رپورٹ : ڈاکٹرارشادخان بھارت
پروگرام نمبر226 بعنوان : غمِ دوراں و حالاتِ حاضرہ
میں نے پوچھا ہواؤں سے ،،تمہیں غم دورں سے واسطہ پڑا ہے ؟،،۔۔بل کھاتی اٹھلاتی ہواؤں نے کہا ۔۔خوشی اور غم ایک سکے کے دو رخ ہیں ۔۔۔میں باد نسیم بھی ہوں تو ،باد شمیم بھی تو ،باد سموم بھی ۔۔۔گلشن میں باد صبا بن کر جھومتی گاتی ،گنگناتی گزر جاتی ہوں تو لق ودق صحرا میں لو کے جھکڑ۔۔غم دوراں کا نظارہ میں نے بے آب وگیاہ صحراؤں میں کیا ۔۔۔پھر بھی صبح دم ہولے ہولے مسکراکر ۔۔تر وتازہ ہواؤں کے جھونکے نذرِ زندگی کرتی ہوں ۔۔۔۔!!۔۔میں نے ندی سے پوچھا ،،تمہیں غم زندگی نے چھوا ہے ؟؟۔۔۔ندی گنگنائی۔۔۔غم زندگی ،رم زندگی ،سم زندگی ،دمِ زندگی ۔۔۔میں پتھروں پر اچھلتی ، پہلو بدل کر چلتی ، بلندیوں سے کودتی۔۔عجب جلوے دکھاتی ۔۔اپنی منزل پر رواں دواں ۔۔کناروں کو کاٹتی ،میدانوں کو جل تھل کرتی ۔۔آبشاروں کے صدمے سہتی ۔۔۔سمندر میں ضم۔۔۔کہ یہی زندگانی کی حقیقت ہے ۔۔!!،،۔۔میں نے گھٹاؤں سے استفسار کیا ۔۔غم زندگی سے متعلق ۔۔گھٹاؤں نے کہا ،۔۔،،ہواؤں کے دوش پر آسمان میں کبھی یہاں ،کبھی وہاں ۔۔۔گھنگھور گھٹا چھائی ۔۔نپی تلی کھڑی ہے کہ اب برس۔۔تب برس ۔۔کھل کر برس بھی نہ پائی تھی کہ ۔۔برس کر کھل گئی ۔۔ہواؤں نے دور دیس پہنچا دیا ۔۔۔زمینی منتظر نگاہیں ترستی رہ گئيں !!۔۔میں نے غم دوراں دیکھا ہے قحط سالی میں ، قحط زدہ علاقوں میں ۔۔۔خشک سالی میں ۔۔میں پیاس بجھا کر بھی پیاسی رہتی ہوں ،، ہریالی عطا کر خود ۔۔۔کالی کالی گھٹا ۔۔۔میرا اس میں کیا گھٹا ؟؟۔۔۔یہ تو قدرت کی عطا ہے !!۔۔میں نے پھول سے پوچھا ۔۔تمہیں غم دوراں سے سابقہ پڑا ہے ۔۔۔رنگ میں ڈوبے ہوئے ۔۔خوشبو میں بسے ہوئے ۔۔۔تبسّم بکھیرتے ہوئے ۔۔۔پھول نے کہا ۔۔یہ ایک تبسّم بھی کسے ملتا ہے ؟؟۔۔میں کھل کر مسکراتا ہوں کہ ۔۔ظالم گلچیں توڑ لیتا ہے ۔۔مگر میں مطمئن ہوں کہ گل عباس دیکھ کر ایک بیمار بچے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے ۔۔۔یہی میری زندگی کا حاصل ہے ۔۔۔میں لاجواب ہوگیا اور قائل ہوگیا علامہ کا کہ ۔۔۔جو انہوں نے کہا ،
کون سا حسن اوراق پریشاں میں نہیں
اس سے بڑھ کر غمِ دوراں اور کیا ہوسکتا ہے کہ لمحات کرب و بلا میں دریا آل رسول ﷺ کی پیاس نہ بجھا سکا!!
کیا پیاسوں کی پیاس بجھائے اس دریا کا پانی
جو دریا خود مانگ رہا ہو قطرہ قطرہ پانی
سمندر کو یہی غم کھائے جاتا ہے کہ اتنا بڑا ذخیرۂ آب ہونے کے باوجود کسی کی پیاس بجھا نہیں سکتا ۔۔بلکہ دریاؤں کے آب شیریں کو اپنے اندر ضم کرلیتا ہے !!
میں نے میر سے غم دوراں کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے ،
پتہ پتہ ،بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے !!
