجراں سے میرا ايک ہندو کلاس فیلو تھا، ایک روز اس نے پوچھا کہ تمھاری گیتا کا کيا نام ہے تو ميں نے بتایا “دیوان حافظ “۔اقبال پر تنقید بارے انھوں نے تفصيل سے بتايا، کہنے لگے کہ ميں نے اقبال کی فارسی اور اردو شاعری اور انکے مضامین اور ليکچرز کو بغور پڑھنے کے بعد يہ نتیجہ نکالا کہ ہم نے ان کو خوامخواہ فلسفی بنا دیا مگر وہ متکلم تھے۔جب اس پر ميں نے ادب لطیف جو بعد ميں ادب دنیا کے نام سے چھپتا تھا کیلیے اپنا مضمون بھیجا تو انھوں چھاپ دیا۔ اس پر مدیر کو ایک دو دھمکی امیز خطوط موصول مگر پھر خاموشی چھا گئی، پھر اچانک ايک دن ڈاکٹر جاوید اقبال (اقبال کے بیٹے) ڈاکٹر سید عبداللہ کو ساتھ کر میرے گھر آ گے اور کہنے لگے کہ جلالپوری صاحب اپ نے اقبال کے خلاف لکھ کر انکا قد چھوٹا کرنے کی جو کوشش کی ہے اچھی بات نہيں بہتر ہے کہ آپ خاموش ہو جاہيں۔ جلالپوری فرماتے ہيں کہ ميں نے ان سے عرض کیا کہ دیکھیں آپ مجھے دھمکی نہ ديں جو ميں نے اقبال کو جانا، بیان کر دیا آپ جو سمجھتے ہيں آپکو بھی اتنی ہی آذادی ہے کہنے کی۔ جلالپوری بتاتے ہيں کہ اس پر وہ لاجواب ہو کر خاموش ہوگے اور دو دو گھونٹ چاے لی اور چلے گے۔ کچھ عرصے بعد جاوید اقبال بشیر ڈار کو ساتھ لیکر ا گے اور بشیر ڈار کہنے لگے کہ جلالپوری صاحب ميں اقبال کے حوالے سے آپ کے مضمون کے خلاف لکھنا چاہتا ہوں۔
تو جلالپوری صاحب نے کہا کہ ڈار صاحب اس ميں پوچھنے يا بتانے والی کونسی بات ہے؟ اگر ميں اقبال کے خلاف لکھ سکتا ہوں تو آپ میرے خلاف کیوں نہيں لکھ سکتے ؟ اس پر وہ دونوں خاموش ہوگے اور واپس چلے گے، یوں میری اور بشیر ڈار کی بحث چل نکلی، مگر بشیر ڈار زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے، اور وہ چل بسے، یوں يہ بحث ختم ہوگئی۔ڈاکٹر سید عبداللہ نے بعد ازاں لکھنے کی کوشش کی مگر وہ عین وقت پر کھسک گے۔ ادب دنیا میں جو میرے اور بشیر ڈار کے درمیان مضامين کا تبادلہ ہوا،ميں نے اپنے مضامین کو”اقبال کا علم الکلام “نامی کتاب کے ٹاہٹل تلے چھپوا دیا۔جلالپوری نے بتاياکہ اقبال پر جب انکا تنقیدی مقالہ شائع ہوا تو وہ اس وقت گوجرانوالہ کالج ميں پڑھاتے تھے، وہاں حالات خراب ہونے شروع ہوگے، دھمکیاں انا شروع ہوہيں کہ آپ نے حکيم الامت کی شان ميں گستاخی کی ہے ايک دو جتھوں نے حملہ کرنے کی کوشش کی، مگر خوش قسمتی سے انکے عزیز حسنات DC گوجرانوالہ تھے اوپر سے گوجرانوالہ کے کوئی پیر صاحب انکے خاندانی تعلق دار تھے انکی شناسائئ نے جلالپوری کو بچا ليا پھر سید حسنات نے اپنا اثر رسوخ استعمال کر انکا تبادلہ لاہور جیسے بڑے شہر ميں کروا ديا، جس سے بات دب گئئ ۔ جلالپوری صاحب نے بتايا تھا کہ جاوید اقبال سے ان دو ملاقاتوں کے بعد مجھ سے ڈاہریکٹ رابطے کی بجاے ان ڈاہریکٹ رابطوں کا سلسہ شروع ہوا۔ جماعتیے آتے اور مجھ سے ملاقات کے بعد لاجواب واپس چلے جاتے۔ پھر ايک روز جمعہ کے بعد مولويوں کا بہت بڑا قافلہ نعرے لگاتا ہوا میرے گھر کے باھر آگیا۔