نوبل لیکچر : نوبل انعام یافتہ ( 2009 ء) ہرٹا مُلر (Herta Müller)
’کیا تمہارے پاس رومال ہے؟‘، یہ وہ سوال تھا جو میری ماں ہر صبح گھر کے دروازے پر کھڑی، مجھ سے تب پوچھتی جب میں باہر سڑک پر نکلنے لگتی۔میرے پاس رومال نہ ہوتا۔۔۔اور چونکہ یہ میرے پاس نہ ہوتا میں واپس اندر جاتی اور ایک لیتی۔میں کبھی رومال لے کر نہ نکلتی کیونکہ میں ہمیشہ ان کے سوال پوچھے جانے کا انتظار کرنا چاہتی تھی۔رومال اس بات کا ثبوت تھا کہ میری ماں صبح کے وقت میرا خیال رکھتی تھی۔ دن کا باقی وقت میں اپنا خیال خود ہی رکھتی ۔ ’کیاتمہارے پاس رومال ہے؟‘ یہ سوال بلاواسطہ محبت کا اظہار تھا۔اس سے زیادہ پوچھنا اور براہ راست کچھ کہنا شاید خجالت کا موجب ہوتا اور ہم کسانوں میں اس کا رواج نہیں تھا۔محبت سوال کا روپ دھار لیتی تھی۔اس کا اظہار بس یونہی ہو سکتا تھا بلکہ حقیقت تو یہ تھی کہ یہی تحکمانہ لہجہ یا کہہ لیں ماہرانہ حکمت عملی کام کے لیے بھی برتی جاتی۔آواز میں موجود روکھا پن بہرحال شفقت کا غماز بھی ہوتا۔ میں ہر صبح ایک بار دروازے تک بغیر رومال کے جاتی اور دوسری بار رومال کے ساتھ۔میں پھر سڑک پر اس احساس کے ساتھ نکلتی جیسے رومال لے کر نکلنا ایسا ہو جیسے میں اپنی ماں کو ساتھ لے کر جا رہی ہوں۔
بیس سال بعد ، میں کافی عرصے سے اپنا خیال خود ہی رکھتے ہوئے ، ایک مینوفیکچرنگ پلانٹ میں بطور مترجم کام رہی تھی۔ میں صبح پانچ بجے اٹھتی۔ میرے کام کا آغاز ساڑھے چھ بجے ہوتا تھا۔ہر صبح فیکٹری کے صحن میں قومی ترانے کی آواز لاؤڈ سپیکر پر چیختی سنائی دیتی۔دوپہر کے وقت کارکن مل کر گیت گاتے۔وہ جب کھانے کے لیے بیٹھتے تو ان کی آنکھیں ٹین کی تھالیوں جیسی خالی ہوتیں اور ہاتھ تیل میں لبڑے ہوتے۔ان کا کھانا اخباری کاغذ میں لپٹا ہوتا۔اس سے پہلے کہ وہ اپنے چربی بھرے کھانے کا لقمہ لیں، انہیں اس کی اوپرلی تہہ سے اخباری سیاہی کو اتارنا پڑتا۔ دو سال اسی روٹین میں گزر گئے جن میں ہر دن دوسرے جیسا ہی تھا۔
تیسرے سال میں یہ روٹین ختم ہو گئی۔ ہفتے میں تین بار ایک ملاقاتی صبح کے وقت میرے دفتر میں آنے لگا۔یہ بھاری جُثے، چوڑی چکلی ہڈیوں اور چمکتی نیلی آنکھوں والا سیکریٹریٹ کا اہم شخص تھا۔
پہلی بار وہ وہاں کھڑا رہا، مجھے ڈانٹا ڈپٹا اور چلا گیا۔
دوسری بار اس نے اپنا ہوا روکنے والا لبادہ (وِنڈ بریکر) اتارا، اسے الماری کی چابی پر لٹکایا اور بیٹھ گیا۔ اس صبح میں گھر سے ٹیولپس کے کچھ پھول لے کر آئی تھی اور میں نے انہیں ایک گلدان میں سجا رکھا تھا۔ بندے نے مجھے دیکھا اور میری تعریف کی کہ مجھے لوگوں کی شخصیت خوب پہچاننی آتی ہے۔ اس کی آواز میں ٹھہراؤ نہ تھا۔ مجھے بے چینی سی محسوس ہوئی۔ میں نے اس کے تعریفی جملے کا یوں جواب دیا کہ میں ٹیولپس کے پھولوں کو تو سمجھتی ہوں لیکن لوگوں کو نہیں۔ اِس پر ، اُس نے کینہ بھرے انداز سے کہا کہ وہ مجھے اُس سے بھی زیادہ جانتا ہے جتنا کہ مجھے ٹیولپس کے بارے میں علم ہے۔ اس کے بعد اس نے اپنا ونڈ بریکر بازو پر لٹکایا اور چلا گیا۔
تیسری بار وہ بیٹھا لیکن میں کھڑی رہی کیونکہ اس نے میری کرسی پر اپنا بریف کیس رکھ دیا تھا۔ مجھ میں یہ ہمت نہیں تھی کہ میں اسے فرش پر رکھ سکوں۔ اس نے مجھے احمق کہا، یہ بھی کہا کہ میں اپنے کام سے پہلوتہی کرتی ہوں، پھوہڑ ہوں اور ایک آوارہ کُتیا کی طرح خراب (بدعنوان) ہوں۔ اس نے ٹیولپس والا گلدان میز کے کنارے پر سرکایا اور پھر ایک سادہ کاغذ اور ایک قلم میز کے درمیانی حصے پر رکھا۔ وہ مجھ پر چِلایا: ’لکھو۔‘ میں نے کھڑے کھڑے وہ سب لکھا جو اس نے کہا۔۔۔ اپنا نام، تاریخ پیدائش اور پتہ۔ آگے یہ کہ میں کسی کو نہیں بتاؤں گی چاہے وہ میرا ، کتنا ہی قریبی یا عزیز ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ اور یہ کہ میں۔۔۔ اور اس کے بعد وہ خوفناک لفظ تھا: کولیبوریز۔۔۔ میں معاون ہوں۔ اس پر پہنچ کر میں نے لکھنا بند کر دیا۔ میں نے قلم نیچے رکھا اور کھڑکی کے باہر گرد آلود سڑک اور مکانوں کو دیکھنے لگی۔ یہ کچی تھی اور یہ جابجا گڑھوں سے بھری تھی۔ مکان بھی خمیدہ پشت تھے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ اس سڑک کا نام ’سٹراڈا گلوریے‘۔۔۔ گلوری سٹریٹ تھا۔ اس گلوری سڑیٹ میں ایک بِلی گنجے مَلبری درخت پر بیٹھی تھی۔ یہ فیکٹری کی ٹوٹے کان والی بِلی تھی۔ بِلی کے اوپر نوخیز صبح کا سورج چمک رہا تھا جیسے زرد رنگ کا ڈھول ہو۔ میں نے کہا: ’نا۔ ایم کریکٹرل۔۔۔ میں ایسے کردار کی مالک نہیں ہوں۔‘ میں نے ایسا باہر گلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔ لفظ کردار نے سیکریٹریٹ سے آئے بندے کو ہذیانی کیفیت میں مبتلا کر دیا۔ اس نے کاغذ کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے فرش پر پھینک دیا۔ بعد میں شاید اسے احساس ہوا، وہ اپنے افسر کو کیا دکھائے گا کہ اس نے مجھے بھرتی کرنے کی کوشش تو کی تھی۔ وہ جھکا اور کاغذ کے ٹکڑے اٹھا کر اپنے بریف کیس میں رکھ لیے۔ اس نے پھر ایک گہری سانس لی اور شکست کا احساس ہوتے ہی ٹیولپس کا گلدان دیوار پر دے مارا۔ جیسے ہی گلدان ٹوٹ کر بکھرا اس نے پیسے جانے جیسی آواز پیدا کی، جیسے ہوا کے دانت ہوں۔ اس نے اپنا بریف کیس بازو تلے دبایا اور ہولے سے کہا: ’تمہیں اس بات کا افسوس ہو گا۔ ہم تمہیں دریا میں ڈبو دیں گے۔‘ میں نے جواب میں ایسے کہا جیسے خود سے مخاطب ہوں:’ اگر میں اس پر دستخط کرتی ہوں تو میں اپنی ذات میں پھر کبھی زندہ نہ رہ سکوں گی۔ مجھے یہ کام خود ہی سرانجام دینا پڑے گا اس لیے بہتر ہو گا کہ آپ ہی یہ کر ڈالو۔‘ اس وقت تک دفتر کا دروازہ کھل چکا تھا اور وہ چلا گیا تھا۔ باہر ’سٹراڈا گلوریے‘ میں فیکٹری کی بلی پیڑ سے چھلانگ مار کر ایک عمارت کی چھت پر جا چکی تھی اور درخت کی ایک شاخ ہوا میں جھول رہی تھی۔
ہمارے درمیان کھینچا تانی کا عمل اگلے روز سے ہی شروع ہو گیا۔ وہ مجھے فیکٹری سے نکالنا چاہتے تھے۔ مجھے ہر صبح ٹھیک ساڑھے چھ بجے ڈائریکٹر کے سامنے حاضر ہونا پڑتا۔ سرکاری لیبر یونین کا سربراہ اور پارٹی سیکٹریری بھی اس کے دفتر میں موجود ہوتے۔ جیسے کبھی میری ماں مجھ سے پوچھا کرتی تھی:’ کیاتمہارے پاس رومال ہے؟‘، اب ڈائریکٹر مجھ سے ہر صبح پوچھنے لگا:’ کیا تمہیں کوئی اور نوکری ملی؟‘ میں انہیں ہر صبح ایک ہی جواب دیتی: ’میں کوئی اور نوکری تلاش کر ہی نہیں رہی ، مجھے اسی فیکٹری میں کام کرنا پسند ہے اور میں تب تک یہیں کام کرنا چاہوں گی جب تک میں ریٹائر نہیں ہو جاتی۔‘
ایک صبح میں جب کام پر پہنچی تو معلوم پڑا کہ میری لغتوں کی موٹی جلدیں میرے کمرے کے باہر ہال کمرے میں فرش پر پڑیں ہیں۔ میں نے کمرے کا دروازہ کھولا۔ میرے ڈیسک پر ایک انجینئر بیٹھا تھا۔ اس نے کہا:’ لوگوں کو کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دستک دینی چاہیے۔ یہ میرا کمرہ ہے اور تمہارا یہاں کوئی کام نہیں ہے۔‘ میں گھر نہ جا سکی۔ کسی طرح کی وجہ بتائے بغیر غیر حاضر ہونا انہیں جواز مہیا کر سکتا تھا کہ مجھے نوکری سے نکال دیں۔ میرے پاس اب اپنا دفتر نہیں رہا تھا۔ مجھے اب یہ یقینی بنانا تھا کہ میں کام پر آئی تھی اور ایسا کچھ نہیں ہوا تھا کہ میں کام پر پہنچنے میں ناکام رہی تھی۔
میری ایک دوست، جسے میں نے گھر واپس جاتے ہوئے گردآلود سٹراڈا گلوریے میں چلتے ہوئے سب کچھ بتا دیا تھا، نے اپنے ڈیسک کا ایک کونا پہلے تو میرے لیے خالی کر دیا لیکن ایک صبح وہ اپنے دفتر کے باہر کھڑی ملی اور بولی: ’میں تمہیں اندر جانے نہیں دے سکتی۔ ہر بندہ یہ کہہ رہا ہے کہ تم مُخبر ہو۔‘ سراسیمگی نیچے تک پھیلائی جا چکی تھی۔ یہ افواہ میرے ساتھی کارکنوں میں بھی پھیلا دی گئی تھی۔ یہ سب سے بُری بات تھی۔ آپ ایک حملے کے خلاف تو اپنا دفاع کر سکتے ہیں لیکن آپ پر بہتان لگا دیا جائے تو آپ کے لیے کچھ کرنا محال ہوتا ہے۔ میں ہر روز تیار رہتی، میرے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا تھا یہاں تک کہ مجھے مارا بھی جا سکتا ہے۔ میں اپنے ساتھ ہوئے اس سلوک کو برداشت نہ کر پائی۔ میں خود کو تیارنہ کر پائی کہ اسے قابل برداشت بنا سکوں۔ بہتان آپ کے اندر گند بھر دیتا ہے۔ آپ کا دم گھٹنے لگتا ہے کیونکہ آپ اپنا دفاع نہیں کر پاتے۔ میں اپنے ساتھی کارکنوں کی نظروں میں ویسی ہی بنا دی گئی تھی جیسا بننے سے میں نے انکار کیا تھا۔ میں اگر ان کی جاسوسی کرتی تو وہ مجھ پر ہلکی سی ہچکچاہٹ کے بغیر بھروسہ کرتے رہتے۔ مختصر یہ کہ وہ مجھے اس لیے سزا دے رہے تھے کہ میں نے اپنے ساتھی کارکنوں کی مُخبری نہیں کرنی تھی۔
