پروگرام نمبر 222 بعنوان : ایکسنٹ
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری ہمیشہ ہی سے جدت پسندی کا شائق رہا ہے ،وہی دھن کہ عام ڈگر سے ہٹ کر پروگرام مرتب کرنا جو کہ برقی دنیا میں مآقبل نہ ہوئے بعدہ،اس کا چربہ دیگر گروپس نے پیش کیا اور اس صورت کہ کوا ہنس کی چل چلنے میں اپنی چال بھول گیا ۔۔۔سہل پسندی کا سیل رواں چہار جانب نظر آیا مگر عالمی بیسٹ اردو پوئٹری نے 221 منفرد پروگراموں کے دریا بہا دیے،جس سے اردو ادب کا مالا مال ہوگیا ۔۔۔نسل نوی کے لیے یہ نعت غیر متوقع منفعت بخش ثابت ہوگی کہ ریسرچ کے لیے مطالعہ گاہوں کی خاک نہیں چھانی پڑے گی ۔۔۔اردو دنیا ان کی مٹھی میں ،،۔۔ایک انگشت کا اشارہ کافی ہے ۔۔انگلی کو حرکت دے کر عالمی اردو بیسٹ اردو پوئٹری کی لامتناہی کارکردگی کا سلسلہ حاضر ،جس کا ایک ایک لفظ محفوظ ہے ،مزید برآں عصر حاضر کے قلمکاروں کے شہ پارے تنقیدی جائزوں کے ساتھ ۔۔۔یہی جدت طرازی عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کو دیگر گروپس سے ممیز کرتی ہے ۔۔اسی پیش رفت نے اسے صف اول میں لاکھڑا کیا ۔۔اور 221۔۔یونیک پروگراموں کے ہمالہ نے اس کا قد بلند کیا کہ ،حسرت سے تک رہی ہے اوروں کی جستجو ،
یہ کمال کارکردگی ادارے کے بانی و چیرمین توصیف ترنل صاحب کی جہد مسلسل و سعی پیہم کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔۔ان کے زرخیز ذہن کی اپچ اور سوز دماغ کا کی کرشمہ سازی ہے کہ 221 پروگراموں کے سنگ میل عبور کیے ۔۔۔بنا تھکے بنا رکے۔
پروگرام ہذا ;222بعنوان ایکسنٹ،،۔۔جدت طرازی درشاتا ہے ۔۔ایکسنٹ،کسی شاعر کے اسلوب ، طرز فکر ،لب ولہجہ اسے قلمکاروں کی بھیڑ میں پہچان لیتا ہے ۔۔کہ نازک خیالی ہو تو ۔۔خدائے سخن،خودی ہو تو علامہ ،معنی آفرینی ہو تو دبیر ملک ،جمالی ہو تو شیرانی ،شغالی ہو تو جگر ،قنوطی ہو تو شاد،انقلابی ہو تو شاعر انقلاب ،کربلائی ہو تو انیس ،۔۔مزدور کی آواز فیض میں سنائی دیتی ہے ۔۔اداسی ناصر کی دیواروں پر بال کھولے کھڑی نظر آئے گی ،چھوٹی بحر بڑی بات ظاہر کرے گی ،،ابھی تو میں جوان ہوں ،سرخ پرچم مخدوم لہراتے مخدوم نظر آئیں گے تو نسائی جذبات کی علمبردار شاکر اور جب خدا بیزاری پر تبصرہ ہو تو جون کا تذکرہ ہوگا ۔
یہی ایکسنٹ ترقی پسندوں کو ،جدیدیت کو ،مابعد جدیدیت کو جنم دیتا ہے کہ کچھ نیا کرنے کی دھن میں تجربات کیے جاتے ہیں نظم غیر مقفیٰ ،معریٰ ونثری نظم جو ن،م،راشد و اخترالایمان کو مرغوب تھا ۔۔۔بہرحال اردو ادب کا دامن وسیع تر ہوتا گیا ۔۔کبیر کے دوہوں سے قلی قطب کی دکنی سے ،امجد کی ربائیوں سے ،ساحر کی ساحری سے اور دورحاضرہ میں منور کی الفت مادر سے ۔۔اسی طرز فکر کو عالمی دی بیسٹ اردو پوئٹری نے درشایا ہے ۔
