البیر کامیو اور انیس ناگی
انیس ناگی کا میو کے فلسفہ لایعنیت کے حامی تھے، ان کے ناولوں میں کامیو کی تحریروں کی پرچھائیاں ملتی ہیں البیر کامیو الجزائر کے مشہور و معروف فلسفی اور ناول نگار تھے۔
سارتر کی طرح وہ بھی وجودیت کے حامی تھے اور انفرادی آزادی کے بڑے پرجوش حمایتی تھے۔ ان کے ناول’’ دی پلیگ‘‘ (The Plague) ’’ دی فال‘‘ (The Fall) اور ’’ دی آئوٹ سائیڈر‘‘ (Outsider) ابھی تک اپنی شہرت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ان کی کتاب سسی فس کی کہانی (Myth of Sisfus) کو بھی بہت پذیرائی ملی۔
ان ساری کتابوں میں جہاں کامیو نے انفرادی آزادی کی حمایت میں دلائل دیئے وہاں وہ یہ منطق بھی پیش کرتے ہیں کہ انفرادی آزادی کے بغیر حیات انسانی جن سماجی اور معاشی مسائل کے گرداب میں پھنس جاتی ہے اس کے نتیجے میں زندگی مطلق طور پر لایعنیت اور بے معنونیت کا شکار ہو جاتی ہے۔ زندگی کی اس بے معنونیت (Absardity) کو ختم کرنے کا نسخہ کیمیا وہ اپنی تحریروں میں پیش کرتے ہیں۔
کامیو کا ناول طاعون (The Plague) دراصل دوسری جنگ عظیم کے پس منظر میں لکھا گیا ،جب جرمنی نے فرانس پر قبضہ کرلیا تھا۔ فرانس نے خود الجزائر کو اپنی نوآبادی بنا رکھا تھا اور کامیو نے اس استعماریت کے خلاف ہمیشہ مزاحمت کی لیکن اس نے جرمنی کے فرانس پر قبضے کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کی۔ جنگ کے بعد طاعون پھیل گیا تھا۔ کامیو نے طاعون کو جنگ کے استعارے کے طور پر استعمال کیا۔
جنگ کتنی خوفناک چیز ہے اور اس کے کتنے ہولناک اثرات مرتب ہوتے ہیں اور انسانوں کی زندگیاں کس طرح بے معنونیت کا شکار ہو جاتی ہیں، اس کا اظہار کامیو نے بڑے ارفع طریقے سے اپنے اس ناول میں کیا ہے۔
اس طرح اپنے ناول ’’اجنبی‘‘ (Outsider) میں بھی اس نے مغائرت (Alienation) کے پس پردہ محرکات پر روشنی ڈالی ہے۔ انسان کس طرح اپنی ہی سرزمین پر اجنبی بن جاتا ہے اور وہ کیا عوامل ہیں جو اجنبیت کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا کامیو نے انتہائی نفاست سے محاکمہ کیا ہے۔ اب ذرا انفرادی آزادی پر بات ہو جائے۔
سارتر اور کامیو اس نظریے کے حامی ہیں کہ جب تک اشتمالیت اور وجودیت (Communism and Existentialism) کو ساتھ ملا کر نہیں چلا یا جاتا، اس کرہ ارض کے انسانوں کو حقیقی مسرت سے سرفراز نہیں کیا جا سکتا۔ ان دو فلسفوں کا مرکب ہی انسانی زندگی کیلئے سکھ کا پیغام لا سکتا ہے۔
ان کے خیال میں مارکسزم انفرادی آزادی کو کچل دیتا ہے جس سے انسان کی روح تک تڑپ اٹھتی ہے۔ کامیو کہتا ہے کہ موت ایک لایعنی چیز ہے لیکن اگر زندگی موت سے بھی لایعنی ہو جائے تو پھر جینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پھر انسان کو خاموشی سے اس دنیا کو خیرباد کہہ دینا چاہیے۔