میں غالب کا رخ کیا ، بولے ۔۔
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
آگے کہنے لگے ،
رنج کا خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
پھر یوں بھی کہا ،
قید حیات بندوغم اصل میں دونوں ایک ہیں
پھر شاکی ہوئے ۔۔
دل بھی کئی دیے ہوتے
صاحب ذوق ۔۔استاد ذوق سے استفسار کیا تو بولے ۔۔
اب تو گھبرا کہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے ۔۔
یہاں تو انتہائی قدم سے سابقہ پڑا تو ۔۔اقبال کے در پر دستک دی تو پہلے گویا ہوئے ،
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یارب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
میرا دل بھی بجھنے والا تھا کہ کہنے لگے ،
رم غم نہ کر ،سم غم نہ کھا کہ یہی ہے شان قلندری
طبیعت کچھ بحال ہوئی تو جگر سے پوچھ بیٹھے ۔۔ان کا نقطۂ نظر دیکھیے،
تیرا درد ،درد تنہا ۔۔میرا غم ،غمِ زمانہ
فیض صاحب کو ٹٹولا تو کہنے لگے ۔۔
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
اب آگے ہمت نہ پڑی کہ ناصر ،قتیل ،فراز کو کھنگالتے ۔۔کہ غم ،دکھ ،رنج ،الم،درد،ستم ،آلام ،مصائب ،وبال ،جنجال ۔۔۔وغیرہم ۔۔کوئی غم دوراں کو لیے میر کی طرح ٹسوے بہاتا ہے تو کوئی ساحر کی طرح ۔۔فکر کو دھویں میں اڑاتا ہے ۔۔۔اور کوئی اقبال کی طرح ،
پھول وہ ہم نے چنے ہیں جو گلستاں میں نہیں
اسی غمِ دوراں کو ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری نے اپنا موضوع بنایا ۔۔بعنوان ،،غم دوراں و حالات حاضرہ ،،۔۔بتاریخ 26۔۔اکتوبر 2019۔۔پروگرام آئیڈیا توصیف ترنل صاحب نے پیش کیا ۔۔پروگرام آرگنائز ۔۔خواجہ ثقلین صاحب نے کیا ۔۔جاذب نظر بروشر صابر جاذب صاحب نے تیار کیا ۔۔پروگرام کی صدارت عبدالرزاق بے کل صاحب نے کی ،مہمان خصوصی تھے شاہ رخ ساحل صاحب اور مہمان اعزازی ڈاکٹر الماس کبیر صاحبہ ۔۔ہر بار کی طرح اس بار بھی صبیحہ صدف صاحبہ نے جان دار و شاندار نظامت کی ۔۔۔شعراء و ادباء نے غمِ دوراں کو اپنے اپنے انداز میں پیش کیا ۔۔شفاعت فہیم صاحب نے باوجود خرابی صحت کے تنقیدی گفتگو کر تنقید کا حق ادا کردیا ۔۔۔نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیے ۔
وہ ڈھائے جا رہے ہیں ظلم سب پر
جو ہیں اخبار چپ سادھے ہوئے ہیں
اصغر شمیم کولکاتاانڈیا
ظلم کی آگ لگائی ایسی
جیسے پھر اس کو بجھانانہیں تھا
امین اُڈیرائی سندھ پاکستان
ہے گہری بہت ہی سیاست یہ دلکش
پرندوں کی لاشیں بچھی ہیں چمن میں
مصطفیٰ دلکش ممبئی مہاراشٹر الہند
تو اینٹ سے اینٹ آج بجادے مرے گھر کی
کاٹے گا مرا ہاتھ تو تیرا بھی کٹے گا
خواجہ ثقلین بھارت
کہیں ہے جشن کہیں ز دگی کا ماتم ہے
تری زمیں پہ خدا ہا ہا کار سا کیوں ہے
صبیحہ صدف بھارت
ساحر لدھیانوی صاحب کی زمین پر ایک نظم
کبھی کبھی مِرے دل میں خیال آتا ہے
کہ مفلسی کا ستایا مرا وطن کیوں ہے
یہ ذات پات کے جھگڑے یہ جنگ کی باتیں
دِکھے اجڑتا ہوا ہند کا چمن کیوں ہے
شاداب انجم کامٹی ضلع ناگپور انڈیا
بتاؤ کہاں خوف و دہشت نہیں ہے
کہ بھارت بھی پہلے سا بھارت نہیں ہے
شاہ رخ ساحل تلسی پوری
بلرامپور، یوپی الہند
نظم ۔۔ بعنوان غمِ دوراں
کہیں بارود کی بارش کہیں گولوں کی برساتیں
کہیں ہےAKسینتالس کہیں توپوں کی بوچھاریں
کہیں کہرام اور چیخیں کہیں رونا کہیں آہیں
کہیں آفت کہیں دھوکے کہیں ہر گام پر گھاتیں
یہ لگتا ہے مقدر میں ہے بس آہ و فغاں کرنا
بہت مشکل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مختار تلہری بریلی انڈیا
الغرض سب نے شقاوت کی عبا پہنی ہے
دورِ حاضر میں یہ معیار حکومت کے ہیں
ڈاکٹر الماس کبیر جاویدممبئی انڈیا
