پروگرام نمبر۔۔۔۔ 223
غزل شعراء کی محبوب صنف سخن رہی ہے ۔۔۔ترقی پسندوں نے اسے شجر ممنوعہ سمجھا اور نظم کو فروغ دیا کہ اس میں خیالات کے اظہار کا وسیع کینوس فراہم ہوتا ہے ۔۔۔بے شک نظم جذبات ،احساسات وخیالات میں وسعت عطا کرتی ہے جبکہ غزل محبوب سے باتیں ،جام ومینا کے تذکرے ،ہجر ووصال کی گفتگو ،گل و بلبل کی بین،کہ ۔۔
آ عندلیب مل کی کریں آہ وزاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
دبستان لکھنؤ نے مبالغہ کی حد ہی کردی کہ بعض نے اظہر کردیا کہ لکھنؤ والے ،
رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں
بقول ظ۔انصاری ،،اردو شاعری مغلوں کے مغلوب ہونے کے بعد جب تلواریں میانوں میں چلی گئیں ۔۔تو اس نے عروج پایا ۔۔میر دلی کی تاراجی کے بعد لکھنو چلے گئے ۔۔۔ذوق کی بھی خواہش تھی مگر ،
کون جائے ذوق دلی کی گلیاں چھوڑ کر
کہہ کر چپ رہے ۔۔غالب نے غدار کا ہنگامہ دیکھا اور خود کو گھر میں قید کر لیا کہ ،،چاندنی چوک تک جانے میں پتہ پانی ہوتا ہے ،،۔۔
میر کی نازکی اور غالب کی شگفتگی نے غزل میں رنگ بھرے مگر ،
بنتی ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
کے مصداق غزل کا دامن تنگ رہا ۔۔حالی نے اسے وسعت دی ۔۔غزل کے محاسن ،، بیان کرکے اس میں ندرتِ خیال ،گہرائی و گیرائی ،نئے مفاہیم پروئے ۔۔وہ ہمیشہ سرگرداں رہے کہ ،
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
سرسید کے پانچ رتنوں میں دو رتن حالی و شبلی نے گیسوئے اردو کو خوب سنوارا ۔۔۔انگریزی زبان و ادب کا گہرا اثر ،مغربی تہذیب ، بدلتے عالمی منظر نامے کو اردو شعراء نے قبول کیا ۔۔۔اور سب سے پہلے گریجویٹ شاعر علامہ نے اسلامی فلسفہ شاعرانہ رنگ میں پیش کیا ۔۔غزل میں جہد مسلسل اور سعی پیہم کو پیش کیا ۔۔جینے کا ہنر اور تقدیر امم سے روشناس کرایا ،آداب خود آگاہی ان الفاظ میں پیش کیا ،
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
غزل کو باوجود ترقی پسندوں کی مخالفت کے اور ،،نیم وحشی صنف سخن ،،کے ریمارک کے ساتھ ۔۔۔حسرت نے حسین پیرائے میں غزل کہی،
اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے
اور شہنشاہِ تغزل کہلائے ۔۔۔ناصر نے نئی جہت دی ،
اداسی بال کھولے کھڑی ہے
تو ،۔۔۔میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے ۔۔۔اور ۔۔لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا ۔۔۔جتنے اس پیڑ پہ پھل تھے پس دیوار گرے۔۔۔اس طرح مختلف اردو شعراء نے ندرتِ خیال کو غزل میں سمو دیا ۔جنھیں غزل کی تنگیِ داماں کی شکایت تھی وہ سمجھ گئے کہ ،
ہر آدمی میں رہتے ہیں دس بیس آدمی
وہ بھی غزل کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے بلکہ میر کے الفاظ میں کہنا چاہیے کہ ،
سب اسی زلف کے اسیر ہوئے
آج غزل کا دامن تنگ نہیں ہے ۔۔اس نے نئے خیالات و رجحانات کو فروغ دیا ہے ۔۔۔اسی نئی جہت کی تلاش میں ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری نے پروگرام 223 ترتیب دیا ۔۔۔بعنوان سلسلہ غزل ، دور حاضر کے شعراء نے غزل کو کون سے مفاہیم عطا کیے ،ندرتِ خیال کو وسعت دی یا وہی پائمال مضامین برتے۔۔۔ادارے کی تاریخ رہی ہے کہ وہ ہمیشہ نئے ٹیلنٹ فراہم کرتا آیا ہے ۔ادارے کے بانی و چیئرمین توصیف ترنل صاحب نے عصر حاضر کے قلمکاروں کو پلیٹ فارم عطا کیا ہے کہ وہ اپنے اندر چھپے ٹیلنٹ کو اجاگر کرے ۔۔۔ہر پروگرام مع تنقید اسی لیے ہوتا ہے کہ کلام کے محاسن و عیوب سامنے آئے ۔۔۔تنقید برائے اصلاح ہوتی ہے نا کہ برائے دل شکنی ، متمتع نظر کسی کو نیچا دکھانا ہرگز نہیں ہوتا ۔۔
