تعارف ادارہ
ادارہ ھٰذا دنیا کا واحد ادارہ ہے،جو اس برقی ترقی یافتہ دور میں شعراء,ادباء و مصنفینِ زبانِ اردو ادب کی ذہنی آبیاری کرتا ہے اور نئے نئے لسانیاتی پروگرامز منعقد کرنے میں سب سے آگے ہے ..
امن کے معنی
جنگ کی ضد
شانتی (اَمِنَ ۔ محفوظ ہونا)صلح و آتشی
امن کے مترادفات
آرام،آسائش، آسودگی، اطمینان ،امان، بچاؤ ،پناہ، چھتر، چین ،حفاظت، خیریت، دلجمعی، راحت سلامتی ،سکون ،سُکھ، شانتی، عافیت،
امن کے انگریزی معنی
peace ،safety ،security
جنگ
ایک جلد جس میں کئی کتابیں ہوں، بڑی بیاض
پیتل کی گھنٹی جو بہلی رتھ اکے وغیرہ میں لٹکادیتے ہیں کتابوں کا پُشتارہ
جنگ کے مترادفات
امنگ ،بغض، پیکار،جدال، جدل ،جوش، حرب یُدھ
جنگ کے انگریزی معنی
audacity [ڈھیٹ]Battle conflict fight impudences hamelessness war
دیگر استعمالات کے لیے دیکھیے امن (ضد ابہام)
امن، سماج کی اس کیفیت کا نام ہے جہاں تمام معاملات معمول کے ساتھ بغیر کسی پر تشدد اختلافات کے چل رہے ہوں۔ امن کا تصور کسی بھی معاشرے میں تشدد کی غیر موجودگی یا پھر صحت مند، مثبت بین الاقوامی یا بین انسانی تعلقات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں معاشرے کے تمام افراد کو سماجی، معاشی، مساوت اور سیاسی حقوق و تحفظ حاصل ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں، امن کا دور اختلافات یا جنگ کی صورت حال کی غیر موجودگی سے تعبیر ہے۔ امن بارے تحقیق اس کی غیر موجودگی یا تشدد کی وجوہات کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ عمومی طور پر امن تباہ کرنے میں عدم تحفظ، سماجی بگاڑ، معاشی عدم مساوات، غیر متوازن سیاسی حالت، قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں۔
امن کی عمومی تعریف میں کئی معنی شامل ہوتے ہیں۔ ان میں مجموعی طور پر امن کو تحفظ، بہتری، آزادی، دفاع، قسمت اور فلاح کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ انفرادی طور پر امن سے مراد تشدد سے خالی ایک ایسی طرز زندگی کا تصور لیا جاتا ہے جس کی خصوصیات میں افراد کا ادب، انصاف اور عمدہ نیت مراد لی جاتی ہے۔ معاشرے میں انفرادی طور پر امن کی حالت ہر فرد پر یکساں لاگو ہوتی ہے، جبکہ مجموعی طور پر کسی بھی خطے کا پورا معاشرہ مراد لیا جاتا ہے۔
دنیا کی مختلف زبانوں میں لفظ امن یا سلامتی کو خوش آمدید یا الوداعی کلمات کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہوائی زبان کا لفظ Aloha یا پھر عربی زبان کا لفظ سلام، امن یا سلامتی کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ الفاظ الوداعی یا خوش آمدیدی کلمات کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ انگریزی زبان میں PEACE کا لفظ الوداعی کلمات میں استعمال ہوتا ہے، خاص طور پر مردہ افراد کے لیے ایک فقرہ استعمال ہوتا ہے
چند اشعار
نامعلوم
امن پرچار تلک ٹھیک سہی لیکن امن