تب سے مجھے یہ یقینی بنانا تھا کہ میں کام پر آتی رہوں لیکن میرے پاس اپنے بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں تھی اور میری دوست اپنی جگہ پر مجھے مزید بٹھا نہیں سکتی تھی۔ میں سیڑھیوں پر کھڑی رہتی اور مجھے کچھ نہ سوجھتا کہ میں کیا کروں۔ میں سیڑھیوں پر اوپر نیچے کچھ چکر لگاتی رہتی اور پھر اچانک میرے اندر وہ بچی عود آئی جو اپنی ماں کی بچی تھی کیونکہ میرے پاس ایک رومال تھا۔ میں نے اسے دوسری اور تیسری منزل کے درمیان سیڑھیوں کے ایک اڈے پر بچھایا، احتیاط سے اُسے سنوارا اور اس پر بیٹھ گئی۔ میں نے اپنی موٹی لغتیں اپنے گھٹنوں پر رکھیں اور ہائیڈرولک مشینوں کی تفصیلات ترجمہ کرنی شروع کر دیں۔ میں سیڑھیوں کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بنی اور میرا دفتر فقط ایک رومال بن گیا۔ دوپہر کے کھانے کے وقت میری دوست میرے پاس آ جاتی اور ہم مل کر اسی طرح کھانا کھاتے جیسے اس کے دفتر میں کھاتے تھے اور اس سے پہلے ہم میرے کمرے میں کھایا کرتے تھے۔ صحن میں لگے لاوڈسپیکر سے کارکن اسی طرح ’لوگوں کی خوشیوں‘ کے بارے میں گیت گاتے جیسے وہ ہمیشہ سے گاتے آئے تھے۔ میری دوست کھانا کھاتے ہوئے میرے لیے روتی لیکن میں نہ روتی۔ مجھے لمبے عرصے کے لیے مضبوط اور کڑا رہنا تھا۔ یہ کبھی نہ ختم ہونے والے ہفتے تھے اور پھر آخر انہوں نے مجھے برطرف کر دیا۔
اس وقت کے دوران جب میں سیڑھیوں پر بیٹھی مذاق بنتی رہی، میں نے لفظ ’سیڑھی‘ لغت میں دیکھا۔ پہلے قدمچے کو’سٹارٹنگ قدمچہ‘ یا’کرٹیل قدمچہ‘ کہتے ہیں، اسے بیل کی ناک بھی کہا جاسکتا ہے۔ ’ہاتھ‘ وہ سمتی اشارہ ہے جو سیڑھی کے پہلے قدمچے پر ہوتا ہے۔ پہلے قدمچے کے پھیلاؤ کے کنارے کو ’نوزنگ‘ کہتے ہیں۔ میں پہلے سے ہی تیل سے لبڑی ہائیڈرولک مشینوں کے پرزوں کے بہت سے خوبصورت ناموں سے واقف تھی: فاختہ کی دُم، ہنس کی گردن، بلوطی نٹ اور آنکھ جیسے بولٹ۔ اب مجھے سیڑھی کے مختلف حصوں کے بارے میں شاعرانہ ناموں اور اس کی تکنیکی زبان نے بھی حیران کر دیا تھا۔ ناک اور ہاتھ۔۔ تو سیڑھی کا بھی ایک جسم ہوتا ہے۔ چاہے یہ لکڑی یا پتھر سے بنائی جائے، سیمنٹ یا لوہے کی ہو۔ میں سوچتی کہ انسان کیوں اپنے چہرے کو دنیا کی بے ڈھنگی ترین چیزوں پر لاگو کرنے پر اصرار کرتا ہے۔ وہ کیوں بے جان مادے کو اپنی جیتے جاگتے ، گوشت پوست کے نام دیتا ہے اور ایسے ظاہر کرتا ہے کہ یہ اس کے جسم کا حصہ ہیں؟کیا یہ پوشیدہ شفقت اس لیے ضروری ہے کہ سخت جانی کے کام کو مستریوں کے لیے قابل برداشت بنا سکے؟ کیا ہر کھیتر میں کام اسی اصول پر مبنی ہوتا ہے جیسا کہ یہ میری ماں کے اس سوال میں پوشیدہ تھا جو رومال کے بارے میں تھا؟
میں جب چھوٹی تھی تو ہمارے گھر میں رومالوں کا ایک خانہ تھا۔ اس میں دو قطاریں تھیں اور یہ تین ڈھیروں میں منقسم تھیں۔
بائیں طرف مردوں کے رومال تھے، یہ میرے والد اور دادا کے لیے تھے۔
دائیں طرف عورتوں کے رومال تھے۔ یہ میری ماں اور دادی کے لیے تھے۔
درمیان میں بچوں کے رومال تھے۔ یہ میرے لیے ہوتے تھے۔
یہ دراز رومالوں کی شکل میں ہمارا خاندانی پورٹریٹ تھا۔ مردوں کے رومال سب سے بڑے تھے جن کے کناروں پر بھوری، سلیٹی یا پھرعنابی دھاریاں ہوتیں۔ عورتوں کے رومال ان سے چھوٹے ہوتے اور اس کے کناروں پر نیلی، لال یا سبز دھاریاں ہوتیں۔ بچوں کے رومال سب سے چھوٹے ہوتے۔ ان کے کناروں پر کچھ نہ ہوتا یہ سفید مربع شکل کے ہوتے اور ان پر پھول یا جانور بنے ہوتے۔ تینوں طرح کے یہ رومال سامنے والی قطار میں تین حصوں میں منقسم ہوتے۔ یہ روزمرہ کے استعمال کے لیے تھے۔اتواروں اور خاص موقعوں کے لیے برتے جانے والے پچھلی قطار میں ہوتے۔ اتواروں کو آپ کے رومال کا رنگ آپ کے کپڑوں جیسا ہوتا چاہے یہ کچھ زیادہ ، نظروں میں نہ آنے والا ہی کیوں نہ ہو۔