ظہر الفساد فی البر والبحر بماکسبت ایدی الناس
آج دنیائے انسانی پر ایک طائرانہ نظر ڈالیےتو پتا چلتا ہے کہ ہر طرف ظلم و زیادہ تی، بر بریت اور تشدد کا عالم ہے_ہر طرف سے مظلوم کی آہ و بکا سنائی دیتی ہے_ہر طرف سسکتی انسانیت.بےجا ظلم سہتے مظلوم نظر آتے ہیں_ قتل و غارت گری جاری ہے_شراب و جوا, اور ہر طرح کی خرافات کا ماحول نظر آتا ہے.جب بھی سورج طلوع ہوتا ہے تو وہ اپنے طلوع ہوتے ہوئے مظلومین کی آہ و فغاں سنتے ہوئے طلوع ہوتا ہے اور اسی کیفیت میں غروب بھی ہوجاتا ہے_ لیکن کوئی غم خوار و مددگار و حمایتی اس تڑپتی انسانیت میں نظر نہیں آتا_ آخر کیا وجہ ہے کہ دن بدن روز بروز نسل انسانی, کلمہ گو مسلمان ظلم و بربریت کے شکار ہورہے ہیں اور کوئی ان کی آہ و پکار سننے بھی تیار نہیں__کوئی ان کو خبرگیری بھی کرنا نہیں چاہتا… ?
شہور شیروری کرناٹکی بھارت
بھوک کہانی
اکرم غریب گھرانے کا فرد تھا ۔ اس کی دو اولادیں تھیں ۔ آٹھ سالہ معظّم اور چھ سالہ شگفتہ ۔ بیوی انوری وفادار اور نیک خاتون تھیں ۔دائمی مریض اکرم کی حتٰی الامکان مدد کرتی ۔ دونوں بچے غربت کے سائے میں پل رہے تھے ۔
اکرم مریض ہونے کے باوجود محنت مزدوری کرکے روکھی سوکھی بچوں کے آگے ڈالتا مگر کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلاتا ۔روز کنواں کھودنا روز پانی پینا یہی اس کا مقدر تھا ۔ کام ملا تو روزی نہیں تو روزہ ۔ ادھر کئی دنوں سے اکرم مرض کی شدت سے صاحب فراش ہوگیا ۔جو کچھ جمع پونجی تھی علاج معالجے اور شکم کے جہنم کا ایندھن بن چکی تھی ۔دو روز سے اس گھر میں فاقہ تھا ۔اکرم کی کراہیں گھر میں گونجتیں اور درودیوار سے ٹکڑا کر واپس آجاتیں ، گھر کے باہر نہیں پہنچتیں کیونکہ آس پاس سب گونگے بہرے بستے تھے ۔بند دروازوں میں اپنی دنیا میں مگن ۔بالآخر اس کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا ۔کراہیں سناٹے میں مدغم ہوگئیں ۔پاس پڑوس کے دروازے کھل گئے ۔چندہ جمع کرکے تجہیز وتدفین ہوئی ۔ پڑوس سے غمزدہ گھرانے کے لیے کھانا آیا ،جسے تینوں نے شکم سیر ہوکر کھایا ۔تین روز کے بھوکے جو تھے !! تین روز تک یہی سلسلہ چلتا رہا ۔۔۔وہ میت کی یاد میں سرد آہیں بھرنے کی بجائے شکم کا سرد جہنم بھرتے ۔ چوتھے روز پڑوسیوں نے جھانکنا بھی پسند نہ کیا ۔
مرکزی خیال ماخوذ
ڈاکٹر ارشاد خان بھارت
خطبہءِ صدارت پروگرام 226 ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری:
واجب ُالاحترام مہمانانِ گرامی، صاحبانِ بصیرت منتظمین اور معزّز شرکاء کرام
اسّلامُ علیکم و رحمتُ اللّہ
ادارہ عالمی بیسٹ اُردو پوئٹری کے پروگرام بعنوان غمِ دوراں و ِحالاتِ حاضرہ کی کامیاب تکمیل آپ سب کو مبارک ہو۔
ادارہ کی انتظامیہ،بانی و چیئرمین اور سرپرستِ اعلیٰ توصیف ترنل صاحب، آرگنائزر خواجہ ثقلین صاحب، مسندِ نظامت پر فائز محترمہ صبیحہ صدف صاحبہ، صابر جاذب صاحب، وقار سعید صاحب، جان محمّد صاحب، ڈاکٹر سمی شاہد صاحبہ، کامران ضیا صاحب، محمّد شفیع میر صاحب، ڈاکٹر وسیم راشد صاحب ،ایم زیڈ کنول صاحبہ، شفاعت فہیم صاحب، شہزاد نیّر صاحب، افتخار راغب صاحب، غلام مصطفٰے دائم صاحب، شاہ رخ ساحل صاحب، ڈاکٹر الماس نیّر صاحبہ، ڈاکٹر ارشاد خان صاحب اور خواص کی اس بزم میں شامل تمام شعراءِِکرام اور اِس ادارہ کے خیر خواہ تہِ دل سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔
آج توصیف ترنل صاحب کا آئیڈیا جو اِس پروگرام کا مرکز و محور ہے اُسی کی مناسبت سے ایک شعر آپ احباب کی خدمت میں پیش ہے:
یارو مری قسمت سے تم اک بات تو پوچھو
کیا گردشِ حالات فقط میرے لیے ہے !
