ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 194
بعنون : درصنعت مبالغہ
تحقیق و تحریر و رپورٹ
احمدمنیب لاہور پاکستان
چندمعروضات دربارہ موضوع سخن
صنعتِ مبالغہ
حد سے بڑھنا۔ بڑھا چڑھا کر بیان کرنا۔ مبالغہ کہلاتا ہے۔
صنعتِ مبالغہ
انگریزی میں اسے
Magnification
کہتے ہیں۔
لُغوی مَعنیٰ :
مبالغہ سے مراد عقل کی حدود سے الفاظ کا تجاوز کر جانا۔
(معجم الغنی)
اِصطلاح میں کسی چیز کے لیے اس کے حق سے زائد توصیف و تعریف کرنا"
(التلخیص البلاغۃ)
چند مثالیں
دنداں کی تاب دیکھ کے انجُم ہوئے خَجِل
وہ مہ جبِیں جو شب کو لبِ بام ہنس پڑا
(بہادر شاہ ظفر)
یہ صفائی یہ لطافت جسم میں ہوتی نہیں
تُم نے جو دل میں چُھپایا، آشکارا ہو گیا
(شیخ ناسخ)
ادیب کو نہیں بھولنا چاہیے کہ مبالغہ کلام کا حُسن ہے لیکن مبالغے میں افراط کہ مضمونِ غیر عادی و محال پیدا ہو جائے، بہ إتفاقِ آئمۂ فن عیبِ قبیح ہے، جس کا نام انھوں نے إغراق و غُلُوّ رکھا ہے. مبالغہ جبھی تک حُسن دیتا ہے جب تک واقعی و امکان اس میں پایا جائے
(سید علی حیدر نظم طباطبائی)
تفضیل اور مبالغہ
اسمِ تفضیل میں شَے کا وصف علی سبیل الفوقیت ہوتا ہے یعنی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت کیوں دی جا رہی ہے جبکہ مبالغہ فی نفسہٖ تعریف و توصیف اور معنوی زیادتی کو کہتے ہیں۔
کیفیت کے اعتبار سے مبالغہ کی دو صورتیں ہوتی ہیں
1- فی الاصل
کسی حقیقت کا استعارةٙٙ بیان مبالغہ فی الاصل کہلاتا ہے۔
فی الزوائد
بنا استعارہ معنوی شدّت عطا کرنا۔ اس کی آگے تین اقسام ہیں:
تبلیغ
وہ بات جو ازرُوئے عقل و عادت ممکن ہو، مثلاً :
دل کے نالوں سے جِگَر دُکھنے لگا
یاں تلک روئے کہ سَر دُکھنےگا
إنشاء
دونوں باتیں ازرُوئے عقل و عادت ممکن معلوم ہوتی ہیں
اغراق
کسی وصف کو باعتبار عقل ممکن لیکن باعتبار عادت محال بلندی تک پہنچا دینا۔
غُلُوّ
وصف کی آخری حد یعنی محالِ محض یعنی عقلاً و عادۃً ناممکن و محال امر، مثلاً :
پیدا نہ ہو زمیں سے نیا آسماں کوئی
دل کانپتا ہے آپ کی رفتار دیکھ کر
(یاس یگانہ چنگیزی)
عقل و عادت سے یہ ممکن نہیں کہ محبوب کی تیز رفتاری سے جو دُھول اُٹھے وہ ایک اور آسمان بنا لے۔
مبالغہ کے لیے عربی اِطراءُ کا لفظ بھی مستعمل ہے جس کا مطلب ہے حد سے زیادہ تعریف اور پیوند کاری کرنا ہوتا ہے۔
کسی شے یا شخص کی حد سے زیادہ توصیف و تعریف یا مذمت کرنا شاعری کی اصطلاح میں مبالغہ کہلاتا ہے۔
اس صنعت کا درست استعمال شعر کا حسن نکھار دیتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق کہا جاتا تھا اور بعض لوگ مبالغہ کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے صدوق کہہ دیتے کہ خطرناک حد تک سچا انسان ہے جو صدق کی خاطر اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتا۔
اسی طرح قرآن کریم میں ظلوماٙٙ جہولاٙٙ بھی انہی معانی میں آیا کہ انسانِ کامل ؐ نے امانت کا بار اٹھایا جس کو اٹھانے سے پہاڑوں نے صاف انکار کر دیا تھا۔ یعنی انسان اور پھر انسانِ کامل جو شدید القُوٰی ہے اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور بارِ امانت اٹھا لیا۔
