آدم کو جنت سے نکالا گیا ۔۔ زمین پر نسل آدم میں پہلا خیر و شر کا معرکہ ہابیل وقابیل کے درمیان رہا ۔۔خاکی کے پتلے کو سجدہ نہ کرنے کے عوض شیطان ملعون ہوا ۔۔صرف اللہ تعالی کی ایک حکم عدولی کے سبب ۔۔۔شیطان بڑا کائیاں تھا ۔۔اس نے نسل آدم کو گمراہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا کہ سبب بھی آدم اور اسے معلوم تھا اسی نسل آدم میں آدمی کے ساتھ عورت بھی شامل ہے ۔۔۔وہ جو کہتے ہیں نا کہ فساد کی جڑ تین ،،ز ،، ہیں ۔۔۔زن کے ساتھ زر اور زمین ۔۔۔سے وابستہ خواہشات نے ابتدائے آفرینش سے تا حال فتنوں کا وہ بازار گرم کیا کہ ابلیس بھی پناہ مانگے ۔۔نفسانی خواہشات کی تکمیل میں اس نے درندوں کو پیچھے چھوڑ دیا کہ ۔۔وہ تو بھوک کے لیے درندہ بنتا ہے جبکہ آدمی ہر خواہش کی تکمیل کے لیے درندہ بنتا ہے ۔۔احکاماتِ خداوندی کو پائمال کرنے کی پاداش میں ۔۔پتھروں کی بارش ، قحط سالی کا عذاب ،۔۔آگ کی بارش و پانیوں میں گھرا ہونے کے باوجود وہ شرکشی پہ آمادہ تیر کر پہاڑ کی پناہ چاہتا ہے ۔۔خدائی کے زعم میں براہیم کو نذر آتش کرنا چاہتا ہے۔ ۔۔غیر فطری عمل کی پاداش میں بستی تہہ و بالا ہونے کے باوجود درس عبرت حاصل نہیں کرتا ۔۔۔۔اس کے خمیر میں رچی بسی سرکشی ازل سے بقول اقبال ،
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ۔ مصطفوی ﷺ سے شرار بولہبی
مگر وہی وہی آدم خاکی ۔۔انسانیت کے بلند مقام پر فائر ہے ۔۔جو خون کے پیاسوں کو قبائیں دے رہا ہے ، جو گالیاں کھا کر دعائیں دے رہا ہے جو دو عالم کا تاجدار ہونے کے باوجود فرش خاک پر سورہا ہے جو راتوں کو جاگ کر امت کے لیے رورہا ہے ۔۔وہ عروج ۔۔انسانیت کی وہ معراج جسے دیکھ کر ،
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے
ایک طرف نسل آدم یہ بلندی کہ ،
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
دوسری طرف یہ پستی کہ ،
تیری گردن میں رسی اے ام جمیل
آدمی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے ۔۔فرشتے تو پیدا ہی کیے گئے اس لئے کہ احکامِ خداوندی بجا لائیں ۔۔مگر آدمی ۔۔آدمیت سے اٹھ کر ۔۔انسانیت کے مرتبہ پر فائر ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں ،
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر یہاں ،
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
کہ ہمیں کہنا پڑتا ہے ،
اجنبی شہر ہے دوست بناتے رہیے
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے
اور ،یہ بھی کہنا پڑتا ہے ،
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملوگے تپاک سے
یہ عجب مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
یہ اسی لیے کہ ۔۔ہلاکو نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی ،فتح کا جشن کھوپڑیوں کے مینار بنا کر کیا ۔۔کاسۂ سر کو پیالہ بنایا ، کہ ۔۔ہٹلر کے ہولوکاسٹ سے تاریخ لرزہ براندام ہے کہ ہیروشیما ناگاساکی آج بھی ناقابلِ کاشت ہے کہ ،
