(Last Updated On: )
[دلاور علی آزر کے مجموعہ ہاے نعت ”نقش“ اور ”سیّدی“ کے تناظر میں]
نطق اظہار کا توسیعی منصب ہے۔ بیان اپنے طرزِ نمو میں ساختیاتی شہادت کا حوالہ باندھ کر اور اِدراک کی تمام استعداد کو احساس کی Faculty میں تربیت کے اصولوں سے گزار کر رُو بہ اظہار ہوتا ہے۔ اسی لیے حسی سطح کا ادراک چاہے Executive ہو یا نامختتم سلسلۂ شعور کا تصدیق شدہ ربط، بہرصورت نطق کے زور آور کردار کے طور پر ابھرتا ہے۔ نُطق اور بیانیہ عمل کا تعلق احساس سے بڑھ کر معرفتِ شعور کی بلند ترین تعقلاتی Precinct سے نسبتاً گہرا بھی ہے اور ایک حد تک تلازماتی قفل میں قید بھی۔ احساس اپنی ابتدائی Indication میں الہامی اکتشاف (Vatic Detection) کے ظرف کے طور پر مضبوط فراخی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ ایک عام تخلیق کار الہام اور احساس کا یہ واضح مگر لطیف تعلق نطق و اظہار کی سطح پہ بغیر ذہنی حضور کے یا ناتجربہ کاری سے یعنی Imprudently فراموش کر جاتا ہے مگر زیرک اور شعور کے ماتحت تخلیقی ذہن اس نادر مرابطے کے تمام احوال کو اپنی تحویل میں لے کر احساس کی دھیمی تپش میں خوب پکاتا ہے اور اظہار کی تقریباً تمام فیکلٹیز کے ساتھ گہری نسبت دے کر بیان کا حصہ تخلیق کرتا ہے۔
تخلیقی عمل کا مندرجہ بالا جسرِ عسیر العبور میرے علم کے مطابق اب تک کا کوئی ایک بھی اردو نعت گو شاعر طے نہ کر سکا مگر اردو نعت کی تاریخ میں دلاور علی آزرؔ وہ پہلا اور شاید آخری نام ہے جو الہام کے تخلیقی مظاہر کا شاعر ہے۔
نعت الہام کا تخلیقی مرتبہ ہے ہے یہ اپنے ذوقی Essence میں لافانی اور اخلاقی Substance میں پہلا آفاقی دیباچہ ہے ہے۔ انسانی فہم و شعور کی سطح پر اس کی بنیادی تحویل قلب ہے جو محض انسانی و ملکوتی دستیابِ شعور سے بالاتر ہے اور احوال کی تقلیب و تنزیل میں اس کے حسی اثرات کا پہلا ہدف خود انسان ہے۔ اس لیے لفظ کا انسان سے رشتہ بہت گہرا ہے۔ لفظِ ”کُن“ تخلیقی عمل کا پہلا اُلوہی تازیانہ ہے جو اشیا کے وجود و نمود کا اولین شاہد بھی ہے۔ اس عمل میں لفظ کا وسیلۂ خَلق بننا وجوبی سطح کا ایسا سچ ہے جسے جھٹلانا ناممکن ہے۔ اس کلیدی اور فہمی سطح کے تعلق کی دریافت دلاور علی آزرؔ کی نعتیہ شاعری کے ذریعے ہمارے لیے ممکن الحصول ہوتی ہے۔ دلاور نے نہ صرف اس عمل کو نیاز مندی کے پیکروں میں باندھا ہے بلکہ رجائی اور انشائی حوالوں میں بھی ایک Astatic Role کے طور پر دکھایا ہے۔ یہ بڑا وصف ہے جو معنیٰ آفرین شاعر کا پہلا مطمعِ نظر بنتا ہے۔ آزرؔ کے ہاں اس کی مثالیں حسبِ موقع بغیر تلاش کیے بآسانی مل جاتی ہیں :
مہکائے ہوئے رکھتے ہیں وہ خاکِ جہاں کو
رکتا نہیں خوشبو کا سفر ان کی طرف سے
نعت لکھنے کی اجازت مجھے سرکار نے دی
طے مرے لفظ کا معیار مدینے سے ہوا
آپ کے اسم کی برکت سے کھلی لکنتِ فقر
آپ کے نام سے جاری ہوا عرفانِ عرب
اسی سے عکس فگن ہوگا مطلعِ انوار
جو آئینہ نمِ تنویرِ نور کھینچ سکے