جلالپوری کافر، جلالپوری منکر اور امريکہ کا یار وغیرہ کے نعرے لگا رہے تھے، گھر والوں نے خوف سے گیٹ بند کر دیا، ميں چونکہ اٹھ نہيں سکتا تھا اس لیے گھر والوں سے کہا کہ جاکر ان سے کہو کہ اپ کو جو لوگ ليڈ کر رہے ہيں ان میں سے دو تين بندے اندر بھیج دو جو مجھ سے بات کرسکيں۔انکے تين بندے اندر آگے، ميں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا کیا مسلہ ہے؟
کہنے لگے کہ آپ نے اقبال کی شان ميں گستاخی کی ہے۔ ميں نے ان سے پوچھا کہ وہ کيا؟ تو کہنے لگے کہ آپ اسے فلاسفر ماننے کيليے تيار نہيں ہيں، ميں نے کہا ٹھيک تو اور اسکے علاوہ آپ انکو کیا سمجھتے ہيں ؟ تو وہ کہنے لگے کہ وہ بہت بڑے شاعر تھے مفکر تھے اور کئی زبانيں جانتے تھے۔
تو جلالپوری صاحب نے الماری کے اوپر رکھی ايک فاہل کو نیچے لانے کا اشارہ کیا، فاہل نیچے آئی تو جلالپوری صاحب نے اس سے اپنی ايم اے فلسفہ والی سند نکالی اور ان حضرات سے کہنے لگے کہ آپ کہتے ہو کہ اقبال فلسفی ہے تو يہ دیکھو ميں ایم اے فلسفہ ہوں وہ بھی گولڈ میڈلسٹٹ، اقبال کو ميں بہتر سمجھ سکتا ہوں يا آپ؟ جلالپوری صاحب نے دوسری سند نکالی اور کہنے لگے آپ کہتے ہو کہ اقبال نے فارسی ميں شاعری کی ہے اور وہ فارسی دان تھے، يہ دیکھو ميری ایم اے فارسی کی سند میں اس ميں بھی گولڈ ميڈلسٹ ہوں،اقبال کی فارسی شاعری کو ميں بہتر سمجھ سکتا ہوں یا آپ؟ آپ کہتے ہو کہ وہ اردو کا سب سے بڑا شاعر تھا، یہ دیکھو میری ایم اے اردو کی سند، جلالپوری صاحب نے ايم اے اردو کی سند انکو دکھانے کے بعد، عربی فاضل اور جرمن زبان کا ڈپلومہ دکھاتے ہوے کہنے لگے کہ ميں نے عربی فاضل اسلام اور عربی زبان عربوں کا ادب اور تاریخ پڑھنے کيلیے سیکھی ، اور جرمن فلاسفروں کو سمجھنے کے لیے جرمن زبان سیکھی، ميں نے برگسان، نطشے، گوٹے باخ، فراہیڈ اور مارکس جیسے فلاسفروں انکی زبان ميں پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کی، تاکہ انکا اصل مدھا جان سکوں، جلالپوری کہنے لگے ميں نے فرينچ زبان بھی سیکھی۔تاکہ ميں انقلاب فرانس، روسو، ڈوما،ذولا، ہیوگو اور سارتر کو بہتر سمجھ سکوں، فرينچ زبان کا ایک دپلومہ بھی میرے پاس تھا جو کہيں کھو گیا ہے۔جلالپوری صاحب نے انکو مخاطب کر کے کہا يہ اسناد مجھے آپکے انھی اداروں نے دی ہیں جہنوں نے اقبال کو دی تھيں، آپ مجھے بتاہيں کہ اقبال کو ميں بہتر سمجھ سکتا ہوں يا آپ؟ جلالپوری بتانے لگے کہ اس پر وہ لاجواب ہو کر واپس چلے گے اور اس کے بعد کبھی جلوس میرے گھر کے باھر نہيں آیا۔جب ميں نے جلالپوری صاحب سے دریافت کیا کہ اقبال کے دور عروج پر آپ جوان تھے کیا کوئی ایسی ياداشت اقبال بارے جو آپ کو ابھی تک ياد ہو؟وہ مسکراے اور فرمانے لگے کہ ميں ان سے ایک بار ملا بھی تھا پھر وہ بتانے لگے کہ جب انھوں نے لاہور کالج ميں داخلہ ليا تو ان کے لئے لاہور نیا تھا، نئی نئئ جوانی بھی تھی ايک روز اس آذادی ميں آوارہ گردی کا موڈ بنا تو دو دوستوں کیساتھ شغل شغل وہ علامہ اقبال کو ديکھنے نکل گے۔