انتظار حسین کے فکری اور فنی پس منظر کا ایک جائزہ، طویل مضمون کا ایک مختصر حصہ:
علامتوں کا زوال اور انتظار حسین کا ناسٹلجیا
راجیہ سبھا ٹی وی کے ایک پروگرام’’ گفتگو ‘‘میں سوال دہندہ نے جب انتظار حسین سے سوال کیا کہ ان کے افسانوں میں ہندواور بدھشٹ دیو مالا یا اساطیر کو اتنی اہمیت کیوں حاصل ہے توانہوں نے برملا کہا کہ وہ پاکستان جانے کے بعد ناسٹلجیا کا شکار ہوگئے اور انہیں اپنی روایات ، اپنی ثقافتی شناخت اور اپنی جڑوں کی تلاش کی شدت سے فکر ہوئی ۔ ان کے اس بیان سے واضح طور پر ان کے فنی اظہار اور فکری نظام کا سراغ مل جاتا ہے۔ کیا انتظار حسین کی ہجرت کسی جبر کانتیجہ تھی ، مثلامعاشی یا سماجی ؟ انہوں نے تقسیم ہند کے اعلان کے فورابعد ہجرت کی اور لاہور جابسے جہاں ناصر کاظمی ان کے دوست بن گئے اور ان کے توسط سے بہت سارے اور بھی دوست میسر آئے ۔خود انتظار حسین اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ ان کا بچپن جس ماحول میں گذرا وہ ہندومسلم ثقافت اوریگانگت کا پروردہ تھا۔ دیوالی کے دئے ان کے پڑوسی اس دیوار پر جلاتے تھے جوان کے پڑوسی اور انتظار حسین کے گھر کے درمیان مشترک تھی ، وہاں محرم کے تازیے بھی نکلتے تھے اور ہولی کے رنگ بھی بکھرتے تھے ۔ رام نومی بھی دھوم دھام سے منائی جاتی تھی اور عید بھی ۔ وہ آذان کی آوازیں بھی سنتے تھے اور گھر کے قریب مندر سے ابھرتی ناقوس کی صدائیں بھی ۔ تقسیم ہند سے کچھ پہلے اور اس کے بعد ہندوستان بھر میں پھیلی مذہبی منافرت اور زہر آلود فضا سے ان کا گاؤں ڈبائی محفوظ رہا ، گاؤں کے علاوہ وہ اس وقت میرٹھ کے جس علاقے میں رہ رہے تھے وہاں بھی حالات ناگفتہ بہ نہ تھے۔ ہجرت کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ بڑے خاندانوں کے ملازمین اپنے گٹھر باندھ کر ہجرت کررہے تھے گھروں میں ، پریشانیاں پیدا ہورہی تھیں ۔اس وقت انہوں نے ایم اے کرلیا تھا ، ان کے بہت سارے دوست بھی ہجرت کررہے تھے اور ان کو بھی مشورہ دے رہے تھے کہ وہ بھی پاکستان چلے چلیں ۔ انہوں نے گھر والوں سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے جاؤ ، اپنی قسمت بناؤ۔ انتظار حسین کے ہجرت کے اس پس منظر کو دیکھیں تو اس میں کسی جبر، ظلم اور استحصال یا مذہبی منافرت کی رمق نظر نہیں آتی ۔ ان کی ہجرت کا پس منظر ایک نئے اسلامی مملکت میں اپنی قسمت بنانے سے عبارت ہے ۔ لیکن وہاں پہنچتے ہی وہ تنہائی اور ناسٹلجیا کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ وہ واپس کیوں نہیں آئے ؟ اس سوال کا جواب انتظار حسین نے یہ دیا کہ پاکستان پہنچ جانے کے بعدلوٹنابہت مشکل کام تھا، بلکہ ناممکن تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں تھا لوگ کسی نہ کسی طریقے سے انیس سو ستر تک اور اس کے بعد قیام بنگلہ دیش کے بعد بھی بڑی تعداد میں ہندوستان واپس آئے ۔ بہرحال میرا مسئلہ یہ نہیں ، مجھے اس بات میں دلچسپی ہے کہ فکشن میں ناسٹلجیا کیا گل کھلاتی ہے اور کیا ناسٹلجیا کا شکار شخص اچھا فکشن لکھ سکتا ہے۔ کیا انتظار حسین واقعی ناسٹلجیا کے زیر اثر افسانے تحریر کررہے تھے یا اس کی کوئی دوسری وجہ تھی؟ ان سوالوں کا جواب میں انتظار حسین کے افسانوں کے بجائے ان کی کتاب علامتوں کا زوال میں تلاش کرنا چاہتا ہوں ۔ ظاہر ہے اس کتاب میں شامل مضامین انتظار حسین کی نظریاتی اور فنی اساس ہیں ۔ فکری سطح پر انہوں نے جو تھیوری بنائی اس کا اظہار ان کے فن میں ہوا یا یوں کہیں انہوں نے جس قسم کے افسانے لکھے اس کا فنی جواز انہوں نے علامتوں کا زوال کے مضامین میں پیش کیا ۔ انتظار کے فنی اور فکری اساس پرگفتگو سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم ناسٹلجیا اور فکشن کے رشتوں پر ایک نظر ڈال لیں ، بلکہ ناسٹلجیا کی تعریف پر بھی ایک نظر کرلیں تو بہتر ہوگا۔آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے مطابق ناسٹلجیا کی تعریف یہ ہے:
As the saying goes, ‘Nostalgia isn’t what it used to be’. In English nostalgia first meant ‘acute homesickness’, coined in the 18th century from the Greek words nostos, ‘return home’, and algos, ‘pain’, as a translation of the German word Heimweh or ‘homesickness’.