ہمارے گھر میں کوئی اور شے جن میں ہم بھی شامل تھے، اتنی اہم نہ تھی جتنا کہ یہ رومال۔ ان کا استعمال آفاقی تھا۔ زکام میں ناک پونچھنے کا عمل ہو، نکسیر پھوٹی ہو، زخمی ہاتھ، کہنی یا گھٹنہ ہو، رونا ہو یا رونے کے دوران ہچکیوں کو دبانے کے عمل میں اسے دانتوں سے کاٹنا ہو، یہ سب میں برتا جاتا تھا۔ ٹھنڈا اور گیلا رومال سر درد اور بخار میں ماتھے پر رکھنے کے کام بھی آتا تھا۔ چاروں کونوں سے باندھ کر سر پر رکھ لیں تو یہ دھوپ اور بارش سے بچاؤ کا کام بھی دیتا۔ اگر آپ نے کسی شے کو یاد رکھنا ہو تو اس پر ایک گرہ لگا دینے سے یہ آپ کی یادداشت کے لیے بھی کام کرتا۔ بھاری تھیلے اٹھانے کے لیے اسے آپ اپنے ہاتھ کے گرد لپیٹ لیتے۔ جب ریل گاڑی سٹیشن سے چھوٹتی تو آپ اسے ہلا کراس سے الوداع کہنے کا کام بھی لیتے۔ آنسو کا لفظ چونکہ ہمارے ’بنات‘ کے لہجے میں رومانیہ کی زبان میں ٹرین کے مترادف ہے، اس لیے مجھے بوگیوں کے پٹڑی پر رگڑ کر گھِسٹنے کی آواز ہمیشہ سے رونے کی آواز لگتی ہے۔ اگر گاؤں میں کوئی گھر میں مر جاتا تو فوراً ہی اس کی تھوڈی کے گرد رومال باندھ دیا جاتا تاکہ اُس دوران منہ بند رہ سکے جب نعش کے پٹھے کھچ رہے ہوتے ہیں۔ شہروں میں اگر کوئی شخص سڑک کنارے مر جائے تو کوئی نہ کوئی راہ گزر ہمیشہ رومال لیتا ہے اور اس بندے کا منہ اس سے ڈھک دیتا ہے تاکہ اس مرے بندے کی پہلی جگہ اس کے لیے امن و شانتی کا گہوارہ بن سکے۔
کڑک گرمیوں کے دنوں میں، شام کے وقت، والدین اپنے بچوں کو قبرستان بھیجتے تاکہ وہ پھولوں اور پودوں کو پانی دے سکیں۔ ہم دودو تین تین کی ٹولیوں میں ساتھ ساتھ رہتے، جلدی سے ایک قبرکے بعد دوسری کو پانی دیتے۔ اس کے بعد ہم گرجا گھر کے قدمچوں پر بیٹھ جاتے اور کچھ قبروں سے سفید دھند کے لچھے اٹھتے دیکھتے۔ یہ کچھ اوپر تک اٹھتے اور پھر تاریکی میں غائب ہو جاتے۔ ہمارے لیے یہ مرے ہوؤں کی روحیں ہوتیں جو جانوروں، چھوٹی بوتلوں، کپوں، دستانوں اور جرابوں کی شکل میں کانچ کی مانند ہمیں نظر آتیں۔ وہیں ہمیں کہیں کہیں سفید رومال بھی نظر آتے جن کے کناروں پر رات کی سیاہی نے اپنی سرحد قائم کی ہوتی۔
بعد میں، جب میں ’ آسکر پیسٹی اور‘ (Osker Pastior) کے ساتھ ملاقاتیں کر رہی تھی تاکہ سوویت لیبر کیمپ میں اس کی جلاوطنی بارے میں لکھ سکوں تو اس نے مجھے بتایا کہ ایک بزرگ روسی ماں نے اسے سفید مَلمَل کا بنا ایک رومال دیا۔ ’شاید تم دونوں ایک دوجے کے لیے خوش قسمت ثابت ہو۔‘، روسی ماں نے کہا، ’اور تم اپنے گھر واپس جا سکو اور میرا بیٹا بھی واپس آ جائے۔‘ اس کا بیٹا بھی آسکر پیسٹی اور کی عمر کا تھا۔۔۔ اور گھر سے اتنا ہی دور تھا جتنا کہ آسکر، لیکن وہ مخالف سمت میں جرمانہ وصول کرنے والی بٹالین میں تھا۔ اس نے آسکر کو بتایا تھا۔ آسکر نے اس کے دروازے پر دستک دی تھی۔ وہ اس وقت بھوک سے ادھ موا ایسا بھکاری تھا جو کوئلے کی ایک گانٹھ کے عوض اس سے کھانے کے لیے کچھ مانگ رہا تھا۔ اس نے آسکر کو اندر آنے دیا اور اسے گرم سوپ پینے کو دیا۔۔۔ اور جب اس نے دیکھا کہ آسکر کا ناک بہہ کر سوپ کے پیالے میں گر رہا تھا تو اس نے اسے ململ کا سفید رومال دیا جسے پہلے کسی نے استعمال نہیں کیا تھا۔ اس کے کناروں پر کڑھائی تھی ۔ اس پر شاخیں اور گلاب جیسی شکلیں مہارت اور باریکی سے ریشمی دھاگے کے ساتھ کاڑھی گئی تھیں۔یہ رومال ایک ایسی خوبصورت شے تھا جس نے نہ صرف آسکرپیسٹی اور کو اپنے ساتھ لگایا بلکہ اس کومجروع بھی کیا۔ یہ ایک مرکب تھا۔ اس میں مَلمَل کی بُنت آسودگی کے لیے تھی جبکہ اس پر ریشمی کڑھائی میں اس کی پیرانہ سالی پنہاں تھی۔ عورت کے لیے بھی آسکر خود بھی ایک مرکب ہی تھا۔ وہ ایک طرف اس کے لیے گھر آیا ایسا بھکاری تھا جسے دنیا درکار نہ تھی اور دوسری طرف وہ دنیا میں ایک گمشدہ بچہ تھا۔ اس کی شخصیت کے دونوں رخ عورت کے اس سلوک پر خوش تھے اور اس نے اس میں جوش بھر دیا تھا۔ ایسا ہی کچھ عورت کے ساتھ بھی تھا۔ وہ ایک انجانی روسی عورت تھی اور ایسی پریشان ماں بھی جس کے پاس یہ سوال تھا: ’کیاتمہارے پاس رومال ہے؟‘