فرمانے لگے کہ انکی شہرت تو سن رکھی تھی ڈيرے کا بھی کچھ ادراک تھا،ايک دو بندوں سے پوچھ کر ہم باآسانی انکے چوبارہ تک پہنچ گے۔ علامہ اقبال اوپر والی منزل پر ايک کمرے ميں چارپائی پر اکيلئے بيٹھے حقے کے کش لے رہے تھے۔ کمرے ميں کھڑکی سے ہلکی ہلکی روشنی آرہی تھی اس پر دھوپ سے بچنے کيلئے ايک گندہ سا کپڑا لٹکا ہوا تھا ، جسکو ايک طرف کو کر ديا گيا تھا۔ کھڑکی سے آنے والی روشنی ميں بھاری بھر کم جسامت کے ساتھ بڑی مونچھوں اور موٹی آنکھوں سے سفید اور سرخی ملا چہرہ انکے کشميری پنڈت ہونے کی چغلی کھا رہا تھا، انکا جسم ايک گندی بنیان اور ميلی دھوتی سے ڈھکا زندگی سے مايوس بندے کی گواہی دے رہا تھا دھول ميں لپٹی کچھ کتابیں الماری پر پڑی تھيں۔ بستر گندہ تھا اور فرش پر کہيں کہيں تھوک جما ہوا تھا۔ کمرے ميں ايک عجیب قسم کی کھٹن کا سا ماحول تھا جس سے آزادی کی آرزو چند ہی لمحوں ميں امنڈ آئئ تھی۔ہميں کچھ زيادہ پتہ تھا نہ ہی انھوں نے کوئئ خاص بات کی البتہ مجھے اتنا ياد ہے کہ انھوں نے پنجابی ميں ہميں مخاطب کر کے پوچھا ضرور تھا کہ “منڈيو تواڈا کی حال اے” (جوانو آپکا کیا حال ہے؟) مجھے لگا کہ اقبال پر وہ کئی ہفتے بول سکتے ہيں،وہ اقبال کو بہت بڑا اور قادر الکلام شاعر مانتے تھے مگر اقبال کی علمی بصیرت پر اپنے سوال رکھتے تھے۔
انکا موقف يہ تھا کہ کوئی بھی شخصیت تنقید سے مبرا نہيں ہے مگر ہم نے اقبال کا بت بنا دیا ہے، ہميں ایسے بتوں کا تنقیدی جائزہ لیکر معاشرے پر ساکت جمود کو توڑنا چاہئے۔میرے خیال ميں جلالپوری صاحب کی اقبال سے ملاقات نے اقبال کے اندر چھپے زندگی سے مايوس شخص، اقبال کی شاعری ميں تضاد اور فلسفے کو عقیدے پر پرکھنے کے عمل نے جلالپوری کو اقبال پر تنقید کرنے پر مجبور کيا، جوکہ ایک منطقی بات ہے۔”اقبال کا علم الکلام “ چھپنے کے بعد ابتدائی طور پر علی عباس جلالپوری کی جان کا خطرہ رہا مگر انکے لاہور تبادلے کے بعد دھول زرا بیٹھ گئی،بعدازاں بشیر ڈار کیساتھ ادب لطیف، ادب دنیااور بعد ميں احمد نديم قاسمی کے فنون ميں چھپنے والی بحثوں پرمشتمل جلالپوری صاحب کے جواب الجواب پر مشتمل مقالوں کی ايک لمبی تعداد ہے، میری آخری اطلاع تک اس پر پوری کتاب کا مسودہ تیار ہے مگر ابھی تک چھپ نہيں سکا۔ سنا ہے کہ پاکستان ميں اب عدم برداشت کی سطح اس حد تک گر چکی ہے کہ آپ ايک شاعر کی شاعری پر بھی تنقید برداشت نہيں سکتے۔ ایسے زوال پذیر معاشرے کے نصيب ميں چينوا اچیبے کے ناول when things fall apart کے مرکزی کردار کے انجام جيسا ہی ہوتا ہے۔پاکستان جیسے قبائلی معاشرے ميں انا، جھوٹی عزت، جعلی شان و شوکت، اونچی پگ اور خوش فہمی و خود فریبی کوئی آج کی خرافات نہيں ہيں بلکے ترکے ميں ملنے والی ان خرافات کو ايک اور جعلی شناخت تلے ریاست نے اسکو مزید مضبوط کیا ہے۔ مجھے يہ سب يہاں اس لئے لکھنا پڑھ رہا ہے کیونکہ اسکا تعلق بھی جلالپوری کی زندگی سے ہے۔ اس ميں کوئی شک نہيں کہ پاکستان ميں آج تک جس بندے نے فلسفے کو سب سے بہتر جانا ہے، اس پر کام کیا ہے لکھا ہے کم از کم اردو اور پنجابی کی حد تک ہی سہی اگر کسی کی سب سے بہتر کتابيں مل سکتی ہيں تو وہ علی عباس جلالپوری ہی ہيں۔ علی عباس جلالپوری کی فلسفے کیساتھ ساتھ تاريخ اور عالمی ادب پر بھی گہری نظر تھی۔ جلالپوری کی علمی بصیرت کا آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہيں کہ انھوں نے فلسفے ميں رسل اور تاريخ ميں ول ڈيوراں کی درستگی کی ہوئی ہے۔ رسل نے اپنے شاگرد اور ساتھی ہمارے ميرپور سے کشمیری نژاد برٹش یوسف ثانی صاحب (جو ممتاز کشمیری قوم پرست رہنما عبدالجبار بٹ کے چھوٹے بھائی تھے يہ جبار بٹ صاحب وہی ہيں جنکا پچھلے دنوں سوشل ميڈيا پر بہت چرچا رہا ہے اسکی وجہ پچھلے دنوں آذاد کشمیر ميں چلنے والی تحريک کشمیر راہٹس موومنٹ برطانیہ نے جب پاکستان ہائی کمیشن لنڈن کے باھر پاکستانی مقبوضہ کشمیر ميں چلنے والی تحريک اور تحريک ميں شہید ہونے والے شہدا کی حمایت ميں برٹش کشمیریوں نے مظاہرہ کیا تو 88سالہ جبار بٹ صاحب پاکستانی ہائی کمیشن لنڈن پر جذبات کی رو ميں بہہ کر حملہ کردیا تھا)۔خير رسل نے یوسف ثانی سے علی عباس جلالپوری کا ذکر کيا اور انکی علمی وسعت پر تعریف فرمائی جبکہ ول ڈيوراں کے جلالپوری کے نام خطوط جلالپوری صاحب کی فيملی کے پاس ابھی تک محفوظ ہونگے۔
مگر اس سے زیادہ مزیدار قصہ ول ڈيوراں کے شاگرد کی جلالپوری صاحب سے ملاقات کا ہے، ہوا يوں کہ ول ڈیوراں کا ایک شاگرد امريکہ سے خاص طور پر پاکستان علی عباس جلالپوری سے ملنے آیا، اب مجھے ياد نہيں کہ اسے ول ڈیوراں نے وصيت کی تھی يا اس سے ول ڈيوراں نے جلالپوری کا ذکر کیا تھا بہرحال وہ کراچی پہنچااور پوچھتے پوچھتے حوری نورانی کے پبلشنگ ادارے مکتبہ دانيال پہنچ گيا جنہوں نے جلالپوری کی کوئی تین چار کتابیں پبلش کی تھيں۔ان دنوں ٹيلیفون کی سہولتيں عام نہ تھيں مکتبہ دانیال والوں نے جلالپوری صاحب کے گھر کا پتا اس امریکن کو دے ديا۔ ول ڈيوراں کے شاگرد نے اپنے ساتھ ايک ترجمان ليا اور جلالپوری صاحب کو ملنے کراچی سے چل پڑا۔ تين دن کی جدوجہد کے بعد پوچھتے پچھاتے وہ علی عباس جلالپوری کی گلی تک پہنچ گے، جلالپوری صاحب ان دنوں جہلم ميں اپنے بيٹے رضا شاہ کے اپوا محلے والے گھر ميں رہتے تھے جہاں مجھے بھی جلالپوری صاحب سے ملنے کا شرف حاصل رہا۔ خیر اس گلی سے گزرنے والے کسی بندے کو علی عباس جلالپوری کے بارے ميں کچھ بتا نہ تھا۔ول ڈیوراں کے شاگرد اور مترجم نے دوپہر کی کڑکتی دوھوت کو اپنے اوپر جھيلا مگر جب گلی کی نکر سے اور نکر کے اس پار اپوا محلے کے باھر گرلز ڈگری کالج کی دیواروں اور درختوں کے ساے بلند ہونے شروع ہوے تو بچے باھر گلی ميں کھيلنے نکل اے، مترجم نے ايک 10/12 سالہ لڑکے سے پوچھا کہ يہاں پروفیسر صاحب کا گھر کون سا ہے؟ عجیب اتفاق تھا کہ جلالپوری صاحب کے بیٹے بھی شاید پروفیسر تھے تو بچے نے جب نام پوچھا تو مترجم نے بتایا کہ علی عباس جلالپوری، بچہ حیران ہوکر کہنے لگا ایسا تو کوئی پروفیسر يہاں نہيں رہتا وہ کس کالج میں پڑھاتے ہيں تو مترجم نے بتایا کہ اب بوڑھے ہوگے ہيں پڑھاتے نہيں انکی پنشن ہوچکی ہے مگر وہ اب کتابيں لکھتے ہيں تو بچے نے آگے سے معصوميت سے پوچھا کہ آپ اس بابے بڈھے کی بات تو نہيں کر رہے جو خدا کو نہيں مانتا؟ اس پر مترجم کو شک ہوا تو اس نے پوچھا چلو بتاؤ اس بابے کا گھر کونسا والا ہے؟ تو بچے نے کہا يہ ساتھ والا کالے گیٹ والا۔ يوں مترجم نے اس گيٹ پر دستک دی تو آگے سے پتا چلا کہ جلالپوری صاحب اسی گھر ميں رہتے ہيں۔ ايک ایسے معاشرے ميں جہاں ایک دانشور، فلسفے کے استاد، تاريخ دان اور عالمی ادب کے نقاد کا تعارف يہ ہو کہ وہ خدا کو نہيں مانتا اور ايک شاعر اتنا مقدس ہو جس کی زيادہ تر شاعری ہی مستعار تھی، ايسا معاشرہ تنزلی کا معاشرہ ہوتا ہے اس معاشرے کا وقت آگے کی بجاے پیچھے کی طرف چلتا ہے،ایسا معاشرہ اپنے جمود سے اپنی خودکشی کا بندوبست خود اپنی ضد سےکرتا ہے۔شاید جلالپوری نے اس جمود و تنزل کو بہت پہلے بھانپ ليا تھا اسی لئے مجھ سے کہتے تھے کہ”ميں اپنی شعوری عمر سے باغی ہوں “۔جلالپوری صاحب سے جب ميں نے بيسويں صدی کی ہندوستان کی سب سے بڑی ادبی تحریک” ترقی پسند ادبی تحریک “ بارے دریافت کیا تو وہ بتانے لگے کہ شروع شروع ميں ترقی پسند ادبی تحریک کے لاہور ميں ہونے والی ميٹنگز ميں وہ شریک ہوتے تھے، جس ميں وہ سجاد ظہیر، سبط حسن، عبداللہ ملک وغیرہ سے رابطے ميں تھے، مگر جلالپوری کے مالی حالات بہت کمزور تھے وہ اپنے خاندان کا واحد سہارا تھے، انکے پاس واحد نوکری جو سرکاری تھی اس پر اپنا پورا کنبہ پالنا تھا، چھن جانے کا ڈر تھا، خاص کر راولپنڈی سازش کیس کے بعد ترقی پسند دوستوں نے انھیں عملی سیاست کی بجاے لکھنے کو کہا تو جلالپوری کو يہ بات اچھی لگی کیونکہ وہ خود سمجھتے تھے کہ وہ نکر ميں بیٹھ کر بہتر تحقیقی کام کر سکتے تھے، ویسے بھی ان کے ساتھ نوکری کے بعد کم وقت بچتا تھا۔جلالپوری صاحب نے بتايا کہ انھوں نے جب ادب، تاریخ اور فلسفے پر کتابيں ڈھونڈنے کی کوشش کی تو انھيں اردو يا علاقائی زبانوں ميں کچھ نہ ملا، يہاں تک کہ ريسرچ کیلیے صرف انگلش ميں کتب دستیاب تھيں اس کمی کا انھیں شدت سے احساس ہوا،تو انھوں نے نوجوانوں کيلیے نوٹس لینے شروع کردیے۔ اور فلسفے کی تشبعات کے جو اردو ميں غلط تراجم ہوے تھے انکو درست کرنے کی سہی بھی کی۔ جیسے سارتر کے فلسفہ existentialism کا عام طور پر ترجمہ وجودیت کيا جاتا تھا مگر انھوں نے اس کا ترجمہ وجودیت کی بجاے موجودیت کيا۔بعد میں بچوں نے ان نوٹس پر خرد نامہ جلالپوری کتاب بھی چھاپی۔ بتاتے تھا کہ ميں نے ادوار قديم کی رسومات اور بہت سے متروک و غیر متروک واہموں پر جو نوٹس بناے تھے اس پر ميرے بچوں نے رسوم اقوام نام سے کتاب چھاپی ہے مگر اس ميں تشنگی باقی ہے کہنے لگے مگر چونکہ ميں خود بستر پر ہوں داہيں ہاتھ فالج کی وجہ سے کام نہيں کرتا تھا ، نظر کمزور ہوگئی تھی زیادہ دیر بیٹھ بھی نہيں سکتا تھا اس لئے بہت سا کام ادھورا رہ گيا ہے مگر اگر کسی ریسرچر نے ميرے نوٹس ہی پڑھ لیے تو آنے والے وقت ميں انکو بہت کچھ مل جاے گا۔