شعر و ادب کا تعلّق زندگی کے روحانی اور ذہنی گوشوں کے ساتھ ساتھ جذبات و احساسات کے حوالہ سے اس حد تک گہرا ہے کہ جہاں کہیں کسی بھی کیمرے کی آنکھ کی رسائی محال ہو وہاں بھی حقیقی اور بامقصد منظر کشی کا یہی ایک موثّر ترین ذریعہءِ ابلاغ ہے۔
اگر چہ شعر وہی ہوتا ہے جو داخلی ہیئت کے اعتبار سے بھی شعریت کا حامل ہو تاہم شعر کی ظاہری ہیئت کا بھی علمِ عروض اور صرف و نحو وغیرہ کی روشنی میں موزوں اور متناسب ہونا اُس کی تاثیر میں یقینی اضافہ کا موجب ہوتا ہے جو وسیع تر مطالعہ اور قادرُالکلام اساتذہ کے زیرِ سایہ ہی ممکن ہے۔
آج کے اس پروگرام میں بہت پُر اثر بامقصد، عُمدہ اور معیاری کلام دیکھنے کو ملا ہے۔ داد و تحسین کے ساتھ جو تنقید و تبصرہ کا اضافہ ہے بہت قابلِ رشک اقدام ہے جسے اسی طرح جاری و ساری رکھا جائے تو انشاءاللّہ ادارہ کی کارکردگی فی الواقع قابل صد ستائش اور آپ احباب کی یہ محنتِ شاقّہ بار آور اور ایک منفرد تاریخی کارنامہ قرار پائے گی۔
یُونہی روشن جو رہے دل میں تری شمعِ خیال
کتنے سُورج مری حِدّت سے فروزاں ہوں گے!
آج کے پروگرام میں آپ احباب نے مجھے جو عزّت بخشی دعا ہے کہ اللّہ ربُ العزت آ پ کی سربلندی اور ادارہ کی توقیر کو دوام بخشے!
جیسا کہ آپ احباب کو علم ہے کہ آج کراچی کے ایک کہنہ مشق استاد شاعر اعجاز رحمانی اس دارِ فانی کو چھوڑ چُکے ہیں،اللّہ اُن کی مغفرت فرمائے اور اُن کے درجات بلند تر ہوں!
آپ سب کا مخلص رفیقِ کار
عبدالرزّاق بے کل ۔۔۔۔۔۔۔کشمیر
احباب ذی وقار ۔۔۔خطبۂ صدارت کے اور حاضرین بزم کی داد وتحسین و توصیفی کلمات کے ساتھ یہ محفل اختتام پذیر ہوئی ۔۔۔میں زرخیز ذہن کے مالک توصیف ترنل صاحب ۔۔آرگنائزر مشفق خواجہ صاحب ۔۔ناظمہ صبیحہ صدف صاحبہ ،پر جاذب ،صابر جاذب ۔۔صدر محفل و جملہ اراکین بزم کو تہہ دل سے مبارکباد دیتا ہوں اتنا کامیاب ترین پروگرام منعقد کرنے کے لیے ۔۔
اس امید کے ساتھ کہ ٹیم دی بیسٹ اپنی سابقہ روایتوں کے مدنظر مستقبل میں بھی من وعن پروگرام پیش کرے گی ۔۔۔ان شاءاللہ