کامیو کا ناول سسی فس کی کہانی لایعنیت کا استعارہ ہے۔ سسی فس یونانی اساطیری کردار ہے جس کو آگ چرانے کی سزا دی گئی تھی۔ یہ سزا کیا تھی۔ ایک ڈھلوان سے دوسری ڈھلوان تک پتھر لڑکھانے کی سزا تھی۔ کامیو کے نزدیک یہ ایک لایعنی عمل تھا۔ اس کو بنیاد بنا کر کامیو انسانی زندگی کی بے معنویت کی مختلف شکلیں پیش کرتا ہے۔ سیاسی ، سماجی اور معاشی جبر کے ہاتھوں مجبور ہو کر زندگی کی گاڑی چلانے والے کروڑوں لوگ دراصل ایک لایعنی زندگی گزار رہے ہیں۔
ان کا اسلوب حیات مجبوریوں کی زنجیروں میں بندھا ہوا ہے اور ان زنجیروں سے انہیں موت تک نجات نہیں ملتی۔ وہ ان زنجیروں کو توڑنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ غلامی کا طوق ان کے گلے میں پڑا ہوا ہے۔ جسے وہ صرف دیکھ سکتے ہیں،
اس سے نفرت کرسکتے ہیں اورکبھی کبھی ان کے دل میں بغاوت کا خیال بھی آتا ہے اس مقصد کیلئے وہ ہمیشہ کسی نجات دہندہ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ لیکن پھر یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ شاید لایعنی زندگی گزارنا ہی ان کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔
بسا اوقات البیر کامیو کی تحریریں قاری کو مایوسی کے سمندر میں دھکیل دیتی ہیں۔ قاری کو کہیں امید کا سورج نکلتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن کامیو اتنا بھی قنوطی نہیں۔ وہ کافکا کی طرح ہر چیز کا منفی پہلو سامنے نہیں لاتا۔ اس کی تحریروں میں رجائیت کی روشنی بھی ملتی ہے۔
اس میں کامیو کا بھی کوئی قصور نہیں۔ اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے جبروستم کی داستانیں رقم ہوتی ہوئی دیکھیں۔ وہ الجزائر کے عوام پر فرانسیسی مظالم دیکھ کر ناقابل بیان کرب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اسے ان مظالم پر شرم آتی ہے۔ فرانزحنین کے بقول شرم ایک انقلابی جذبہ ہے۔ یعنی جس شخص کے اندر شرم کا مادہ موجود ہے اس سے کسی بھی وقت انقلاب کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ انقلاب کسی نہ کسی شکل میں اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے، غیر محسوس طریقے سے۔
البیر کامیو کا مسئلہ بھی ایسا تھا۔ البیر کامیو کی موت 47 برس کی عمر میں ایک کارحادثے میں ہوئی تھی۔ موت کا یہ انداز بھی لایعنی تھا۔ انیس ناگی نے ان گنت کتابیں تصنیف کیں۔ انہوں نے جنون کی حد تک ادب سے محبت کی۔ وہ ایک عمدہ شاعر، باکمال نقاد اور منفرد ناول نگار تھے۔ ان کا شعری مجموعہ ’’زرد آسمان‘‘ بہت مقبول ہوا تھا۔
وہ ایک سخت گیر نقاد تھے اور کسی بھی ادب پارے کیلئے تحسین کے چند کلمات ادا کرنا ان کیلئے بہت مشکل کام ہوتا تھا۔ وہ وجودیت اور انفرادی آزادی کے علمبردار تھے۔
تنقید میں ان کی کئی کتابیں قابل ذکر ہیں جنہوں نے بے شمار لوگوں کومتاثر کیا۔
ان میں ’’ڈپٹی نذیر احمدکی ناول نگاری، تنقید شعر‘‘ کا بہت نام لیا جاتا ہے لیکن سعادت حسن منٹو پر لکھی گئی ان کی کتاب انتہائی لاجواب ہے۔
اگر تخلیقی تنقید پڑھنی ہو تو پھر ادب کے قاری کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے
انیس ناگی نے سعادت حسن منٹو کے افسانوں سے وہ کچھ ڈھونڈ نکالا جو شاید دوسرے نقاد نہیں ڈھونڈ سکے۔
مثال کے طور پر انیس ناگی نے سعادت حسن منٹو کے افسانوں سے مارکسزم دریافت کرلیا۔ مارکسی فلسفے کے اہم ترین نکات کا انہوں نے جس طرح منٹوکے افسانوں سے رابطہ جوڑا وہ انہی کا کمال ہے۔
جہاں تک ان کے ناولوں کا تعلق ہے تو اس میں وہ واضح طور پر کامیو کے پیروکار نظر آتے ہیں۔ ’’دیوار کے پیچھے میں اور وہ اور زوال‘‘ میں جا بجا ہمیں البیر کامیو کے فلسفے کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔ یعنی انفرادی آزادی۔ اجتماعی آزادی کافی نہیں، انفرادی آزادی بھی مقدم ہے لیکن انفرادی آزادی کی حد کیا ہے؟
اس کی کوئی واضح شکل نظر نہیں آتی ۔ بعض اوقات تو قاری کو اس امر کا شدید احتجاج ہوتا ہے کہ انیس ناگی لامحدود انفرادی آزادی کے حامی ہیں۔ اور یہ انفرادی آزادی انارکی کی حدوں کو چھوتی نظرآتی ہے۔ یعنی ایسی آزادی جس میں کسی نظم و ضبط کی کوئی پابندی نہیں۔ کیا ایسی زندگی بنی نوع انسان کیلئے جائز ہے یا قابل قبول ہے؟
اس کا جواب بہت مشکل ہے۔ بہرحال انیس ناگی باغیانہ روش کے حامی تھے اور انہوں نے ہمیشہ ادب میں ایک باغی کی حیثیت سے اپنے آپ کو روشناس کرایا۔ ان کے اس باغیانہ پن میں بھی البیرکامیو کے ناول ’’باغی‘‘ (The Rebel) کو کئی ایک مقامات پر تلاش کیا جاسکتا ہے۔
بہرحال انفرادی آزادی اور وجودیت کے جس فلسفے کو کامیو نے پروان چڑھایا، انیس ناگی اسے بہت آگے لے گئے۔ ان کا ناول ’’دیوار کے پیچھے‘‘ ایک بہت عمدہ ناول ہے جو خود کلامی(Monologue) کے اسلوب میں لکھا گیا ہے اس میں بڑے خوبصورت طریقے سے معاشرتی انتشار کی عکاسی کی گئی ہے۔
’’میں اور وہ‘‘ وجودی فکر کا نمائندہ ناول ہے۔ ان کا ناول زوال بھی کامیو کے ناول (The Fall) کے سائے میں لکھا گیا ہے۔ البیر کامیو اور انیس ناگی کی ایک اورمماثلت یہ ہے کہ دونوں خاصی حد تک ہم شکل تھے اور مرحوم انیس ناگی کو اس بات پر فخر بھی تھا۔
بہرطور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ البیر کامیو اورانیس ناگی نے جتنا کام کیا وہ قابل فخر ہے۔ انیس ناگی پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان کی فکر اور فلسفہ فرانس سے درآمد شدہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے اوریجنل کام نہیں کیا۔ کسی فکر یا فلسفے سے متاثر ہونا ایک الگ بات ہے۔
ناگی صاحب کی ایک اور خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اعلیٰ درجے کے مترجم بھی تھے اور اس میدان میں بھی انہوں نے کئی کارنامے سرانجام دیئے۔ خاص طور پر پابلو نیرودا کی نظموں کا جتنا شاندار ترجمہ انہوں نے کیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ البیر کامیو اور انیس ناگی کا نام ان کے کام کی وجہ سے ادب کے آسمان پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ ٭
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