پروگرام ہذا 5اکتوبر 2019 ہفتے کی شام منعقد ہوا ۔۔۔پروگرام آرگنائزر تھے خواجہ ثقلین صاحب ۔۔صابر جاذب صاحب نے صدارت کے فرائض انجام دیے۔۔مہمان خصوصی تھے ،ڈاکٹر ارشاد خان ،ڈاکٹر الماس کبیر صاحبہ ۔۔۔جبکہ مہمان اعزازی حافظ فیضان فیضی صاحب اور زاہد وارثی صاحب ۔۔حسب سابق صبیحہ صدف صاحبہ نے خوش اسلوبی کے ساتھ نظامت کی ذمہ داری نبھائی ۔پبلشر ۔۔۔وقاص سعید صاحب ،جان محمد صاحب ،ڈاکٹر سمی شاہد صاحب ،کامران ضیا صاحب ،سیدہ کوثر صاحبہ ،عندلیب صدیقی ،ڈاکٹر وسیم راشد صاحب اور ملک محمد صاحب ۔
ادارہ,عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
پروگرام نمبر۔۔۔۔ 223
بتاریخ۔۔ 5/10/2019
حمد
ہر جہاں کا تو ہے مالک تو عمیم
تو ہے کامل اور باقی سب ہیں نیم
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی انڈیا
==========================
نعتِ رسولِ اکرمؐ
قاتلہ عم کی بھی بخش دی جاتی ہے جہاں
اوج پر کیوں نہ ہو پھر رحم کی فطرت انؐ کی
خواجہ ثقلین
==========================
اے "صدف"زمانے کو کیا ہوا کیوں رنگا ہے مغربى رنگ میں
یہ ہمارى قدروں کا خون ہے یہ روایتوں کا زوال ہے
صبیحہ صدف بھارت
==========================
ساتھ تابش کے دیکھے گئے
بیقراری، گھٹن اور ہم
خبیب تابش۔کھامگاؤں
==========================
رات اصغر میری بھی کٹ جائے گی
مختصر سی داستاں کوئی تو ہو
اصغر شمیم،کولکاتا،انڈیا
==========================
بے کل مِرے آگے وہ قیامت ہوئی مبہوت
ہیں کعبہ و مندر ابھی ششدر یہ ہُوا کیا
عبدالرزاق بے کل کشمیر
==========================
صدا میں مانوسیت بسی ہے عجب پراسرار اپنا پن ہے
حسین خوابوں کی وادیوں سے یہ کون مجھ کو پکارتا ہے
خواجہ ثقلین
==========================
مشکلیں مختارتم کو گھیر لیں آ کر کبھی
کوئ کام آئے نہ جب تو یاد کر لینا مجھے
مختار تلہری بریلی بھارت
==========================
ہم نے حق کے لئے سراج میاں
کتنے دریا کھنگال رکھّے ہیں
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی انڈیا
==========================
اور بات ہے کہ ہم
خود عیاں نہیں ہوتے
قیصر عمران مگسی ملتان پاکستان
==========================
نبیل کوئی بتائے بہار موسم میں
یہ خار شاخِ ہری میں کہاں سے آتے ہیں
ڈاکٹر نبیل احمد نبیل
==========================
دل سفینے پہ بہت ناز تھا مجھ کو ارشد
وہ بھی اب عشق کے گرداب میں دیکھا گیا ہے
جمیل ارشد خان ۔۔۔مہاراشٹر ۔۔۔انڈیا
==========================
تقدیر لے رہی ہے اسیری میں امتحاں
زاہد عروج پر ہے گلستاں تو کیا کروں
zahid warsi Burhanpur
==========================
شیخ صاحب کی خیر ہو اشرف
ورنہ ہم مسلماں نہیں ہوتے
اشرف علی اشرف
==========================
قیس خود کو سروہی بنایا توں نے
توں نے سمجھا پَذِیرائی ہو سکتی ہے
خالد سروحی گکھڑ سٹی گوجرانوالہ
==========================
خوابِ دیرینہ ہے فیضی کا، بصد شوقِ طلب