ادارہ عالمی دی بیسٹ اردو پوئٹری کی بوقلمونی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے ہر اس موضوع کو چھیڑا جو زندگی سے جڑا ہے ۔۔اس نے میدانِ صحافت کو آئینہ دکھایا تو سیاسی بازی گری کو طشت بام کیا ۔جشنِ بہاراں کے گیت گائے تو مہنگائی کا رونا رویا ۔غم دوراں کا ماتم کیا تو امن عالم کے شادیانے بجائے ۔توحید کو سینوں میں بسایا تو حدیث سے ذہنوں کو معطر کیا ۔۔ہر صنف سخن میں قلمکاروں نے معیاری فن پاروں کی تخلیق کی جس یاد یارانِ رفتگاں بھی شامل ہے ۔۔یادشبخیر۔۔اقبال ،غالب ،میر،جوش،جگر ،ناصر ویوسفی شامل ہیں ۔۔۔بس سری ادب سے صفی باقی ہیں جن کی کتابیں الماریوں میں نہیں تکیوں کے نیچے رکھی جاتی تھیں ۔۔۔ادباء وشعرا ان سے استفادہ کرنے کے باوجود یہ خود شجر ممنوعہ رہے ۔۔۔پتہ نہیں کیوں ؟؟
برقی دنیا کی جب تاریخ لکھی جائے گی تو یقیناً اردو دنیا ادارہ عالمی دی بیسٹ اردو پوئٹری اور توصیف ترنل کی خدمات فراموش نہیں کر سکے گی ۔۔
ادارے نے پروگرام 222بعنوان ،،ایکسنٹ۔۔۔ایک شام دس شعراء کے نام ،،28ستمبر 2019 ہفتے کی شام منعقد کیا جس کے پروگرام آرگنائزر تھے توصیف ترنل صاحب ۔۔صدارت امین اوڈیرائی صاحب نے کی ۔۔جاندار نظامت ہمیشہ کی طرح ایڈوکیٹ متین طالب صاحب نے کی ۔۔۔شفاعت فہیم صاحب نے حسب سابق دھیمی آواز میں بے لاگ وبے باک تنقید کی ۔۔
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھی صاحب نے حمد باری تعالی پیش کی تو مصطفیٰ دلکش صاحب نے نعت کا نذرانہء عقیدت پیش کیا ۔۔ہر شاعر کو دس منٹ کا وقت دیا گیا جس میں انہوں نے اپنی تخلیقات پیش کیں ۔۔۔جن سے شعراء کا کماحقہٗ ایکسنٹ کا اندازہ قائم ہوا ۔۔۔قارئین نے کلام کو سراہا اور تنقیدی گفتگو بھی کی اور فی الفور اسے فیس بک پر پیش کیا گیا یہی ادارے کا طرہ امتیاز ہے !!۔۔
نمونہ کلام
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی۔۔حمدیہ کلام
تعریف سب ہے تیری
تو رب ہے عالموں کا
مصطفیٰ دلکش ۔۔نعتیہ کلام
میں نے دیکھا زمیں آسماں چار سو
کوئی دلکش نہیں ہے نبی ﷺکی طرح
ایڈوکیٹ متین طالب ۔۔ناندورہ۔بھارت
بن گئے لقمہ ترسب وہ امیروں کے لیے
حاکم وقت نے چھینے جو نوالے میرے
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی۔۔۔بھارت
خون بے بس کا بہائیں تو غضب ہوتا ہے
بستیاں ان کی جلائیں تو غضب ہوتا ہے
عبدالرزاق بے کل آزاد کشمیر
اپنا ہر زعمِ وفا باطل و ناکام سہی
قلب بے تاب نے بے کل سے بغاوت کی ہے
ڈاکٹر ارشاد خان ۔۔ممبرا۔۔بھارت
جو پردے تو اسرار کے کھولتا ہے
تو ارشاد کا بھی قلم بولتا ہے
خواجہ ثقلین ۔۔ناگپور انڈیا
نسبت ہے شاہ۔مصر و دل۔نامراد کو
کنعاں کے چاہ اور زنخداں کے چاہ سے
صابر جاذب لیہہ پاکستان
خود اپنی ذات میں یوں ڈوب جا کہ پھر نہ ابھر
کبھی نہ دیکھ عمق میں ہے یہ بھنور کتنا
ڈاکٹر مسز الماس کبیر ۔۔۔ممبئی انڈیا
