مصر کا یونانی حکمران بطلیموس مقدونیہ کے فرمان روا شاہ فیلقوس کا بیٹا اور سکندر اعظم کا بھائی تھا ۔ اس کی ماں ایک لونڈی تھی اس لیے یہ شاہی مرتبہ پر نہیں پہنچ سکتا تھا ۔ تاہم اس نے ہر مہم میں سکندر کا بھر پور ساتھ دیا تھا ۔ سکندر کے مرنے کے بعد اس کے حصہ میں مصر کی فرمان روائی آئی ۔ روڈس کے محاصرے کے دوران مصریوں نے اس کی پھر پور مدد کی تھی ۔ بطیموس مصریوں کی اس مدد کو بھولا نہیں تھا ۔ اس نے مصر کا فرمان روا بنے کے بعد یہاں کی باشندوں کی ایسی مدد اور خدمت کی کہ مصریوں نے اس کی دیوتاؤں کے برابر تعظیم و تکریم کی اور اسے سوٹر یعنی نجات دہندہ کا خطاب دیا ۔ یہ خطاب بعد کے یونانی یا بطلیموسی حکمرانوں کے نام کا مستقل حصہ بن گیا ۔
بطلیموس نے مصر کا حکمران بنے کے بعد اپنے پایہ تخت کے لیے اسکندریہ کو پسند کیا ۔ اس نے یورشلم کے محاصرے کے بعد وہاں کے ایک لاکھ یہودیوں کو لا کر اسکندریہ میں بسایا ۔ اس کے جانشین فلیڈس سوٹر نے ایک لاکھ اٹھانوے ہزار یہودی غلاموں کو ان کے مصری آقاؤں کو زر فدیہ دے آزاد کروا کے انہیں بھی اسکندریہ میں آباد کیا ۔ ان یہودیوں کو وہ تمام مراعات اور حقوق دیئے گئے جو کہ یونانیوں کو حاصل تھے ۔ اس لیے بہت سے یہود اور یونانی سوٹر کی فیاضی کا سن کر یہاں آکر آباد ہوگئے ۔ اس طرح اسکندریہ میں تین قوموں کے لوگ یعنی مصری یہودی اور یونانی آباد ہوگئے ۔
بطلیموس نے اسکندریہ میں تعمیراتی کام کا آغاز کیا اور یونانی اور مصری معماروں نے اسے دنیا کا سب سے خوبصورت شہر بنا دیا ۔ عالی شان محل ، خوبصورت مندر ، خوبصورت سایہ دار سڑکیں جو قائمۃ زاویہ پر ایک دوسرے سے ملتی تھیں ، باغات جن میں فوارے نصب تھے اور کھیلوں کے آٖڈیٹوریم بنائے گئے ۔ شہر کے وسط میں سکندر کا عالی شان مقبرہ تھا ۔ اس کے علاوہ ایک خوبصورت روشنی کا مینار بنوایا ۔ یہ مینار جو سنگ مرمر کا بنا ہوا تھا اس قدر بلند تھا کہ سمندری جہازوں میلوں دور سے نظر آتا تھا ۔ رات کے وقت اس مینار پر آگ روشن کی جاتی تھی کہ سمندر میں جہازوں کو اندھرے میں اسکندریہ پہنچنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے ۔ یہ مینار اتنا عظیم انشان تھا کہ اس کا شمار اب بھی دنیا کے سات عجائبات میں ہوتا ہے ۔ لیکن ان تعمیرات میں سب سے زیادہ شاندار یادگار مدرسہ یا عجائب گھر یا لائیبریری تھی ۔