ايک دن فرمانے لگے تمھيں پتا ہے جب فالج کیوجہ سے ميرا داہيں ہاتھ کام نہيں کرتا تھا تو ميں نے پريکٹس کر کے باہيں ہاتھ سے لکھنا شروع کر دیا تھا۔جلالپوری نے کبھی اپنی بیماری اور غربت کا رونا نہيں رویا، وہ بیماری کو بلکل ایک ساہنٹسٹ کیطرح ديکھتے تھے-
ايک روز ميں نے جلالپوری صاحب سے ان کو لڑکپن ميں اپنے والد کی وفات کے بعد جب باقی حصہ دارں نے حصہ دینے کی بجاے گھر سے نکال دینے پر بوچھا تو انھوں نے اپنے خاندان کے لوگوں کو برا بھلا کہنے کی بجاے انسانی جبلت اور ذاتی ملکيت کے نظام کے وحشی پن کو مورد الزام ٹھہراتے ہوے کہنے لگے کہ اگر نظام درست ہوتا تو وہ ايسے کیسے کر سکتے تھے؟ فرمانے لگے ایسا نظام جو اخلاقیات سے زیادہ لالچ پیدا کرے انسان کے انسان پر جبر کا جواز پیدا کرتا ہے۔يہ کہتے ہوےانکی آنکھوں ميں ملال نہ تھا۔ ايک روز بتانے لگے کہ گورنمنٹ کالج لاہور ميں پڑھاتے ہوے مجھے شدت سے احساس ہوا کہ ہمارے ہاں پنجابی ميں فلسفہ پر کوئی کام نہيں ہوا،ايک روز ضیغم الحسن باقری کے کمرے ميں استاد دامن اور افضل رندھاوا سے ٹاکرا ہو گیا تو انھوں نے بھی پنجابی کی خستہ حالی کا ذکر کيا، استاد دامن کہنے لگے، بلھے شاہ ، شاہ حسین اور وارث شاہ وغیرہ تو بڑے شاعر تھے لوگوں نے ان کے کلام کو سينہ بس سینہ یاد رکھا ہوا ہے، رندھاوے تجھے اور مجھے لوگ جيتے جی بھول جاہيں گے”۔باقری کہنے لگے،ریٹاہرڈمنٹ کے بعد آپکے پاس ٹائم ہوگا اگر تھوڑا وقت دے کر ہمارے پنجابی ادب کيلیے ہماری کچھ مدد کريں۔بتانے لگے ميں ارادی طور پر پہلے ہی تيار تھا حامی بھر لی اور کام شروع کردیا۔ پہلے ميں نے ايک ناولٹ لکھا اور اس سے مجھے پنجابی زبان کی گہرائی کا اندازہ ہوا۔جلالپوری کہنے لگے جب ميں نے وحدت الوجود پر پنجابی ميں لکھنا شروع کيا تو مجھے احساس ہوا کہ پنجابی کے صوفی شعرا نے جو ادب تخليق کیا ہے يہ ویدوں سے بھی زیادہ گہری اور اسکی جڑيں معاشرت کی نفسیات سے پھوٹی ہيں، ایسے ادب کو آسانی سے ختم نہيں کیا جاسکتا ہے نہ ہی اس سے تاريخ کا کوئی طالب علم صرف نظر کر سکتا ہے۔وحدت الوجود پر تحقیق کے دوران مجھے وارث شاہ کی ہیر ميں انسانی و معاشرتی نفسیات کی گہرائی کا جب اندازہ ہوا تو ميں نے کچھ نوٹس لیے۔اسی وجہ سے ميں نے وارث شاہ کی ہیر پر تحقیق کرنا شروع کی اور مجھے ہیر پڑھنے کے بعد جو احساس کمتری تھا وہ ختم ہو گيا۔ اقبال کی شاعری ہير کے مقابلے ميں کچھ نہيں۔ بتانے لگے کہ ميرے ہیر والے تحقيقی مقالے کو پڑھنے کے بعد فیض مجھے ملے اور کہنے لگے” آپ کے مضامين کے بعد ہميں لگتا ہے ہم نے کیا خاک شاعری کی ہے “۔