انسانی فطرت تعریف پسند واقع ہوئی ہے جس سے آسودگی اور فرحت محسوس کرتی ہے۔
انسانی فطرت میں ہے کہ اس کی تعریف اور حوصلہ افزائی کر کے اسے سراہا جائے۔
اسلام غلوکو درست قرار نہیں کیونکہ علو اور تکبر محض ذات باری کو زیب ہے اس کی مخلوق میں سے بشمول انسان کسی کو بھی نہیں۔
حمد و ثنا محض حضرت احدیت کے لیے روا ہے۔ جیسا کہ فرمایا
’’جسے اپنے بھائی کی تعریف کرنی ہو تو وہ کہے:
میرا خیال یوں ہے جبکہ حقیقت حال سے تو اللہ ہی واقف ہے۔ بس وہی بات کہے جس کا علم ہو۔
پھر کوئی صفت کسی میں پائی بھی جائے تب بھی مبالغہ سے منع فرمایا گیا ہے گویا آپ حد سے زیادہ تعریف کر کے اسے قتل ہی کر دیں۔
الغرض ہر معاملہ میں میانہ روی میں ہی خیر و برکت ہے کیوں کہ مسلمانوں کو امة وسطا کہا گیا ہے۔
دینی معاملات میں بھی غلو سے بچنے کا حکم ہے جیسا کہ بعض لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ کی شان نعوذباللہ اللہ رب العزت کی تنزیہی صفات میں جا ملاتےہیں جو بہرحال ایسا غلومرتبت ہے جو شرک پر منتج ہوتی ہے اس لیے قطعاٙٙجائز نہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے دعائیں کیں کہ اللہ امت مسلمہ کو اس شرک سے بچائے جیسا کہ یہود و نصاری نے اپنے انبیاء کےمقابر کو مسجود بنا لیا تھا۔ یہی ارشاد فرمایا کہ دیکھو تم یہود و نصاری کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے انبیاء کے مقبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا تھا۔ یہ دین میں غلو ہے۔
پھر دین کے نام پر بدعات پیدا کر لینا بھی غلو ہے۔ ایسا کرنے والوں کے لیے ہلاکت کی وعید ہے۔
پس چاہیے کہ مبالغہ خوشامد انانیت اور خود پرستی کا پیش خیمہ نہ ہو جائے جس سے نخوت وتکبر کو ہوا ملے۔ اللہ تعالی ہمیں ایسے علو اور مبالغہ سے بچائے جو گناہ پر منتج ہو۔ آمین
رپورٹ
ادارہ ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 194 بعنوان مبالغہ
مبالغہ کے لغوی معنی ہیں حد سے بڑھنا۔
شعری اصطلاح میں مبالغہ اس صفت کا نام ہے جس کے ذریعے کسی شے یا شخص کی بعید از قیاس تعریف یا مذمت کی جاتی ہے لیکن اگر مبالغہ کا درست استعمال کیا جائے تو شعر کا حسن نکھر جاتا ہے۔
مثلاٙٙ
کل رات ہجرِ یار میں رویا میں اس قدر
چوتھے فلک پہ پہنچا تھا پانی کمر کمر
اس شعر میں شاعر نے کثرت بُکا کے نتیجہ میں بہت زیادہ آنسو بہانے کے حوالے سے ایک ناممکنات الوقوع مبالغہ سے کام لیا ہے۔
گویا کسی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا مبالغہ کہلاتا ہے۔ جس میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے جائیں یا تصور کر لیا جائے کہ یوں ہو لیکن ویسا عملاٙٙ ممکن نہ ہو جیسےاحمد فراز کا یہ شعر:
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
مورخہ 16 فروری 2019 بروز ہفتہ
پاکستانی وقت 7بجے شام
ہندوستانی وقت۔7.30بجے شام یہ پروگرام منعقد کیا گیا۔