”سیّدی“ اور ”نقش“ کا مطالعہ میرے لیے حیران کن حد تک شعور کی نئی تہوں کی دریافت کا عمل ثابت ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ تخلیق کار کی شعوری سعی میں کارفرما تخئیلی و تخلیقی عمل میں ایٹم کا کردار کرنے والی وحدت کو دریافت کرنا ممکن ہے۔ میں نے اس اکائی کو بہت قریب سے پہچان کر یہ اندازہ لگایا کہ آزرؔ جذبے کی صداقت کا شاعر ہے۔ یعنی عرفان و ادراک کے ہر گام پر آزرؔ کی عقیدت اور قلبی غیر مرئی امنگ، دونوں Passionless ہو کر عملی و یقینی Perspectives میں سفر کرتے ہیں اور یہ وہ خاص نکتہ ہے جس کے بانی حکیم سنائیؔ غزنوی ہیں۔ گویا آزرؔ نے سنائیؔ کی اس شعوری سعی کا احیا کیا ہے۔ معاصر نعت میں اس کا حوالہ ملنا ممکن نہیں۔ ان کے یہاں جذبے کا فقدانِ محض نہیں بلکہ صداقت کی آنچ پہ ان کا عقیدہ نعت بن کر معیاری و تاریخی حوالوں کے ساتھ لفظی Compendium میں گھل جاتا ہے۔ بلکہ یوں کہوں تو مناسب ہوگا کہ جذبے کی صداقت ان کے ہاں State of permanent realization کا مقام رکھتی ہے۔ مگر یہ مسلم ہے کہ اظہارِ محض یا صرفِ ادراک تو نعت نہیں بن سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نعتیہ لفظیات جذبے کے Container کے طور پر کام کرتی ہیں۔ نعتیہ فکر میں شعور اور جذبے کی ہمرکابی کبھی گمراہ نہیں کرتی بلکہ محض جذبے کی غیر یقینی شدت لاحاصل ہے۔ ناقدین میں ورنن بلیک (Vernon Blake) کا یہ اصول مشہور ہی ہے کہ :
“A delicate balance between freedom of emotion and controlling Judgement is a quality of great art”
یعنی ایک اعلی فن پارے کا نمایاں وصف یہی ہے کہ اس میں جذبات کی طوفانی امنگ اور شعور کی بندش کے درمیان اعتدال و توازن قائم کر دیا گیا ہو۔
اب آزرؔ کے ہاں اس نادر وصف کے اشعار کی ایک جھلک دیکھیے :
آزرؔ مرے آقا ہوئے تخلیق کا باعث
آفاق اسی دہلیز پہ سر رکھے رہیں گے
ان میں سمٹ گئی ہیں تغیر کی وسعتیں
ہے کائنات محوِ سفر اُن کے سامنے
پینے سے بہکتی ہیں ستاروں کی قطاریں
منظر میں چھلکتی ہے شرابِ شبِ معراج
روشنی اس کی مہ و مہر سے بڑھ کر نکلی
وہ ستارہ جو نمودار مدینے سے ہُوا
اس کی سند زمان و مکاں سے ملی مجھے
عالم کی شرح گیر ہے میرے نبی کی بات
دلاور کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ خارجی پیکار چاہے نفسیاتی ہو یا مابعد الطبیعی Metaphysical، اس کے سامنے نعتیہ آواز کی روحانی ڈھال کا ایک مضبوط حصار باندھ دیتے ہیں :
آپ رکھتے ہیں بہر طور غلاموں پہ نظر
ہم نکلتے ہی نہیں آپ کی نگرانی سے
یہ عمومی اور روایتی نعتیہ روایت ہے، لیکن دلاور نے اس میں بھی کچھ ذیلی امکانات اور پھیلاؤ کو ذہنی Content کے طور پر قبول کرتے ہوئے شعری اظہار میں ڈھالا ہے۔ عمومی پَن بلکہ روایتی پَن غزلیہ پیکر میں ناپسندیدہ ضرور ہے لیکن نعتیہ Phrase میں اس کی مقبولیت اور نت نئے امکانات کا جڑاؤ مستقل معمول ہے۔ دلاور کے کچھ عمومی و روایتی مضامین دیکھیں جن میں تجرباتی سطح کی امکانی کرنوں کا ایک مسلسل بہاؤ پوری وسعت کے ساتھ موجود ہے :
یہ اسمِ نورِ سحر روشنی کی اصل سے ہے
شبِ سیاہ کی زَد میں درود پڑھتے رہو
نیند اسے جسم کے زندان سے لے کر بھاگی
پھر مرا خواب گرفتار مدینے سے ہوا
وبا فضا میں جو پھیلی تو ہل کے رہ گئے سب
جہان سارے کا سارا درود پڑھنے لگا
آبادی اپنی حد سے تجاوز کرے تو پھر
ایسے میں کارِ نقل مکانی حدیث ہے