یہ عجائب گھر جو اصل میں کتب خانہ تھا بطلیموس کے دور میں تعمیر ہونا شروع ہوا اور اس کے بیٹے فیلڈس نے اسے پایا تکمیل پہنچایا ۔ یہ عمارت سنگ مرمر کی تھی اس کے چاروں طرف برآمدے بنے ہوئے تھے اور اس عمارت کے ارد گرد ایک خوبصورت باغ تھا ۔ جس میں لوگ بیٹھ کر کتب بینی کرتے یا چہل قدمی کرتے ہوئے علمی بحث کرتے تھے ۔ اس کے کمروں اور باغیچے میں سنگ تراشی کے شاہکار ، حسین مجسمے اور تصوریریں آویزاں تھیں ۔ اس مدرسہ کے قیام کا مقصد یہ بھی تھا کہ سرکاری خرچ پر ایک ایسی جماعت تیار کی جائے جو خود کو علم کی ترقی و ترویح کے لیے وقف کردے ۔ چنانچہ اہل علم کی حوصلہ افزائی اور اہمیت کے پیش نظر اکثر فرمان روا خود بھی علماء کے ساتھ کھانے میں شریک ہوتے تھے ۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر مدرسہ کا منتظم اعلیٰ مشہور و نامور اور علمی اشخاص کو مقرر کیا جاتا تھا ۔
اس مدرسہ میں تعلیم کی بنیاد ارسطو اور زینو کی تعلیمات پر رکھی گئی تھی ۔ جس میں عقلیات ، مشاہدے اور تجربات کو اہمیت حاصل تھی ۔ جب کہ افلاطون کی تعلیمات تخیلات پر تھیں ۔ اس مدرسہ میں دوسرے فلسفے اور مذاہب کو بھی اہمیت دی جاتی تھی ۔ اس دالعلوم کے قیام سے پہلے یونانیوں نے سائنسی علموں مثلاً ہئیت اور ریاضی میں کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا تھا ۔ مگر اس مدرسہ کی تعلیم دینے اور نکلنے والوں نے ان علوم کو اس درجہ پر پہنچا دیا کہ ان کا اور ان کی کتابوں کا تزکرہ کیے بغیر علم و سائنس کا تذکرہ آج بھی نامکمل رہتا ہے ۔ سائنسی ، ہئیت اور ریاضی کے تجربات و مشاہدات مدتوں پہلے میسوپٹامیہ ، چین اور ہندوستان میں ہوچکے تھے ۔ مگر اس مدرسہ کا کارنامہ یہ ہے اس نے انہیں ایک مربوط طریقہ پر منعظم کرکے جدید سائنس کی بنیاد رکھی تھی ۔ اس مدرسہ میں مختلف علوم پر لیکچر دیئے جاتے تھے ۔ اس لیے اس میں شریک ہونے کے لیے دور دور سے طالب علم آتے تھے ۔ بیان کیا جاتا ہے ایک وقت اس میں طالب علموں کی تعداد چودہ ہزار تک پہنچ چکی تھی ۔ یہاں بے شمار یونانی اور دوسرے اہل علم ، سائنسدانوں اور فلسفیوں نے تجربات اور مشاہدات کے ذریعے تعلیم حاصل کی اور دی ۔ ان میں سے چند نام یہ ہیں ۔ ارشمدس ، اقلیدس ، ایریاٹا ستینبز ، اپالو ئیس ، بطلیموس اور جالینوس وغیرہ ۔
مدرسہ کے سربراہ کو فرمان روا کو کتابوں کے بارے میں خاص تاکیدی حکم تھا جو بھی کتب ملے اسے خریدلی جائے یا اس کی نقل اتار لی جائے ۔ جن کتب کے مالکان اپنی کتاب کو فروخت نہیں کرنا چاہتے تھے ان کتابوں کو کاتبوں کی ایک جماعت ان کی نقل اتارا کرتی تھی ۔ اس مدرسہ کے لیے غیر ممالک سے بھی کتابیں منگائیں جاتی تھیں ۔ جب بیرون ملک سے کوئی کتب آتی تو وہ فوراً عجائب گھر بھیج دی جاتی تھی ۔ اکثر کتب کی نقل اتار کر اصل کتاب مدرسہ میں گھر میں رکھ لی جاتی تھی اور نقل مالک کو دے دی جاتی تھی ۔ کتب کی خریداری کے علاوہ نقل کے لیے بھی بیش قیمت معاوضہ دیا جاتا تھا ۔ مثلاً بطلیموس یور بیٹیر کے عہد میں ایتھنز سے یورپیڈیز ، سفاقلس اور اسقلس کی تصانیف لائی گئیں ۔ ان کتب کے مالکوں کو ان کی نقول کے ساتھ پندرہ ہزار ڈالر بھی بھیجا گیا ۔ اس کے علاوہ اس مدرسہ میں کتب کا ترجمہ بھی کروایا جاتا تھا اور ترجمہ کرنے والوں کو بیش قیمت معاوضہ دیا جاتا تھا ۔ چنانچہ بائبل کے نسخہ سپچواجنٹ کے ترجمہ کے لیے گراں معاوضہ دیا گیا ۔ اس مدرسہ سے بہت سے عیسائی مذہبی پیشواؤں نے تعلیم بھی حاصل کی ۔ جن میں سے کئی پوپ کے درجہ پر پہنچے ۔ مثلاً کلینس ، الگزنڈرینس ، آریجن اور ایتھینئیس وٖغیرہ ۔
مدرسہ میں علوم کو چار شاخوں (۱) ادب (۲) ریاضی (۳) ہئیت (۴) طب میں تقسیم کردیا گیا تھا ۔ دوسرے علوم کو اس کی مناسبت سے ان چاروں میں سے کسی کے ساتھ نتھی کردیا جاتا تھا ۔ مثلاً حیوانات کو طب کی ایک شاخ قرار دیا گیا ۔ اس مدرسہ کے ساتھ ایک باغ بھی تھا جس میں طرح طرح کے پودے اور مختلف جانور رکھے جاتے تھے ۔ ان پودوں اور جاروں کو مختلف طبی تجربات اور مشاہدات میں استعمال کیا جاتا تھا ۔ اس مدرسہ میں ایک بڑی رسدگاہ تھی جس میں فلکی اور سادہ کرے اصطرلاب اور دوسرے پیمائش کے آلات تھے ۔ اس کے فرش پر ایک خط نصف النہار بنا ہوا ۔ اس میں پیمائش کے لیے آبی گھڑیاں ، مائع کے وزن اور کثافت معلوم کرنے کے آلات اس طرح کے دوسرے آلات تھے ۔ پھر بھی ان آلات کے متعلق ہمیں آگہی کم ہے ۔
اس طرح اس مدرسہ میں چار لاکھ کتابیں جمع ہوگئیں تھیں ۔ جب مزید کتب رکھنے کی گنجائش نہ رہی تو ایک اور کتب خانہ قریب ہی ایک مندر میں قائم کیا گیا ۔ اس میں بھی تین لاکھ کتب جمع ہوگئیں تھیں ۔ اس طرح کل سات لاکھ کتب اس مدرسہ میں جمع تھیں ۔ اس مدرسہ پر پہلی تباہی اس وقت آئی جب اسے جولئیس سیزر نے اسکندریہ کے محاصرے میں جلوا دیا تھا ۔ اس کی تلافی کے لیے مارک انطونی پومیئیز شاہ پرگیمس کا کتب خانہ قلوپطرہ کی نذر کیا ۔
مدرسہ کا ایک حصہ چیر پھاڑ کے لیے مخصوص تھا ۔ اس کمرے میں مردوں کے علاوہ ان مجرموں کی چیر پھاڑ کی جاتی تھی جن کو کسی سنگین جرم میں سزائے موت کا حکم ہوچکا تھا ۔ فلیڈلفس کو موت سے خوف ہوگیا تھا اس لیے اس نے آب حیات کی تلاش میں مختلف تجربات کروائے ۔ اس لیے کیمیائی تجربات کے لیے بھی ایک شعبہ قائم کردیا گیا تھا ۔ خاص کر اقلیدس کا ریاضی کا ایسا کام جس کی اہمیت تیئس صدیوں کے بعد بھی کم نہیں ہوئی اور آج بھی اس طرح مستند ہے ۔ اس کے علاوہ اس نے مخروطی اشکال ، الاصوت اور مناظر پر اس نے کتابیں تصنیف کیں ۔ ارشمیدس نے ریاضی پر دو کتابیں لکھیں اور اس نے ثابت کیا کہ ہر ٹھوس کرہ کا جسم اس اسطونہ کی مقدار کا ایک تہائی ہوتا ہے جو اس کا محیط ہو ۔ اسی نے ٹھوس دھات میں ملاوٹ اور وزن کا طریقہ ایجاد کیا ۔ بیرم کی ماہیت کا پتہ لگایا دریائے نیل سے پانی کھنچنے کا ایک پمپ بنایا ، ساپراکیو کے محاصرے میں اس نے رومیوں کا بیڑا شیشے مدد سے جلانا اس کی ایجادات میں شامل ہے ۔ ایراٹا ستھینز نے خط سرطان اور جدی کا فاصلہ خط استوا سے فاصلہ دریافت کیا ۔ زمین کی پہلے پہل پیمائش کی کوشش اس نے کی ۔ اس نے براعظموں ، پہاڑوں کے سلسلے بادلوں پر سب سے پہلے اسی نے بحث کی ۔ اس کے علاوہ اس نے بہت سے موضوعات تحقیق کی اور بہت سے مقالے لکھے ۔ اس مدرسہ کے علماء کرہ زمین ، محور ، قطبین ، لیل و نہار سردی اور گرمی کی وجوہات کا صحیح علم رکھتے تھے ۔ اس طرح چاند اور اس کی گردشیں کی تحقیقات کے لیے ہسپارکس نے سائنسی طریقہ اختیار کیا ۔ جس میں دو دائروں جس میں ایک چھوٹا اور دوسرا بڑا ہوتا ہے کام لیا اور چھوٹے کا مرکز ہمیشہ بڑے دائرے کے گرد گردش کرتا ہے ۔ اس نے ستاروں کی ایک جدول بھی بنائی تھی ۔ جس میں مختلف ستاروں کا مقام بتایا تھا ۔ اس طرح مختلف شہروں کے طول بلد عرض بلد تیار کئے تھے ۔ ان سب میں سب سے درخشاں نام بطلیموس کا ہے ۔ جس اپنی مشہور کتاب سنٹکسس لکھی تھی اور ڈیر ہزار سال تک اس کتاب کی حاکمیت کو قائم رہی ۔ نیوٹن نے جب پرنسسپا لکھی تو اس کا چراغ فل ہوا ۔ اس نے اپنی کتاب کی ابتدا اس پر کی تھی کہ زمین گول ہے اور خلا میں قائم ہے ۔ اس ہیت ، ریاضی اور دوسرے علوم پر پر جو تحقیقات کیں اور ان پر جو مقالے لکھے آج بھی ان کی اہمیت ہے ۔ یہیں سب سے پہلے بھاپ کا انجن لینسس نے بنایا تھا ۔ اس مدرسہ نے جو علمی کام اور کارنامے انجام دیئے وہ اس مختصر مضمون میں ان سب کا ذکر نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ ان کے بارے میں تفصیل درج کی جائے گی تو بہت طویل ہو جائے گی ۔ اس لیے ہم اس موضوع کو یہیں چھوڑتے ہیں ۔ اس موضوع کو کسی اور موقع پر اٹھا رکھتے ہیں ۔
قیصر قسظین کے دور سے عیسائیت کا سیاسی دور شروع ہوا اور اس وقت تک مصر میں بھی عیسائیت پھیل گئی تھی ۔ مصر میں قدیم زمانے سے ہی تثلث رائج تھی ۔ یہ تثلث اگرچہ بت پرستی پر مبنیٰ تھی ۔ اسی تثلت کی مقبولیت کی وجہ سے اسی زمانے میں عیسائیوں میں تثلث کا عقیدہ رائج ہوا تھا ۔ اس وقت عیسائی دنیا میں میں یہ بحث ہو رہی تھی کہ تثلث کی ترکیب اور اس میں حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم کا کیا مقام ہے ۔ اس وقت اسکندریہ کا بشپ تھیافیلس تھا ۔ وہ اس تثلث میں حضرت مریم کو شامل کرنے کا حامی اور ان کی پرستش کی کوشش کر رہا تھا ۔ تھیافیلس اور اس کے بھتیجے سائرل نے حضرت مریم کی پرستش کی تبلیغ کی ۔ انہوں نے اس کے لیے جو دلائل دیئے انہیں ایک عالمہ ہائی پیشیا نے اپنے دلائل سے رد کر دیا ۔ ہائی پیشیا کا باپ تھیان ایک اونچے درجے کا عالم ، مہندس اور افلاطون اور ارسطو کا شارح تھا ۔ اس نے اپالویہس اور دوسرے مہندس پر عالمانہ شرحیں لکھیں ۔ اسکندریہ کے علمی حلقہ اس کے شاگردی کا دم بھرتے تھے ۔ اس کے مدرسہ کے سامنے روزانہ لوگوں کا ایک ہجوم رہتا تھا ۔ جو اس کے عالمانہ خطبات سے مستفید ہوتا تھا ۔ جب کہ تھیافیلس کا بھتیجا جاہل تھا ۔ سائرل نے سمجھ لیا تھا کہ ہائی پیشیا جب تک ہے اس کی دال نہیں گلے گی ۔ اس لیے اس نے ہائی پیشیا کو راستہ سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ۔
اسی زمانے میں مصر میں اوسرس کا ایک قدیم مندر عیسائیوں دیا گیا کہ وہاں وہ گرجا بنالیں ۔ نئی عمارت کی بنیاد کھودتے ہوئے بعض فحش آثار برآمد ہوئے تھی ۔ تھیا فیلس نے اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی ۔ عیسائی اس پر مشعل ہوگئے اور قدیم مندروں اور ان کے پیرو کاروں کے خلاف تشدد آمیز کاروائیاں کیں ۔ ہائی پیشیا اور اس کا باپ بت برست اور قدیم مذہب پر کاربند تھے ۔ ایک دن مدرسہ جارہی تھی کہ سائرل اور اس کے حامی پادریوں نے اسے آگھیرا ۔ ان سب نے اسے سربازار مار پیٹ کر برہنہ کر دیا اور اسے گھسیٹے ہوئے ایک گرجا گھر لے گئے اور اعضاء پطرس سے اس کے سر کے ٹکڑے اڑا دیئے اور اس کی لاش کے ٹکڑے کر دیئے اور پھر ان ٹکڑوں کو آگ میں جھونک دیا ۔
اور یہ آگ اتنی بڑھی کے انہوں نے اس مدرسہ جو علوم اور عقل و فہم کا مرکز تھا ۔ اس لیے لوگوں نے اس کے خلاف بلوہ کر دیا اور فساد پر آمادہ ہوگئے ۔ اس پر شہنشاہ قسطین نے اس مدرسہ کو منہدم کرنے فرمان بھیجا ۔ چنانچہ اس قدیم اور عظیم انشان مدرسے کی کتب جلادی گئیں اور مدرسہ منہدم کردیا گیا ۔ اس مدرسہ کو شاہان بطلیموس نے ۳۸۰ ق میں صدیوں میں بڑی جدوجہد کے بعد علم و فنون کا مرکز اور صرف کثیر خرچ کرکے کتابیں جمع میں تھیں اور تیسری عیسویں کی دوسری ڈھائی میں چند دنوں میں کتابیں راکھ کا ڈھیر اور عمارت ملبہ ہوگئی ۔ اس مدرسہ کی بدولت یونانی علم کے آسمان پر درخشاں ستارے بن کر ابھرے تھے ۔ یہ وہی کتب خانہ ہے جس کو جلانے کا الزام حضرت عمر رضی عنہ پر عیسائی دنیا اب تک لگاتی ہے ۔ (ختم شد)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...