علم پانے کو سمرقند و بخارا جاؤں
فیضان فیضی ،چکوال، پاکستان
==========================
یقیں ارشاد آئے کیوں ،لہو یکساں سبھی کا ہے ؟
سفیدی خون کی ، تحفے ہمیں جو لال دیتی ہے
ڈاکٹر ارشاد خان
==========================
شوخیاں طرزِ حیا، نرم و نزاکت الماس
مستعار آج بھی تتلی سے لیا کرتی ہے
ڈاکٹرالماس کبیر جاوید ممبئی انڈیا
==========================
صابر جاذب لیہ پاکستان
اس دور میں اک ہم ہی جنوں کیش ہیں جاذب
اب ہم سے ہی شوریدہ سری لیتے ہیں کچھ لوگ
خطبۂ صدارت
معزز مہمانان گرامی و حاضرینِ محفل
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میں "ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری" کی انتظامیہ کا بہت شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھ حقیر کو منصب صدارت عطا فرما کر میری توقیر بڑھا دی
سامعین اکرام جنہوں نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مشاعرے میں شرکت کی اور شعرا کو داد و تحسین سے نوازا، سبھی قابلِ مبارکباد ہیں کہ سب کی مشترکہ کوششوں سے آج کا یہ شاندار مشاعرہ کامیاب رہا، اس کے لیے سبھی دوستوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔
شاعری جذبات و احساسات کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے کا نام ہے ۔یہ ہنر محنت اور مشقت کا طالب ہے.شاعری بالکل فطری یا Naturallyانسان کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے جبکہ آورد میں وہ شاعری شامل ہے جس کے بارے میں شاعر تفکر کرتاہے یاخود سے سوچنے کی کوشش کرتا ہے۔شاعر حساس انسان ہوتا ہے ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کے گردو پیش میں کچھ ہو رہا ہواور اسے خبر نہ ہو۔ جب وہ اسی خبر گیری کو الفاظ کا روپ دیتا ہے تو شاعری تخلیق ہوتی ہے۔مذہب سماجیات، سیاست اور داخلیت یہ سب مل کر شاعری کی جانب کھینچتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے شعرا کرام نے اپنے اردگرد کے ماحول کو جیسا پایا اس کو اپنے قلم کے زریعے لوگوں تک پہنچانے کی سعی جمیلہ کی ۔
شاعر اپنے زمانے کا عکاس ہوتا ہے اگر کسی قوم یا علاقے کو جانچنا ہو تو اس وقت کے شعرا کی شاعری کودیکھا جائے تو قوم کا مزاج اور حالات کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔آخر پر ایک مرتبہ پھر تمام احباب کا شکریہ ۔خاص کر پروگرام آرگنائز ر خواجہ ثقلین صاحب کا جنہوں نے اتنے بڑے پروگرام کو آرگنائز کیا ۔
والسلام احقر العباد
صابر جاذب لیہ
==========================
پروگرام تسلسل کے ساتھ چلتا رہا ۔۔۔صابر جاذب صاحب کے پرمغز خطبۂ صدارت کے بعد اختتام پذیر ہوا ۔۔۔شعراء نے اپنی بہترین کاوشیں پیش کیں۔۔میں ایک اور یادگار و یونیک پروگرام کے انعقاد پر بانی و چیئرمین توصیف ترنل صاحب اور ٹیم دی بیسٹ کو مبارکباد دیتا ہوں ۔۔۔توصیف سر کی اردو دوستی اور اردو نوازی کو سلام ۔۔۔وہ مجاہد اردو جو پرچم لہرائے اپنی منزل کی جانب یہ کہتے ہوئے رواں دواں ہے کہ ۔۔۔،
چلو چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
اپنی ذات میں انجمن ۔۔اردو کا سپاہی ۔۔میں ان سے گزارش کروں گا کہ مستقبل میں بھی اپنی بے مثال کارکردگی کو جاری رکھیں ۔
تمام شد
ڈاکٹر ارشاد خان بھارت