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
آدمی کے کئی روپ ، وہ مکار بھی ، ہوشیار بھی ، طرار بھی ، اداکار بھی کہ ہر آدمی میں رہتے ہیں دس بیس آدمی ۔
آدمی میں عشق سماجائے تو وہ تیشے سے سنگ گراں توڑ کر جوئے شیر نکال دے ۔۔سر پر خاک ڈالے صحرا کی خاک چھانے ۔۔۔وہ عشق میں سارے دندان توڑ دے ۔۔فاترالعقل ہو تو ساری عمر کھڑے کھڑے گزار دے اور مر کر اس زمین پر لیٹ جائے جو سرحدوں سے پرے ہو ۔۔۔وہ زمین بانٹ لے ، وہ پانیوں کو بانٹ لے ۔۔وہ بے کراں آسماں کو بانٹ لے ۔۔۔گھر کے بیچ دیوار کھڑی کردے ۔۔تسکین نفسانی کی خاطر دین بیچ دے ، عصمتوں کو بیچ دے ، ۔۔حتیٰ کہ وطن کو بیچ دے ۔آدمی عزلت پسند ،خلوت پسند ،جلوت پسند ،خود پسند بھی ہے تو محشرِ خیال بھی ۔۔وہ دولت کا پجاری ۔۔شہرت کا بھوکا ۔۔نام و نمود کا پیاسا ۔۔۔ایسا پیاسا کہ سمندر بھی پیاس بجھا نہ سکے ۔۔اپنے اندر ایسے طوفان چھپائے کہ رونے پہ آجائے تو دریا بھی بہا دے ۔۔۔تو آنکھیں خشک ہو کر پتھر ہوجائیں ۔۔اداکار ایسا کہ رخ پر سونقاب ڈالے اصلی چہرہ نظر نہ آئے ۔۔دن میں سفید پوش تو راتوں میں سیاہ کار ۔۔۔
وہ سیاسی بازی گر بھی ہے تو الفاظ کا جادو گر بھی ۔۔دور بین اتنا کہ ستاروں کی رہ گزر ڈھونڈ لیتا ہے اور کوتاہ نظر اتنا کہ اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا ۔۔انگلی کے اشارے سے عیب جوئی تو کرے گا مگر اپنی جانب اٹھی چار انگلیوں کو نظر انداز ۔۔وہ فاقہ مست بھی ہے تو خود پرست بھی ،وہ بت پرست بھی تو خدا پرست بھی ۔۔آپ کو سگ گزیدہ بھی ملیں گے تو مردم گزیدہ بھی ۔۔۔یہی داستان ہے نسل آدم کی جسے تاریخ کے ہر دور نے دیکھا ہے ۔۔جسے مورخ نے رقم کیا ہے ۔۔وہی افکارِ بولہبی کل بھی تھے آج بھی ہیں ۔۔مگر پہلو بدل بدل کے ۔۔چولا بدل بدل کے ۔۔۔آج کا قلمکار کیا دیکھتا ہے ۔۔کیا محسوس کرتا ہے ۔۔اس کا نقطۂ نظر کیا ہے ۔۔۔شراب وہی بوتلیں نئی ۔۔پھر شراب کہن پلانے کی سعی ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری نے کی ہے ۔۔جس کا روز اول سے یہی وتیرہ رہا ہے نئی جہت تلاش کرنا ۔
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری نے 16 نومبر 2019 بروز ہفتہ پروگرام بعنوان ،، آدمی ،، منعقد کیا ۔۔ادارہ کے بانی اور سرپرست عزت مآب توصیف ترنل صاحب کی رہنمائی میں اب تک 228 کامیاب ترین پروگرام منعقد ہوچکے ہیں ۔۔جو کہ برقی دنیا میں ایک ریکارڈ ہے جسے شاید ہی مستقبل قریب میں کوئی توڑ سکے ۔۔ہر پروگرام منفرد ۔۔یونیک۔۔انوکھا ۔۔اچھوتا ۔۔بہت سے اداروں نے اس کی کاپی کی کوشش کی مگر ،
کھوٹے کو کھرا بن کے ابھرنا نہیں اچھا
کے مصداق جب تاؤ دیا گیا تو منہ فق ہوگیا ۔۔بعض گمنامی کے اتاہ غار میں چلے گئے ۔۔کاروان عالمی دی بیسٹ اردو پوئٹری اب بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑتا اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے ۔