یہ بحث خاصی فرسودہ ہے کہ شعری اظہار میں آورد یا آمد کی جمالیاتی قدر اور طرفگی کا معیار کیا ہونا چاہیے؟ جمالیاتی حسّ ذوق کا تقاضا آمد کے حُسن کی قبولیت کا ہے مگر ناقدینِ فن نے صُوری حسنِ متن اور مضبوط وسیلۂ اظہار کی خاطر آورد کی قدر افزائی کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نعت جیسی مقدس صنفِ سخن میں احتیاط کے پیشِ نظر آورد اور احتیاط دونوں ہمرکاب رہیں تو معنیٰ کا اکتشاف لفظی پیرہن میں نہایت عمدہ اور برمحل وقوع پذیر ہوگا۔ مگر ”سیّدی“ اور ”نقش“ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ حقیقت بھی دریافت ہوئی کہ دلاور کے ہاں نعتیہ مضمون کی دریافت آورد کے تختۂ مشق کا نتیجہ نہیں بلکہ آمد کا طرفہ حاصل ہے اور اس کا شاعر کو شعوری و داخلی احساس بھی ہے :
جو دل کی بات ہے آتی ہے صفحۂ دل پر
سمیٹتا ہوں نہ تحریر کھینچتا ہوں میں
ہرچند کہ نعتیہ مضمون کی تراش خراش احتیاط کا احتجاجی تقاضا کرتی ہے مگر قلبی میلانِ نعت اور ذہنی شعورِ نعت کی ہمسفری آورد پہ مجبور نہیں کرتی بلکہ Involuntarily شعر کی بُنت آمد کا احساس دلاتی ہے۔ ذرا دیکھیے :
آزرؔ مرا قلم ہے رواں ان کے اسم پر
میں نعت لکھ رہا ہوں سخن میں وفور ہے
لکھ رہا ہوں جس سے آزرؔ مدحِ ممدوحِ خدا
مل گیا ہے مجھ کو بھی اک شہپرِ عز العرب
نعت فقط الفاظ کا ارژنگ نہیں، فقط صنعت و بلاغت کی طلسم کاری نہیں، محض افکار کی پرکار بندی نہیں بلکہ شعور و دانش کا تخلیقی اعتبار، علم کا حسنِ اظہار اور فہم کا متحرک درجہ ہے۔ جذبے کی اٹھان یہاں تعقلاتی رَو کے تابع نہیں رہتی بلکہ فکری تلازمہ کی ہر نوع یہاں قلبی احساس کے تابع رہ کر نعت کے تمام اظہاریوں کا پیرایہ بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نعت نگار کے لیے علمی ذوق اور شوقِ تحقیق کے ساتھ ساتھ جذباتی طرزِ اظہار کی شعوری لہر بھی عروقِ لفظ میں دوڑتی رہنی چاہیے۔ دلاور کے ہاں ایسے گہر ہاے فرخندہ بہت ہیں جن کی تابانی میں فکری ترفُّع کی عظیم سعادتیں ان کے احساس کا حصہ بنتی دکھائی دیتی ہیں۔ چند شعر دیکھیں :
اس شخص پہ کھلتی ہے زمانوں کی حقیقت
پڑھتا ہے جو فرصت سے نصابِ شبِ معراج
جیسے وجود وہم کی بنیاد ہے کوئی
جیسے یہ کائنات خیالی حدیث ہے
ایماں کی جزوِ اصل محمد کی ذات ہے
جس کی نمو ہے عظمتِ ایمان کے لیے
باقی ہے آئینے میں فقط آپ ہی کا نقش
ان شاہد و شہود سے آگے بھی آپ ہیں
نعت کی تہذیبی روایت میں ادب اور تعظیم کے دائرے میں اپنے عجز اور کم مایگی کے احساس کو تقریباً تمام زبانوں کے شعرا نے جگہ دی ہے۔ اس احساس میں شدت کا برجستہ اظہار (Spontaneous overflow of powrful feelings) بھی ہے اور بے خودی کا زبردست سرمست وفور بھی۔ عزیز الدین عظامیؔ کا شعر ہے کہ :
ندارم تابِ نعتِ آں امامِ انبیاء گفتن
کہ آں ہرگز نمی دارد نظیرِ خود، نشانِ خود
اس روایتی اور انفسی بہاؤ (Inner Flow) میں بلکہ دینی و قلبی مقتضا کے مطابق دلاور کا طرزِ شعور عقیدت کی آنچ پہ پنپتا ہے۔ مگر یہ عقیدت جذبے پہ اعتماد علی الکفایہ نہیں کرتی بلکہ سچائی اور تاریخ کے باوثوق حوالوں سے Auxiliary وصول کرتی ہوئی فکر و شعور کے ذیلی زمرے کا حصہ بن کر اظہار میں کھپتی ہے۔ لیکن یہاں بھی کفایتِ شخصی کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ جمالِ حس کا تقاضا تو یہ ہے کہ ذہن معنیٰ کی قبولیت کے سلسلے میں جذباتی سیلان کی پرچک پہ لبیک نہ کہے بلکہ قلب کی تسکین آمیز رہنمائی کا ہمیشہ طلب گار رہے جبکہ یہ کلیہ اصولِ حیات کا کمزور ترین قانون ہے۔ چہ جائیکہ قابلِ احتیاط صنفِ سخن میں بے رہروی برتی جائے۔