تم کو لگتا ہے کہ ہوگا نہیں ہونے والا
نامعلوم
رہے تذکرے امن کے آشتی کے
مگر بستیوں پر برستے رہے بم
انور شعور
امن کے سارے سپنے جھوٹے
سپنوں کی تعبیریں جھوٹی
بقا بلوچ
امن عالم کی خاطر
جنگ یگوں سے جاری ہے
اقبال کیفی
دھوپ کے سائے میں چپ سادھے ہوئے
کر رہے ہو امن کا اعلان کیا
عادل حیات
بادلوں نے آج برسایا لہو
امن کا ہر فاختہ رونے لگا
عزیز انصاری
ایک تختی امن کے پیغام کی
ٹانگ دیجے اونچے میناروں کے بیچ
عزیز نبیل
امن کا قتل ہو گیا جب سے
شہر اب بد حواس رہتا ہے
صابر شاہ صابر
معصوم ہے معصوم بہت امن کی دیوی
قبضہ میں لیے خنجر خوں خار ابھی تک
محمد عثمان عارف
کتنا پر امن ہے ماحول فسادات کے بعد
شام کے وقت نکلتا نہیں باہر کوئی
ہیرا لال فلک دہلوی
پرواز میں تھا امن کا معصوم پرندہ
سنتے ہیں کہ بے چارہ شجر تک نہیں پہنچا
======================
پروگرام مورخہ 9 مارچ 2019وقت شام سات بجے ہوا
پروگرام آرگنائزر
توصیف ترنل جارڈن ہانگ کانگ
گرافک ڈیزائنر
صابر جازب لیہ پاکستان
کمپائیل
ارسلان فیض کھوکھر پاکستان
====================
صدارت
شفاعت فہیم بھارت
مہمانانِ خصوصی
روبینہ میر جموں کشمیربھارت
گل نسرین ملتان پاکستان
مہمانانِ اعزازی
احمد منیب لاہور پاکستان
صابر جازب لیہ پاکستان
نظامت*
صبیحہ صدف بھوپال انڈیا
رپورٹ
ڈاکٹر ارشاد خان بھارت
====================
نقد نظر
مسعود حساس کویت
شفاعت فہیم بھارت
شہزاد نیّر پاکستان
====================
حمد باری تعالی
عامر حسنی ملائیشیا
نعت رسول مقبولﷺ
محمد زبیر گجرات پاکستان
===================
شعرا ونثر نگار
صبیحہ صدف بھوپال انڈیا
عاطف جاوید عاطف لاہور پاکستان
ساجدہ انورکراچی پاکستان
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی انڈیا
جابِر ایاز سہارنپور بھارت
تھذیب ابراربجنوراترپردیش انڈیا
ڈاکٹر مینا نقوی مرادابادبھارت
اصغر شمیم کولکاتاانڈیا
سیما گوہر رام پور انڈیا
ڈاکٹر ارشاد خان ممبرامہاراشٹر بھارت
عامر حسنی ملائیشیا
اشرف علی اشرف سندھ پاکستان
مختار تلہری بھارت
اخلادالحسن اخلاد جھنگ پاکستان
محمد زبیر، گجرات، پاکستان
جعفر بڑھانوی بھارت
اسرار احمد دانش ، انڈیا
ماوارا سعید پاکستان
غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان
ڈاکٹر صابرہ شاہین پاکستان
============================
حمدِ باری تعالیٰ
کوئی خالی نہ اس دنیا سے جائے
سدا رحمانیت سے فیض پائے
عامرؔحسنی ملائیشیا
محمد زبیر، گجرات، پاکستان
لاکھوں درود اور کروڑوں سلام ہوں
دَم دَم کھلے صُدُور محمد کے اسم سے
زمینِ دل کو بھی
بنجر بنا ڈالا
کہ اب اس میں
محبت پیار الفت کی
امن اور بھائ چارے کی
کوئ کھیتی نہیں کرتا
جدھر بھی دیکھیئے
جنگ و جدل کی بات ہوتی ہے
صبیحہ صدف بھوپال بھارت
مجھے ڈر ہے کہ گلشن میں
سلگتی کوئی چنگاری
کسی پُرآس کونپل کو
جلا کر راکھ نہ کردے ۔
کہیں سہمے پرندوں کو بھڑکتی آگ کے شعلے
جلا کر راکھ نہ کر دیں ۔