شرکاءِ پروگرام کو اجازت تھی کہ وہ کسی بھی صنف ادب یعنی نثر نظم، غزل، متفرق اشعار، مسدس، مخمس وغیرہ کی صورت میں پیش کر سکتے ہیں۔
قارئین محترم! ادارہ ھٰذا دنیا کا واحد ادارہ ہے،جو اس برقی ترقی یافتہ دور میں شعرا و ادبا اور مصنفینِ زبانِ اردو ادب کی ذہنی آبیاری کر رہا اور نئے نئے لسانیاتی پروگرامز کا اہتمام کرتا ہے۔
اس پروگرام کاآئیڈیا صابر جاذب لیہ پاکستان نے پیش کیا۔ خاکساراحمد منیب لاہور پاکستان اس پروگرام کا مہتمم تھا۔ ادارہ کے بانی وسرپرست محترم توصیف ترنل ہانگ کانگ کی ہدایات قم بہ قدم ہمارے ساتھ رہیں۔
قارئین محترم! جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ ہمارے یہ پروگرام برائے تنقید ہوا کرتے ہیں۔ لہٰذا پروگرام میں محترم ڈاکٹر شفاعت فہیم صاحب بھارت، صدرمحفل محترم المقام مسعود حساس صاحب کویت، محترم شہزاد نیر صاحب پاکستان اور راقم الحروف
احمد منیب لاہور پاکستان نے نقدونظر پیش کیں۔
اس خوبصورت پروگرام کی مسند صدارت پر محترم المقام مسعود حساس کویت متمکن ہوئے اور دوران پروگرام ہی سب احباب کی کاوشوں پر نقدونظر سے نوازتے رہے جو ہمارے لیے خوش قسمتی کی بات رہی۔ انہوں نے اپنا کلام بھی پیش فرمایا ایک شعر قارئین کی نذر ہے:
ہر کوئی زہر پیئے غم کو سہے کچھ نہ کہے
ہر کوئی درد کا زندان نہیں ہو سکتا
اس پروگرام کےمہمان خصوصی محترم عاطف جاوید عاطف پاکستان سے تشریف لائے ان کے کلام میں سے ایک شعر ملاحظہ ہو:
تجھے چھڑانے کو شاہ زادی کہاں کہاں نہ چراغ رگڑے
وہ دیو اب تک ہیں قید ان میں طلسمی غاروں سے جان لینا
مہمان اعزازی والی نشستوں پر محترمہ سیما گوہر رام پور بھارت سے براجمان تھیں ان کے کلام۔کا نمونہ ملاحظہ ہو:
ہر ایک سمت یہ کس نے بکھیر دی شبنم
کہ جیسے رات نے خود کو بہت رلایا ہو
نظامت کے فرائض محترمہ گلِ نسرین ملتان پاکستان اور محترم ایڈوکیٹ متین طالب بھارت نے ادا کیے۔
پروگرام کا آغاز محترمہ غزالہ انجم صاحبہ بورے والا پاکستان کی ایک نئے طرز بیان کی اعلی حمد پاک سے ہوا جس میں اپنے تخلص کو معنوی انداز میں بیان کرتےبہوئے انہوں نے لکھا کہ
یہ انجم یہ ماہم اسی کا ظہور ہے خورشید تاباں میں اس کا ہی نور
تجلی سے اس کی جلا کوہ طور سمیع و بصیر و خبیر و حکیم
ہدیہء نعت پیش کرنے کی سعادت محترم مصطفی دلکش بھارت کو ملی آپ نے کہا کہ
اخلاص اور یقین سے پڑھتے رہے اگر
جنت میں لے کے جائے کا کلمہ رسول کا
اس کے بعد شعرا و نثر نگاروں کے کلام اور نثری کاوشوں کا دور چلا تو محترمہ گل نسرین صاحبہ نے نظامت کا آغاز ایک نہایت جچےتلے اور ماہرانہ انداز میں فرمایا۔ اور نہایت خوب صورت کلام عطا فرمایا
سوچ کے پروں پہ تھیں وصل کی اطاعتیں
آنکھ پھر جھکی رہی آپ کے حضور میں
اس کے بعد ناظم مشاعرہ نے برقی مشعل کے سامنے آنے کی دعوت دی محترم اسرار احمد دانش کو جو بھارت سے تعلق رکھتے ہیں وہ گویا ہوئے:
جام ہاتھوں سے گرا دیتے ہیں دلکش دانش
جب وہ چہرے سے نقاب اپنے اٹھا دیتی ہے
محترم عامر حسنی ملائشیا سے گویا ہوئے
آپ کے قدموں کی مٹی سے بنی ہے کہکشاں
مرجعِ اقوام عالم بام ختم المرسلیں