جب سے ، میں نے یہ کہانی سنی تب سے میں خود سے یہ سوال پوچھتی آئی ہوں کیایہ سوال’کیاتمہارے پاس رومال ہے؟‘ ہر جگہ پر لاگو ہوتا ہے۔کیا اس کا پھیلاؤ آدھی دنیا پر ہے جہاں جَمنے اور مائع ہو جانے کے درمیان برفیلی چمک چھائی ہے؟کیا یہ پہاڑوں اور میدانوں سے ہوتا ہر سرحد پار کرتا ہے۔ کیا یہ سارا راستہ طے کرتا اُس بڑی سلطنت میں بھی جا پہنچتا ہے جہاں سزا کے طور بنائے گئے مشقتی کیمپ جابجا بکھرے ہیں؟ کیا اس سوال ’کیا تمہارے پاس رومال ہے؟‘ سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے، چاہے آپ کے پاس ہتھوڑا اور درانتی ہو، چاہے ہر جا سٹالن کے وہ کیمپ ہوں جن میں تعلیم ِ نو دی جا رہی ہو؟
میں گو رومانین زبان کئی دہائیوں سے بولتی آئی تھی لیکن مجھے آسکر سے بات کرتے ہوئے احساس ہوا کہ رومال کے لیے اس زبان میں لفظ ’بیٹسٹا‘ تھا۔ یہ ایک اور مثال ہے کہ رومانین زبان حواس خمسہ سے کس طرح جُڑی ہوئی ہے اور یہ اشیاء کی گہرائیوں سے شقاوت کے ساتھ اپنے لیے الفاظ بناتی ہے۔ مادہ خود سے انحراف نہیں کرتا بلکہ یہ خود کو بنی بنائی حالت میں پیش کرتا ہے، جیسے رومال ہے، جیسے ’بیٹسٹا‘ ہے اور سارے رومال جب بھی اور جہاں کہیں ہوں ، مَلمَل سے ہی بنتے ہوں۔
’ آسکر پیسٹی اور ‘ نے اس رومال کو اپنے بکسے میں ایک دہری ماں کے تبرک کے طور پر محفوظ کر لیا جس کے پاس ایک دہرا بیٹا تھا۔ وہ اسے پانچ سال کیمپوں میں رہنے کے بعد ساتھ لیے گھر لوٹا، اس لیے کہ یہ سفیدململی رومال خوف اور امید سے جُڑا تھا۔ جب آپ ایک بار خوف اور امید کا دامن چھوڑ دیتے ہیں تو آپ مر جاتے ہیں۔
رومال بارے گفتگو کے بعد میں نے نصف شب ایک سفید کارڈ پر آسکر کے لیے ایک لفظی کولاج چسپاں کرنے میں گزاری:
یہاں نکتے رقصاں ہیں، بیا کہتا ہے
تم دودھ کے اک تنے جیسے لمبے گلاس میں بہے آتے ہو
سبزی مائل سلیٹی زنک کے ٹب میں سفید کپڑے ہیں
تقریباً ساری اشیاء
جب پہنچائی جاتی ہیں تو ایک سی ہوتی ہیں
یہاں دیکھو
میں ریل گاڑی کی سواری کی مانند ہوں اور
چیری اک صابن دانی میں ہے
اجنبی مردوں سے بات مت کرو
اور نہ ہی ’سوئچ بورڈ‘ پر کچھ کہو
بعد میں،میں جب اُس ہفتے یہ کولاج اسے دینے کے لیے گئی تو اس نے کہا: ’تمہیں اس پر یہ بھی چسپاں کرنا چاہیے تھا؛ ’آسکر کے لیے‘ میں بولی:’میں جو بھی تمہیں دیتی ہوں یہ تمہارا ہوتا ہے۔‘وہ بولا: ’تمہیں اس پر یہ چسپاں کرنا ہی چاہیے کیونکہ کارڈ شاید یہ نہ جانتا ہو۔ ‘ میں اسے گھر واپس لے آئی اور اس پر ’آسکر کے لیے‘ کے الفاظ چسپاں کیے۔۔۔ اور پھر میں نے اسے یہ اگلے ہفتے دیا۔ یہ ایسے ہی تھا جیسے میں پہلے دروازے سے رومال کے بغیر باہر نکل گئی تھی اور پھر دوسری بار رومال کے ساتھ نکلی۔
ایک اور کہانی رومال کے ساتھ ختم ہوتی ہے:
میرے دادا دادی کا معاذ نامی ایک بیٹا تھا۔ اسے 1930 کی دہائی میں ’کاروبار‘ کی تعلیم کے لیے تمسوآرا (Timisoara) بھیجا گیا تاکہ وہ واپس آ کر خاندان کے گراسری سٹور اور گندم کے کاروبار کو سنبھال سکے۔ اس سکول میں جرمن رایخ کے استاد تھے جو پکے نازی تھے۔ معاذ کو ساتھ ساتھ تاجر بننے کی تربیت بھی دی جا سکتی تھی لیکن اسے نازی بننا ہی سکھایا گیا۔۔۔ اس کا ذہن منصوبہ بندی سے اس طرف ڈھالا گیا۔ اس نے جب تعلیم مکمل کی تو وہ پکا اور جوشیلا نازی بن چکا تھا اور بالکل بدل گیا تھا۔ وہ یہود مخالف نعرہ بازی کرتا اور جس طرح کم عقلوں کو نہیں سمجھایا جا سکتا اسی طرح اس کو بھی سمجھانا ممکن نہ تھا۔ میرے دادا نے اسے کئی بار ڈانٹا ڈپٹا۔ ان کی ساری خوش قسمتی ان قرضوں پر مبنی تھی جو ان کے یہودی دوستوں نے انہیں دے رکھے تھے۔ جب ڈانٹ ڈپٹ کام نہ آئی تو دادا کو کئی بار اس کے کانوں پر گھونسے مارنے پڑے لیکن معاذ کی عقل ماری گئی تھی اور کوئی منطقی بات اسے سمجھ نہ آتی۔ وہ گاؤں میں ایک نظریہ ساز کا کردار ادا کرنے لگا تھا۔ وہ اپنے ہم سروں پر چیختا چِلاتا جو محاذ ِ جنگ پر نہ جانے کے لیے بہانے تراشتے۔ وہ رومانین فوج کے ساتھ ایک دفتری نوکری کر رہا تھا۔ اسے بہرحال یہ خواہش ہوئی کہ وہ بھی نظریہ سازی کی بجائے کوئی عملی کام کرے۔ اس نے لہذٰا خودکو ’SS‘ کے لیے بطور رضاکار پیش کیا اور محاذ پر جانے کی درخواست کی۔ وہ چند مہینوں کے بعد ہی شادی کے لیے گھر لوٹ آیا۔ محاذ پر ہوتے جنگی جرائم دیکھ کر اس کو کچھ عقل آ گئی تھی۔ اس نے اس زمانے میں رائج جادوئی فارمولے کو اپنایا اورکچھ دِنوں کے لیے جنگ سے فرار حاصل کر لیا۔ یہ جادوئی فارمولا ’شادی کی چھٹی‘ کہلاتا تھا۔
