یہ الفاظ کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس تھا۔
دنیا کے لگ بھگ سبھی اہم و معتبر الفاظ’ لغت گھر‘ میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں شریک تھے۔ الفاظ کا یہ اجلاس ہنگامی بنیادوں پر منعقد کیا گیا تھا۔ موضوع چوںکہ نہایت حساس اور انتہائی اہمیت کا حامل تھا،اس لیے حرف کے قبیلے کے لگ بھگ سبھی معزز الفاظ نے شرکت کر کے اجلاس کو پروقار بنا دیا تھا۔
’’معزز احباب!‘‘ لفظ ’میزبان‘ نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے اجلاس کا آغاز کیا؛ ’’حرف قبیلے سے وابستہ ان تمام احباب کا شکریہ جو آج کے اس خصوصی اجلاس میں شریک ہوئے۔ جیسا کہ آپ سب کے علم میں ہے کہ آج کے اس اہم اجلاس کا مقصد انسانی سماج کے ہاتھوں لفظ کی پامالی کے خلاف ہونے والااحتجاج ریکارڈ کروانا ہے۔ اس ضمن میں آپ معتبر الفاظ کی رائے ہمارے لیے نہایت اہم ہوگی ۔ اس کے علاوہ ہماری خواہش ہو گی کہ مؤثر احتجاج کے حوالے سے ہم اس اجلاس کو نتیجہ خیز اختتام دے سکیں۔‘‘
میزبان نے یہاں ایک ثانیے کو توقف کیا اور پھر کہا، ’’میں اب گزارش کروں گا جناب ارتقا سے کہ وہ شرکا کو آج کی محفل کے پس منظر سے آگاہی دیں۔‘‘
ارتقا نامی بزرگ لفظ نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور پھر گفت گو کا آغاز کیا، ’’معزز ساتھیو، آپ سب کا شکریہ کہ آپ نے آج حرف کے قبیلے کو درپیش ایک انتہائی اہم مسئلے پر اتحاد کا ثبوت دیا، میں امید کرتا ہوں کہ اسی طرح آپ اس مسئلے پر اپنا احتجاج نوٹ کروا کے باشعور ہونے کا بھی ثبوت دیں گے۔ دوستو، یہ درست ہے کہ انسان ہی ہے جس نے سب سے پہلے ہمارے جدِ امجد حرف کو دریافت کیا اور اسے گویائی دی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسی نے ہمیں جنم بھی دیا۔ ہم اس کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی جنم لے چکے تھے، یوں اس لحاظ سے ہم انسان کی پیدائش سے کہیں پہلے اس کائنات کا حصہ تھے۔ چرند و پرند اپنے تئیں ہمیں اظہار دیتے رہے۔ بلاشبہ انسان نے پہلی بار ہمیں بامعنی اظہار دیا۔ اس کے لیے ہم انسانوں کے آباواجداد کے شکرگزار ہیں۔اس کا بدلہ ہم نے انسان کو یوں دیا کہ ہم دنیا کے مختلف انسانوں کے مابین ابلاغ کا ذریعہ بنے۔ وہ انسان جو ایک عرصے تک محض اشاروں کنایوں سے ایک دوسرے سے ابلاغ کرتا رہا تھا، ہماری دریافت کے بعد وہ ’بات‘ کرنے کے قابل ہوا۔ ہم نے انسانوں کی ایک دوسرے سے قربت بڑھائی۔ ان کی مشکلیں گھٹائیں۔ لیکن آج اسی انسان نے جس بری طرح سے ہمیں اور ہمارے ساتھیوں کو پامال کیا ہے، ہمیں دنیا بھر میں رسوا کیا ہے، وہ قابلِ مذمت ہی نہیں، انتہائی شرم ناک بھی ہے۔ آپ میں سے اکثروہ معزز الفاظ اس اجلاس میں موجود ہیں، جن کی آج انسانی معاشرو ں میں پامالی کی جارہی ہے۔ الفاظ کا اس حد تک غلط استعمال کیا جا رہا ہے کہ ان کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ وہ اپنے آرام گھر، لغتوں میں معنی کی چادر پہنے دبکے پڑے ہیں، جب کہ معاشروں میں ان کا مفہوم بدل کر رکھ دیا گیا ہے۔ ان کی صورتیں بگاڑ دی گئیں ہیں۔ آج ہم اس غیر اخلاقی انسانی رویے کے خلاف بطور احتجاج یہاں جمع ہوئے ہیں۔ میں انسانوں کے اس رویے کے خلاف اپنے ساتھیوں کے ہر سخت احتجاج میں ان کے ساتھ ہوں۔‘‘