جناب اصغر شمیم کولکاتا انڈیا تشریف لائے اور فرمایا کہ
کل میں رویا تھا یاد میں اس کی
گھر کے آنگن میں بھر گیا پانی
محترم غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان نے بہت ہی مفصل مدلل اور مکفی مقالہ مبالغہ کے موضوع پر پیش کیا اور لوب داد سمیٹی
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کے سیکریٹری اور آسمان ادب پاکستان کے مدیراعلی محترم صابر جاذب لیہ پاکستان نے بھی انوکھے اور خوب صورت انداز میں اپنا مضمون پیش کر کے خوب تحسین سمیٹی۔
محترم محمد زبیر گجرات پاکستان نے مبالغہ پر اپنا کلام پیش کیا
جو ٹھنڈکوں کا بیاں آفتاب میں لکھوں
تو سختیوں کی حقیقت گلاب میں لکھوں
ڈاکٹر ارشاد خان بھارت
ڈاکٹر ارشاد خان صاحب نے خوب صورت انداز میں کیا یہ مبالغہ ہو گا؟ کے عنوان سے بہت پیاری تحریر پیش کی۔
محترمہ ساجدہ انور کراچی پاکستان سے یوں گویا ہوئیں
کچھ زباں کو ضد تھی اپنی ہر دعا سے اس طرح
بس دعا کو ہاتھ اٹھے اور بیاں جلنے لگے
محترمہ ماورا سید کراچی پاکستان نے بھی خوب کلام پیش کیا
وہ جانتے ہیں محبت میں سرخرو ہونا
حدودِ عشق سے آگے ہے عاشقی ان کی
محترم اطہر حفیظ فراز فیصل آباد سے تشریف لائے اور کہا کہ
چشم حیراں کی میں وسعت کو بیاں ایسے کروں
کبھی ندیا، کبھی درپن، کبھی دریا لکھوں
محترم جعفر بڈھانوی بھارت سے تشریف لائے اور آواز دی کہ
چاند سورج میں توڑ لاوں گا
آسمانوں کے ستارے کیا ہیں
محترم اشرف علی اشرف سندھ پاکستان سے یوں کلام کر رہے تھے کہ
اپنی باتوں میں رس گھولتا ہے بلا کا
ہر کوئی اس کی باتوں میں آیا ہوا ہے
حاضرین نے ایک ایک شعر پر خوب دادوتحسین سے نوازا۔
محترم المقام ڈاکٹر شفاعت فہیم صاحب اور محترم المقام مسعود حساس صاحب نے شعرا کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی اور ان کے اشعار پر نقدو نظر سے بھی نوازا۔
محترم امیرالدین امیر بیدر کرناٹک بھارت نے اتنا اچھا پروگرام پیش کرنے پر درج ذیل الفاظ میں۔تحسین پیش کی:
بانی وسرپرست ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوٸیٹری محترم توصیف ترنل ۔پروگرام آٸیڈیا وسیم ہاشمی یو اے ای۔نمبر 194 محترم صابرجاذب۔پروگرام آرگناٸزرو رپورٹ محترم احمد منیب۔پروگرام کے نقدونظر محترم ڈاکٹر شفاعت فہیم۔محترم شہزاد نٸیر۔محترم احمد منیب۔صدارت پر جلوہ افروز محترم مسعود حساس معتبر مہمانانٍ خصوصی محترم عاطف جاوید۔محترم درویش فرحت عبّاس۔مہمانانٍ اعزازی محترمہ سیما گوہر۔محترمہ روبینہ میر اور معزز شریکٍ محفل شعرإ وشاعرات اسلام علیکم رحمتہ اللہ وبرکاتہُ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چنداہم باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوٸٹری کاساری دنیا روشناس ہے اور یہ ایک نامور کہلایا جانے والا ایک منفرد ادارہ ہے یہ ایک واحد ادارہ ہے جو مسلسل تقریباتین سال سے ہفتہ وار پروگرام منعقد کرتا آرہاہے اس کی نمایاں خصوصیت یہ ہےکہ اس ادارہ میں شعرإ کے کلام پر نقاد حضرات تنقیدی گفتگو کرتے ہیں جس کی سبب کلام پر بھر پور روشنی ڈالنے