عاطف جاوید عاطف
ساجدہ انورکراچی پاکستان
جنگ کرنی ہے تو اغیار سے کر
دوستوں کو نہ ستانا اچھا
جنگ بچوں کے کھلونوں کو جلا دیتی ہے
جنگ مزدور کو محتاج بنا دیتی ہے
جنگ بستی کو بھی ویران بنا دیتی ہے
جنگ ہر کھیت کو شمشان بنا دیتی ہے
جنگ گلشن کو بیابان بنا دیتی ہے
جنگ انسان کو شیطان بنا دیتی ہے
امن دشمن کے خیالات بدل دیتا ہے
امن انسان کے جزبات بدل دیتا ہے
امن اقوام کے دن رات بدل دیتا ہے
امن پھر امن ہے حالات بدل دیتا ہے
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی انڈیا
جنگ میں تو آزمایا ہے بہت دشمن مگر
امن کے میدان میں بھی آزمانا چاہئے
جابر ایاز سہارنپور بھارت
انسانیت کے نام
ہر سمت لاش،خون،فسادوں کی رہگذر
دنیا بنی ہوئی ہے عذابوں کی رہگذر
آنکھوں میں انتقام کی چنگاریاں لئے
سب پھر رہے ہیں جنگ کی تیاریاں لئے
اسلامیت کے نام نہ عیسائیت کے نام
پیغام یہ ہمارا ہے انسانیت کے نام
تھذیب ابرار .بجنور.اترپردیش انڈیا
امن کے کبوتر
دل کے گوشے گوشے میں ،دہشتوں کی ہےدلدل
سرحدوں پہ ہوتی ہے روز و شب نئ ہلچل
خوفناک آوازیں کرتی رہتی ہیں پاگل
ہر طرف گرجتے ہیں روز جنگ کے بادل
شام کو پرندے سب گھر کو لوٹ آتے ہیں
امن کے کبوتر کیوں راہ بھول جاتے ہیں
ڈاکٹر مینا نقوی مرادابادبھارت
خدارا ہر نفس امن و امان رہنے دے
تو میرے خوابوں کا ہندوستان رہنے دے
سیما گوہر رام پور بھارت
جنگ بس آگ ہی لگاتی ہے
دل بھی، گھر بار بھی جلاتی ہے
عامرؔحسنی
یہاں جتنی بھی ہلچل ہے،محبّت آخری حل ہے
جو یہ جنگِ مسلسل ہے،محبّت آخری حل ہے
اشرف علی اشرف سندھ پاکستان
امحمد زبیر گجرات پاکستان
یہی تاریخ کا دستور ہمیشہ سے ہے
جرم جیسا بھی ہوا شاہ سے منسوب ہوا
امن ظلمت کے اندھیروں کو مٹا دیتا ہے
امن ایثار کے جذبہ کو جِلا دیتا ہے
امن ہوتا ہے حسیں قوسِ قزح کے مانند
امن ہر رنگ میں پیغامِ وفا دیتا ہے
امن ہی آگ کے شعلوں کو بجھا دیتا ہے
امن ہی چاند ستاروں کو ضیاء دیتا ہے
امن ہی جنگ کا بس ایک ہی حل ہے دانش
امن ہی جنگ کے امکان مٹا دیتا ہے
اسرار احمد دانش انڈیا
آدمی کو آدمی سے اب خطر ھونے لگا
کون کس کو مار ڈالے ایسا ڈر ھونے لگا
خون کی پیاسی سیاست کیا نیا دکھلا ئے گی
جنگ لگتا ھے زمی پر تیسری کروائے گی
جعفر بڑھانوی مملکةالھند
ڈاکٹر صابرہ شاہین ڈیروی
مجھے دہشت نے گھیرا ہے
لڑھکتے پتھروں کے درمیان،وہ کامنی پیکر
وہ جمتے خون کی قاشیں
تڑپتے تن،بریدہ سر
وہ گردوباد کا منظر
مرے چاروں طرف
چیخیں ہی چیخیں
اندھیرا ہے
وہ کیا شب تھی، مقدر کی
یہ کیا؟اندھا سویرا ہے
مجھے دہشت نے گھیرا ہے
اپنی ناکامی کا الزام لگا کر تف ہے
بات ہر بار چناوْ پہ گھڑی جاتی ہے
ان بموں کا ارے ڈرپوک کرے گا کیا تو
جنگ تو جذبوں سے ہر بار لڑی جاتی ہے
اخلادالحسن اخلاد جھنگ
روبینہ میر جموں کشمیر بھارت
عہدِ حاضر میں اے روبینہ دیکھ
خون سے ہاتھ دھو گیا انساں
روبینہ میر
آ ہم نشیں روکیں جہاں میں وحشتوں کے سلسلے