شہر آئے تو ہم شہر کے ہوگئے
گاؤں میں راہ تکتا مکاں رہ گیا
نیر رانی شفق۔۔پاکستان
شمعیں بجھا گئیں جو میری شام کی شفق
زندانِ ہجر میں وہ ہوائیں مجھے نہ دو
زاہد وارثی ۔۔۔بھارت
ابھرتی ڈوبتی سانسیں شمار کرتے ہوئے
میں جی رہا ہوں مگر روز روز مرتے ہوئے
امین اوڈیرائی۔۔سندھ پاکستان
کنج وحشت میں جی رہا ہوں امین
اپنے حصے کا ڈر اٹھائے ہوئے
پروگرام میں محترم شفاعت فہیم نے برائے تنقید گفتگو کی جو آڈیو کلپ تھے نیز
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
پروگرام نمبر 222
غزل برائے تنقید
شاعر: امین اوڈیرائی
گفتگو: افتخار راغب
قرض دل کا اتارنا پڑا تھا
غم پہ خوشیوں کو وارنا پڑا تھا
✒ غزل پڑھتے ہی سب سے پہلے ردیف کے جز "پڑا" کے الف کے گرنے کا احساس وجدان پر گراں محسوس ہوتا ہے جس کی وجہ سے روانی مجروح ہو رہی ہے۔ اس سے گریز کرنا غزل میں حسن پیدا کرتا ہے گو کہ اصولاً یہ جائز ہے۔ لفظ کے آخر میں آنے والے حروف علت الف، واو اور یے کے گرانے میں بھی الٹتی ترتیب یعنی یے، واو اور الف کو گرانا ترجیحاً بہتر ہوتا ہے یعنی یے کے گرنے سے سب سے کم روانی مجروح ہوتی ہے اس کے بعد واو اور الف۔ الف کو گرانے سے جتنا بچا جائے اتنا بہتر ہے۔
اچھا مطلع ہے۔ غم پہ خوشیوں کو وار کر دل کا قرض اتارنا بہت اچھا مضمون ہے اور باذوق قاری اس سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
وہ نیا شہر تھا نئے تھے لوگ
سو نیا روپ دھارنا پڑا تھا
✒ پہلے مصرع میں نیا روپ دھارنے کا جواز فراہم کیا گیا ہے کہ جہاں گئے تھے وہ نیا شہر تھا اور سارے لوگ بھی نئے تھے۔ نئے شہر میں آشنا لوگ بھی ہو سکتے ہیں اس لیے بات پوری طرح واضح کر دی گئی ہے۔ اچھا شعر ہے۔
اوڑھ کر تن پہ ضبط کی چادر
زندگی کو گذارانا پڑا تھا
✒ پہلا مصرع قاتلانہ ہے۔ ضبط کی چادر شعر کے تن پر خوب زیب دے رہی ہے۔ دوسرے مصرع میں "زندگی کو گزارنا" شعر کے حسن کو متاثر کر رہا ہے۔ قافیہ ردیف کی پابندی نہیں ہوتی تو یہ مصرع اس طرح زیادہ پُر اثر ہو سکتا تھا کہ
زندگانی گزارنی پڑی تھی
پہلے مصرع میں بھی "تن پر" کہنا حشو محسوس ہو رہا ہے کیوں کہ ظاہر ہے کہ کوئی تن ہی پر چادر اوڑھے گا۔ یہ مصرع بھی اس طرح بہتر ہو سکتا تھا کہ
اوڑھ کر صبر و ضبط کی چادر
بھوک نے اس قدر کیا مجبور
اپنے بچوں کو مارنا پڑا تھا
✒ کلام پاک میں فرمایا گیا ہے کہ افلاس کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ شاعر نے بچوں کو مارنے کی مجبوری کی وجہ نا قابلِ برداشت بھوک بتائی ہے۔ بڑی عجیب کیفیت بیان کی گئی ہے۔ اللہ محفوظ رکھے ہر انسان کو ایسی مجبوری سے۔
وہ رگِ جاں سے تھا قریب امین
پھر بھی اس کو پکارنا پڑا تھا