یعنی گھر کی یاد اور اس سے پیدا ہونے والی غم کی کیفیت اس تعریف میں شامل ہے ۔ ناسٹلجیا یونانی لفظ nostosیعنی گھر واپسی اور algosیعنی کرب کا مرکب ہے۔ اس پس منظر میں دیکھیں تو ایک گھر تو وہ ہے جس میں فرد پیدا ہوتا ہے ، پرورش پاتا ہے ، جس میں اس کے ماں باپ ، خاندان کے لوگ ہوتے ہیں ۔ یہ گھر خاص انفرادی اور خاندانی تجربے کا حامل گھر ہے لیکن یہ گھر اس محلے سے الگ نہیں تو جس میں یہ گھر ایک مکان کی صورت موجود ہے ۔ اور یہ محلہ کسی شہر کا حصہ ہے جس کی اپنی علاقائیت ہے ۔ اسی طرح شہر بھی ایک ملک کا حصہ ہے جو مختلف علاقائی ثقافت کا مجموعہ ہے لیکن یہ ثقافتیں کسی مشترکہ وراثت کا حصہ بھی ہیں ۔ اب غور کریں تو ایک گھر محلے کا انفرادی مکان ہے ، دوسرا گھر محلہ ہے ، تیسرا گھر شہر اور چوتھا گھر پورا ملک ہے۔ یہ فرد کی جدائی کی نوعیت اور وجوہات پر منحصر ہے کہ وہ انفرادی گھر سے شہر میں اور شہر سے کسی دوسرے شہر میں یا پھر ملک سے کسی دوسرے ملک میں ہجرت کرجاتا ہے تو مختلف حالات و عوامل اس پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں ، ۔ انسانی سائیکی پرگھرسے جدائی کے اثرات گھر واپسی کے امکانات کے لحاظ سے ہلکے یا گہرے پڑ سکتے ہیں ۔ ایک ایسی حالت جس میں فرد کی ہجرت مستقل ہوجائے اور وہ کسی صورت گھر واپس نہ ہوسکے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہوم سکنیس مستقل ناسٹلجیا میں ڈھل جائے گی ۔
اپنی تہذیبی جڑوں سے پوری طرح علیحدہ ہوکر انسان جب ایک بالکل دوسری تہذیبی اور ثقافتی دنیا میں سانس لینے پر مجبور ہوجاتا ہے، یہ مجبوری خود اپنی پسند کا نتجہ بھی ہوسکتی ہے ، مثلا بہتر زندگی کی تلاش جیسا کہ اوپر ہم نے دیکھا کہ انتظار حسین کسی جبر کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی دنیا بنانے کی نیت سے پاکستان چلے گئے، ہوسکتا ہے اس مہاجرت میں ایک لاشعوری خوف بھی شامل ہو جو مختلف علاقوں سے آنے والی خبروں کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہو، ان خبروں میں قتل وغارت گری اور تقسیم کے بعد مسلمانوں کی غیر یقینی حالت کے سوالات بھی ابھر رہے ہوں گے ، ایسے میں مصنف کو بار بار اپنی مٹی ، اپنا گھر ، اپنا محلہ ، اپنا شہر اور اپنا ملک ، وہاں کے لوگ ، وہاں کی زندگی ، تہوار، موسم ، کھیل تماشے ، کھان پان ، لباس ، قصے کہانیاں اور نجی مشاہدات یاد آتے ہیں ۔ ان ہی یادوں کے درمیان وہ ایک نئی زمین پر سانس بھی لے رہا ہوتا ہے اور زندگی کے دوسرے مسائل سے بھی نبرد آزما ہورہا ہوتا ہے۔ اس نئی زمین اوریہاں کے ثقافتی اثرات ، نئے دوست ، نیا گھر ، نیا محلہ ، نیا شہر اور نیا ملک اس پر اثر انداز ہورہا ہوتا ہے۔ اس دو متضاد مگر ناگزیر حالات کے درمیان اس کی سانسیں جاری رہتی ہیں ۔ بہرحا ل جب ناسٹلجیا مستقل ہوجائے تو اس سے موت کے بعد ہی نجات ممکن ہے ۔ ناسٹلجیا ظاہر ہے شخصی واردات ہے لیکن اس کے دائرے میں گذشتہ دنیا کی جزئیات شامل ہوتی ہیں ، گویا ایک فرد میں پوری ایک تہذیب سانس لے رہی ہوتی ہے۔ اس انفرادی تجربے کا روسو اپنے سماجی فلسفے میں کس طرح اظہار کرتا ہے یہ دیکھنا بڑا دلچسپ ہوگا۔
I see nothing in the future that tempts me; all that can charm me now
is to recollect the past and my recollections of the time of which I
speak as vivid as they are true often let me live content in the midst
of my misfortunes.