میری دادی ماں نے اپنے بیٹے معاذ کی دو تصویریں دراز میں سنبھال کر رکھی ہوئی تھیں۔ ایک شادی کی تصویر تھی جبکہ دوسری اس کی موت کی تھی۔ شادی کی تصویر میں دلہن نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے۔ وہ معاذ سے قد میں ہاتھ برابر لمبی تھی۔ وہ پتلی دبلی اور سنجیدہ و مخلص لگتی تھی۔۔۔ جیسے میڈونا کا مجسمہ ہو۔ اس کے سر پر ایک مومی تاج تھا جیسے برف ہو۔۔۔ یہ پتوں کے ایک جھرمٹ جیسا تھا۔ اس کے ساتھ معاذ اپنے نازی یونیفارم میں تھا، ایک فوجی نا کہ خاوند، جیسے دلہن کا محافظ ہو ناکہ دلہا۔ جیسے ہی وہ محاذ پر لوٹا، جلد ہی اس کی موت کی تصویر آ گئی۔ یہ ایک ایسے بیچارے فوجی کی تصویر تھی جس کے، ایک بارودی سرنگ نے ، پرخچے اڑا دئیے تھے۔ موت کی یہ تصویر ہاتھ کے سائز کی تھی۔اس کی سیاہی کے برعکس ہلکے سلیٹی رنگ میں انسانی باقیات کا ایک ڈھیردیکھا جا سکتا تھا جو ایک سفید کپڑے پر پڑا تھا۔ سیاہی کے الٹ سفید کپڑے کا پھیلاؤ اتنا چھوٹا دکھائی دیتا تھا جیسے ایک بچے کا رومال ہو۔۔۔ ایک ایسا مربع شکل کا رومال جس پر وسط میں عجیب سا ڈیزائن بنا ہو۔ میری دادی کے لیے بھی یہ ایک مرکب تھا: سفید رومال پر ایک مرا ہوا نازی، جبکہ ان کی یادوں میں وہ ایک بیٹا تھا۔ میری دادی نے اس دہری تصویر کو اپنی عبادتی کتاب میں ساری زندگی رکھے رکھا۔ وہ ہر روز عبادت کیا کرتیں اور یقیناً ان کی عبادت کے بھی دو مطلب تھے۔ وہ پہلے اس بات کو تسلیم کرتی ہوں گی کہ ان کا بیٹا پہلے پیارا بیٹاتھا لیکن بعد میں نازی ہو گیا تھا۔۔۔ اور پھر شاید وہ خدا سے التجا کرتی ہوں گی کہ وہ بھی ان کے بیٹے سے محبت کرے اور نازی کو معاف کر دے۔
میرے دادا پہلی عالمی جنگ میں فوجی رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کیا کہہ رہے ہیں، جب وہ اپنے بیٹے معاذ کے حوالے سے بات کرتے۔ وہ اکثر تلخی سے کہتے: ’جب جھنڈے پھڑپھڑانے لگتے ہیں تو عقل ِ عمومی پھسل کر ٹرمپٹ میں چلی جاتی ہے۔‘ ان کی یہ تنبہہ اس آمریت پر بھی منطبق ہوتی ہے جسے میں نے بھگتا۔ ہر روز ہم چھوٹے بڑے منافع خوروں کی عقل ِ عمومی کو ٹرمپٹ کے اندرگرتے دیکھتے۔۔۔ وہ ٹرمپٹ جس کے بارے میں، میں نے فیصلہ کیا تھا کہ اسے نہ بجاؤں۔
میں جب بچی تھی تو میں نے اپنی خواہش کے خلاف، اکارڈین بجانا سیکھا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے گھر میں مرحوم فوجی معاذ کا لال رنگ کا اکارڈین موجود تھا۔ اس کی پٹیاں میرے لیے بہت لمبی تھیں۔ یہ میرے کندھوں سے نہ پھسلیں اس کے لیے میرے اکارڈین کے استاد نے انہیں ایک رومال سے میری کمر پر باندھ دیا تھا۔
کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ چھوٹی اشیاء ہیں، چاہے یہ ٹرمپٹ ہوں، اکارڈین ہوں یا کہ رومال ہوں۔۔۔ یہ جو زندگی میں ایک دوجے سے انتہائی مختلف چیزوں کو آپس میں نتھی کرتی ہیں؟ اور یہ کہ یہ اشیاء مدار میں ہیں اور ان کے انحراف بار بار دہرائے جانے کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔۔۔ بدی کا چکر یا جسے ہم جرمن زبان میں ’شیطانی چکر‘ کہتے ہیں۔ ہم اس پر یقین تو کر سکتے ہیں لیکن اس کو کہہ نہیں سکتے۔ پھر بھی وہ سب جو نہیں کہا جا سکتا ، لکھا تو جا سکتا ہے اس لیے کہ لکھنا ایک خاموش عمل ہے، یہ سر سے ہاتھ تک پہنچنے کی محنت ہے۔ ایسی محنت جس میں منہ کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ میں آمریت کے دوران بہت بولتی رہی ہوں، زیادہ تر اس لیے کہ میں نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ میں نے ٹرمپٹ نہیں بجانا۔ میری گفتگو، عام طور پر مجھے اذیت ناک حالات سے دوچار کر دیتی لیکن لکھنا خاموشی میں شروع ہوا۔ یہ سیڑھیوں پر ہوا تھا جب مجھے یہ سمجھ آئی تھی کہ کہنے سے بہتر لکھنا ہے۔