علیحدگی پسند اور ہیومن سمگلرز
انسانوں کو سمگل کرنے والے "انسانی سمگلر" کہلانے کے بھلا کیسے مستحق ہو سکتے ہیں؟ کوئی انسانی عمل ایسا نہیں ہوتا جس میں کئی لوگوں کی جانیں چلی جائیں، جیسے لیبیا اور سپین یا ترکی اور یونان کے درمیان کشتیوں کے ڈوبنے سے لوگ ڈوب کر مرے یا پھر " ڈنکی مارنے" کے دوران سرحدی محافظوں کی جانب سے گولیاں چلائے جانے کے باعث بعض اوقات اکا دکا مر جاتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ لوگوں کو کسی علاقے سے گذرتے ہوئے اپنے ہی ملک کے علیحدگی پسند لوگوں نے محض اس لیے قتل کر دیا ہو کہ ان کی زبان اور ثقافت ان کی زبان اور ثقافت سے مختلف ہے۔
اس سے پہلے جو لوگ عقیدے یا مسلک کی بنا پر انسانوں کو قتل کرتے رہے ہیں وہ مذہبی جنونی ہیں جنہیں اب باقاعدہ دہشت گرد کہا جانے لگا ہے۔ قوم پرستی کے نام پر اپنی جغرافیائی حدود سے گذرنے والوں کو محض اس لیے قتل کر دینا کہ ان کے رہائشی علاقوں میں دہشت پھیلے گی، نہ صرف غیر انسانی عمل بلکہ ایسا کرنے والوں کی ایک بڑی تکنیکی غلطی بھی ہے کیونکہ ان کے اس مذموم عمل سے وہاں لوگوں میں دہشت پھیلنے کی بجائے مارنے والوں کی قوم کے خلاف نفرت پھیلے گی۔ اب ایسی تنظیم میں شامل لوگوں کو علیحدگی پسند کہنے کی بجائے سرعام دہشت گرد کہا جائے گا۔
بلوچستان میں دو مختلف مقامات سے بے گناہ لوگوں کی لاشیں ملنے سے دو معاملات غور طلب ہونے چاہییں۔ ایک علیحدگی پسندی اور دوسری ہیومن سمگلنگ۔ ان دونوں اعمال کا آپس میں تعلق ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔ ہے اس طرح کہ جب، جیسے کہ لیبیا میں، اقتدار اور علاقوں پر قبضوں کی لڑائی شروع ہوتی ہے تو عام لوگوں کے لیے واحد راستہ ہجرت رہ جاتا ہے، وہ چاہے ہمسایہ ملکوں کو کی جائے یا پھر خطرہ مول لے کر ایسے ملکوں کو جہاں روزگار کے مواقع ہوں اور جہاں انسان کی قدرکی جاتی ہو۔ دونوں اعمال کا آپس میں تعلق تب نہیں بنتا جب جس علاقے میں ایسی کشاکش ہو وہاں سے دوسرے علاقوں کے لوگ نہ گذریں۔
مگر ہیومن سمگلروں کی اکثریت "ڈنکی مروانے" کی راہ اختیار کرتی ہے۔ یہ اصطلاح کیا ہے؟ پہلے وہ جو اس اصطلاح سے آشنا نہیں اس کے بارے میں جان لیں۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان کے لوگوں کو آگے بھیجنے والے ایجنٹوں یعنی ہیومن سمگلروں کا ماسکو گڑھ ہوا کرتا تھا۔ یہ 1990 کے عشرے کے شروع کی بات ہے۔ میری ایسے لوگوں سے شناسائی ایک دوست کے توسط سے ہوئی تھی، جو آج کل کے ایک مقبول کالم نگار کا بہنوئی ہے۔ وہ لوگوں کو بظاہر کسی نہ کسی طریقے سے ویزے دلوا کر بھجوایا کرتا تھا لیکن اس تک لوگوں کو پہنچانے والے ہر طرح کے ایجنٹ ہوتے تھے۔ ان میں گجرات کا ایک ایجنٹ تھا جو تقریبا" ان پڑھ تھا مگر بہت طرار جس بنا پر میں اسے "چھکا بھائی" کہتا تھا۔ وہ خاموش رہتا تھا مگر جو بات کرتا وہ چھکا مارنے کی مانند ہوا کرتی تھی۔ چند ایجنٹ، کچھ آگے جانے کے امیداوار نوجوان اور میں ماسکو کے مرکز سے پیدل چلتے ہوئے تب کے واحد میکڈونلڈ جوائنٹ کی جانب جا رہے تھے۔ چھکا بھائی میرے ساتھ چل رہا تھا۔ ایجنٹوں کی گفتگو میں استعمال ہونے والے لفظوں جیسے کاپی، ٹھپا، ہرے وغیرہ کے معانی سے میں واقف تھا مگر گفتگو میں ایک اور لفظ آ رہا تھا یعنی ڈونکی/ڈنکی مارنا، جس کے بارے میں چھکا بھائی نے مجھ سے پوچھ لیا تھا،" ڈاکٹر صاحب کیا آپ جانتے ہیں کہ ڈونکی/ڈنکی کیا ہوتا ہے"۔ میں نے کہا تھا ہاں یا تو انگریزی زبان میں گدھے کو کہتے ہیں یا عام زبان میں واٹر پمپ کو۔ چھکا بھائی مسکرایا تھا اور اس نے مجھے مطلع کیا تھا کہ ڈونکی/ ڈنکی مارنا درحقیقت غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کو کہتے ہیں اور اس سلسلے میں رہبری کرنے والے کو "ڈونکر/ڈنکر" کہا جاتا ہے اور یہ کہ ڈنکی مروانا ایک طرح کا ہنر ہے۔ اب غیر ملکوں میں بسنے والے عام لوگوں میں ڈنکی مارنا، جگاڑ کرنا کی متبادل اصطلاح بن چکی ہے۔
ڈنکر لوگوں کو سرحد پار کرانے کی غرض سے مختلف حربے اختیار کرتے ہیں۔ پیدل چلانا اور خار دار تاروں کو کاٹ کر لوگوں کو دوسری جانب پہنچانا، سرحد کے طور پر حائل نہر کو تیر کر پار کروانا، ٹرکوں میں چھپا کر اور کنٹینروں میں بند کرکے بھیجنا۔ چلے گئے تو چلے گئے ورنہ پہلی صورت میں یا تو ڈنکی مارنے والے سرحدی محافظوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، بعض اوقات اتفاقی گولی لگنے سے ایک دو مر بھی جاتے ہیں، یا نہر میں ڈوب کے بھی کوئی مر سکتا ہے۔ کنٹینروں میں سانس گھٹ کر مرنے کے واقعات تو کئی بار ہوئے مگر علیحدگی پسندوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا ہو ایسا کبھی نہ ہوا تھا۔ جب لوگوں کو ماسکو سے بھیجا جاتا تھا تو انہیں بوسنیا کے راستے کبھی نہیں بھیجتے تھے کیونکہ وہاں سرب عیسائیوں اور بوسنیائی مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی چل رہی تھے۔
اس بار پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہیومن سمگلروں نے بلوچستان میں مقیم اپنے ڈنکر ساتھیوں کے کہنے پر باہر جانے کے خواہش مند نوجوانوں کو بلوچستان کے راستے بھیجا ہی کیوں؟ جہاں آئے روز دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ پہلے علیحدگی پسندوں نے ہیومن سمگلروں کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالی تھی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بلوچستان میں مقیم ڈنکرز کے ساتھ مل کر علیحدگی پسندوں نے سازباز کی ہو اور پنجابی ایجنٹوں کو علم ہی نہ ہو کہ ایسا ہوگا یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ علیحدگی پسندوں نے نیا لائحہ عمل اپنایا ہو۔