✒ بڑا دلکش مقطع ہے۔ محبت بھرا شکوہ خوب لطف دے رہا ہے کہ وہ رگ جاں سے بھی قریب تھا پھر بھی مدد کے لیے اس کو پکارنا پڑا تھا۔ اس پکارنے پر غور کرنے سے معنی کی کئی پرتیں چھلملاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
مجموعی طور پر ایک عمدہ غزل ہے۔ کئی اشعار قاری کو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
غزل برائے تنقید
شاعر: ڈاکٹر ارشاد خان
گفتگو: افتخار راغب
طنز کے تیر ہیں ہنسی کی طرف
آگ بڑھنے لگی خوشی کی طرف
✒ مطلع پڑھتے ہی سب سے پہلے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ ہنسی کی طرف طنز کے تیروں کے ہونے سے کیا ہوگا یا شاعر کیا مراد لے رہا ہے؟ کیا ہنسی کا قتل یا ہنسی کو مجروح کرنا یا ہنسی ختم کر دینا مراد ہے؟ ممکن ہے شاعر کے ذہن میں یہی باتیں ہوں لیکن طنز کے تیر سے میرے خیال سے ہنسی کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ طنزیہ ہنسی ضرور منفی اثر ڈالتی ہے۔ دوسرے مصرع میں بھی تلازمے کا فقدان ہے۔ خوشی کی طرف آگ بڑھ کر کیا کر لے گی بھلا؟ مجموعی طور پر مطلع کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ کچھ اس طرح کہا گیا ہوتا تو بات واضح ہوتی کہ
تیرِ افسردگی ہنسی کی طرف
رنج بڑھنے لگے خوشی کی طرف
سب کی نظریں ہیں دلکشی کی طرف
کون پلٹے گا سادگی کی طرف ؟
✒ بھئی ہم تو سادگی ہی کے دیوانے ہیں۔ ہمیں اس بات سے اتفاق نہیں ہے کہ کوئی سادگی کی طرف پلٹنے والا نہیں ہے۔ شعر میں ایسی بات کہی جائے جسے تسلیم کرنے پر ہر قاری یا سامع مجبور ہو تو شعر کامیاب ہو پاتا ہے یعنی ایسی حقیقت بیان کی جائے جس کو رد کرنا ممکن نہ ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب شاعر اس کائنات سے ہم آہنگ ہو کر رہے یعنی خدا کی بنائی ہوئی دینا اور دنیا کی چیزوں سے خود کو مربوط و ہم آہنگ رکھے۔ یہ ہم آہنگی جس قدر مضبوط ہوئی شاعری اسی قدر فطری یا نچرل ہوتی جائے گی۔
دوسرے مصرع کا استفہامیہ انداز شعر میں معنی آفرینی پیدا کر رہا ہے۔ ایک تو مفہوم یہ ہے کہ کون ہے جو سادگی کی طرف پلٹنے والا ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو سادگی کی طرف پلٹنے والا ہو۔
ایک حمام میں سبھی موجود
کیسے انگلی اٹھے ، کسی کی طرف
✒ پہلے مصرع میں "سبھی" کی جگہ "ہیں سب" ہوتا تو بہتر ہوتا۔ دوسرے مصرع میں شاید شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ کون کسی کی طرف انگلی اٹھائے سب کے سب ایک ہی حمام میں موجود ہیں۔ لیکن یہ بات ہو نہیں سکی ہے۔ اگر سارے برے ہیں تو سب کی طرف انگلی اٹھے گی وہ نہیں اٹھائیں گے دوسرے اٹھائیں گے جو وہاں نہیں ہیں۔ میرے خیال سے شعر کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
اس لیے نور سے ہوں وابستہ
پودے بڑھتے ہیں روشنی کی طرف