پروگرام ہذا کے آرگنائزر تھے خواجہ ثقلین صاحب ۔۔صدارت کی ذمہ داری سنبھالی امین اوڈیرائی صاحب نے ۔۔مہمان خصوصی تھے افتخار راغب صاحب اور غلام مصطفیٰ اعوان صاحب ۔۔نظامت کے فرائض انجام دیے نصیر حشمت گرواہ صاحب نے ۔۔۔اور حسب سابق ،۔۔پر کششِ و پر جاذب بروشر تیار کیا صابر جاذب صاحب نے ۔۔تنقید نگار تھے ۔۔شفاعت فہیم صاحب ، ریاض شاہد صاحب اور شہزاد نیر صاحب ۔۔۔پروگرام کی ابتدا حمد باری تعالی سے ہوئی ۔۔نذرانہ نعت کے بعد شعراء کرام نے اپنی تخلیقات پیش کیں۔
نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیے ۔
عنوان آدمی
حمد ۔۔۔۔۔۔
وہ مالک ہے ، وہی سب کا خدا ہے
اُسی کے نام سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر ابتدا ہے
سلیقہ حمد کا ۔۔۔۔۔۔ یارب عطا کر
یہی نسرینؔ کے دل کی دعا ہے
نسرین سید
نعتِ سید الابرار ﷺ (ذاتِ احمد ﷺ ہے
جوہرِ کُن فکاں کا راز وہی
سرّ قرآن ذاتِ احمد ﷺ ہے
رحمتیں ہیں درود پر دائمؔ
اصلِ فرمان ذاتِ احمد ﷺ ہے
غلام مصطفیٰ دائمؔ پاکستان
آدمی کی بربریّت کا جو اندازہ ہوا
حادثہ کشمیر کا پھر ذہن میں تازہ ہوا
کربلا میں ظلم جب حد سے تجاوز کر گیا
آدمی ہی آدمی کے خون کا پیاسا ہوا
ڈاکٹر الماس کبیر جاوید ممبئی
افسوس غلاموں کا حق چھننے والوں نے
قِسمت اُنہی ہاتھوں سے دیوار میں چُنوائی
مِلتا ہے شب و روز نئے رُوپ میں آدم
دنیا میں کہیں اور یہ جدّت نہ مِلے گی
عبدالرزّاق بے کل کشمیر
،،آدمی ، آدمی سے ملتا ہے ،،
کون لیکن خوشی سے ملتا ہے
اس کا ارشاد ! کچھ نہیں تریاق
زہر جو آدمی سے ملتا ہے
ڈاکٹر ارشاد خان بھارت
کس قدر آج ہے در بدر آدمی
پھرتا رہتا ہے کتنے نگر آدمی
کھو رہی اسکی انسانیت دم بدم
جا رہا جانے کس رہگزر آدمی
گوہر سیما رامپور انڈیا
لب پہ جس کے رام ہے اور ہاتھ میں بندوق ہے
پھر بھی یہ افضل ترین اللہ کی مخلوق ہے؟
جسمِ انسانی سے دریا خون کے بہتے رہے
پھر بھی ہم انسان ہیں یہ فخر سے کہتے رہے
خواجہ ثقلین بھارت
وہ کہتا ہے مٹا دوں زندگی کیا
یہی رستہ بچا ہے آخری کیا
ٹپکتا ہے لہو اب آسماں سے
وہاں بھی بس گیا ہے آدمی کیا
اصغر شمیم، کولکاتا،انڈیا
ہرطرف بھیڈ آدمی کی ہے
کوئی انساں نظر نہیں آتا
ایسی دیوارکھینچ دی اسنے
گھر بھی میرا نظر نہیں آتا
جعفر بڑھانوی بھارت
سال پچپن گزارنے کے بعد
سوچتا ہوں کہ زندگی کیا ہے!
اپنی مرضی سے ہل نہیں سکتا
ایک پتلا ہے آدمی کیا ہے!
امین اوڈیرائی پاکستان
پروگرام مسلسل کامیابی کے ساتھ ، داد وتحسین و توصیفی کلمات کے ساتھ ۔۔غلام مصطفیٰ دائم صاحب نے بے لاگ و بے باک تنقیدی گفتگو کی ۔۔خطبۂ صدارت کے ساتھ یہ بزم اختتام پذیر ہوئی ۔
میں بانی و سرپرست توصیف ترنل صاحب ۔۔پروگرام آرگنائزر خواجہ ثقلین صاحب ۔۔صدر محفل و مہمان کو مبارکباد دیتا ہوں ۔۔خوبصورت نظامت کے لیے ، خوبصورت بروشر کے لیے بالترتیب نصیر حشمت صاحب و صابر جاذب کو نیز ٹیم دی بیسٹ کو اتنی خوبصورت بزم آرائی کے لیے ۔
امید کرتا ہوں ادارہ مستقبل میں بھی اسی نوعیت کے پروگراموں کا انعقاد کرتا رہے گا ۔