ارتقا کی گفت گو تمام ہوئی، تو میزبان نے اس حوالے سے تمام معزز الفاظ کو اپنی روداد سنانے اور اظہار خیال کی دعوت دی۔
لفظ کی ایک نہایت حسین صورت آگے بڑھی۔اس کا درپن چند آفتاب چند ماہتاب تھا۔ چہرے سے نور چھلکتا تھا۔سر سے پیر تک گویا ایک سحر سا اس کے وجود میں تھا۔ یہ محبت تھی۔ اس کے دائیں جانب عشق اور بائیں جانب پیار تشریف فرما تھے۔
’’مجھے انسانوں سے سب سے زیادہ گلہ ہے۔ اس لیے کہ میں نے انسانوں کو سب سے زیادہ سکون دیا۔ لیکن انھوں نے سب سے زیادہ میری بے حرمتی کی۔ میرے پیش رو جنابِ عشق اور ہم عصر دوست پیار، میری اس بات کی حمایت کریں گے کہ انسانی معاشرے میں ہمارا جنم نہ ہوتا تو نوعِ انسانی کب کی فنا ہو چکی ہوتی۔ لیکن انھی انسانوں نے ہمارے چاہنے والوں کو ہمیشہ عذاب میں مبتلا کیے رکھا۔ انھیں سخت سے سخت سزائیں دیں۔ ان پر فتوے لگا کر ان کا جینا عذاب کیے رکھا۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا، کہ اس سے ہماری معنی اور ہماری قدرومنزلت میں اضافہ ہوتا تھا، لیکن آج حالت یہ ہے کہ آج کے انسانی معاشروں میں ہر قسم کا حرص و ہوس ہمارے نام پہ روا ہے۔ یہ کیا ظلم ہے کہ جنسی مریض اپنے جذبات کی تسکین کے لیے ہمارا نام لیں، اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے تعلق جوڑنے والے بھی ہمارے نام پہ عیاشی کریں۔ انھی کے باعث آج ہم بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ بے اثر ہو کر رہ گئے ہیں۔‘‘ محبت کا تیز لہجہ اب گلو گیر ہونے لگا تھا۔ اس کی پلکیں نم ہونے کو تھیں۔
’’جناب والا! ایک وہ زمانہ تھا کہ ایک انسان کو دوسرے انسان سے ’مجھے تم سے محبت ہے‘ جیسا سادہ جملہ بولنے کے لیے پہاڑ جیسا حوصلہ چاہیے ہوتا تھا، بڑے بڑے جری بہادر محبوب کے سامنے اس ایک لفظ کی جرأت اظہار سے کانپ اٹھتے تھے۔ کیسی کیسی دعائیں، کیا کیا ریاضتیں کی جاتی تھیں…اور انھی ریاضتوں کے طفیل ہم (الفاظ) خود میں وہ تاثیر پیدا کر لیتے کہ زباں سے نکلتے اور سیدھے دلوں میں اتر جاتے۔ ہم نے انسانوں کی ایک دوسرے سے انسیت کو بامعنی بنایا۔ جہاں محبت کا تذکرہ ہوتا، فضا خوشبوئوں سے معطر ہو جاتی، سخت سے سخت دل آدمی بھی نرم پڑ جاتا، سُر گفتگو کرنے لگتے، ہم (پیار، عشق، محبت) نے انسانوں کو زمیں پر رہتے ہوئے جنت کا تصور دیا۔ لیکن انھی انسانوں نے ہمارا یہ حال کیا ہے کہ آج کوئی جواں لڑکا کسی دوشیزہ سے کہہ دے کہ ’مجھے تم سے محبت ہے‘ تو اس پر ہنسی آنے لگتی ہے۔ آج ہم انسانی معاشروں میں گھسے پٹے ہو چکے ہیں، ہماری حالتِ قابلِ رحم ہو گئی ہے۔ لوگ ہم پر ترس کھاتے ہیں۔ جن کی آنکھوں سے ہی ہوس ٹپکتی ہو ، ان کی زباں پر ہمارا نام آئے تو ہم کس کرب سے گزرتے ہیں، کیا انسانوں کو اس کا اندازہ بھی ہے……‘‘ اب محبت کی آنکھیں چھلک پڑیں اور وہ واقعتاً رو دی۔ اس کے پہلو میں بیٹھے عشق نے کھڑے ہو کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا، اور شفقت سے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے بٹھایا۔ پیار نے اس کی خوب صورت آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھے۔
