ہم سب کے ذہن میں اچھے اور برے آئیڈیا آتے رہتے ہیں۔ اپنے برے آئیڈیا کو پہچان جانا ذہانت کی نشانی ہے۔ اگر کسی کا خیال ہو کہ اس کے تمام آئیڈیا اچھے ہوتے ہیں تو سمجھ جائیں کہ برے آئیڈیا کی بہتات کہاں سے ملتی ہے۔ یہ پوسٹ ایک ایسے ہی برے آئیڈیا کے بارے میں ہے جس کے نشان پچاس برس بعد بھی جگہ جگہ موجود ہیں، اتنا برا کہ اس نے کنکریٹ کے ہر طرف بکھرے ٹکڑوں کو قوم کی شناخت بنا دیا، اتنا برا کہ اس کے بارے میں دنیا کے دوسرے کونے میں آج پوسٹ کی جا رہی ہے۔
ایک عجیب دماغی کیفیت کا ڈکٹیٹر آج سے پچاس سال پہلے ایک جنگ کر رہا تھا۔ یہ جنگ خود اس کے دماغ میں ہو رہی تھی۔ یہ البانیہ کے کمیونسٹ سربراہ انور ہوژا تھے جو اس چھوٹے یورپی ملک میں حکمران تھے۔ اپنے حکومت کے بیس سال کے اندر انہوں نے اپنے ملک کے تمام دوستوں سے لڑائی کر لی تھی۔ ان کو ہر طرف دشمن نظر آتے تھے۔ کچھ اصلی اور کچھ ذرا کم اصلی۔ اٹلی نے فاشزم کے دور میں یہاں حملہ کیا تھا۔ دشمن۔ گریس سے تاریخی مخاصمت تھی اور یہاں پر دائیں بازو کی ڈکٹیٹرشپ تھی۔ دشمن۔ یوگوسلاویہ جس کی مدد سے انور اقتدار میں آئے تھے، البانیہ کو اپنا حصہ بنانا چاہتا تھا۔ دشمن۔ سوویت یونین میں خردشیف کی حکومت تھی، جو ان کے پسندیدہ لیڈر سٹالن کی پالیسیاں بدلنا چاہتے تھے۔ دشمن۔ چین میں ماؤ کے دور میں کچھ عرصہ دوستی کی لیکن اس کے بعد چین نے امریکہ سے تعلقات بنانے شروع کر دیے۔ دشمن۔ اس ملک کا ایک بھی دوست نہ تھا۔ اب صرف عوام اپنے محبوب لیڈر کی حفاظت کر سکتے تھے۔ صرف ان کو یقین دلانا تھا کہ وہ اپنا دفاع کر رہے ہیں۔
کسی کو البانیہ کی پرواہ نہیں تھی۔ یہ اتنا اہم ہی نہیں تھا۔ یورپ کا غریب ترین ملک تھا۔ آبادی زیادہ پڑھی لکھی نہ تھی۔ ٹرانسپورٹ اچھی تھی، نہ قدرتی ذرائع۔ کسی نے اس ملک کا کیا کرنا تھا۔ سرد جنگ کے دور میں سپر پاورز کو دوسرے مسائل تھے لیکن یہاں پر لوگوں کو یہ یقین دلایا گیا کہ کہ یہ سب خطرے میں ہیں۔ تمام دنیا کی نظریں البانیہ پر ہیں۔ ایک پروگرام بنکر بنانے کا شروع ہوا۔ اس نے اس کمزور قوم کو بالکل تباہ کر دیا۔ یہ وہ برا آئیڈیا تھا جس کے بارے میں یہ پوسٹ ہے۔
اگلے بیس سال میں پورے ملک میں ساڑھے سات لاکھ کنکریٹ سے بنے مورچے جگہ جگہ تعمیر کئے گئے۔ اس وقت البانیہ جائیں تو یہ آج بھی ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ صرف بارڈر پر نہیں، ہر جگہ۔ گلیوں میں، ساحل پر، بازاروں کے بیچ، کھیتوں میں۔ ہر چار شہریوں کے لئے ایک!! ہر مربع کلومیٹر میں چوبیس!! یہ سستے نہیں تھے۔ فولاد اور کنکریٹ سے بنے ان لاکھوں ڈبوں نے اس کی کمزور معیشت بالکل ڈبو دی۔ ایک غریب ملک نے ایک عجیب پاگل پن کے پیچھے اپنی آخری جمع پونجی خرچ کر دی۔ ان کی معیشت کا بیس فیصد حصہ ان کی تعمیر پر خرچ ہوتا۔ البانیہ اپنے اس شوق کی وجہ سے نہ گھر بنا سکتا تھا، نہ سڑکیں۔
یہ ایک انتہائی برا آئیڈیا تھا۔ نہ صرف معیشت کے لئے بلکہ دفاع کیلئے بھی۔اس بنکر میں بیٹھ کر لوگ جنگ کے دوران بھی کیا کر سکتے تھے؟ گولیاں اور خوراک کہاں سے لیتے؟ رابطہ کیسے کرتے؟ نہ کسی نے البانیہ پر حملہ کرنا تھا اور نہ کیا۔ لیکن انور ہوژا ایک چیز میں کامیاب رہے۔ اپنا اقتدار بڑھانے میں۔ یہ بنکر جنگی جنون اور ان دیکھے دشمن کی واضح نشانیاں تھیں جو لوگوں کو کسی خطرے کی روز یاد دلاتی تھیں۔ ایک تنہا اور خطرہ محسوس کرتی قوم کیلئے ان کا لیڈر انکی امید تھا۔ اگر خطرہ نہیں تھا تو بھلا اتنے بنکر کیوں تھے؟ یہ آئیڈیا ملک کے لیڈر کے لئے برا نہیں تھا۔
چوالیس سالہ دور اقتدار کے بعد انور ہوژا کا ۱۹۸۵ میں انتقال ہو گیا۔ساتھ ہی بنکر بنانے کی پالیسی کا بھی۔ کئی بنکر ختم ہو گئے۔ بہت سے باقی ہیں۔ ان کے نئے استعمال ڈھونڈ لئے گئے۔ کہیں مشروم فارم، کہیں کیفے، کہیں کسی کی رہائش گاہ، کبھی کوسوو مہاجرین کے کیمپ، کہیں کلینک، کہیں پرندوں کی جگہ۔ آج کوئی سیاح یہاں جاتا ہے تو سب سے اہم ان کو ہی نوٹ کرتا ہے۔ ماضی میں تاریکی اور خوف میں قوم کو مبتلا رکھنے والے یہ بنکر آج ٹورسٹ ایٹریکشن ہیں۔ اس قوم نے ماضی کے برے آئیڈیا کو بھی آج اچھا بنا لیا ہے۔ البانیہ پر کسی نے قبضہ نہیں کیا، سوائے اس کے اپنے خوف کے۔ آج البانیہ نے اپنے خوف پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ اب تنہا نہیں، اپنا جغرافیہ تبدیل کئے بغیر ہر طرف دوستوں سے گھرا ہے۔