آ روک لیں یہ جنگ اور یہ ظلمتوں کے سلسلے
گل نسرین ملتان پاکستان
جنگ میں ویرانیاں بربادیاں
جبکہ رونق دائمی ہے امن سے
جنگ اک طوفان درد و کرب کا
ابر راحت کی گھڑی ہے امن سے
جنگ ہے بس تشنگی ہی تشنگی
کشت دنیا کی نمی ہے امن سے
غزالہ انجم
ایک قطعہ
زندگی تو ہنسی خو شی میں ھے
لڑ نے مر نے سے فا ئدہ کیا ھے
فوج داروں سے پوچھتا ہوں میں
جنگ کر نے سے فائدہ کیا ھے
شفاعت فہیم بھارت
=============================
روبینہ میر جموں کشمیربھارت
پیغامِ امن
تاریخِ اسلام میں سنہ چھ ہجری میں ہونے والا صُلح نامہ ”صلحِ ہدیبیہ “ کا واقع ایک مشہور واقع ہے۔کہ امن کی خاطر رسوکل اللہ ﷺ نے ہدیبیہ کے مقام پر مُشرکینِ مکہ سے جو معاہدہ کیا تھا۔وہ ظاہر میں مُسلمانوں کی شکست کا معاہدہ تھا۔اور اُس معاہدہ نامہ کے تحریر ہونے کے بعد صحابہِ رسول کو سخت ناگواری گُزری تھی۔لیکن امن کی خاطر اللہ کے رسول نے ظاہری شکست کو قبول کر لیا۔اور یہی ظاہری شکست بعد میں اہلِ اسلام کے لۓ فتح کا پیغام لاٸی۔اور سارے عرب میں امن کی بحالی کا سبب بنی۔
امن کی ضِد ۔انتشار جنگ و جدل اور خون ریزی ہے۔نوعِ آدم کی تاریخ میں۔ فرعون ۔ نمرود ۔ یزید ۔ چنگیز ۔ ہلاکو ۔اور ہٹلر جیسے لاکھوں اور کروڑوں دُشمنانِ امن آۓ۔ جو اس فطری نظام کو نیست ونابود کرنا چاہتے تھےلیکن وہ امن و رحمت کے فطری نظام کو دُنیا سے نیست و نابود کرنے کے بجاۓ۔خود نیست و نابود ہو گۓ۔ آج پوری دُنیا میں نوعِ انسان فطرت کے جس جوہرِ نایاب کا متلاشی ہے۔وہ جوہر ۔انسانی امن ۔سلامتی اور انسانی بھاٸی چارہ ہے۔خصوصاً برِ صغیر ہندو پاک کی سر ٕزمین اس وقت امن و سلامتی کےآب ِ رحمت کے لٸے بیقرار ہے۔چنانچہ ہندو پاک کے عوام اور حُکمرانوں کو اس وقت اللہ کی زمین کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا کر انسانیت کو امن دُشمنی کی خون ریزی سے بچانا ہو گا۔اور اللہ کے عزاب سے بچنا ہو گا۔
=============================
امن یا جنگ
آئیے جنگ کے دوسرے رخ کی طرف ،جو جہاں بانی کے لیے تھی ۔۔۔اشوک نے کلنگ کے میدان میں ایک لاکھ سے زائد لاشوں کو دیکھ جنگ سے توبہ کی ۔۔سکندر مقدونیہ سے پوری دنیا فتح کرنے نکلا ۔۔ہاتھ کیا آیا ؟ ۔۔خالی ہاتھ گیا ۔۔چنگیزی جبروت نے کھوپڑیوں کے منار بنائے تو ہلاکو نے بعد میں ہٹلر جیسے جانشین پیدا کیے ۔۔پہلی عالمی جنگ نے ابھی زخموں کو مندمل نہیں کیا تھا کہ دوسری عالمی جنگ نے تباہی وبربادی وہ کرب ناک منظر دکھایا کر انسانیت آج تک سسکتی ہے ۔۔ہیروشیما وناگاساکی میں نسلیں آج بھی معذوریت کا شکار اور کشت زار بنجر و صحرا سے بدتر ۔۔
یہ جنگیں طمع پرستوں کی ،توسیع سلطنت کی ،محلوں و تختوں و تاجوں کی ، ہوس کے پجاریوں کی جو عوام کو جنگ کی بھٹی میں جھونک داد عیش دیتے رہے ۔۔کیا یہ جنگ ضروری ہے ؟کہ ایک تاج کے لیے سینکڑوں گھر تاراج ہوں ! ایک تخت شاہی کے لیے سینکڑوں تختہ دار پر چڑھیں !!