’’ میں اپنی سہیلی محبت کی مکمل حمایت کرتی ہوں۔‘‘ یہ دوستی تھی، جس نے محبت کی حمایت میں بولنا شروع کیا۔ ’’محبت کا آغاز اکثر مجھ سے ہی ہوا ہے۔ ہم نے انسانوں میں قربت پیدا کی۔ لیکن آج یہ عالم ہے کہ ہر مفاد پرست ہمارا نام لیتا پھرتا ہے۔ وہ‘ جنھیں کسی کی پیٹھ میں خنجر گھونپنا ہو، وہ بھی ہمارا ہی نام استعمال کرتے ہیں۔ جنھیں کسی سے ذاتی غرض ہو وہ بھی ہمارا دم بھرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کوئی ہم پہ اعتبار کرنے کو تیار نہیں ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ انسان اپنے فاسد جذبات کو کوئی بھی نام دے لیں، براہِ کرم اپنے کالے کرتوتوں پر ہمارے نام کی چادر ڈالنا چھوڑ دیں۔‘‘یہ کہہ کر دوستی اپنی نشست پر بیٹھ گئی۔
’’ بالکل ٹھیک کہا میری بہنوں نے، آپ میری حالت ہی دیکھ لیجیے……‘‘ اب لفظ آزادی کی باری تھی۔ ’’میرے نام پہ کیا کیا کھلواڑ نہیں کیے انسانوں نے۔ جبر کا ہر قانون انھوں نے میرے نام پہ تھونپ رکھا ہے۔ میرے نام پہ انھوں نے ملکوں کے نقشے بدل ڈالے، سرحدوں کی لکیریں تبدیل کر ڈالیں۔ انسانوں کا محض ایک طبقہ اپنے مفادات کے لیے دنیا بھر میں آج تک میرا نام استعمال کرتا پھر رہا ہے۔ جب کہ میں ہرانسان کے وجود میں بستی ہوں، پھر بھی انھوں نے میرے نام پہ بستیاں اجاڑی ہیں۔ میں انسان کی قدیم ساتھی ہوں، اس لیے سادہ لوح انسان میری چاہ میں اپنی جانیں نچھاور کیے چلے جا رہے ہیں، لیکن الفاظ کی پامالی میں ملوث قبیلہ مسلسل ہمارے معنی و مفہوم کو پامال کیے جا رہا ہے۔ میرے دوست اظہار کو میرے ساتھ ملانے (آزادیِ اظہار) کے بعد انھوں نے جو خرافات ہمارے نام پہ کی ہیں، اس سے ہم شرم سے پانی پانی ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ نہایت قابلِ مذمت ہے۔ ہمیں اس کے خلاف سخت سے سخت اقدام لینا ہو گا۔‘‘
آزادی کی بات پر سبھی الفاظ نے یوں اثبات میں گردن ہلائی، جیسے وہ اس سے مکمل اتفاق کر رہے ہوں۔
’’میرا خیال ہے، آزادی کے علاوہ انسانوں نے سب سے زیادہ خون میرے نام پر بہایا ہے۔‘‘ یہ لفظ نظریہ کی دُہائی تھی۔’’ میرے ساتھ بیٹھے میرے دوست عقیدہ کو بھی اگر ملا لیں، جیسا کہ اکثر انسان ہمیں ہم معنی کر لیتے ہیں، تو شاید انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ خون ہمارے ہی نام پر بہا ہے۔ میں نے انسانی زندگی کو بامقصد بنایا، لیکن آج انسانی معاشرے میں مجھے ہی سب سے زیادہ بے مقصد بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ آج کہیں انسان میری موت کا اعلان کرتے پھر رہے ہیں تو کہیں میرے نام پہ اپنے ہی ہم جنس انسانوں کی لوٹ مار کرتے پھر رہے ہیں۔ یہ سراسر انسانی بدنیتی ہے، جسے میرا نام دے دیا گیا ہے، جس کے باعث مجھ سے پیار کرنے والے بھی اب مجھ سے خائف رہنے لگے ہیں۔ نوخیز ذہن تو اب میرا نام سنتے ہی بدک اٹھتے ہیں۔ یہ ان انسانوں کے کرتوت کا نتیجہ ہے، جو ہمارے مفہوم کا غلط استعمال کرتے پھر رہے ہیں، اور اس کا نتیجہ ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔‘‘