دلاور علی آزرؔ کے چند شعر ملاحظہ کریں جن میں عقیدت کی نرمل آنچ تاریخی صداقت بن کر اظہار کے پیکروں میں ضم ہو جاتی ہے اور ذہنی تجربہ اس پہ شاہد رہتا ہے :
وہ زمانہ آج تک محفوظ ہے تصویر میں
خاک سے جب ہو رہی تھی آشنائی نور کی
میں اکیلا تھا زمیں پر کہکشاں تک لے گیا
آسمانی شخص آیا آسماں تک لے گیا
تم سرّ حقیقت ہو مگر کھل نہیں پاتے
ہر شخص کے ہونٹوں پہ فسانہ ہے تمھارا
سخن وروں کو بتا دو کہ نعت کے اشعار
ہنر وری سے نہیں التجا سے ملتے ہیں
تلمیح سازی تقریباً ہر شاعر لاشعوری طور پر برت جاتا ہے لیکن اس میں تخلیقی عمل کو بروئے کار لاکر ادراک کو تازگی بخشنا اور معنیٰ میں زیادتی پیدا کرنا کارِ سہل نہیں۔ اس کا استعمال کلام میں فصاحت و بلاغت اور حسن پیدا کرتا ہے اور دو مصرعوں میں ان حقائق کو سمو دیا جاتا ہے جنھیں بتانے اور سمجھانے کے لیے کئی کئی صفحات کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور اس طرح شاعر اور فن کا ر کا مقصد بھی پورا ہو جاتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم نے جا بجا تلمیحات کا استعمال کیا ہے اور مخاطبین کو ان واقعات کی جانب متوجہ کیا ہے جو ان سے پہلے گزر چکے تھے۔ نیز تلمیحات ہمیں بیجا لمبی لمبی تشریحوں سے بچاکر کفایتِ وقت، ایجاز اور تاثیر کا فیض پہنچاتی ہیں۔ دنیا کی ہر زبان کے ادب میں تلمیح کا استعمال بڑا عام ہے اور اسے ابلاغی زبان کا ایک Essential Factor سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نعتیہ شعری روایت نے تلمیح کی شعری افادیت سے کبھی منہ نہیں موڑا۔ (وہ الفاظ جو بعض علمی مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں یا بعض تصورات کے مجموعے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اصطلاح کہلاتے ہیں۔ اصطلاح اور تلمیح میں فرق یہی ہے کہ تلمیح کے پسِ منظر میں کوئی قصہ ہوتا ہے اور اصطلاح کے پسِ منظر میں بعض علمی تصورات)
نعت کے باب میں بالخصوص”نقش“ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ تلمیح برتنے کا استعاراتی نظام دلاور کے ہاں پورے بہاؤ کے ساتھ موجزن ہے۔ تلمیحات ادب کی جان ہیں خواہ نثر میں ہوں یا نظم میں۔ ان معنیٰ خیز اشاروں سے ادیب و شاعر اپنے کلام میں بلاغت کی روح پھونکتے ہیں۔ تلمیح کی تین جہتیں ہیں :
شخصی
زمانی
مکانی
تینوں جہتوں کی تلمیحات دلاور کی نعت کا حصہ ہیں۔ ایسی تلمیح جو عہدِ ذہنی ہو، اس میں نیا پہلو پیدا کرنا تقریباً ناممکن ہے مگر دیکھیے کہ دلاور نے کتنی سہل انگیزی سے اس دشوار گزار گھاٹی کو پلک جھپکتے ہی پار کر لیا :
پوروں نے بہت شوق سے کی ہوں گی سماعت
اس ہاتھ کی مٹھی میں جمادات کی آیات
کتنے ہی صحیفوں میں اتاری گئیں بالفصل
اس اسم کی تفضیل میں آیات کی آیات
میں خواب میں کسی روضے کے پس سے گزرا
مجھے لگا کہ مدینے میں رات کی میں نے
آ کر یہاں ملتے ہیں چراغ اور ستارہ