✒ سائنسی مضمون کو نظم کیا گیا ہے۔ نور سے وابستہ ہونے کا جو دعویٰ کیا جا رہا ہے اس کی دلیل کے طور پر پودوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو سورج کی روشنی کی طرف بڑھتے ہیں یا اس کے محتاج ہوتے ہیں۔
کون آیا ہے آج گلشن میں
رخ ہے پھولوں کا بس اسی کی طرف
✒ فرسودہ مضمون ہے۔ شعر بھی کچھ خاص نہیں ہو سکا ہے۔ دوسرے مصرع میں بس لفظ بھی گراں محسوس ہو رہا ہے اور مصرع کو بے لطف کر رہا ہے۔
ڈھادو! دیوار بغض ونفرت کی
لوٹ بھی آؤ دوستی کی طرف
✒ شعر کا مفہوم واضح ہے لیکن پہلے مصرع میں دوستی کی مناسبت سے دشمنی لایا گیا ہوتا تو شعر اور بھلا لگتا ہے جیسے
ڈھادو! دیوار دشمنی کی اب
لوٹ بھی آؤ دوستی کی طرف
فاصلے اور بڑھ گئے ارشاد
چلے جب راہ زندگی کی طرف
✒ پہلا مصرع صاف ستھرا ہے لیکن دوسرا بہت پست ہے۔ سب سے پہلے تو "چلے جب" کی جگہ "جب چلے" سے زیادہ روانی آتی۔ زندگی کی طرف راہ چلنے سے کیا مراد ہے؟ فاصلے کس سے بڑھے؟ کئی سوال ذہن میں اٹھ رہے ہیں جن کا تشفی بخش جواب شعر میں موجود نہیں ہے۔
بعض اشعار اچھے ہیں بعض پر مزید محنت کر کے غزل کو اور اچھی بنانے کی گنجائش موجود ہے۔
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
پروگرام نمبر 222
غزل برائے تنقید
شاعر: زاہد وارثی
گفتگو: افتخار راغب
ابھرتی ڈوبتی سانسیں شمار کرتے ہوئے
میں جی رہا ہوں مگر روز روز مرتے ہوئے
✒ پہلا مصرع بہت اچھا ہے ابھرتی اور ڈوبتی سانسوں کا شمار کرتے ہوئے زندگی کرنا بہت سی کیفیات کی غمازی کرتا ہے۔ دوسرے مصرع میں شاعر کہنا یہ چاہ رہا ہے کہ میں روز مر مر کر جی رہا ہوں لیکن قافیہ ردیف کی پابندی نے جو کہوایا ہے اس سے یہ بات پوری طرح واضح نہیں ہوتی۔ روز روز کی تکرار بھی غیر ضروری ہے جب مرتے ہوئے جینے کی بات کی جا رہی ہے تو ایک ہی روز ہر نئے روز کی نمائندگی کر دیتا۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہو جاتا کہ میں کیوں روز مر مر کے جی رہا ہوں۔ برسوں پہلے میں نے ایک غزل کہی تھی جس کا مطلع ہے کہ
فراق و ہجر کے لمحے شمار کر کر کے
میں تھک گیا ہوں ترا انتظار کر کر کے
یہ مرتبے مرے ٹوٹے ہوئے چراغوں کے
سلام کرتے ہیں طوفان بھی گزرتے ہوئے
✒ شعر کا مفہوم واضح ہے اور اچھا بھی لگ رہا ہے لیکن پڑھتے ہی شعر میں لفظ "مرتبے" یہ احساس دلا رہا ہے کہ یہ شعر کے مرتبے کو کچھ کم کر رہا ہے اس کی جگہ کوئی زیادہ حرارت والا لفظ ہوتا تو شعر کا معیار و مرتبہ اور بلند ہوتا۔ جیسے
یہ شان ہے مرے ٹوٹے ہوئے چراغوں کی
نواز دیتا ہے دل کو سکوں کے لمحوں سے
ترا خمار مری روح میں اترتے ہوئے
✒ اچھا شعر ہے۔ ویسے مجھے تو محبوب کا خمار مزید بے تاب و بے قرار کر دیتا ہے۔ ان لوگوں کو یہ شعر زیادہ اچھا لگے گا جن کو محبوب کا خمار سکون کے لمحوں سے نوازتا ہے۔
میں اپنے گاؤں کی چوپال یاد کرتا ہوں
تمہارے شہر کی گلیوں میں شام کرتے ہوئے