نظریے کی بات مکمل ہوئی تو اس کے ساتھ بیٹھا انتہائی وجیہ اور حسین و جمیل لفظ گفت گو کے لیے آگے بڑھا۔ یہ حسن تھا۔
’’معزز احباب! جو دُرگت انسانوں نے ہم سب کی بنائی ہے، میری روداد بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ میرے نام پہ انھوں نے عالمی مقابلے شروع کروا رکھے ہیں۔ جہاں مجھے ایسے مخصوص پیمانوں سے ناپا جاتا ہے کہ میں خود شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہوں۔ حالاں کہ میں اس کائنات کے ذرے ذرے میں شامل ہوں، لیکن انسانوں نے میری چند نشانیاں مقرر کر کے مجھے انسانی جسم میں مقید کرنے کی مذموم کوشش کی ہے، یہ مجھے گوری رنگت، سرخ گالوں، گھنیرے بالوں اور جسم کے نشیب و فرازمیں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ میری سراسر تذلیل ہے، میں اس کی شدید مذمت کرتا ہوں۔‘‘
’’میں اپنے دوست حسن کی بات کی حمایت کرتا ہوں۔ حسن کو پامال کرنے والے وہی ہیں، جنھوں نے میرے نام کو بھی پامال کیا ہے۔‘‘ یہ امن تھا، جس نے بات آگے بڑھائی۔ ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے محض اپنے ہتھیار بیچنے کے لیے مجبور و بے بس انسانوں پر جنگیں تھونپیں اور پھر نام میرا استعمال کیا۔ دنیا بھر میں یہ جہاں گئے، وہاں بنام امن تباہی پھیلائی۔ حالاں کہ میں سکون کا موجب ہوں، لیکن آج میرے نام پہ ان عالمی طاقتوں نے جو تباہی مچائی ہے، اس کے باعث اب لوگ میرا اعتبار کرنے کو تیار نہیں…‘‘
’’اعتبار تو خود میرا بھی اٹھ چکا ہے بھائی…‘‘ یہ بات لفظ اعتبار نے کہی، جس پر محفل میں خوب قہقہہ پڑا اور محفل پر پڑا تناؤ کسی حد تک کم ہوا۔ ’’انسانوں نے میرے نام پہ ایک دوسرے سے وہ دھوکے کیے ہیں کہ اب کوئی میرا نام سننے کو تیار ہی نہیں۔ میرا تو وجود ہی اب انسانی معاشروں سے مفقود ہوتا چلا جا رہا ہے۔‘‘
’’نہیں میرے دوست، ہم نے اتحاد کا ثبوت دیا تو ہم باقی رہیں گے، ہمارا مفہوم بدلنے والوں کا وجود مٹ جائے گا۔‘‘ لفظ کمٹ منٹ نے اس کی ہمت بندھائی، ساتھ بیٹھی جرأت نے اس کی حمایت کی۔ اتحاد نے محض ایک اثباتی مسکراہٹ پہ اکتفا کیا۔
اتنے میں انصاف چلایا، ’’مجھے ہی دیکھ لیجیے، میرا کیا حشر کر دیا ہے انھوں نے۔ ہر قسم کی بے انصافی میرے نام پہ کی جا رہی ہے۔ طاقت ور حلقوں کی جانب سے میرا نام لینا ہی مذاق بن کر رہ گیا ہے۔‘‘
’’تم اکیلے نہیں ہو بھائی، کچھ یہی عالم میرا بھی ہے۔‘‘ ایمان نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ اس کے ساتھ اس کی بیگم ایمان داری بھی تشریف رکھتی تھی۔ ’’تمھیں تو ایک خاص طبقے نے پامال کیا ہے، ہم میاں بیوی کو تر ہر ایک نے اپنی قوت کے مطابق لتاڑا ہے۔ ہر قسم کی بے ایمانی ہمارے نام پہ کی جا رہی ہے، اور دھڑلے سے ہمارا نام لیا جا رہا ہے۔ ہر بے ایمان ہمارا دم بھرتا ہے، ہر ریا کارہم سے یارانہ جوڑتا ہے۔ کبھی کبھی تو ہمیں خود اپنا وجود مشکوک لگنے لگتا ہے۔‘‘