جنگ اگر لازم ہے تو نفس امارہ سے ، جنگ ضروری ہے تو بھوک اور غربت سے ،جنگ ناگزیر ہے تو نابرابری، ۔۔اور جنگ لازمی ہے امن عالم کے لیے ۔
احساس ستم تم بھی کرو،ہم بھی کریں گے
مظلوم کا غم تم بھی کرو،ہم بھی کریں گے
جو ہاتھ بڑھیں امن کی بستی کو جلانے
وہ ہاتھ قلم تم بھی کرو، ہم بھی کریں گے
ڈاکٹر ارشاد خان
=============================
پروگرام نمبر 197نقطہء نظر امن یا جنگ
تحریر احمدمنیب لاہور ہاکستان
تمہید
انسانی معاشرہ کسی بھی قسم کے ظلم و تعدی کا متحمل ہو کر خاک و خون میں لُتھڑا ہو نہیں رہ سکتا لیکن بدقسمتی سے ابتدائے آفرینش سے ہی دنیا کی تاریخ خاک و خون میں لُتھڑی دکھائی دیتی ہے۔
جنگل کا دور
انسان بے لباس اور غیرمتمدن تھا اور جنگلوں میں قیام پذیر تھا تو درلتوں اور پھلوں نیز شکار کے جانوروں ہر لڑائی چھڑ جاتی تھی۔
قبائلی دور
انسان متمدن ہوا خاندانوں اور قبائل کی صورت میں رین سہن اور بودوباش اختیار کی تو حدود و زمین کے جھگڑے جنم لینے لگے۔
حرفِ آخر
حرفِ آخر کے طور پر چند اعدادوشمار حقائق کے آئینہ میں قارئین محترم کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جن سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا کہ دہشت گردی کے حوالہ سے اسلام کو بدنام کرنا دراصل طاغوتی طاقتوں کی ہی ایک سازش ہے نہ کہ اسلام کا رویہ ایسا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
پہلی جنگ عظیم کا محرک کون تھا؟ مسلمان تو نہیں تھے۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ پر لیگ آف نیشنز بنائی گئی لیکن 1932 کے معاشی بحران اور لیگ آف نیشنز کی ناکامی دوسری جنگ عظیم کا سبب بنی۔
دیدہ و دل میں کھول رہے ہیں درد کے اوقیانوس
مجبوروں کے ایشیا اور مزدوروں کے روس
تنہائی میں جل اٹھے ہیں یادوں کے فانوس
کوئی بھی سچا مسلمان دہشت گردی کے حق میں قطعاٙٙ نہیں۔
نہ اسلام نے جنگ و جدل کی تعلیم دی ہے۔
اسلام نے تو حتی المقدور عفو و درگزر کی تعلیم دی ہے لیکن کیا یہ منافقت اور انصاف کا دُہرا معیار نہیں کہ اگر کوئی غیرمسلم ایسے کسی فعل شنیع کا مرتکب ہو تو وہ محض ایک جرم کہلائے اور اگر کوئی مسلمان انفرادی طور ہر ملوث ہو تو وہ دہشت گردی کہلائے؟
ہم تو امن کے داعی ہیں اور دنیا میں جنت نظیر معاشرہ کا قیام چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم جنگ اور امن میں سے امن کو چُنتے ہیں کیونکہ
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی؟
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لیے اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
=============================
صابر جاذب لیہ پاکستان
امن یا جنگ
ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے کہ وہ جس معاشرے میں رہ رہا ہے، اس میں اسے سماجی برابری کا درجہ حاصل ہو۔ وہ اونچ نیچ، ظلم و استحصال اور ہر طرح کے خطرہ سے آزاد رہ کرامن وسکون کے ساتھ زندگی گزار سکے۔ اسے ناحق قتل کیاجائے نہ بے بنیاد الزام کے تحت سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاجائے۔
انسانوں پر ظلم ہوتا دیکھ کرتڑپ اٹھنا انسان کا وہ جذبہ ہے جو انسانیت کی روح ہے۔ یہ جذبہ جو اسے دوسری مخلوقات سے افضل بناتا ہے۔ انسان اپنے اندر ایک حساس دل رکھتا ہے جو عدل کی حمایت میں کسی ظالم قوت کی پروا نہیں کرتا۔ اگر یہ جذبہ عام انسانوں کے اندر کارفرما نہ ہو تو پھر پوری دنیا تباہ و بربادہ ہوجائے گی۔ ہر طرف ظلم وستم کا ہی بول بالا ہوگا۔ روشنی قید کرلی جائے گی اور چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا، جس میں کوئی بھی جی نہیں سکتا، حتی کہ ظالم بھی نہیں، کیوں کہ ظلم آخر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتاہے۔ اس صورت میں ظالم کوظلم سے توبہ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ جب تک کہ ایک انسان اس ظالم کوحیوانیت سے نکال کر انسانیت کی طرف لانے کے لیے سعی و جہد کرتا ہے، جو انس و محبت کا تقاضا ہے۔ فورتھ جنریشن وار