لگتا ہے اسی غار میں دربارِ دو عالم
دولخت ہوتے ہوئے ماہتاب کا اعزاز
بہ رمزِ حکمِ خدا مصطفیٰ کے ہاتھ میں ہے
دولخت ہوا چاند سرِ عرصۂ دنیا
انگشت ہے آزرؔ یدِ بیضاے محمد
عربی، فارسی اور اردو بوطیقا میں صنائع کی معنویت اور اہمیت بہت زیادہ ہے۔ لفظ کی ہیئت کو صنّاعی سے معنیٰ کا حصہ بنا دینا لکھنوی دبستان کا سب سے بڑا مطمعِ نظر تھا۔دہلوی شعراء میں شاہ نصیر اور ذوق اس کے سب سے بڑے نمائندے ہیں۔ سبکِ ہندی میں صنعت بندی ایک بنیادی عامل ہے لیکن اس کا تعلق غزل سے ہے نعت سے نہیں۔ لیکن وہ نعتیں جو غزل کے فارمیٹ میں کہی جا رہی ہیں، ان میں لفظوں کے مابین نئی نئی مناسبتیں دریافت کرکے برتنا اور ضلع کی رعایت کو حسبِ حال اظہار کے سانچے میں گھُلا دینا اب گویا معمول کی بات ہے۔ اس کی کچھ مثالیں شعوری طور پر دلاور کے ہاں موجود ہیں :
دھڑکنیں اسمِ محمد [ﷺ] میں سمٹ آتی ہیں
دل بکھرنے نہیں دیتا کبھی شیرازۂ نعت
اسم پڑھتے ہوئے ہونٹوں نے مرا بوسہ لیا
پل میں اوقات بڑھا دی مری پیشانی کی
بحر میں کیوں نہ ڈھلے اسمِ شہِ دیں کا مزاج
مسئلے کیوں ہوں توازُن کے ثنا خوانوں میں
کتنے بلند شعر ہوئے اس پہ نعت میں
کیا آسماں سے بھیجی گئی تھی زمیں مجھے
حرفِ علت کو گرانے کی ضرورت نہ رہی
اس نے ترتیب دیے آ کے جب اوزانِ عرب
دلاور کا طرزِ احساس پیچیدہ نہیں لیکن محض توصیف ناموں کی طرح روایتی رنگ بھی نہیں بلکہ ایک جدید فکر کا تلازمہ ہے۔ ان کے یہاں تعظیم نعتیہ فکر کا Major Ingredient ہے۔ اس عمارت میں نئے نئے Building Blocks کی آورد جہاں تازگی کا احساس فراہم کرتی ہے وہیں عقیدت کی سچی تڑپ اور محبت کی خالص لگن کا حسی وفور بھی بہم پہنچاتی ہے۔ اس باب میں ان کے اشعار سند ہیں۔ آئیے اس زعفران کدے کی چند شاخوں کی زلہ ربائی کرتے ہیں :
میرے لب صرفِ رہِ اسمِ محمد ہو گئے
میری دھڑکن بن گئی سازینۂ نعتِ رسول
اسبابِ سفر ساتھ میں رکھنا ہے مناسب
پیغام تو بھیجے گی کبھی خاکِ مدینہ
کہا اشک و خون کھینچنا اثناے یاد میں
اک آہ کھینچنے کی بھی ہمت اگر نہ ہو
میں اپنے عشق کو ترتیل تک تو لے آؤں
کہ لفظ لفظ سے تفسیرِ نُور کھینچ سکے
نعتیہ ڈسکورس میں حتمیت و قطعیت عموماً فضائل کا حصہ ہوتی ہے۔ لیکن بعض Phrases میں لچک پیدا کرنا شاعر کی مجبوری ہی نہیں بلکہ متنی ماحول کا تقاضا بھی ہوتا ہے۔ تاریخی شواہد کی بنیاد پر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض شعرا نے اس نوع کو نئے نئے Posture کے ساتھ تخلیق کا وسیلہ بنایا ہے۔ بعض نے اپنی عجز بیانی کو بھی حتمیت کے ساتھ برتا ہے۔ احمد حسن محدث نیازی کا یہ شعر اس کی بڑی مثال ہے :
کارِ نعتِ مصطفیٰ را بر خدا بگزاشتم
نعتِ شہ او خوب کردن می تواند جایمن
اس ضمن میں خواجہ ہمام تبریزی کا شہرۂ آفاق شعر بھی بڑی مثال ہے :
ہزار بار بشستم دہن بہ مشک و گلاب
ہنوز نامِ تو بردن مرا نمی شاید
بہرحال ہر جہت سے دلاور کے ہاں اس کی امثلہ ملتی ہیں۔ چند شعر دیکھیں :
نہیں ہے اس سے زیادہ مری کوئی اوقات
میں ان کے در کا گدا گر ہوں، بات ختم ہوئی
آپ کا نام حوالہ ہے مرے ہونے کا
آپ کا عشق مری ذات کی سچائی ہے
آزرؔ کے دل و جاں پہ فقط تیری حکومت
اب تا بہ ابد ہے مرے سچل، مرے سائیں!
