الفاظ دیکھئے۔۔ راھبر۔ رھبر۔۔ رکّھا۔ رَکھا۔۔ دھمّال۔۔۔اور دھمال۔۔۔۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب اور سرائیکی ملا کر بہت بڑی ابادی دھمال کہتی اور سمجھتی ہے۔۔۔کیا وہ شخص دھمال اردو میں دھمّال استعمال کرے اور بولے؟ اور پھر پنجابی میں کہدے دھمال پاؤ۔۔؟
اس احمقانہ جبر کو ختم کیا جائے۔۔ زندہ اور ڈائینیمک زبانیں کبھی اصرار نہین کرتیں۔۔۔جب کثیر تعداد تلفظ بدل کر بولے تو وہ اسی تلفط کو جاری اور رائج مان لیتی ہیں۔اسی لئے انگریزی میں بےشمار الفاظ کے تلفظات بدلے ہیں اور لغات میں اپ ڈیٹ ھوتے ہیں۔ھرسال انگریزی لٖات میں متروک الفاط نکال کر نئے الفاظ یا ھجے قول کئے جاتے ہیں۔۔اردو والوں کی بکواس قسم کی ضد ختم ھی نہین ھوتی۔۔یہ نوٹ پڑھ کر بغیر سمجھیں کچھ لوگ اگل دیں گے کہ اچھا اب بطخ کو بخط کسی نے کہدیا تو کیا اب اسے بھی درست مانیں؟
یہ پاکستانی لوگوں کا غلیظ وطیرہ ہے کہ بات کو سمجھنے کی بجائے کچھ اور خبیث قسم کی درفنطنی چھوڑتے ہیں۔ میرا موقوف عین جدید اور سائینسی لسانیات پر مبنی ہے ۔اپ کسی پر زبان لاد نہیں سکتے۔۔۔ زبان اظہا رکا ذریعہ ہے جو بدلتی رھتی ہے۔ شیڈول کو امریکی شکیڈوئیل کہتے ہیں۔ کینیڈا میں دونوں مانے جاتے ہیں۔۔کیا وجہ ہے کہ دونوں ٹھیک ہیں؟ اردو والوں کی ضد جاھلانہ ہے۔
سنسکرت کا لفظ ویاکُل جب اُردو میں آیا تو بیکل ہو گیا یعنی بے چین، بے قرار۔ سنسکرت کا پشچِم اُردو میں پچھَم ہو گیا اسی طرح سنسکرت پُوْر^و اُردو تک آتے آتے پُوَرب ہو گیا۔
دوسری زبانوں کے الفاظ جیسے اردو میں کثرت میں رائج ھوں انہین ویسے ہی ماننا درست ہے نا کہ یہ اصرار کہ جس زبان سے ایا وھاں تو ایسے نہین تھا۔۔
میرا نام رفیع۔۔۔ سوائے عربی بولنے والوں کے کوئی بھی رفی ع ع۔۔۔۔۔ نہیں بولتا ۔۔۔۔ میرے جاننے والے ادبا و شعرا تمام کے تمام رفی کہہ کر بلاتے ہیں پھر لکھنے میں شعر میں آواز عین کو دبانے سے انکو تکلیف کیوں ھوتی ہے؟
اصل بات تو شعر کا مضمون تھا۔۔ مادر پدر آزادی تو نہیں مانگی لفظ کی صوت کی وجہ سے موسیقانہ طور پر وزن پورا ھے جو شعر کے اصول کی مانگ ہے۔ شعر کے اصول کی مانگ لغت کسی طرح بھی نہیں ھوتی۔۔یہ دماغوں سے نکال دیں۔۔ ورنہ اللہ کو مفعول کے علاوہ آپ کبھی فعلن نہ باندھتے۔۔۔۔ ہ کا گرانا صوت کی وجہ سے جائز ہے کوئی مشینی اجازت نہیں ہے۔
پس میرے موقف کے خلاف جو بھی ائیگا اسکو پہلے صوت پر بات کرنا ھوگی ۔۔ورنہ وہ کلام نہ ھی کرے۔۔
مزید امثال ایک صاحب نے پیش کی تھین۔۔وہ بھی پڑھ لیں۔
جہاں تک کسی کلاسیکی استاد شاعر کے کسی لفط کو باندھنے سے احتراز یا برتاو کی بات ہے تو یہ لکھ لیں کہ ھم انکے مستقل اسیر نہیں ہیں یہ ھمارا زمان ہے ھمارا روز مرہ جو رائج وہی درست ھے۔ میر کی تقلید میں ھم ٹک روتے روتے نہیں سوتے۔۔۔ اس لئے اس ڈیکوریشن کو اپنے پاس ہی رکھیں
یاد رھے میں مادر پدر آزاد تلفظات کی بات ھرگز نہیں کر رھا۔۔
لفظ غلط کو غل ط۔۔۔اور غلَط۔۔۔ بولنے والوں کا تناسب بتہ ہی زیادہ ہے۔ غل ط۔۔۔ پورے پنجاب میں بولا جاتا ھے۔ سندھی بلوچ سب غل ط اردو میں بولتے ہیں۔۔۔۔ اسی طرح اردو دانوں میں لفط غلَطی کو غل طی بولنے کا تناسب 90 فیصد سے زائد ہے اب کہاں گیا لغاتی تلفظ؟ وھاں تو غلا طی۔۔۔تلفظ ہے۔۔