یہ کہنا کہ لوگ غربت یا بیروزگاری کی وجہ سے باہر کے ملکوں کا رخ کرتے ہیں کوئی اتنا صحیح نہیں ہے۔ باہر جانے کے لیے آٹھ دس لاکھ روپے خرچ کر ڈالنا غریب کے بس کی بات نہیں بلکہ نچلے درمیانے طبقے کے لوگ بھی اتنا خرچ نہیں اٹھا سکتے۔ پھر یورپ کو پنجاب کے ان علاقوں سے لوگ زیادہ جاتے ہیں جو صنعتی علاقے ہیں۔ جہاں کی زمینیں زرخیز ہیں۔ جہاں بڑی زمینداریاں نہیں ہیں اور بیشتر لوگوں کے پاس دس پندرہ بیگھے زمین ہوتی ہے۔ باہر جانا درحقیقت "شریکا بازی" کی وجہ سے ہے کہ اپنے مالی/سماجی حالات ان رشتے داروں کے برابر یا ان سے بہتر کیے جائیں جن کے بیٹے، باپ یا بھائی یورپ میں ہیں۔ مزے دار بات یہ ہے کہ ایجنٹ بھی ان ہی علاقوں سے زیادہ ہیں یعنی سیالکوٹ، شیخوپورہ، گوجرانوالہ، گجرات سے یا لاہور، کراچی، ملتان، اسلام آباد اور فیصل آباد سے۔ جو لوگ ماسکو میں ایجنٹوں کے توسط سے پہنچے تھے اور کسی وجہ سے یہیں کے ہو رہے وہ خود ایجنٹ بن گئے۔ جب بھی موقع ملتا ہے وہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ ضرور دھو لیتے ہیں۔ مفت کی آمدنی ہوتی ہے۔ مال ادھر ادھر کرنے میں تو پھر بھی اٹھانے چڑھانے کی مشقت ہے۔ انسانون کی ترسیل میں تو بس ڈرائیوروں سے، ڈنکروں سے طے کرنا ہوتا ہے جو بالعموم فون پر ہی طے ہو جاتا ہے۔ اس بازار میں ایک اور قبیل پیدا ہوئی جنہیں ڈیرے دار کہا جاتا ہے جو آگے جانے والوں کو وصول کرکے اپنے ڈیروں پر لے جا کر تب تک رکھتے ہیں جب تک انہیں اگلی منزل کے لیے روانہ نہ کیا جائے اس کے بدلے میں وہ معاوضہ لیتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی سالانہ لاکھوں نہیں تو ہزاروں ڈالر ضرور کما لیتے ہیں۔ اس میدان میں غنڈے بھی پیدا ہوئے جو آنے والوں کو اغوا کرتے ہیں۔ پھر ان پر ہلکا تشدد کرکے جیسے لاتوں مکوں سے مارنے، بلیڈ سے چیرے دینے یا گرم استری سے داغ کر ان سے سرپرستوں، عزیزوں کو فون کروا کے ان کے سے پیسے اینٹھتے ہیں۔
اب آتے ہیں علیحدگی پسندی کی جانب۔ درست ہے پنجاب میں رہنے والے اکثر لوگ نہ کبھی بلوچستان گئے، نہ انہیں وہاں کے بیشتر شہروں اور قصبوں کا معلوم ہے اور نہ ہی انہیں وہاں کی سیاسی اٹھک پٹخ کے بارے میں معلومات ہیں اور نہ ان کا اس سے کوئی واسطہ ہے ویسے ہی جیسے بلوچستان کی اکثریت کو پنجاب کے بڑے شہروں کے علاوہ قصبوں کے نام تک نہیں اتے۔
کسی بھی جگہ لوگ کیوں جاتے ہیں یا روزگار کی تلاش میں، یا تجارت کی غرض سے یا قابل دید تاریخی و قدرتی مقامات دیکھنے کی خاطر۔ بلوچستان میں ان حوالوں سے پنجابیوں اور سندھیوں کی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ زیادہ سے زیادہ کوئٹہ چلے گئے اور وہاں بس بھی گئے۔ مثال کے طور پر میں دنیا کے بہت سے ملک دیکھ چکا ہوں مگر مجھے آج تک بلوچستان جانے کا اتفاق نہیں ہوا ۔ اگر بلوچستان میں لوگ گئے بھی تو سرائیکی علاقے خاص طور پر ڈیرہ غازیخان کے ان علاقوں سے جہاں بلوچ بستے ہیں یا پھر سرحدی ایجنسیوں کے لوگ گئے کیونکہ وہاں ان کے پٹھان رشتے دار بھائی بند پہلے سے موجود ہیں۔