ایک نہایت خطرناک جنگی حکمت عملی ہے جسکے تحت ملک کی افواج اور عوام میں مختلف طریقوں سے دوری پیدا کی جاتی ہے مرکزی حکومتوں کو کمزور کیا جاتا ہے صوبائیت کو ہوا دے جاتی ہے ، لسانی اور مسلکی فسادات کروائے جاتے ہیں اور عوام میں مختلف طریقوں سے مایوسی اور ذہنی خلفشار پھیلایا جاتا ہے۔اسکے ذریعے کسی ملک کا میڈیا خریدا جاتا ہے اور اسکے ذریعے ملک میں خلفشار ، انارکی اور بے یقینی کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے۔دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک نے آئندہ کی پانچویں جنریشن کی جنگوں کے حوالے سے تیاریاں شروع کردی ہیں بلکہ ان کا عملی آغاز بھی کردیا ہے جس کے *تحت کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعے روبوٹ اور دیگر آلات کو کنٹرول کرکے جنگ لڑی جائے گی اور دور بیٹھا فوجی صرف ان آلات کو کنٹرول کرے گا۔
جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس میں ماحول حددرجہ خراب ہوتا جارہاہے۔ ہم دنیا پر ایک نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ آج پوری دنیا میں انسانیت سسک سسک کر دم توڑرہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسان کو دنیا میں اس بنیادی ضرورت سے محروم کیا جارہاہے۔ اس سے دنیا میں جینے کا حق چھینا جارہاہے۔ بے گناہوں، معصوم بچوں کا خون پانی کی طرح بہایاجارہاہے۔ غیرت مندماؤں اور بہنوں کی عزت تارتار کی جارہی ہے۔عالمی امن کے لیے ’’جہاں امن کے کانفرنس‘‘ اور روحانی اور پاکیزہ پروگرام کے انعقاد وقت کی ضرورت ہے وہاں قلم کو بطور ہتھیار استعمال کرنے اور ادب اور شاعری کے ذریعے دلوں کو جوڑنا ضروری ہوجاتا ہے۔
لیکن یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ملک میں صالح نظام موجود ہو جہاں انارکی ہو وہاں یہ نسخہ کارگر نہیں ہے وہاں انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے اور اس جدوجہد کے دوران بھی قلم ہی کا کردار ہوتا ہے ۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ انقلابی جدوجہد کےدوران شعراء اور ادیبوں نے قلم کا استعمال کیا ہے اور ’’ *ہاتھوں کو مسلح کرنے سے پہلے دماغ کو مسلح کرنے کا پیغام پہنچایا ہے۔تاریخ اس کی گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ناموافق حالات میں بھی انسانیت کے بنیادی اصولوں سے انحراف نہیں کیا ہے اورہر دور میں وہ محبت و انسانیت کی شمع جلاتے رہے ہیں اور انسانیت کے مابین تفریق کو ختم کرکے ان کو صرف ایک محبوب کے رنگ میں رنگ جانے اور اس کے آگے سر جھکا دینے کا درس دیا ہے اور سچائی پر مبنی یہ پیغام دیا کہ’’ پیار و محبت امن کا راستہ ہے‘‘۔
نظامِ فطرت نے پوری کاٸنات کی عمارت کو امن کی بنیاد پر تعمیر کیا ہے۔یا یوں سمجھٸے کہ خُدا کی خُداٸی محض امن پر قاٸم ہے۔تخلیقِ آدم سے لے کر قیامت تک دُنیا کی تمام مخلوقات کو پُرسکون زندگی دینے والی نعمت صِرف امن کی نعمت ہے۔دُنیا کے تمام مزاہب کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ انبیا ٕعلیہ السلام ۔اولیا ٕکرام ۔پیروں فقیروں اور صوفی سنتوں کی تعلیم صِرف اور صِرف امن کی رہی ہے۔
“