پس کسی کی دلیل پر مبنی بات پر منہ کھلونے سے پہلے تھوٹی دیر کو سوچ لینے میں بہتری ہے ورنہ سخت جواب تو آئیگا کیونکہ
میں بھی آپکے قبییلے سے
میرا طرزِ سخن بھی گندا ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اسی لفظ طرز کو دیکھ لیں۔۔۔ یہ مونٹ بھی ہے اور مذکر بھی۔۔۔اب سوچیں۔۔ضد کرنی ہے تو اسے یا تو مونث ہی رکھتے یا مذکر۔۔۔۔دونوں سے طرح سے کیوں برتاؤ کیا جائے؟
جب اس برتاؤ کو قبول کیا ھے تو وہ باتیں بھی سمجھیں جو میں بار بار دھرا رھا ھوں۔۔۔
یہ۔۔۔۔ یعنی لفظ ۔۔یہ۔۔۔۔ کو فع بھی باندھتے ہیں۔۔۔اور یَ بھی یعنی آدھا بھی۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔کہ ۔۔۔کو آدھا ھی باندھنے پر اصرار کرنے والے عروضیوں سے مجھے اب نفرت ھونے لگی ہے یہ سارے لکیر کے فقیر ہیں۔ یہ میری بات میرا استدلال سمجھنا ھی نہیں چاھتے جیسے مزھبی ھمیشہ اپنے عقیدے کا دفعا کرتا ھے یہ سارے بھی ،،لفظ۔۔۔کہ۔۔کا دفاع کرتے ہیں۔۔۔جبکہ ۔۔یہ۔۔۔ اور نہ۔۔۔کو پورا بھی باندھتے ہیں اور آدھا بھی۔۔۔۔اسی لئے۔۔۔ نہ دارد۔۔۔کو ندار۔۔۔۔ نہ جانے کو نجانے استعمال کرنے میں آزادی ہے۔
فارسی میں لفظ پِیراہن ہے یعنی پ کے نیچے زیر ہے لیکن اُردو میں یہ پَیراہن بن چُکا ہے یعنی پ کے اُوپر زبر کے ساتھ۔ اسی طرح فارسی کا پِیرایہ اُردو میں آ کر پَیرایہ بن جاتا ہے۔
فارسی کی اندھا دھند تقلید مت کریں۔۔۔
جدید فارسی میں اور ہمارے ھاں کی بولی پڑھے جانے والی فارسی می بہت فرق ہے میری جاب پر ایک فارسی نوجوان ہے میں اس سے سمجھتا رھتا ہوں۔
یاد رکھیں جو اردو دانوں نے بیڑہ غرق کرتے ہوئے،،،انگریزی لفظوں کو اردو شامل کرتے ھوئے الف ، سین سے پہلے لگایا ھے وہ ناکارہ کام ہے۔
پورے پاکستان میں سوائے کراچی کے کوئی سکول کو اِسکول نہیں بولتا۔۔۔
سٹیشن کو کوئی بھی اِسٹیشن نہیں بولتا۔۔۔ خدا کے لئے اس آدھی نیم مردہ اردو زبان پر رحم کریں جس میں جدید دنیا لاکھوں آلات کے سرے سے نام ھی موجود نہیں ہین۔۔آپ کو لفظ۔۔کہ۔۔کو پورا باندھنے پر تکلفی ہے مگر آپ کو لاکھوں جدید آلات ، پرزوں ،دروازوں کی قسموں شیشے کی قسموں، کھڑکیوں کی اقسام ۔۔لاتعاد جانوروں کی قسام کے نام۔۔پرندوں کے نام تک نہیں۔۔۔۔۔
براہ مہرابی منافقت چھوڑیں۔۔۔ آپ کو خود قمری کس پرندے کا نام ہے نہیں معلوم ۔۔۔بلبل آپکے ھاں نہیں ھوتا۔۔۔ جو ھوتا ھے وہ گُلدُم ہے۔۔
ربی لفظ حِجامۃ میں ج کے نیچے زیر ہے لیکن اُردو میں حَجامت بنا تو ح کے اوپر زبر لگ گئی۔ اسی طرح عربی کے حَجَلہ میں ح اور ج دونوں کے اوپر زبر ہوتی ہے لیکن اُردو میں آ کر یہ حُجْلہ بن گیا یعنی ح کے اوپر پیش لگ گئی (مثلاً حُجلہء عروسی) ۔ عربی کے لفظ حِشمۃ کا مطلب حیاداری ہے۔ اُردو میں آ کر اس کا مطلب شان و شوکت اور رعب داب بن گیا۔ ساتھ ہی اس کا تلفظ بھی بدل گیا اور ح پر زبر لگ گئی یعنی یہ حَشمت بن گیا۔
