جس علم میں تجربہ کیا جائے، کیا وہ سائنس کہلائے گا؟ نہیں۔ الکیمیا اس کی مثال ہے۔ اس میں کتابیں بھی تھیں اور تجربے بھی لیکن یہ بس ایک سراب تھا، سائنس نہیں۔ تو پھر یہ والے تجربے سائنس کیوں نہیں تھے؟
کسی دھات کو سونے میں کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ پارس کے پتھر اور اس فارمولے کی تلاش میں بڑے بڑے لوگوں نے زندگیاں کھپا دیں۔ کتابیں لکھی گئیں، تجربات کئے جاتے رہے۔ صدیاں یہ دوڑ اور اس سراب کے پیچھے بھاگنے والوں کو مایوسی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ یہ کوشش الکیمیا کہلائی۔ کچھ لوگ اس کو جدید کیمسٹری کا پیشرو کہتے ہیں لیکن اس میں ایک بنیادی اور بڑا فرق تھا۔
بوائل اور نیوٹن جیسے بڑے سائنسدانوں نے بھی اس میں اپنا بڑا وقت لگایا ہے۔ ایسا کیوں تھا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان سب کو یقین تھا کہ ایسا ممکن ہے۔ ایسا ہو چکا ہے۔ کئی لوگ ایسا کر چکے ہیں۔ یہ کتابوں میں لکھا تھا۔ الکیمیا کی کتابیں ایسا ہی کہتی تھیں۔ بوائل، جنہوں نے ہمیں گیسوں کے قوانین دئے اور نیوٹن جنہوں نے فزکس، ان کو بھی یہ یقین تھا۔ الکیمیا کی کتابوں میں سے بس اس طریقے کو واپس دریافت کئے جانا تھا جو ان کے خایل میں لوگ کر چکے تھے۔ بوائل کے ساتھی سٹارکے اس پر اپنی زندگی اور سرمایہ لگا چکے تھے۔ اپنے بیوی بچوں کو غربت میں دھکیل دیا تھا۔ ان کو تمام عمر یہ احساس نہیں ہوا کہ الکیمیا کی کتابیں غلط بھی کہہ سکتی ہیں۔ وہ دوسری سائیڈ سننے کو تیار ہی نہ تھے۔ سکاٹ اور جانسن جیسے لوگوں کو۔ تنقید کرنے والوں پر ان کا ری ایکشن سخت ہوتا تھا۔ سٹارکے مرتے دم تک بس یہ کوشش کرتے رہے۔ بوائل کی پوری زندگی بھی اس میں گزری۔
الکیمیا کی کتابیں مبہم ہوتی تھیں۔ ایسی کہ ان سے پڑھ کر تجربے کرنے والے تجربے کی ناکامی کے بعد اپنے طریقے کو موردِ الزام ٹھہراتے تھے۔ الکیمیا کے “استاد” اپنا “علم” شئیر کرنے کے لئے اپنے طلباء سے بڑے پاپڑ بیلواتے تھے اور پھر ابہام میں اضافہ کر دیتے تھے۔ کیا کرنے والا اس کا اہل بھی ہے؟ اور اس کا اہل کیوں نہیں اور کیسے بن سکتا ہے؟ وہ جو کامیاب رہے، انہوں نے ایسا کیا کیا؟ فارمولے میں کیا کسر رہ گئی؟ جب واضح نہ تھا تو پھر یقین اور کوشش کا سہارا تھا اور بڑے خزانے کی امید۔
پھر ایسا کیا ہوا کہ الکیمیا صدیوں بعد تاریخ کے کباڑخانے کا حصہ اتنی جلد بن گیا؟ پیرس سے تعلق رکھنے والے ایٹین جیوفروئے نے 1718 میں کیمسٹری پر ایک کتاب لکھی۔ اس کا نام “کیمسٹری کے مختلف تعلقات کی فہرست” تھا۔ کیمسٹری میں اس وقت جو چوبیس میٹیرئیل استعمال کئے جاتے تھے، اس کتاب میں انہوں نے ان سب کے آپس میں جتنے بھی ری ایکشن تھے، بڑے سادہ الفاظ میں لسٹ کر دئے۔ جیوفروئے عناصر کی جدید تھیوری سے ابھی بہت دور تھے۔ لیکن پیسا یونیورسٹی میں ایک ریسرچ پروگرام کی سربراہی کر رہے تھے۔ جو کیا جاتا تھا، سب کے سامنے رکھ دیا تھا اس کتاب اور جیوفروئے کے اس نئے طریقے نے الکیمیا کے طریقے کے لئے موت کا پیمامبر تھا۔
الکیمیا کی وجہ جیوفروئے کے تجربے نہیں تھے بلکہ اس چیز پر اصرار تھا کہ جو کیا جا رہا ہے، کھلے عام سب کے سامنے رکھا جا رہا ہے۔ کوئی چاہے تو خود دیکھ لے، کوئی چاہے تو تنقید کر سکے۔ اس سے پہلے الکیمیا خفیہ، پرسرار اور راز کے پردوں میں ڈھکا علم سمجھا جاتا تھا۔ تجربے اور مسلسل تجربے۔ ایک پرعزم کیمیادان کی یہ زندگی تھی۔
جیوفروئے کا طریقہ جلد ہی اپنا لیا گیا۔ علم عام ہو گیا۔ تنقید کی چھری تلے آ گیا۔ الکیمیا کے لئے یہ طریقہ موت کا بوسہ تھا۔ چند ہی سال کے بعد جن کو علم سمجھا جاتا تھا، اس نئی روشنی نے اس کا پردہ چاک کر دیا تھا۔ پردے کے پیچھے صدیوں کے دھوکوں کے سوا کچھ نہ تھا۔
الکیمیا کے استادوں نے آخری کوشش یہ کی کہ اس کو سائنس کے بجائے آرٹ کہنا شروع ہو گئے لیکن دیر ہو گئی تھی، ان کا وقت گزر گیا تھا۔ 1720 کی دہائی میں اس قدر جلد تبدیلی آٗی کہ الکیمیا سے منسلک کرنے ہونا شرمندگی کا باعث تھا۔ یہاں تک کہ بوائل کے مرنے کے بعد ان کے الکیمیا کے کام کو بڑی حد تک ضائع کر دیا گیا۔ اس کام سے ان کے تعلق کا فرانسیسی زبان میں لکھے ایک پیپر سے پتا لگتا ہے جو ضائع ہونے سے بچ گیا تھا۔
تو پھر علم کہلانے کے لئے سب سے بڑی شرط کیا ہے؟ یہ خفیہ طور پر نہیں ہوتا۔ کیا کیا، کیسے کیا، کیا نتیجہ نکلا، کیسے نکلا۔ یہ سب جب تک یہ واضح طور پر سب کے سامنے نہ رکھا جائے، وہ علم نہیں، ڈھکوسلا کہلاتا ہے۔ پیسہ یونیورسٹی کے پروفیسر کی 1718 میں لکھی گئی کتاب سے شروع ہونے اس نئے طریقے نے الکیمیا کو اپنے اصلی مقام، یعنی تاریخ کے کچرے کے ڈھیر میں پہنچا کر جدید کیمسٹری کا آغاز کر دیا۔