✒ شاعر نے یہ بات قاری یا سامع پر سوچنے کے لیے چھوڑ دی ہے کہ وہ کسی کے یا محبوب کے شہر کی گلیوں میں شام کرتے ہوئے اپنے گانو کی چوپال کیوں یاد کر رہا ہے۔ اس ابہام سے شعر میں حسن پیدا ہوا ہے۔ ہر قاری اپنے اپنے اندازے سے کچھ مفہوم سمجھ کر محظوظ ہو سکتا ہے۔ اچھا شعر ہے۔
وہ آ رہے ہیں سنورنے کا عزم لے کے مگر
بکھر نہ جائیں کہیں احتیاط کرتے ہوئے
✒ بڑا نازک خیال پیش کیا گیا ہے احتیاط کرتے ہوئے بکھرنا خوب لطف دے رہا ہے۔ محبوب کی بے جا احتیاط سے ایک شکوہ بھی ہے اور اس کے حسن کا بیان بھی۔
کسی حسین کا چہرہ نہ بن سکا اب تک
اک عمر ہو گئی لفظوں کے رنگ بھرتے ہوئے
✒ شعر میں لفظ "کسی حسین" کہنا کچھ بھلا محسوس نہیں ہو رہا ہے اس کی جگہ "اُس اک حسین" ہوتا تو معنویت بھی بڑھ جاتی اور حسن بھی زیادہ محسوس ہوتا۔ "لفظوں کے رنگ" کی جگہ "لفظوں یا شعروں میں رنگ بھرتے ہوئے" کہا گیا ہوتا تو شعر اور زیادہ اچھا محسوس ہوتا۔
پھر اس کی یادوں کا گزرے گا کارواں زاہد
سکون قلب و نظر کو تباہ کرتے ہوئے
✒ قلب و نظر کہہ کر شاعر نے اظہار کے کے دائرے کو بڑھانے کی کوشش کی ہے لیکن تاثیر میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ اس کی جگہ "قلب و جگر" زیادہ موثّر ہوتا۔
مجموعی طور پر ایک اچھی غزل ہے بعض شعروں نے خوب حظ اٹھانے کا موقع دیا۔ کچھ جگہوں پر نظر ثانی کرکے اس کے معیار کو اور بلند کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
آج کے پروگرام کے لیے کچھ مختصر خیالات کا اظہار
السلام علیکم احباب
میں ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کی تمام انتظامیہ اور خاص طور پر اپنے محسن بھائی توصیف ترنل کا تھِ دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھ جیسے ایک چھوٹے سے آدمی کو اتنے بڑے منصب پر بٹھا دیا…
آج کا پروگرام بھی ایک یادگار پروگرام رہا تمام شعراء نے بہت اچھا کلام پیش کیا اور نظامت بھی کمال کی تھی میں تمام شعراء اور توصیف بھائی کو اس کامیاب پروگرام کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اس پروگرام ہمارے استادِ محترم شفاعت فہیم صاحب نے شعراء کے کلام پر اپنی خوبصورت خیالات کا اظہار کیا ہے ان کا بھی ممنون ہوں
مالک سائیں اپ سب کو سلامت رکھے..
امین اوڈیرائی
قارئین ۔۔۔یہ عصری ادب کے شہ پاروں سے سجی انجمن ،ایک اور سنگ میل قائم کرتی ہوئی ،ایک اور تاریخ مرتب کرتی ہوئی صدر محفل کے پرمغز خطبۂ صدارت پر اختتام پذیر ہوئی ۔
میں عزت مآب توصیف ترنل اور جملہ انتظامیہ کو صمیم قلب سے مبارکباد دیتا ہوں کہ وہ مستقبل میں بھی یہ گنگنائے،
لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
خبر کردو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
تمام شد