ظاہری شکل و صورت کے مفہوم میں ہم حُلیہ کا لفظ عام استعمال کرتے ہیں لیکن اس کا اصل عربی تلفظ حِلیہ ہے یعنی ح کے نیچے زیر ہے۔ پرندے کے پوٹے اور پِتّے کو عربی میں حوَصًَلہ کہتے ہیں یعنی ص پر زبر کے ساتھ، لیکن اُردو میں ص پر جزم ہے اور اس کا تلفظ حوص+ لہ ہو گیا ہے۔ اُردو میں اس کا لُغوی مفہوم مستعمل نہیں ہے بلکہ یہ صرف ہمت اور جرات کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔
عربی میں خًصْم (ص پر جزم) کا مطلب ہے دُشمن، جس سے نکلا ہوا لفظ خُصُومت (دشمنی) اُردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ البتہ خود لفظ خصم ہمارے یہاں شوہر کے لئے استعمال ہوتا ہے اور وہ بھی اِس تبدیلی کے ساتھ کہ ص پر جزم کی بجائے زبر لگا دی جاتی ہے (خَصَم) ۔
عربی میں لفظ دَرَجہ ہے یعنی دال پر زبر اور ر پر بھی زبر، لیکن اُردو میں ہم دْرجہ کہتے ہیں (در + جہ) ۔ عربی میں ُدکّان کی ک پر تشدید ہے لیکن اُردو میں نہیں ہے۔ عربی میں لفظ رحِم ہے یعنی ح کے نیچے زیر لیکن اُردو میں یہ رحْم بن گیا (ح پر جزم) ۔ عربی میں صِحّت کی ح کے اوپر تشدید ہوتی ہے لیکن اُردو میں نہیں۔
عربی میں ُقطْب کی ط پر جزم ہے لیکن اُردو میں ق اور ط دونوں پر پیش ہے۔ ( ُُقُطب) ۔ عربی میں لفظ مَحَبہّ تھا یعنی م اور ح دونوں پر زبر، لیکن اُردو میں مُحبّت بن گیا اور م کے اوپر پیش لگ گئی۔
فارسی میں لفظ مُزد+ور تھا جو کہ بعد میں مُزدُرو بن گیا لیکن اُردو میں پہنچا تو م کے اوپر پیش کی جگہ زبر لگ گئی اور مَزدور ہوگیا۔ عربی میں لفظ مُشَاعَرہ ہے یعنی ع کے اوپر زبر ہے لیکن اُردو میں اس کی شکل مشاعِرہ ہو چکی ہے اور یہی درست ہے، جسطرح عربی کا موسِم اُردو میں پہنچ کر موسَم ہو چکا ہے (س پر زبر) اور اب اسی کو درست تسلیم کرنا چاہیے۔
عربی کے نَشاط میں ن پر زبر ہے لیکن اُردو میں ہم ن کے نیچے زیر لگا کر نِشاط لکھتے ہیں اور اُردو میں یہی درست ہے۔
عربی میں لفظ نُوّاب تھا، نون پر پیش اور واؤ پر تشدید۔ یہ اصل میں لفظ نائب کی جمع تھی، اُردو میں آ کر اس کا مطلب بھی بدلا اور تلفظ بھی نواب ہو گیا۔
جدائی کے معنیٰ میں استعمال ہونے والا عربی لفظ وَداع ہے (واؤ پر زبر) لیکن اُردو میں اس کی شکل تبدیل ہو کر وِداع ہو چکی ہے (واؤ کے نیچے زیر) ۔
جِن لوگوں کا بچپن پنجاب میں گزرا ہے انھوں نے لفظ ’بکرا عید‘ ہزاروں مرتبہ سُنا اور بولا ہو گا۔ بچپن میں اس کی یہی توضیح ذہن میں آتی تھی کہ اس روز بکرا ذبح کیا جاتا ہے اس لئے یہ بکرا عید ہے۔ کچھ بڑے ہوئے تو اس طرح کے جُملے پڑھنے سننے کو ملے۔ ’میاں کبھی عید بکرید پر ہی مِل لیا کرو‘ اِس ’بکرید‘ کی کھوج میں نکلے تو پتہ چلا کہ یہ تو دراصل بقرعید ہے اور اس کا بکرے سے نہیں بقر (گائے ) سے تعلق ہے۔
عربی فارسی اور سنسکرت کے علاوہ بھی اُردو نے کئی زبانوں سے خوشہ چینی کی ہے لیکن ظاہر ہے کہ اُردو میں آ کر لفظوں کی شکل خاصی بدل گئی ہے۔ جیسے انگریزی کا سٹیمپ پیپر اُردو میں اشٹام پیپر اور بعد میں صرف ’اشٹام‘ رہ گیا۔ تُرکی کا چاغ اُردو میں آ کر چاق ہو گیا اور پُرتگالی زبان کا بالڈی اُردو میں آ کر بالٹی بن گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لبِ لباب یہ ہے کہ،،، آپ پہلے یہ تمیز سیکھ لیں کی لفظ پاکِستان۔۔ ہے پاکَستان نہیں۔۔۔ پھر مزید پر بھی بات کریں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیع رضا