دلاور کی حسِّ جمال نعتیہ پیکروں کی تخلیق میں براہ راست تعظیم کے سانچے میں ڈھل کر خیالِ مدینہ کی آفاقی منزل طے کرنا شروع کر دیتی ہے جہاں لفظ و معنیٰ تو لازم، خود نعت نگار معنیٰ کی جمالیاتی تصویر کا ایک متحرک کردار بن کر مجسم نعت بن جاتا ہے۔ یہ نعتیہ طرزِ اظہار کا نہایت حساس اور آخری درجہ ہے جسے ”من تو شدم“ کی اصطلاح کا اعتبار کرتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ خود نعت نگار اپنے حسین اسلوبِ اظہار میں نعت بن گیا ہے۔ اردو میں اعلیٰ حضرت احمد رضاؔ خان بریلوی اور فارسی میں جامیؔ اور خواجہ عطّار کے ہاں یہ رنگ اپنے اصلی جمال میں ملتا ہے۔ یہ وہ وہبی مرتبہ ہے جہاں جمالِ ممدوح کا اَن دیکھا پن احساس کے تقدیسی وفور کی وجہ سے دیکھنے سے زیادہ مکمل اور بامعنیٰ ہوتا ہے۔ اور یہی حُسن کی جمالیاتی تعریف ہے۔ دلاور نے بھی اس طرزِ عقیدت کو حسی سطح پہ قبول کرکے خوب خوب برتا ہے :
تعبیر ہوئی آپ سے اشیا کی حقیقت
دنیائے من و تو کا بھرم آپ نے رکھا
دل ہی میں دمکتا ہے رخِ ماہِ منوّر
آئینوں سے ہوتا نہیں یہ عکس کشیدہ
نعت لکھوں گا میں اس جذبۂ ایمانی سے
نور پھوٹے گا ہر اک لفظ کی پیشانی سے
سبھی کو نور کا پیکر دکھائی دے رہا تھا
کہ روشنی ہی جہاں کا اصول ہو گئی تھی
نظریں جھکی ہوئی ہیں سبھی ان کے سامنے
کس کی مجال دیکھ سکے آفتاب کو
نبی اکرم ﷺ کا خاتم الاوصاف ہونا مسلم ہے۔ اوج و بقا کے سبھی پیمانے اور عروج و ارتقا کے تمام بت خانے شانِ احمدی ﷺ کے آگے ہیچ ہیں۔ تمام کائناتی و امکانی وجود اپنی جمالیاتی بناوٹ میں وجودِ مصطفیٰ کے بعد منطقی، روحانی اور ذوقی سطح کا عروج نہیں حاصل کر سکتا۔ وصف اپنی اصل میں اکمالی شان کے ساتھ وجودِ مصطفیٰ میں رچ بس گیا ہے یعنی تمام تر محامد کی Optimal Dimensions کا مرکز ذاتِ محمدی ہے اور اس پر ہماری الوہی نصوص اور تہذیبی Unequivocal شواہد حتماً (Decisively) دلالت کرتے ہیں۔ اس کا اظہار بھی دلاور کے ہاں مختلف النوع معنوی زاویوں اور متنوع جہتوں کے ساتھ موجود ہے :
انھی کی مدح سرائی میں صرف ہو گئے ہم
انھی کی نعت میں کل کائنات ختم ہوئی
اس باغِ نبوت میں کئی پھول ہیں لیکن
جو سب سے حسیں پھول ہے، کہلائے محمد
وقت کی ساری حدیں اس روشنی میں ضم ہوئیں
آئنہ ہے اس جبیں پر اخترِ عز العرب
صداے کُن سے شروعات کی گئی آزرؔ
درود پڑھتے ہوئے کائنات ختم ہوئی
”ختم ہونا“ سے یہاں اپنی جمالیاتی و معراجی ارتقا کی تکمیل مراد ہے۔
آزرؔ کے ہاں نعتیہ ڈسکورس کی ہر آواز Soul Leaner کا کردار ادا کرتی ہے۔ اس آواز میں شکوہ بھی ہے، احساس کی گھلاوٹ بھی اور معنیٰ ریزی کا ایک طوفان بھی۔ آواز کا سیدھا بہاؤ وقفے وقفے سے غنائیت کی ترنگ بدلتا ہوا نئے اور نادر آہنگ پیدا کرتا ہے۔ اس طُرفہ سفر میں آواز کی تمام لہریں لفظوں کے بہترین انتخاب کے وسیلے سے ممکن ہوتی ہیں۔ ہر اچھا شاعر متن سازی کے سبھی مراحل سے گزرتا ہوا لفظ کی ترکیبی و ہیئتی جہات اور محلّ استعمال کی نزاکتوں سے باخبر رہتا ہے۔ دلاور علی آزرؔ کا متن بڑی مگر متسلسل آہنگ کی حامل آواز کا مالک ہے۔ چند مثالیں دیکھتے چلیں :