بلوچستان شروع سے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے سے گریزاں رہا تھا۔ پاکستان کے حکام نے بھی انہیں دھوکا دیا۔ بلوچستان میں کئی بار شورشیں اٹھیں اور کئی بار ماند پڑیں۔ دو ایک بار انہیں سختی سے کچلا بھی گیا۔ پرویز مشرف کے دور سے بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک نے زیادہ زور پکڑا۔ عسکری مہم جوئی کی وجہ سے معمّر سردار اکبر بگٹی کی موت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ کئی علیحدگی پسند مسلح گروہ فعال ہو گئے۔ بلوچستان میں کام کرنے والے سرائیکی/ پنجابی بھی نشانہ بنائے جانے لگے اور علیحدگی پسندی سے کسی نوع کا رابطہ رکھنے والوں کو اغوا کیا جانے لگا۔ بہت سوں کی تشدد زدہ لاشیں بھی ملیں۔ ماما قدیر نے اس کے خلاف اسلام آباد تک پیدل مارچ بھی کیا۔ علیحدگی پسندی متشدد ہوا کرتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد کسی ایک قوم کے ساتھ جسے بالا دست خیال کیا جاتا ہے، نفرت کی بنیاد پر استوار ہوتی ہے۔ دنیا کی کوئی بھی ریاست علیحدگی پسندی کی لہر کو پنپنے نہیں دے سکتی۔ اگر کہیں علیحدگی پسندی باثمر ہوئی بھی تو وہ بڑے ملکوں کی مہربانی کے سبب چاہے وہ کوسوو ہو جنوبی سوڈان ہو، تیمر ہو یا بلقان کی ریاستیں۔
تاہم عمومی طور پر یہ ایک بین الاقوامی اصول بن چکا ہے کہ آزادی خواہی یا علیحدگی پسندی کی کوئی بھی تحریک بین الاقوامی دہشت گردی کا حصہ سمجھی جائے گی البتہ امریکہ بادشاہ چاہے تو کہیں بھی کسی ایسی تحریک کی خفیہ یا کھلے عام حمایت کر سکتا ہے۔
بلوچستان میں اب کئی بین الاقوامی کھلاڑی فعال ہیں۔ کس کے کیا مقاصد ہیں کچھ بھی واضح نہیں ہے۔ کوئی کہتا ہے سی پیک کی مخالفت ہے، کوئی کہتا ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر دو لخت کرنے کی سازش ہے کوئی کہتا ہے کہ فوج کو الجھائے رکھنے کا طریقہ ہے، کوئی کہتا ہے پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے کی کڑی ہے۔ لگتا ہے یہ سب کچھ ہی درست ہے۔ اس المناک سازش سے نمٹنا ریاست کا کام ہے۔ ریاست کے پاس اگر چھ لاکھ افراد کی فوج ہے تو ایک لاکھ کو بیرکوں میں رکھے اور باقی کو ان علاقوں میں جہاں سرحدوں کے تحفظ یا ریاست کی بالادستی منوانے کی ضرورت ہو، متعین کر دے۔
جہاں ایک طرف ایجنٹوں کو گرفتار کرنے کی ضرورت ہے وہاں اب یہ بھی ضروری ہو چکا ہے کہ پاکستان کی سالمیت کوبرقرار رکھنے کی خاطر کوئی رو رعایت نہ کی جائے۔ بیس بے گناہ نوجوانوں کو مارا جانا کوئی مذاق نہیں ہے۔ اگر بلوچ علیحدگی پسند یا ان کے ہمدرد کوئی جواز پیش بھی کرتے ہیں تو اسے سننے یا ماننے کی کوئی ضرورت نہیں رہی کیونکہ بے گناہوں کا قتل چاہے کسی بھی جانب سے ہو غلط ہے اور دو غلطیاں مل کر ایک درست عمل نہیں کہلا سکتیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“