Jean-Jacques Rousseau Confessions 1782–891
روسو کو مستقبل میں کچھ بھی نظر نہیں آتا ، اسے جو بھی کشش نظر آتی ہے وہ ماضی کی بازیافت ہے، یہ ماضی روسو کو اپنی بدقسمتی کے درمیان ایک جیتا جاگتا امید افزا مواد فراہم کرتاہے۔ روسو کے سماجی افکار میں یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم نئی سماجی قوتوں اور خیالات کا اطلاق معاشرہ پر اچانک کرہی نہیں سکتے یا انہیں تھوپ نہیں سکتے، اگر باالجبر تھوپ بھی دیتے ہیں تو وہ معاشرے کے فطری مزاج کا حصہ نہیں بن سکتے بلکہ پرانی معاشرتی قوتوں اور خیالات کی قابل قبول حد تک تشکیل نو کرسکتے ہیں ۔ سماجی تبدیلی یا مورڈنائزیشن میں حکومت کے رول کے پس منظر میں روسو کا یہ خیال ماضی کی اساسی اہمیت پر دال ہے ۔اس سے یہ نتیجہ نکالنا بے جا نہیں کہ ماضی انسانی بدن میں خون کی طرح دوڑتاہے اور موجودہ معاشرہ ماضی کی بنیادوں پر استوار قابل قبول تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہوتا رہتا ہے۔ معاشرتی دھارے میں شامل ماضی کی روح سے متصادم ایک بالکل نئی فکر یا خیال یا ایسی انجانی قوت کا اطلاق ممکن ہی نہیں جو پہلے سے جانی ہوئی نہ ہو یا جس کا ماضی سے کوئی رشتہ ہی نہ ہو۔ماضی کے بطن سے ہی فکر کی نئی کونپل پھوٹ سکتی ہے جو ماضی کی وراثت کا فروغ ہوتی ہے اس سے علیحدہ اس کا کوئی وجود ہوہی نہیں سکتا۔ اسی لیے روسو کے نظریے میں ماضی بہت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔اب ماضی یا ماضی کی یادداشتوں کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب ہم اپنے ماضی سے کٹ کر ایک نئی تہذیبی دنیا میں بھٹکنے والے فرد کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کے بدن میں خون کی طرح دوڑتے ماضی اور اس کے اندر موجود نفسیاتی سطح پر ناسٹلجیا کی کار گذاریوں کو سمجھ سکتے ہیں ۔ ایڈورڈ سعید نے اپنے مضمون Reflections On Exile میں لکھا ہے :
Exile is strangely compelling to think about but terrible to experience. It is the unhealable rift forced between a human being and a native place between the self and its true home: its essential sadness can never be surmounted. And while it is true that literature and history contain heroic romantic glorious even triumphant episodes in an exile146s life these are no more than efforts meant to overcome the crippling sorrow of estrangement. The achievements of exile are permanently undermined by the loss of something left behind forever.
