سامراج
لُغوی معنی کے اعتبار سے آپ کہہ لیجیے کہ:
ترقی یافتہ اور طاقت ور ریاستوں کا کمزور اور غیر ترقی یافتہ ریاستوں پر تسلط
ہیومن جیوگرافی لغت کے مطابق:
ایک ریاست کا دوسری کسی بھی ریاست پر غیر مساویانہ تسلط سامراجیت ہے
وضاحت
یہ تعریف سامراجیت کی اساس کو واضح تو کر رہی ہے لیکن انسانی سماج کی حرکیات اتنی سادہ بھی نہیں ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں جدید سامراج کے اثرات اور عید حاضر میں دنیا پر مختلف سامراجی قوتوں کے تسلط کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے معاشی عدم استحکام اور سیاسی مضمرات کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کرنے کے لیے ہمیں مارکسزم کے جدلیاتی نظریہ کا جائزہ بہ نظر عمیق لینے کی ضرورت ہے۔
لینن کی کتاب سامراجیت
لینن اپنی کتاب سامراجیت میں رقم طراز ہے کہ سامراجیت کا مطلب ہے سرمایہ داری کی آخری منزل! یعنی بورژوا نقطہء نظر کے خلاف سامراجیت کسی خاص طرز کی خارجہ پالیسی نہی۔ بلکہ سرمایہ دارانہ نظام ارتقا کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ اس حوالہ سے خاکسار ایک الگ تفصیلی مقالہ لکھ رہا ہے جو بعدازاں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا سرِدست محض تعارف کی خاطر اسی پر اکتفا کرتا ہوں کہ ایک ملک کی سرحدوں سے باہر جا کے دوسرے ملک کے اختیارات پر دخل اندازی کرنے کے عمل کو سامراجیت (imperialism) کہا جاتا ہے۔
یہ دخل اندازی جغرافیائی، سیاسی یا اقتصادی طور پر ہو سکتی ہے۔ کسی ملک یا کسی خطّہ کو اپنے سیاسی یا مالیاتی مصرف میں لا کے مقامی باشندوں کو مختلف حقوق سے محروم کرنا اِس نظام کی سب سے ظاہری صورت ہے۔
چنانچہ مورخہ 16مارچ 2019 بروز ہفتہ پاکستانی وقت ۔7بجے شام اور ہندوستانی وقت۔7.30بجے شام کو سامراج کے عنوان سے ایک تنقیدی پروگرام منعقد کیا گیاجس کے شاملین نثری یا شعری کاوش یا دونوں پیش کر سکتے تھے۔
قارئین محترم!
ادارہ ھٰذا دنیا کا واحد ادارہ ہے،جو اس برقی ترقی یافتہ دور میں شعراء,ادباء و مصنفینِ زبانِ اردو ادب کی ذہنی آبیاری کرتا ہے اور مسلسل نئے نئے لسانیاتی پروگرامز منعقد کرتا ہے۔
اس اچھوتے پروگرام کا آئیڈیا
میجرشہزاد نیّر پاکستان کے زرخیز ذہن کی ہیداوار ہے جس کے کیے انہیں جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔
پروگرام کو بہت خوب صورتی اور بھرپور محنت کے ساتھ آرگنائز کرنے میں محمد احمر جان رحیم یار پاکستان یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ اس پروگرام کو بہت منظم طریق پر چلانے پر ہم آپ کے شکرگزار ہیں۔
ادارہ کے ہر پروگرام کو رنگین بنانے اور کمال مہارت سے گرافک ڈیزائین کرنے پر سیکریٹری ادارہ صابر جاذب لیہ پاکستان ہماری دعاوں اور شکریہ کے مستحق ہیں۔
ادارہ اور ادارہ کے تحت جاری ہر ایک پروگرام کی جان اور روحِ رواں توصیف ترنل جارڈن ہانگ کانگ بانی و سرپرست ادارہ۔ اس پروگرام کی لائیو رپورٹ تیار کرتے ہیں اور فیس بک اور ویب سائیٹس پر پبلش کرتے ہیں۔ وہ بھی دوران ہروگرام موجود رہتے ہیں۔
اس خوب صورت پروگرام کی رپورٹ لکھنے کی سعادت خاکسار احمدمنیب لاہور پاکستان کے حصہ آئی۔
اس پروگرام کی مسند صدارت پر ایک فرض شناس، کہنہ مشق شاعر اور نہایت نفیس الطبع شخصیت میرے محترم بھائی شہزاد نیر پاکستان سے متمکن ہوئے۔
پہلی مہمان خصوصی محترمہ ماورا سید کراچی پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں وہ گویا ہوئیں:
اپنے ظلم کی میت بیچ چوک میں رکھ کر
عالمی عدالت سے ڈھیروں داد پاتے ہیں
موم کے چراغوں سے تالیاں بجاتے ہیں
دوسرے مہمان خصوصی کی نشست پر محترم عامر حسنی ملائیشیا سے رونق افروز تھے۔ آپ نے گھائل کے عنوان سے اپنے خیالات نثر کی صورت میں پیش کیے۔
ہم دوسروں کے لیے کچھ کریں تو دیکھیں اپنی زندگی کتنی آسان ہو جائے گی۔۔۔اور کسی سامراج کی ایک نہیں چلے گی
مہمان اعزازی کی نشست پر جناب جعفر بڑھانوی بھارت تشریف فرما تھے وہ گویا ہوئے کہ
اپنی کرسی کے واسطے جعفر
قتل انساں کرا رہا ہے کوئی
مہمان اعزازی کی دوسری پر محترم طرح دار شاعر علی شیدا کشمیر سے براجمان تھے آپ نے بہت خوب صورت بلیغ کلام عنایت فرمایا:
آگ ہے ان کی طبیعت اور دھواں ان کا مزاج
جنگ کے پڑھتی ہیں منتر سامراجی طاقتیں
نظامت کے فرائض بلبلِ ادارہ محترمہ گل نسرین نے ملتان پاکستان سے سرانجام دیئے۔ آپ نے نہایت شان دار انداز میں نظامت فرمائی اور روایت کے مطابق اپنا کلام پیش فرمایا:
آزادی سے ملنے دو
آئی موج کناروں پر
سوچ میں ڈوبی ہو کیا گُل
لکھو غم کے ماروں پر
اس پروگرام میں حسبِ سابق محترم ڈاکٹرشفاعت فہیم بھارت اور محترم مسعود حساس کویت نے بہت بھپور طریق پر نقد و نظر سے نوازا۔
قارئین محترم!
