(Last Updated On: )
یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم پانچویں جماعت کے طالب علم تھے۔ اس دن اخبار والے وسیم بھائی نے آواز لگائی۔ آج مہینے کا آخر دن تھا۔ اس دن ہمارے ابو مہینے کا بل ادا کیا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ کچھ تاخیر سے بل وغیرہ ادا کر نے کے بعد اخبار لیے اندر آئے۔ لیکن آج ان کے ہاتھ میں اخبار کے ساتھ ایک دلکش اور خوبصورت رسالہ بھی تھا۔
ابو جان نے رسالہ ہمیں تھماتے ہوئے کہا:
’’بیٹا ریحان! دیکھو کتنا خوبصورت اور دلکش رسالہ ہے۔۔۔ اسے پڑھو۔۔۔ تمھیں اس کے مطالعہ سے بہت سی معلومات حاصل ہوگی اور ساتھ ہی اچھی اچھی کہانیاں بھی پڑھنے کو ملے گی۔‘‘
دو روپیہ کا یہ رسالہ جس کے سرورق پر ’’بچوں کا ماہنامہ امنگ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ ہم نے رسالے کی ورق گردانی شروع کی۔ الگ الگ رنگوں میں چھپائی، بہترین اور دلکش تصویریں، خوبصورت اور عمدہ کتابت اور نہایت دلچسپ اور دلفریب کہانیاں دیکھ کر ہم تو دنگ رہ گئے۔ بطور اردو کے ننھے منے قاری یہ رسالہ ہمیں منفرد لگا۔ اس کا مطالعہ کسی نئے تجربے سے کم نہ تھا۔ اس میں شائع کامکس کے چند صفحات ہمیں مزید لطف دے رہے تھے۔
ان اوراق کو الٹ پلٹ کرتے کرتے ہمارے معصوم دل میں اچانک یہ خواہش ابھر آئی کہ کاش ہمارا نام بھی اس میں شائع ہوتا تو کتنا مزا آتا۔۔۔؟ ہماری نظر بلاعنوان کہانی کے نتائج پر گئی تو گزشتہ کہانی کے عنوان کے ساتھ ایک بڑی سی فہرست نظر آئی۔ ملک کے مختلف علاقوں سے کہانی کا نام تجویز کرنے والے بچوں کے نام دیکھ کر تو ہم تڑپ اٹھے۔
اب کیا تھا ہمیں بھی اپنے نام کو امنگ کے صفحات پر دیکھنا تھا۔ اٹھتے بیٹھتے ہمیں بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ کس طرح اور جلد از جلد ہمارا نام امنگ میں شائع ہو جائے۔ اس خواہش نے اسکول میں بھی ہمارا پیچھا نہ چھوڑا۔ کلاس روم میں ایک عجیب سی بے چینی کے بعد اچانک ہمارے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح چمکا اور ہم نے ٹھان لیا کہ اب تو بس یہی کرنا ہے۔۔۔!!
ہم نے اسکول سے آتے ہی اپنے بستے کو ایک طرف رکھا اور جٹ گئے اپنے مشن پر۔۔۔ ہماری اس معصوم خواہش کی تکمیل کے لیے ایک قینچی، ذرا سی گوند اور کاغذ کے چند ٹکڑے درکار تھے۔ ہم نے امنگ کے ایک صفحے سے حرف ’ر‘ دوسرے صفحہ پر سے ’ن‘،ایک جگہ سے’ کو‘ اور ایک لفظ ’اثرات‘ سے ’ثر‘ کاٹ کر نکال لیا۔ اب ضرورت تھی ’یحا‘ کی جو ہمیں کہیں نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ ہم نے لفظ ’بخار‘ سے ’بخا‘ کاٹ کر نکال لیا اور ’خ‘ کے نقطے کو ’ب‘ کے واحد نقطے سے جوڑ دیا اور اس طرح ’ی‘ کے دو نقطے بنا دیے۔ ان تمام چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو آپس میں جوڑ کر انھیں گوند کی مدد سے ایک کاغذ پر چپکا دیا۔ آخر میں اس کاغذ کو امنگ کے ایک صفحہ، صفحہ نمبر چالیس پر خالی جگہ دیکھ کر چسپاں کر دیا۔ اس طرح ہمارا نام’ریحان کوثر‘ اور ہمارا مشن پایۂ تکمیل پر پہنچا۔