کی وجہ سے شعرإ کے کلام کی جٍلا عطا ہوتی ہے اور کلام کی خامیاں اور خوبیوں کو شعرإوشاعرات بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔چند ہفتہ قبل سے اس ادارہ نے مختلف صنعتوں پر پروگرام پیش کرنے کا آغاز کیا ہے جو بفضلہ تعالٰی بہترین اقدام ہے اور شعرإ کو مختلف صنعتوں سے آگاہی ہورہی ہے کوٸی ادارہ اس طرح کے پروگرام پیش کرنے سے قاصر ہے اسی خصوصیت کی وجہ پر ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوٸٹری ساری دنیا میں عظیم الشان کامیابی حاصل کرتا آرہا ہے اور یہ ایک عالمی ریکارڈ قاٸم کیا ہے ۔اس ادارہ سے دنیا بھر کے شعرإ متعارف ہوچکے ہیں اور آٸندہ بھی ان شاء اللہ ہوتے رہیں گے ادارے کی ویب سائیٹ تیار ہو رہی ہے یوں یہ بھی کارنامہ ادارہ کے بانی وسرپرست محترم توصیف ترنل کے سر جاتا ہے سب کو جوڑے رکھنا ایک مشکل کام ہے ادھر عالمی ادبی منفرد پروگراموں کی ڈبل سنچری قریب ہونے جا رہی ہے جو ناقابلٍ فراموش ہے ۔بہت اچھا ٹیم ورک ہو رہا ہے ادارہ کا ترجمان عالمی ماہنامہ آسمانِ ادب شمارہ نمبر 14 بہت معیاری تھا اس لئے پسند کیا گیا جس کے لیے الگ سے مبارک باد قبول کریں انتظامیہ۔
والسّلام
اللہ حافظ
خادمٍ اردو خاکسار
امیرالدین امیر بیدرکرناٹک بھارت
آخر پر محترم صدر محفل نے خطبہء صدارت سے نوازا۔ جو ذیل میں درج کیا جا رہا۔خطبہء صدارت
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
آپ حضرات نے مجھے صدر بنا دیاتھا یہ آپ حضرات کی مہربانی ہے اور محبت ہے ورنہ میں اس لائق نہیں کہ مجھے اس مقام پر بٹھایا جائے کیونکہ بہت زیادہ کہنہ مشق لوگ، صاحب اخلاق عالیہ اور صاحب علم رفیع یہاں پر موجود ہیں مجھ سے بہت زیادہ اصحابِ علم یہاں پر موجود ہیں۔ شفاعت فہیم صاحب، نیر شہزاد صاحب، شادانی صاحب اور احمدمنیب صاحب! یہ تمام کے تمام اصحاب مجھ سے بہت زیادہ صاحب علم و فضل ہیں۔ ان حضرات کی موجودگی میں میرا صدر بننا میرے لیے واقعتاٙٙ ایک اچنبھے کی بات تھی۔ آپ حضرات نے ہہاں تک پہنچایا آپ حضرات کا بے حد شکریہ۔
ابتدائی مرحلہ پر شکریہ ادا کرنے کے بعد میں آپ کو بتاوں کہ ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری جو کام کر رہا ہے وہ کام خال خال نظر آتا ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ یہ باضابطہ پلاننگ کے ساتھ یعنی لائحہء عمل کے طور پر قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے۔ ورنہ عموماٙٙ یہ دیکھا گیا ہے کہ دیگر گروپس میں جو کچھ بھی تخلیق ہو رہا بس پیش کر دیا جاتا ہے لیکن یہاں اہدافِ اساسیہ کی بنیاد پر کام کیا جا رہا ہے اور یہ سب سے اچھی بات ہے۔ گویا اہداف دوسروں کو دے کر کہا جاتا ہے کہ آپ اپنا نیا کلام اس ہدف کی بنیاد پہ تخلیق کریں گے اور لپھر وگ تخلیق کر کے لاتے ہیں جو بہرحال ایک مشکل امر ہے۔ اسی پروگرام در صنعت مبالغہ کی ہی مثال لے لیجیے۔ مبالغہ ایک صنف کا نام ہے اور مبالغہ آرائی کے حوالہ سے خصوصاٙٙ عربی ادب کے مطالعہ سے بہت وسیع دنیا نظر آتی ہے۔ اتنی وسیع کہ اللہ اللہ!