اُس کی اِس بات پر بھی حاضرینِ مجلس زیر لب مسکرائے۔ اتنے میں لہو جیسی سرخ رنگت کا حامل ایک لفظ اپنی نشست سے کھڑا ہوا، اور گفت گو کا آغاز کیا۔ اس کا لہجہ نہایت دبنگ تھا۔ جیسے سر پہ کفن باندھا ہوا ہو۔ آواز میں بھی تاثیر تھی، وجیہہ صورت بھی تھا اور جوشِ خطابت کا بھی ماہر دِکھتا تھا۔ یہ انقلاب تھا۔
’’ساتھیو، انسانوں کی الفاظ کے ساتھ زیادتی نے اب تمام حدیں پار کر لی ہیں۔ کیا تقدس ہوا کرتا تھا ہم جیسے الفاظ کا۔ جوان لوگ پروانوں کی طرح رقص کرتے، جھومتے تھے ہمارے نام پر۔ پتنگوں کی طرح اپنی جانیں نچھاور کرنے کو بے قرار رہتے تھے ہم پر۔ آج یہ عالم ہے کہ ہر ایرا غیرا ہمارے نام کے سے کھلواڑ کرتا پھرتا ہے۔ کسی کو روڈ نالی بھی بنانی ہو تو وہ بھی انقلاب کا نام استعمال کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا توہین ہو گی بھلا۔ ان اٹھائی گیروں نے ہمارا وہ حال کیا ہے کہ ہم کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے، محض لُغتوں میں منہ چھپائے رہتے ہیں کہ کچھ تو نام کی لاج رہ جائے۔ اس سے پہلے کہ یہ بے حس اور خودغرض انسان لغتوں میں بھی ہمارا مفہوم بدل ڈالیں، آئیے مل کر اٹھیں اور ظلم و زیادتی کا یہ نظام بدل ڈالیں…‘‘
’’انقلاب زندہ باد……‘‘ تمام الفاظ نے مل کر نعرہ بلند کیا۔
میزبان نے دیکھا کہ اجلاس سیاسی جلسے کا رخ اختیار کر رہا ہے، اس لیے اس نے فوری مداخلت کی اور یہ کہہ کر سب کو سنجیدگی سے متوجہ کر لیا کہ اب میں آج کے صدرِ مجلس، الفاظ کی دنیا کے معزز لفظ جناب سچ اور ان کی ساتھی سچائی سے گزارش کروں گا کہ وہ اس بابت اپنے خیالات کا اظہار کریں۔
میزبان کی دعوت پر لفظ سچ نے فخر سے تنی ہوئی اپنی گردن کو کچھ خمیدہ کرتے ہوئے گلہ کھنکار کر گفت گو کا آغاز کیا…’’معزز ساتھیو، آپ سب کی آمد اور عزت افزائی کا شکریہ۔ دراصل جو احباب آج کی اس مجلس میں شریک ہیں، محترمہ محبت، جنابِ عشق، دوستی، آزادی، حسن، نظریہ، اعتبار، انصاف، ایمان، انقلاب… آپ سب سے ہی ہمارا وجود ہے، آپ کے بنا میرا اور میری ساتھی (سچ اور سچائی) کا کوئی وجود ہی نہیں۔ اس لیے آپ کے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی کو میں خود کے ساتھ ہونے والی زیادتی سمجھتا ہوں۔ انسانی سماج نے جو زیادتیاں آپ کے ساتھ کی ہیں، وہ سب دراصل مجھ پر ڈھائے گئے ظلم ہیں۔ کوئی ہوس کار محبت کا نام استعمال کرے تو میری روح پر چھید پڑتے ہیں، کوئی ریاکار دوستی کا دم بھرتا ہے تو میں خون کے آنسو روتا ہوں، آمر جب آزادی کا نام لیتے ہیں تو میں تلملا اٹھتا ہوں، کوئی کاروباری ذہنیت کا مالک جب نظریہ کا پرچار کرتا ہے تو جی چاہتا ہے میں اسے سولی پہ لٹکا دوں، حسن کے نام پہ جو کاروبار ہو رہا ہے وہ مجھے جیتے جی مار دیتا ہے، اعتبار کا جنھوں نے بھرم توڑا ہے ان کی گردنیں توڑنی چاہئیں، انصاف کا جو حشر ہوا ہے وہی ان بے انصافوں کے ساتھ کرنا چاہیے، اور سچ پوچھئے جب کوئی بے ایمان، ایمان کا نام لیتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ اس زباں دراز کی زباں کھینچ لی جائے، اور جب کسی اٹھائی گیرے کے منہ سے اپنے بھائی انقلاب کی توہین سنتا ہوں تو انگاروں پہ لوٹنے لگتا ہوں…مگر دوستو، سچ تو یہ بھی ہے کہ خود میرے ساتھ بھی اس انسانی سماج نے کچھ کم نہیں کیا۔ دنیا کے سب سے بڑے جھوٹ میرے نام پہ چھپائے گئے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا بھی میرا نام لیوا ہے۔ ہر جھوٹ پر میرے نام کی چادر چڑھا دی جاتی ہے۔ ہماری بہن روشن خیالی کا عالم دیکھ لیجیے، کیا کیا حشر نہیں ہوا ان کے ساتھ۔ ایسے ایسے متعصب لوگوں نے ان کا نام استعمال کیا کہ کوئی شریف آدمی اب ان کا نام زباں پہ لانے کو تیار نہیں۔ ہماری نہایت سلیقہ مند دوست بی بی جمہوریت کو دیکھئے، تیسری دنیا میں ان کا وہ نام بدنام ہوا کہ لوگوں کو اب ان کے نام سے ہی گھن آنے لگی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری نوخیز سہیلیاں عزت، غیرت، شرم اور حیا اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کہ انسانی معاشرے میں ان کا استعمال کم سے کم ہوتا ہے، ورنہ کثرتِ استعمال سے آج ان کی بھی شکلیں پہچاننے کے قابل نہ ہوتیں۔ باقی نیک الفاظ کے ساتھ انسانی معاشرے نے جو سلوک کیا ہے، اس سے بلاشبہ ان کی روحیں شدید کرب کا شکار ہوئی ہیں۔ اور جہاں تک رہی احتجاج کی بات…‘‘ سچ نے یہاں پہنچ کر سانس لی تو محفل کی سانس تھم چکی تھی۔ سبھی حاضرینِ مجلس دَم سادھے اسے سن رہے تھے۔ انھیں توقع تھی کہ صدرِ مجلس سخت قسم کے احتجاج کا اعلان کریں گے۔ اسی لیے تو وہ سب یہاں جمع ہوئے تھے۔ انھیں شدت سے انتظار تھا کہ ان کا پیش رو کس قسم کے احتجاج کا اعلان کرتا ہے… ’’میرا خیال ہے کہ…‘‘ سچ نے اپنی ساتھی سچائی پر ایک نظر دوڑائی، جیسے کہ اس کی تائید حاصل کر رہا ہو اور کہنے لگا…’’میرا خیال ہے کہ ہمیں اس رویے کے خلاف احتجاجاً اپنے معنی سے بغاوت کر دینی چاہیے، کیوں کہ ہمیں غلط مفہوم میں استعمال کیا جا رہا ہے، اس لیے ہم مفہوم ادا کرنے سے ہی انکار کر دیتے ہیں، اور یہ احتجاج تب تک جاری رہے گا جب تک انسان اپنی غلطی کا ازالہ کرتے ہوئے الفاظ کو ان کے حقیقی معنوں میں استعمال کرنا شروع نہیں کر دیتا۔‘‘
معزز سچ کی اس بات پر ہر طرف واہ، واہ ہونے لگی۔ سبھی الفاظ اس رائے سے متفق نظر آئے۔
بالآخر اتفاقِ رائے ہونے کے بعد تمام نیک الفاظ نے اپنے مفہوم کا پیراہن لغت میں چھوڑا اور ننگے بدن لے کر سماج میں نکل پڑے۔ انسانوں نے الفاظ کی زخمی روحوں میں جھانکنا تو درکنار، انھی ننگے الفاظ کو اٹھا کر انھیں اپنی مرضی کے مفہوم کا پیراہن پہنانا شروع کر دیا۔
تب سے سبھی اچھے الفاظ کے حقیقی مفہوم کا پیراہن محض لُغتوں میں پڑا رہ گیا ہے۔
پسِ نوشت:
اسی مجلس میں ایک نحیف و نزار،چھوئی موئی سا نرم و نازک لفظ ایک کونے میں دُبکا بیٹھا تھا۔ کسی نے اس سے پوچھا، تم احتجاج میں شریک نہیں ہو رہے؟
اس نے نہایت معصومیت سے کہا، ’’انسانی معاشرے نے جب سے مجھے برتنا چھوڑا ہے تبھی سے الفاظ زخمی ہونا شروع ہوئے ہیں، جس روز انھوں نے مجھے اپنا لیا، الفاظ اپنی حقیقی روح کے ساتھ ادا ہونے لگیں گے۔‘‘
وہ لفظ، احساس تھا!!
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...