فیض ان دنوں الحمرا کے انچارج تھے، انھوں نے میرے کام کو قومی تحويل ميں لینے کا وعدہ کيا، مگر وہ ناکام رہے، بیروت کی جلاوطنی سے واپس ا کر ايک روز انھوں نے مشتاق احمد کے ہاتھ ملنے کا پيغام بھیجا، مگر وہ ہمیشہ کيلیے روٹھ گے،مجھے عبداللہ ملک اور سبط حسن نے بھی ملنے کے پيغامات بھیجے تھے، وہ بھی بلا ملے چلے گے، مياں افتخارالدين کے گھر ہماری نشتوں کےساتھی ایک ايک کر چلے گے۔سجاد ظہیر نے ہندوستان سے رابطہ رکھا ایک بار انکا پیغام ملا کہ کیفی اعظمی مجھے ساتھ لا رہا ميں کئی روز خوش رہا۔
ایک روز ریڈیو پر کشور کا گانا سن رہے تھے، کہ ميں پہنچ گیا، کہنے لگے کہ دھنوں پر دھيان دو، پھر ایک ايک کر کے انھوں نے موسیقی کے ان راگوں کو الگ الگ کر مجھے بتانے لگے، میٹرک والے بچے کو اتنی گہرائی کی باتيں کہاں یاد رہتیں مگر اتنا یاد ہے کہنے لگے کہ اگر میرا داہيں ہاتھ ٹھیک ہو تو میرے ذہن ميں کچھ راگ، دھنيں اور انترے ہيں ان پر موسیقی بناتا۔ وہ رشین اکسٹرا اور جرمن اسٹرين کمپوزنگ کو پسند کرتے تھے ہنستے ہوے کہنے لگے ميں ان سے ٹھمری اور رباب کے اندر ايسی دھنیں بناتا کہ روح کو تازگی نصیب ہوتی۔ایک روز ميں نے پوچھا زندگی ميں کوئی قلق؟ ہنستے ہوے کہنے لگے ايک بات کی خوشی ہے ميں خاندانی گدی نشين بن سکتا تھا مگر نہ بن کر ميں نے اچھا کیا۔ اس سے بہتر تو ميں استاد کی حثیت سے نوجوانوں کے نفسیاتی مسائل کو ساہنسئ بنیادوں پر حل کرکے زیادہ اچھا کيا۔
بے نظير بھٹو جب 1988 ميں وزیر اعظم بنی تو انھوں نے فیصلہ کيا کہ وہ ہر شعبے میں سب سے اعلی کام کرنے والے بندے کو ايوارڈ ديں گی۔بے نظیر نے اپنے سیکرٹری کو حکم دیا کہ وہ ہر شعبہ زندگی کے بہترين لوگوں کے نام کی لسٹ تیار کروايں۔ جب بے نظير کو لسٹ دی گئی تو اس نے لسٹ دیکھنے کے بعد پوچھا کہ لسٹ ميں فلسفے پر کام کرنے والا کا نام کدھر ہے؟ تو لسٹ بنانے والا خاموش ہوگیا، تو بے نظير نے اپنے اردگرد لوگوں سے پوچھا کہ پاکستان ميں فلسفے پر سب سے اچھا کام کس کا ہے تو کسی نے جلالپوری کا نام لیا اس پر ايک بندہ بولا کہ بی بی جلالپوری تو بہت متنازعہ شخصیت ہے، تو بے نظیر نے اس سے پوچھا کہ وہ کيوں؟ تو اس نے جواب دیا کہ اس نے علامہ اقبال کے خلاف لکھا ہے۔ تو بے نظیر نے جواب دیا کہ اس میں مسلہ کيا ہے؟ کسی کے خلاف لکھنے سے انکا فلسفے پر کام سے ہم انکار تو نہيں کر سکتے، ہميں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہيں،اگر فلسفے پر ایوارڈ انکا حق بنتا ہے تو ضرور ملنا چاہیے۔ پھر ایک دن حکومتی ٹيم آئی اور جلالپوری کو بتایا کہ کے فلسفے پر آپکے اعلیٰ کام کی وجہ سے حکومت اپکو ایوارڈ دينا چاہتی ہے اور وزیر اعظم نے آپ کانام لسٹ ميں ڈالا ہے ميں نے ان سے کہا کہ ٹھیک ہے میری طرف سے وزیر اعظم کا شکريہ ادا کر دیجیے گا۔