بلبلِ ادارہ محترمہ گل نسرین نےحمد باری تعالی کے لیے دعوت کلام ڈاکٹر ارشاد خان ممبرا مہاراشٹر بھارت کو دی اور مشاعرہ کا باقاعدہ بابرکت آغاز ہو:
پھول سے آتی ہے مہک تیری
شاخِ گل میں بھی ہے جھلک تیری
دوسری حمد پاک قطعات کی صورت میں محمد زبیر گجرات پاکستان نے پیش کرنے کی سعادت پائی
ہے کرم ذات کبریا کا یہ
مجھ کو بخشی متاعِ دانائی
اور تابِ سلن کی یہ دولت
شعر گوئی، شعور ِ گویائی
نعت رسول مقبول محترم خالد سروحی صاحب نے گکھڑ سٹی پاکستان سے پیش کرنے کی سعادت پائی
خواہشیں چاہتیں سب طیبہ کی ہیں
دل دعا ہاتھ سجی نعت نبی ہے
قارئین محترم!
دیگر شعراونثر نگاروں نے اپنے تازہ اشعار اور نثرپاروں سے نوازا۔ ان کاوشوں کے نمونہ جات ملاحظہ فرمائیں:
محترم محمد زبیر گجرات پاکستان نے اپنے مخصوص انداز میں قطعات پر مشتمل کلام عطا فرمایا:
بھڑ رہے ہیں جو مشرق و مغرب
اس لڑائی میں ناتواں ہارے
زندگی سامراج چاٹ گیا
کھیت کھلیان مر گئے سارے
جناب اشرف علی اشرف سندھ پاکستان نے بہت پیارا کلام پیش کیا:
حدود طے ہیں تو پھر حد سے کیوں گزرتے ہو
عجیب بربریت اک جہاں پناہ میں ہے
محترمہ ساجدہ انور کراچی پاکستان سے تشریف لائیں اور اپنے نادر کلام سے نوازا
اپنے ہی گھر کا جگ میں تماشا نہ کیجیے
امن و اماں کے طور بھلا کیوں انہیں قبول؟
اب باری تھی جناب محمد اسامہ ساجد مریدکے پاکستان کی۔ ناظم مشاعرہ کے پکارا اور وہ گویا ہوئے:
اے کوفہ صفت لوگو اک اور کربلا
کیوں کر رہے ہو برپا اک کربلا کے بعد
محترم اصغر شمیم کولکاتا انڈیا سے گویا ہوئے:
ہم مزدور تو پسینوں سے لکھتے ہیں تقدیر یہاں
محنت اپنی بیٹی جیسی محنت اپنی مائی ہے
روبینہ میر جموں کشمیر بھارت
نے لکھا کہ
ساری انسانیت اللہ کی مخلوق ہے۔ ہم بس اللہ کے غلام ہیں۔ ایک اللہ ہی ہے جو دائمی حاکم ہے اور اسی کی حاکمیت ازل سے ابد تک زندہ اور باقی رہنے والی ہے
قارئین محترم!
کامیابی کے جھنڈے گاڑتا ہوا پروگرام نمبر 198 اخترام پذیر ہوا۔ رات بھیگ چکی تھی اور احباب اس قدر خوب صورت پروگرام کے کامیاب انعقاد و اختتام پر فرحاں و نازاں تھے۔ سب نے ایک دوسرے جو لوب مبارک باد دی کہ اس قدر پیارا پروگرام منعقد کیا گیا۔
بلاشبہ اس پروگرام کی کامیابی کے پیچھے میرے قابل احترام بھائی توصیف ترنل کا اخلاص، میرے مونس و غمخوار برادر صابر جاذب کی محنت، میرے پیارے مخلص بھائی آرگنائزر پروگرام جناب احمر جان کا ادب کے ساتھ عشق جھلکتا دکھائی دے رہا۔
تمام شعرا اور نثرنگاروں کا بے حد شکریہ جن کی محنت و کاوش کی بدولت اور حاضری نے اس پروگرام کو کامیاب کیا۔
میں اپنے محترم ڈاکٹر شفاعت فہیم صاحب اور محترم مسعود حساس صاحب کا ادارہ کی طرف سے نہایت شکرگزار ہوں جو ان پروگرامز کو بامقصد اور نہایت کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے نقدونظر سے نوازتے ہیں۔ ان کی وجہ سے پروگرام کو چارچاند لگ جاتے ہیں۔
توصیف بھائی کو ایک بار پھر مبارک باد کہ اللہ تعالی نے ایک اور کامیاب پروگرام سے بامراد فرمایا۔