(Reflections On Exile and Other Essays: Edward W.Said)
ایڈورڈ سعید مابعد نوآبادیاتی مطالعات کے سرخیل نظریہ ساز مانے جاتے ہیں ۔ پیش کردہ پیرا گراف کا پس منظر ایک ایسی جلاوطنی ہے جو سیاسی جبر کا نتیجہ ہے ۔ خاص طور سے فلسطین پر اسرائیل کا غاضبانہ قبضہ اور سعید کی نظر میں نوآبادیاتی مظالم کی وجہ سے پیدا شدہ صورتحال نے فلسطینیوں کو جلاوطنی پر مجبور کردیا ۔ لیکن جلاوطنی اور مہاجرت کو ایک عمومی صورت حال میں دیکھیں تو ایڈورڈ سعید کہہ رہا ہے کہ جلاوطنی تعجب خیز طور پر سوچنے پر مجبور توکرتی ہے لیکن اس تجربے سے گذرنابہت ہی تکلیف دہ ہے ۔ یہ وہ نہ بھرنے والا جبریہ خلیج ہے جو ایک انسان اور اس کی آبائی سرزمین کے درمیان حائل ہے، یہ وجود اور اس کے حقیقی گھر کے درمیان موجود ہے ۔اس کا اساسی دکھ کبھی سطح پر نہیں آتا ۔اور یہ سچ ہے کہ ایک طرف ادب اور تاریخ میں دلیرانہ ، رومانی ، قابل فخر واقعات جلاوطن زندگی کے قابل فخر اظہاریے ہیں ، لیکن یہ ساری جدوجہد اس دکھ سے نجات کے لیے بے معنی ہے جوایک اجنبی اجنبیت کے احساس سے پیدا ہوتی ہے۔ا س نقصان کے آگے جو اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہیں جلاوطنی کی ساری کامیابیاں بے وقعت ہوجاتی ہیں۔
ایڈورڈ سعید جلاوطنی یا مہاجرت ، یعنی اپنی تہذیب سے کٹ کر ایک اجنبی سماجی زندگی اور تہذیب میں زندگی کرنے اور اس میں ہر طرح کی کامیابیوں اور فتوحات کو بے معنی گردانتا ہے ۔ اس کے لیے بے گھری یا اپنی جڑوں سے کٹ جانے کا احساس زیاں سب سے زیادہ اہم ہے ۔ انتظار حسین کے یہاں جب ہم ناسٹلجیا کے برملا اظہار سے دوچار ہوتے ہیں تو اس پس منظر میں ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوتی ۔ شخصی سطح پر انتظار حسین نے پاکستان اور پاکستان کے شہر لاہور میں لاکھ معاشی اور ادبی معرکے سر کیے ہوں لیکن وہ احساس زیاں ان کے اندر ہمیشہ بنا رہا جو ایک مہاجر کی نفسیات کا ناگزیر حصہ ہے۔ انتظار حسین کے فکشن میں تہذیبی جڑوں کی بازیافت کا جو عمل ملتا ہے اس کی فکری اساس ان کی کتاب ’’علامتوں کا زوال ‘‘فراہم کرتی ہے۔اس سے پہلے کہ ہم علامتوں کا زوال کا جائزہ لیں ان کے عہد کے اہم ناقد محمد حسن عسکری کی ایک رائے بھی دیکھ لیں ۔ گوکہ حسن عسکری کا یہ مضمون بہت حد تک منفی نوعیت کا ہے اور یہ انتظار حسین کے پہلے افسانوی مجموعہ گلی کوچے پر مبنی ہے ۔ اس مجموعہ میں انتظار حسین کے یہاں تہذیبی جڑوں کی بازیافت کا وہ عمل نہیں ملتا جو ان کے بعد کے مجموعوں آخری آدمی ، خالی پنجرہ ، خیمے سے دور، شہر افسوس، کچھوے ، کنکری وغیرہ میں ملتا ہے۔ انتظار حسین نے آگے سمندر ہے ، دن اور چاند گہن کے نام سے ناول بھی لکھے ۔ اس کے علاوہ آپ بیتی چراغوں کا دھواں اور دلی خاص اہمیت کی حامل ہیں ۔ یہاں انتظار حسین کے پہلے مجموعہ گلی کوچے پر عسکری کی رائے اس لیے اہم ہے کہ یہ رائے انتظار حسین کے ابتدائی افسانوی مجموعہ پر اور اس میں بھی وہ عسکری ناسٹلجیا کی وہ جھلک دیکھ لیتے ہیں جو انتظار حسین کے فن کا بنیادی فلسفہ ہے ۔ عسکری کے نزدیک یہ ایک طرح کی ماضی پرستی ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ نوآبادیاتی اور مابعدنوآبادیاتی صورت حال اور مکالمے کے پس منظر میں عسکری گلی کوچے کے افسانوں کا جائزہ لیتے تو ان کے تنائج کچھ اور ہوتے .
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“