جلالپوری نے مجھے بتایا کہ ميں نے اس نمائندے سے کہا کہ ميں تو بستر سے اٹھ نہيں سکتا ميں کیسے آ سکتا ہوں تو نمائندے نے کہا کہ آپ اپنی جگہ کسی بندے کو ايوارڈ کی وصولی کيلیے نامزد کر سکتے ہيں تو ميں نے اسے اپنے بیٹے کا نام ديا، جس نے میری جگہ ايوارڈ وصول کيا۔ جلالپوری صاحب کہنے لگے کہ گورنمنٹ نے ایوارڈ کیساتھ کوئی ۵۰ ہزار روپے کا بھی اعلان کیا تھا، مگر چھ ماہ کے بعد سيکرٹیریٹ سے کوئی حکومتی نمائندہ آیا اور کہنے لگا کہ حکومت کے پاس خزانے ميں پیسے نہيں ہيں ہم آپکو ایوارڈ کے ساتھ جو 50 ہزار روپے بنتے ہيں وہ نہيں دے سکتے،اس پر جلالپوری مجھے بتانے لگے کہ ميں نے اس نمائندے سے کہا کہ میری طرف سے اگر آپ ایوارڈ بھی نہ دیتے تو بھی میری ذات پر کوئی فرق نہيں پڑتا، ميں نے ايوارڈ لينے کا سوچ کر تو کام نہيں کيا ہے۔ جلالپوری صاحب نے بتایا تھا کہ پنجاب ٹيکسٹ بورڈ نے انکی تين کتابيں چھاپيں مگر انھيں کبھی مناسب معاوضہ نہ ملا، مقامات وارث شاہ پر انھيں آدم جی انعام دینے کا اعلان ہوا، تو جلالپوری صاحب نے انعام لینے سے انکار کر دیا، چونکہ يہ جنرل ضیاہ کا دور سياہ دور تھا۔جلالپوری کہنے لگے ميں پنجاب ميں ڈکٹیٹر کے نامزد کردہ سرمایہ دار کے ہاتھوں سے يہ انعام نہيں لے سکتا۔ ميں مٹ سکتا ہوں بک نہيں سکتا۔ جلالپوری کہ قول وفعل ميں اقبال کی طرح کوئی تضاد نہيں تھا، ميں حیران رہ جاتا تھا يہ بندہ اتنا بوڑھا ہو چکا ہے جس نظام کی خواہش لئے اس شخص نے پوری زندگی گزار دی وہ نظام تو اب جس جس جگہ تھا بھی وہاں سے بھی ختم ہو رہا ہے مگر جلالپوری مصر تھے کہتے کہ مجھے بتاؤ انسانی ارتقاء بھلا رک سکتا ہے؟معاشرہ تہذيب اور شعور ہمیشہ آگے جاتے ہيں ترقی کرتے ہيں انسان بھی انھی حالات ميں نمو پاتا ہے۔ مجھے انکی آنکھوں ميں اعتماد نظر اتا ،ميں نے اپنی زندگی ميں جتنے جوان لوگوں کو زندگی سے مایوس پایا اس سے ہزار ہا گناہ زيادہ جلالپوری صاحب کو زندگی سے پراميد پایا، کسی نوجوان کيلیے اس سے بڑھکر علم کيا ہو سکتا ہے کہ وہ زندگی پر اعتماد کرنا سیکھے؟
ميں اپنی خوش نصيبی سمجھتا ہوں جسے علی عباس جلالپوری کی کتب کو بہت ہی چھوٹی عمر ميں پڑھنے کا شرف حاصل ہوااور اس سے بھی بڑھکر ميری خوش نصيبی کی انتہا يہ ہے کہ مجھے انکو ملنے،انکے پاس بيٹھنے انکو سننے اوران سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
جلالپوری صاحب کا شاعری کا ذوق بہت اعلی تھا ايک بار وہ حافظ کے چند اشعار کا تقابل ٹی ايس ايليٹ کرنے لگے ميں تو بہت چھوٹا تھا عرصہ بھی بہت گزر چکا ہے اب زیادہ یاد نہيں رہا، البتہ اتنا ياد ہے کہ وہ خود بھی شاعری کرتے تھے شاید انھوں نے بتایا تھا کہ انکی اپنی شاعری پر کم از کم دو کتابيں تو بنتی ہونگی، مجھے نہيں پتا کہ انکی شاعری پر کوئی کتاب شائع ہوئی ہے يا کہ نہيں بہرحال انکا اپنا کہا ہوا ايک شعر مجھے 30 سال بعد آج بھی ياد ہے۔
——بہت تلخ ہے جام زندگانی کا—-
——ہم اسے گھونٹ گھونٹ پيتے ہيں—
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...