خاص طور پر مبالغہ آرائی اس زمانہ میں تو بڑی ہی زبردست ہوا کرتی تھی کہ جب دو متحارب گروہ مدمقابل ہوتے، ایک ایک عسکری دونوں طرف سے لڑائی کے لیے نکلتا تو دونوں اپنی بہادری اور خاندانی بڑائی رجزیہ انداز میں بیان کرتے تھے۔رجزیہ انداز میں اپنے کلام کو اس طرح پیش کرتے تھے کہ مبالغہ آرائی کا عنصر جوبن اور معراج پر پہنچا دیتے۔ یہ بہت بڑی ایک صنف تھی جو ہمارے ہاں تقریبا ختم ہوتی جا رہی تھی۔ اس صورت میں ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری نے اس جانب توجہ کر کے اسے زندہ کیا یہ بڑی اچھی بات ہے۔ نتیجةٙٙ دیکھنے میں آیا کہ جتنے حضرات نے کلام پیش کیا اس کے اندر غنائیت بھی رہی ہے، سلاست اور برجستگی بھی، رعنائی اور رخشندگی بھی رہی اور بڑی بات یہ ہے ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ مفہوم کی ترسیل اور فلسفہ کا ابلاغ بہت اچھے انداز کا رہا ہے۔ اس لیے یہ تمام اصحاب مبارک باد کے مستحق ہیں اور فرداٙٙ فرداٙٙ کسی کا نام تو نہیں لے سکتا لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ دو خواتین جن کا تذکرہ ناگزیر ہے ان میں سے ایک خاتون ہیں کہ جنہوں نے حمد پاک کی سعادت حاصل کی انہوں نے بہت خوبصورت حمد پیش کی بالکل نئے ڈھب کی حمد ہے اور دوسری خاتون جنہوں نے نظامت کی۔ نظامت کے اندر انہوں نے خوب جوہر دکھائے ہیں۔ بعد میں دوسرے مرحلہ میں جو صاحب تھے ان کے بھی کیا کہنے انہوں نے بھی اپنے جوہر دکھائے ہیں اس میں بھی کوئی شبہ نہیں لیکن چوتھے مرد کی بھی تعریف ناگزیر ہے۔ وہ ہے توصیف ترنل۔
یہ تمام احباب میری جانب سے بہت بہت مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللہ ان کو آباد رکھے شاداب رکھے۔ آمین
مسعود حساس کویت
یوں ایک اور خوب صورت اور منفرد پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا۔ جس کی بھرپور کامیابی پر عالمی ادارہ اردو بیسٹ پوئٹری کے تمام اراکین اور شامل مشاعرہ احباب کی خدمت میں بہت بہت مبارکباد پیش ہے۔
محترم چیئرمین ادارہ جنام توصیف ترنل نے تمام شعرا و حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور ایک اور کامیاب پروگرام پر سب کو مبارک باد دی۔
اللہ سب کو سلامت رکھے اور ہمارا ادارہ اسی طرح مزید کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتا رہے۔ آمین