جو کچھ ہو رہا تھا، اسے تقریروں میں مزید بیان نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ زیادہ سے زیادہ ’جزو‘ اوربیرونی لوازمہ تھا لیکن سارے واقعات کا اپنے آپ میں ’کُل‘ نہیں تھا۔ میں اسے اپنے دماغ میں، بِنا بولے، الفاظ کے گھماؤ پھیراؤ کے ساتھ تبھی بیان کر سکتی تھی، جب میں لکھ رہی ہوتی۔ میں نے موت کے جیسے خوف کے ساتھ زندگی کی چاہ کے لیے رد عمل دکھایا۔ یہ الفاظ کی بھوک تھی۔ کچھ اور نہیں، یہ الفاظ کا تیز گھماؤ ہی تھا جو میری صورت حال کو قابو کر سکتا تھا۔ اس چکر نے وہ کچھ اگلا جو منہ ادا نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے واقعات کا پیچھا کیا، انہیں الفاظ میں، ان کے شیطانی گھماؤ کو پکڑا اور تب تک اس عمل کو جاری رکھا جب تک ان کی کوئی شکل نہ بن گئی، ایسی شکل جسے میں پہلے نہ جانتی تھی۔ یوں حقیقت کے متوازی، الفاظ کے ’پینٹو مائم‘ یوں حرکت میں آنے لگے جنہوں نے اصل سمتوں کی بھی پرواہ نہ کی۔ انہوں نے سب سے اہم کو سکیڑا اور چھوٹی سے چھوٹی بات کو پھیلا کر طول دیا۔ جوں جوں یہ دیوانہ وار آگے دوڑے تو الفاظ کے اس ظالم چکر نے اس سب پر ایک طرح کی لعنتی منطق بٹھا دی جس کو جیا گیا ہے۔ ان کا پینٹومائم بے رحم اور بے چین کر دینے والا ہے جس میں مزید کچھ کرنے کی آرزو ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ فوراً ہی تھکا بھی دیتا ہے۔ آمریت کا موضوع اس میں لازماً موجود ہے کہ اس کے سوا کچھ ہو نہیں سکتاجس نے ہم سب کی ان صلاحیتوں کو لوٹ لیا تھا جس سے چیزوں کو ان کے درست تناظر میں دیکھا جا سکتا۔ جب الفاظ مجھ پر قابو پا لیتے ہیں تو اس موضوع نے تو اس میں در آنا ہی ہوتا ہے۔ یہ اسے گھیر گھار کر اپنی مرضی سے اسے کہیں بھی لا بٹھاتے ہیں۔بظاہر اس کا کوئی تُک نہیں ہوتا لیکن یہ سب سچ ہوتا ہے۔
میں جب سیڑھیوں کی وجہ سے مذاق بنی تھی تو میں اتنی تنہا تھی جیسے میں ایک ایسی بچی تھی جودریا کے بیلے میں گائے بھینسوں کی دیکھ بھال کر رہی تھی۔ میں پتے اور پھول کھاتی تاکہ میں ان سے جُڑ سکوں کیونکہ وہ زندہ رہنا جانتے تھے اور میں اس سے بے خبر تھی۔ میں انہیں ان کے نام سے بلاتی: ’دودھیا گوکھرو‘ کا مطلب بنتا تھا، ایسا خار دار پودا جس کے ڈنٹھلوں میں دودھ ہو۔ لیکن پودا اپنے اس نام کو سنتا ہی نہ تھا۔ میں نے یہ جان کر کوشش کی کہ ایسے نام گھڑوں جن میں نہ دودھ کا ذکر ہو اور نہ ہی ڈنٹھل کا: ’تھارن رِب (کانٹوں کی پسلیوں والا)، ’نیڈل نیک‘ (سوئی کی گردن والا )۔ یہ گھڑے نام میرے اور پودے کے درمیان فاصلے کو ننگا کر دیتے اور یہ اس فاصلے کو پاتال میں لے جا کر کھولتے۔ یہ خود سے باتیں کرنے کی تضحیک ہوتی لیکن پودے سے بات کرنے میں یہ نہ ہوتی لیکن میرے لیے یہ تضحیک اچھی ہوتی۔ میں گائے بھینسوں کی دیکھ بھال کرتی اور الفاظ کا صوتی اثر میری۔ مجھے محسوس ہوتا:
ہر لفظ اپنے چہرے مہرے میں
سفاک گھمن گھیر کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتا ہے
لیکن اسے ادا نہیں کرتا
الفاظ کی صوت کو پتہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس دھوکہ دینے کے سوا اور کچھ نہیں ہے کیونکہ اشیاء بھی اپنے مادوں سے دھوکہ دیتی ہیں اور احساسات بھی اپنے اشاروں سے گمراہ کرتے ہیں۔ الفاظ کی صوت اور اپنی ایجاد کردہ اِس صوت کی سچائی ایک مشترکہ بیرونی سطح پر رہتی ہیں جہاں سے مادوں کی دھوکہ دہی اور اشارے سامنے آتے ہیں۔ لکھنے میں اعتماد کا مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ اِس میں فریب دینے کی ایمانداری کا ہوتا ہے۔