لبیک کہہ رہا ہے مرا دل جواب میں
کتنی اثر پذیر ہے میرے نبی کی بات
کس نے دن کے طاقچے کو رنگ بخشا سرمئی
کون صحرا کو سنہرے سائباں تک لے گیا
لفظ در لفظ فصاحت ہوئی آمادۂ نعت
پھر سفر کرنے لگا خانہ سرِ جادۂ نعت
سلطنت جس کو میسر ہو فراوانی کی
اسے حاجت ہی کہاں تختِ سلیمانی کی
بعض مسلکی انحرافات کے نمائندے کاٹ دار (Incisive) لہجے کے فروغ میں بھی نمایاں ہیں۔ حیف! کہ پاک و ہند کی نعتیہ تہذیب اور منقبتی ماحول میں بھی یہ درشتی بعض دبستانوں کی ترجیحی بنیاد کے طور پر دیکھی گئی ہے۔ میرا مشاہدہ اس پر دلیل ہے مگر صد شکر کہ بعض درد مند احباب کے شدید ردّعمل کے بعد اس سلسلے میں نئی اور خالص توصیفی نعت و منقبت شروع ہوئی اور مشاعراتی سطح پہ لائقِ ستائش اصلاح ہوئی۔
آزرؔ نے قطعاً مسلکی امتیازات سے بالاتر ہو محبت و احترام کی فضا کو جنم دیا ہے۔ ان کے ہاں نسبتِ رسول کا حوالہ عمومی ہے۔ ہر وہ شے جو اس نسبت میں بندھ جائے، وہ محترم ٹھہرتی ہے۔ نسبت اور تقدیسی حوالہ آزرؔ کا واضح اور صاف رنگ ہے :
نسبت کا شرف قدر بڑھاتا ہے، سو آزرؔ
یہ پانچ کی تشبیب ہے وہ سات کی آیات
نکل کے جائیں کہاں ہم حدیث کی حد سے
حضور! آپ کے دستور کا علاقہ ہے
ان سے چھپی ہوئی تو نہیں میری کوئی بات
میں اُن کے سامنے، مرا گھر اُن کے سامنے
جو بھی مشکل ہے بتا کھُل کے سرِ اقدس پر
وہ مددگارِ دو عالم ہیں، مدد مانگ ان سے
خدا کی ساری خُدائی نبی کی ملکیت
نبی کے سارے وسائل خدا سے ملتے ہیں
نور ہی نے نور کا چہرہ بنایا لوح پر
نور ہی نے آئینوں کو چھب دکھائی نور کی
امیجری نعتیہ ڈسکورس کا Untouched Object ہے۔ مگر تازہ دو دہائیوں میں اس کی خاصی متین کوششیں لائقِ صد ستائش ہیں۔ دلاور کی نعت کی شاعرانہ تمثال کاری (Poetic Imagery) شاعرانہ سطح پہ حیرت انگیز اور جمالیاتی پیرائے میں متحرک ہے۔ اس کے پس منظر میں کارفرما حرکت قسری نہیں بلکہ Optional ہے۔ اس تصوراتی Image میں معنوی تہہ داری ایک جمالیاتی شکوہ کے ساتھ برسر پیکار ہے۔ ہر بڑا اور اچھا شاعر متن میں حرکت اور افزائشِ معنیٰ کے وسیع امکانات بھر دیتا ہے۔ اس ضمن میں امیجری شعری وسیلۂ اظہار کا بڑا جمالیاتی فورم قرار پاتی ہے۔ دلاور کی تصویر گری ان کے متنی کرافٹ کا بڑا اور فعال رکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں معنیٰ کی تہ داری و افزونی کا امکان متعدد صورتوں میں جلوہ پذیر ہوتا ہے۔ چند تصویروں کے احوال دیکھیں :
سامنے قصر کی جالی سے ٹپکتا ہے وہ نور
میں تو حیران ہوں قسمت پہ، کہاں لائی ہے
حضور! آپ سے کچھ بھی نہیں چھپایا کبھی
حضور! آپ سے ہر دل کی بات کی میں نے
صدائیں دینے لگی ہے خوشبو کواڑ کھولے
سنہری جالی کا نور مجھ کو بلا رہا ہے
اور کیا چاہیے خوابوں کی نموداری کو