ہم باقی دن امنگ کے اس شمارے کو گھر کے تمام افراد کو بڑے فخر سے دکھاتے گھومتے رہے اور سب سے یہی کہتے رہے کہ،
’’دیکھو دیکھو ہمارا نام چھپا ہے۔۔۔امنگ میں ہمارا نام چھپا ہے۔‘‘
میری اس حرکت پر کوئی مسکراتا، کوئی ہنس دیتا تو کوئی ’’بھاگ یہاں سے‘‘ کہہ کر بھگا دیتا۔ شام کو جب ابو جان گھر آئے تو ہم نے انھیں بھی بڑی شان سے اپنے اس کارنامے کو دکھایا اور ان سے کہا،’’ابو دیکھو! ہمارا نام چھپا ہے امنگ میں۔۔‘‘
ابو نے جیسے ہی امنگ کی یہ حالت دیکھی تو مسکرا اٹھے اور کہا،
’’ارے واہ بیٹا یہ تو آپ کا ہی نام ہے۔۔۔ ہممم’ریحان کوثر‘ لیکن۔۔۔ اس صفحہ نمبر چالیس پر جو آپ کا نام ہے کیا وہ باقی لوگوں کے گھروں میں جو امنگ ہے اس میں بھی چھپا ہے۔۔؟‘‘
’’نہیں ابو! یہ تو بس ہمارے گھر والی کاپی پر ہی چھپا ہے۔‘‘ میں نے سر کھجا کر جواب دیا۔
’’اس کا یہ مطلب ہے بیٹا کہ یہ جو نام چھپا ہوا ہے وہ صرف ہمارے گھر کے شمارے تک ہی محدود ہے۔۔؟‘‘ ابو نے نہایت شفقت سے سوال کیا۔
’’نہیں ابو! ہم نے تو اسے محلے کے ہمارے دوست نقیب اور جنید کو بھی دکھایا ہے۔۔۔ اور ہم کل ہی اپنی جماعت کے باقی دوستوں کو بھی دکھا دیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ہمارے چہرے پر مسکان اور آنکھوں میں چمک تھی۔
’’بس! اور تمھاری پھوپھیوں اور ماموں کو نہیں دکھاؤ گے؟‘‘ ابو نے مزید سوال کیا۔
’’جی ابو دکھانا تو تھا لیکن اس کے لیے ہمیں بمبئی اور کانپور جانا ہو گا۔۔۔‘‘ میں نے معصومیت سے کہا۔
’’دیکھو بیٹا تم نے جو کیا ہے، اسے ’شارٹ کٹ‘ کہتے ہیں۔۔۔ اور بیٹا ہر شارٹ کٹ انسان کو فائیدہ پہنچائے ایسا ضروری نہیں۔۔۔ کچھ شارٹ کٹ راستے وقتی طور پر تو خوشی اور مزہ دیتے ہیں لیکن اکثر یہ ہمیں گمراہی کے اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں۔۔۔ یہاں تو آپ نے ’شارٹ کٹ‘ کے ساتھ ساتھ ’الفاظ کٹ‘ بھی کر دیا ہے۔ اور تو اور اس اچھے خاصے رسالے کی بھی کانٹ چھانٹ کر کے درگت بنا دی ہے۔ ‘‘
اب ابو جان کی مسکراہٹ کچھ کچھ طنزیہ انداز کی تھی۔ ہم نے شرمندگی سے سر کو جھکا کر پوچھا:’’تو اب آپ ہی بتائیں کہ میرا نام کس طرح شائع ہو گا۔۔۔؟‘‘
’’بیٹا اس کے لیے آپ کو لکھنا ہوگا۔۔۔ کچھ بھی لکھو۔ لیکن ایسا لکھو جو معیاری بھی ہو اور معلوماتی بھی۔۔۔کہانی ہو تو دلچسپ اور سبق آموز ہونی چاہئے۔۔۔ ایسا لکھو جسے پڑھ کر امنگ کے مدیر صاحب بھی شائع کرنے پر مجبور ہو جائیں۔‘‘
اس کے بعد ہم نے اپنے بستے سے قلم کاغذ نکالا اور ایک لمبے قلمی سفر پر نکل پڑے۔۔۔
٭٭٭
مطبوعہ: بچوں کا ماہنامہ امنگ ، نئی دہلی