میں پیچھے مڑ کر دیکھوں تو جب میں فیکٹری میں سیڑھیوں پر مذاق بنی ہوئی تھی اور میرا رومال ہی میرا دفتر تھا ، میں نے خوبصورت لفظ، ’ سٹیپِن وٹز ‘ یا بڑھتے سود کی شرح کو دیکھا، جب کسی قرضے کے سود کی شرح اسی طرح اوپر چڑھتی ہے جیسے سیڑھیوں کے قدمچے پھلانگے جاتے ہیں۔ [ جرمن میں اسے ’سٹیئر انٹرسٹ‘ (Stair Interest) کہا جاتا ہے۔] یہ اوپر چڑھتے سودوں کی شرحیں ایک بندے کے لیے ’قیمت‘ ہوتی ہیں جبکہ دوسرے کے لیے’آمدن‘۔ میں جیسے جیسے متن کو کھودتی گہرائی میں گئی تو مجھے یہ دونوں نظر آئے۔ میں نے جوں جوں اپنے لکھے کو گہرائی سے دیکھا مجھے وہ سب نظر آنے لگا جو اُس تجربے میں سے غائب تھا جسے میں نے جیا تھا۔ یہ دریافت لفظوں کے ذریعے ہی ممکن تھی کیونکہ اس سے پہلے انہیں اس کا خود بھی علم نہ تھا۔۔۔ اور جہاں کہیں انہوں نے جیئے گئے تجربے کو اچانک پکڑ لیا تھا وہیں یہ ’بہترین‘ کا عکاس ثابت ہوئے۔۔۔ اور آخر میں یہ اتنے بااثر نظر آئے کہ جیئے گئے تجربے کے ساتھ وہ یوں چمٹے رہیں کہ اس سے الگ ہو کر کہیں نیچے نہ گر جائیں۔
مجھے لگتا ہے کہ اشیاء کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس مادے/ مادوں سے بنی ہیں۔ ان کے اظہارئیوں کو ان کے احساسات کا علم نہیں ہوتا اور الفاظ کے پاس ایسا منہ ہی نہیں ہوتا جس سے ان کو ادا کیا جا سکے۔۔۔ لیکن اپنے وجود کے بارے میں یقینی ہونے کے لیے، ہمیں اشیاء، اظہارئیوں اور الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ آخر یہ بھی تو ہے کہ ہمیں جتنے زیادہ الفاظ لینے کی اجازت ہوتی ہے، ہم اتنے ہی زیادہ آزاد ہوتے جاتے ہیں۔ اگر ہمارے بولنے پر پابندی لگ جاتی ہے تو ہم اشاروں بلکہ اشیاء کے سہارے اپنا آپ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی تشریح کرنا مزید مشکل ہو جاتا ہے اور ’ ان ‘ کے مشکوک لگنے میں وقت لگتا ہے۔ یہ ہمارے مددگار ثابت ہوتے ہیں کہ ہم اپنی ہتک کو ایک طرح کے فخر میں بدل سکیں اور اسی میں وہ وقت لگتا ہے جو شک کو اُسارتا ہے۔
رومانیہ سے ہجرت کرنے سے کچھ ہی پہلے ایک صبح، گاؤں کا ایک پُلسیا میری ماں کے پاس آیا۔ اس کے ساتھ ایسا تب ہوا جب وہ پہلے ہی دروازے میں کھڑی تھیں۔ ’کیا تمہارے پاس ایک رومال ہے؟‘ ان کے پاس نہیں تھا۔گو وہ پُلسیا بے صبرا ہو رہا تھا لیکن وہ پھر بھی رومال لینے کے لیے واپس اندر گئیں۔ پولیس سٹیشن پر پُلسیا غصے سے چِلایا۔ میری ماں کو بہت کم رومانین آتی تھی۔ انہیں سمجھ نہ آئی کہ وہ کیوں چِلا رہا تھا۔ وہ جِھلا کرکمرے سے باہر نکلا اور دروازے کو باہر سے بند کر دیا۔ میری ماں تالا بند کمرے میں وہاں سارا دن رہی۔ پہلے کچھ گھنٹے وہ وہاں اس کے ڈیسک پر بیٹھی روتی رہی۔ اس نے پھر کمرے میں اِدھر اُدھر چکر لگائے اور اپنا آنسوؤں سے بھیگا رومال استعمال کرتے ہوئے فرنیچر کی گرد صاف کرنا شروع کر دی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک کونے میں پڑی بالٹی سے پانی اور دیوار پر لگی کھونٹی سے تولیہ لیا اور فرش پر پوچا لگانا شروع کر دیا۔ جب انہوں نے مجھے تبایا تو میں خوفزدہ ہو گئی: ’آپ کیسے یوں، اس کے لیے، اس کا دفتر صاف کر سکتی تھیں۔‘، میں نے پوچھا۔ انہوں نے کسی الجھن کے بغیر کہا: ’میں وقت گزاری کے لیے کوئی کام کرنا چاہتی تھی اور وہ دفتر بہت ہی گندہ تھا۔ اچھی بات یہ ہوئی تھی کہ میں بڑے مردوں والے رومالوں میں سے ایک لے کر گئی تھی۔‘
مجھے تبھی یہ بات سمجھ میں آئی کہ اس اضافی، لیکن رضاکارانہ طور پر اختیار کی گئی ہتک کے ذریعے انہوں نے حراست میں ہوتے ہوئے، اپنے لیے کچھ عزت کمانے کی سعی کی تھی۔ میں نے کوشش کی کہ کچھ ایسے الفاظ تلاش کروں کہ ان کا کولاج بنا سکوں:
میں نے سوچا کہ میرے دل میں ایک توانا گلاب ہے
میں نے بیکار روح کے بارے میں سوچا جو چھلنی کی مانند ہے
لیکن نگران نے پوچھا:
کون برتر رہے گا
میں نے کہا: جلد کا بچاؤ
وہ چِلایا: جلد تو کچھ بھی نہیں
یہ تو بے عزت کیا گیا ململ کا ایک ٹُکڑا ہے
جس میں عقل ِ عمومی بھی نہیں
میری اِچھا ہے کہ میں ان سب کے لیے ایک جملہ کہہ سکوں جنہیں آمریت اب تک ، ہر روز ان کے وقار سے محروم کرتی رہی ہے اور حال میں بھی کر رہی ہے۔۔۔ ایک جملہ جس میں شاید رومال کا لفظ ہو۔ یا پھر یہی سوال ہی سہی: ’کیا تمہارے پاس رومال ہے؟‘
[ ہرٹا مُلر نے اپنا یہ ’نوبیل لیکچر Jedes Wort weiß etwas vom Teufelskreis، ہر شبد طاٖغوتی چکر سے کچھ تو شناسا ہوتا ہے ( لفظی مطلب ) ۔ 7،دسمبر2009 ء کو سویڈش اکیڈیمی، سٹاک ہوم میں جرمن زبان میں دیا تھا۔ ]
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...