سبز گنبد پہ نظر کی تو نظر آ گیا ہے
آزرؔ کا ڈکشن نیم کلاسیکی ہے لیکن شاعرانہ تفاعل میں وہ تجربے کی سچائی کے زبردست قائل ہیں۔ ستر کی دہائی کے بعد نعت کی نصف صدی کی تاریخ تجرباتی کرافٹ کی متنوع رنگ آمیز اشکال سے بھری پڑی ہے مگر ”ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں“ کے بہ مصداق دلاور نے بہت سے نئے تجربات سے اپنی کشتِ سخن کو مالا مال کیا ہے۔ ان کے لالہ زار کے پس منظر میں کارفرما گلِ سگندی میں روایت سے انسلاک اور جدت کی شعوری آمیزش کی پر خلوص نیت شاملِ کار ہے۔ جمالیاتی طرحِ بناوٹ کا ہر خود شعوری احساس دلاور کے Immature سفر میں پہلی کمک کے طور پر ابھرتا ہوا آتا ہے لیکن اس میں وہ لڑکھڑاتے نہیں ہیں بلکہ اس Convoluted راہ پہ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے سرخرو ہو جاتے ہیں۔ اسی نوع میں Reformative نعتیہ فکر کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے۔ دلاور کے بعض نعتیہ Phrases اتنے دلکش،من موہنے، ندرت انگیز، حیران کن، Startler اور تجرباتی ہمہ ہمی کا مرقع ہیں کہ جن کی دید ہے نہ شنید! چند شعر دیکھتے چلیں :
دل و نگاہ کو اس نور سے علاقہ رہے
نمِ چراغِ ابد گیر کھینچتا ہوں میں
عمل میں لا کے پیمبر کی سیرتِ اقدس
کچھ اس طرح بشریت کا حق ادا کیا جائے
سر بہ سر عشق میں گزری ہوئی لکھوں دل پر
تر بہ تر نعت رقم کرتے ہوئے مر جاؤں
یک دم نگہِ یار سرک آئی ہے مجھ تک
یہ کُن فیکوں آئنہ ہونے کی گھڑی ہے
دلاور کی نعت فکری منتہا کا وہ معراج انگیز سفر ہے جہاں ہر لحظہ فکر کی تطہیر اور فن کی تکمیل ہوتی نظر آتی ہے۔ ان کے یہاں حکمت، علم اور شعور نعتیہ اظہار کے لیے ضروری لوازم کا درجہ رکھتے ہیں۔ لفظ شناسی محض معنیٰ کے تدریجی سفر کا اشاریہ نہیں بلکہ ذوقِ اظہار اور حسنِ ابلاغ کے سبھی وسیلے لفظ کی حرمت کے پاسبان بن کر اپنے فنی محاسن کی رونمائی میں مشغول ہوجاتے ہیں اور یہ دلاور کا وہ وصف ہے جو انھیں دیگر معاصرین سے ممتاز کرتا ہے۔ آزرؔ کی شعری کائنات میں لفظ کی معنیٰ کے ساتھ جمالیاتی گرفت اور تشکیلِ متن کی تعمیرِ معنیٰ سے مربوط ہمرنگی کا ایک لہلہاتا ہوا بُستان ہے جس کی ہر شاخ اور ہر گُل شعور انگیز ذہنی تسکین کی ثروت سے دولت مند کر دیتا ہے۔ چند شعر دیکھیں جن میں معنیٰ کی پختگی اپنے متنی وسیلے کے حوالے سے کتنی بار آور اور مضبوط ہے :
کیسے اشعار میں اس نور کا پرتو آئے
کیوں ہو شاعر سے بیاں شانِ رسولِ عربی
جاں ہتھیلی پہ لیے کب سے کھڑا ہوں آقا
جنبشِ چشمِ گہر ساز بہت ہے مجھ کو
میری آنکھوں میں ہے اس صورتِ خوش دید کا عکس
جس کے دیدار کو ”نیرنگِ نظر“ چاہیے ہے
ہم پڑھتے رہیں گے ترا پیغامِ محبّت
صفحوں میں یونہی مور کے پَر رکھے رہیں گے
المختصر! دلاور علی آزرؔ کی نعتیہ فکر معاصر نعت گوئی کے تہذیبی عمل میں ایک امتیازی پہچان بناتی ہوئی منفرد انداز میں قلب و روح کی غذا اور ایمان اور عقیدے کا سرمایہ بن جاتی ہے۔